منکرین جدید ایک روایت بے بنیاد کو بنیاد بناکر کہتے ہیں کہ اسلام بھی ہندو مذہب کی طرح من گھڑت اعتقادات پر مبنی دین ہے اور چند روایت جو (ن والقلم بما یسطرون)
میں” نون”کی تفسیر میں کہیں کہیں مذکورہیں انکا حوالا دیکر اپنی بگڑی بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
وہ روایات یوں ہیں کہ:
فقد ورد عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه قال : ( أوّل ما خلق الله من شيء القلم ، فجرى بما هو كائن ، ثم رفع بخار الماء ، فخلقت منه السماوات ، ثم خلق ” النون ” 150 يعني الحوت – فبسطت الأرض على ظهر النون ، فتحرّكت الأرض فمادت ، فأثبت بالجبال ، فإن الجبال لتفخر على الأرض) ، قال : وقرأ : (ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ)1
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک نے جو چیز سب سے پہلے پیدا فرمائی وہ قلم ہے، پس وہ اپنے وجود کے ساتھ چل پڑا، پھر پانی کے بخارات بلند ہوئے پس اس سے تمام آسمان بنائے گئے، پھر نون یعنی مچھلی کو پیدا کیا گیا ، پس زمین کو مچھلی کی پیٹھ پر بچھایا گیا تو زمین نے حرکت کی تو پہاڑوں کے ذریعے اسکو تھاماگیا بیشک پہاڑ زمین پر تفخر کی علامت ہیں۔ پھر پڑھا:
(ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ)
اسی طرح سے
ایک روایت کا ترجمہ یوں ہے کہ:
راویوں کا بیان ہے کہ جب اللہ پاک نے زمین کو پیدا فرمایاتو عرش کے نیچے اک فرشتے کو مقرر فرمایا، تو وہ (فرشتہ) زمین کی طرف لوٹ آیا یہاں تک کہ وہ ساتوں زمینوں کے نیچے پہنچ گیا، اور زمین کے کندھے پر رکھ دیااس طرح کہ ایک ہاتھ مشرق کی طرف ہوا اور ایک مغرب کی طرف، ہاتھوں کو پھیلائے پکڑ کو مضبوط کئے ہوے، پس ایسا کرتے ہوئے فرشتے کے قدموں کو ٹھرنے کی جگہ کوئی میسر نہ ہوئی، تو اللہ تعالی نے جنت سے ایک بیل کو بھیجا جسکے 40 ہزار سینگ ہیں اور چالیس پائے ہیں پس فرشتے کے قدموں کو بیل کے کوبڑ پر اللہ پاک نے ٹھہرایا تب بھی فرشتے کے قدم نہ ٹھہرے(العیاذ باللہ)، تو جنت سے اللہ پاک نے ایک اعلی قسم کا یاقوت لیا اسکو پانچ سو سال تک گاڑھا کرنے کے بعد اسکو بیل کے کوبڑ پر رکھا تب جاکر فرشتے کے قدم ٹھہرے(معاذاللہ) اور اس بیل کے سینگ قرہ ارض کے قطر سے نکلے ہوئے ہیں، اور اسکے دونوں نتھنے سمندر کے اندر ہیں، اور وہ دن میں ایک بار سانس لیتا ہے،اسکے سانس لینے اور چھوڑنے سے سمندر میں مد و جزر پیدا ہوتا ہے۔الخ۔۔۔’2
جواب :
1۔ مذکورہ روایات من گھڑت اور موضوع ہیں جو دشمنان اسلام نے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کے لئے وضع کی ہیں۔ اب اس پر لازماََ یہ سوال ہوگا ملحدین کی طرف سےہوگا کہ پھر اگر یہ روایات اس قدر نا قابل اعتبار ہی ہیں تو انکو تفسیر میں کیونکر جگہ دی گئی؟
ایسی روایات کے چار پہلو ہیں ::
.1 ایک تو وہ ایڈیشن ہے جو دشمنان دین یہود وفارس کے زندیق لوگوں نے دین کو ملیامیٹ کرنے کی غرض سے کی، جنگ وقوت اور دلیل واستدلال کے میدان میں جب انکی پیش نا گئی تو انہوں نے مکر وفریب اور تلبیس کے حربے اختیار کر لئے۔
- دوسری وہ من پسند خود تراشیدہ روایات ہیں جن کو انتہاء پسندانہ سوچ کے مالک لوگوں جیسے کہ شیعان علی نے انکی طرف منسوب کر لیا تھا حالانکہ وہ اس سے بریئ تھے یا متقربین کے گروہ کی تراشیدہ روایات جو انھوں نے چاپلوسی اور دنیا طلبی کی غرض سے عباسی خلفاء کی مدح سرائی میں ان سے منسوب کیں۔
- تیسرا پہلو صحیح اور غیر صحیح روایات کا باہم مکس اپ ہونا ہے، صحابہ وتابعین سے منسوب اقوال کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جسے بغیر اسناد کہ اور بنا سوچے سمجھے نقل کیا گیا جو بعد ازاں حق وباطل کے گڈ مڈ ہو جانے کا باعث ہوا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کسی نے کوئی رائے اختیار کی اور بنا سند کے اسے بیان کر دیا پھر اس کے بعد والے نے اس خیال سے کہ اس کی کوئی اصل ہے اسے آگے نقل کردیا حالانکہ اس کو چاہئیے تھا کہ اسکی تحقیق کرنے کی زحمت کرتا تاکہ معلوم هوتا کہ دراصل اس قول کا قائل کون ہے۔
- چوتھا پہلو یہ ہے کہ یہ روایات اسرائیلیات سے بھری پڑی ہیں جنمیں سے بعض تو ایسی خرافات ہیں جن کے بطلان پر دلیل موجود ہے اور بعض ایسی ظنی وتخمینی بنیاد کی حامل ہیں جن کو عقائد کے باب میں قبول کرنا ہی جائز نہیں۔
- التفسير والمفسرون للدكتور محمد السيد حسين الذهبي (ت: 1398هـ)- مكتبةوھبہ (113/1)
- اس کے بعد صرف تفسیر کے موضوع پر ایک یا ایک سے زیادہ اجزاء (رسائل) وجود میں آئے مثلا جزء ابی روق جو انکی طرف منسوب ہے، اور وہ تین اجزاء بهى جن کو محمد بن ثور ابن جریج سے روایت کرتے ہیں۔ پھر ان سے آگے تفسیر پر بڑی بڑی ضخیم تصنیفات وجود میں آئیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ وتابعین سے مروی اس تمام تفسیر کا مجموعہ تھیں جس جس تک ان کے مصنفین کی رسائی ہو سکی جیسا کہ تفسیر ابن جریر طبری ہے۔ لیکن قابل نوٹ بات یہ ہے کہ ابن جریر اور جو جو انکی نھج پہ چلے
- اگر چہ انہوں نے اسانید بھی ذکر کیں لیکن
- انھوں نے نقل وروایت میں بڑی فراخدلی اور کثرت سے کام لیا یہاں تک کہ اس میں بھی کمزور اور غیر ثابت روایات نقل ہو گئیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل نوٹ ہے کہ ابن جریر اور تفسیر پر مستقل تصنیف کرنے والون میں جو انکی طرز پر چلے ان کے بعد بھی محدثین میں سے کچھ ایسے لوگ ہوئے جنھوں نے جہاں دیگر ابواب و موضوعات پہ احادیث جمع کیں وہیں تفسیر پر بھی انھوں نے الگ مستقل ابواب قائم کئیے۔
- پھر ان کے بعد متاخرین کا دور آیا جنھوں نے اپنی کتب میں بنا اسناد کے اقوال وروایات جمع کر دیں اور کثرت سے تفسیری اقوال نقل کئے جس میں صحیح و ضعیف کے مابین امتیاز بھی نا برتا جس کے باعث ان کتب کے قارئین کا میلان ان کے مواد كى طرف سے کم ہو گیا کیونکہ اس میں جھوٹ و من گھڑت کا احتمال بہرحال موجود تھا جسکی کثیر مثالیں تفسیر میں مل جاتی ہیں۔
مچھلی والی روایات پر محققین کی رائے :
تفسير روح المعاني للألوسي (ت: 1270هـ)- دارالكتبالعلمیہ (27/15) اور صاحب البحر كہتے ہیں؛ ان میں سے کوئی بات بھی درست نہیں۔ مطلب نون کی تفسیر میں جتنے اقوال مذکور ہوئے ہیں ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ماسوائے اس قول کہ کے وہ اسماء حروف میں سے ایک اسم ہے۔
اگر وہ ان مذکور روایات سے آگاہ ہیں تو گویا کے وہ نا تو حاکم کی تصحیح کو معتبر سمجھ رہے ہیں نا ضیاء کی روایت کو جو صحاح کے قریب تر ہے اور نا ہی ابن عباس سے روایت کرنے والوں کی کثیر تعداد کا اعتبار کر رہے ہیں۔ اور غالب گمان بھی یہی ھے کیونکہ اسکی مراد کی تعیین میں ان سے جتنا کچھ مروی ہے اس میں بہت اختلاف ہے۔ حتی کہ ان سے ایک روایت کے مطابق یہ لفظ الرحمن کا اخیر حرف ہےاور یہ عظیم نام مختلف اجزاء الر حم اور ن کی صورت میں پایا گیا ہے۔
اور ظاہر ہے کہ اگر اس سے مراد مچھلی یا جنت کی نھر لی جائے تو یہ اس قبیل سے ہو گا کم الخلیفہ والف بادنجانہ۔ اور اگر دوات مراد لی جائے تو تنکیر اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور اس سے بھی بڑھ کر جیسا کے زمخشری نے کہا کہ یہ لغت ثابت ہی نہیں، اور اسکی تردید تبھی ممکن ہے جب معتبر اہل فن سے اسکو ثابت کیا جائے جو ممکن نہیں ہے، اور صاحب قاموس کہتے ہیں اس کے معنی لغوی ہونے پر کوئی دلیل نہیں، اور روایات کی صحت میں اختلاف ہے اور جو شعر ابن عطیہ نے پیش کیا ہے وہ عربیت کے اعتبار سے ثابت نہیں۔ اور اسکو مچھلی کا معنی میں لے کر اسکا اطلاق مجازی طور پر دوات پر کرنا اس بنیاد پر کے ان میں مشابہت کا تعلق ہے کیونکہ بعض مچھلیوں سے ایک شدید سیاہ رنگ کا سیال خارج ہوتا ہے جو لکھنے میں کام آتا ہے ایسی توجیہ ھے جسکی رکاکت ظاہر ہے کیونکہ ایسی بعض مچھلیاں اتنی مشہور نہیں کہ انکو مشبہ بہ بنانا درست ہو اور جو اس خاص قسم کا ہی انکاری ہو اس کے لئیے تو اس میں کوئی دلالت سرے سے ہی نہیں۔ اور اسکا بمعنئ حرف ہو کر مچھلی سے مجاز بننا اور زیادہ بعيد اور دور از كار تأويل هے۔ ایسا کہا گیا ہے، اگرچہ بعض میں بحث وتحقیق کی گنجائش ہے اور قصہ گو لوگوں کے لئے اس باب میں بھت سی روایات دستیاب ہیں جن پر اعتماد تو درکنار ان پر کان دھرنا بھی بیکار ہے۔
- ہمیں ایسی روایت کو بیان کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے
- جیسا کہمفتی فرید رحمۃ اللہ علیہ نے فتاوی فریدیہ 1/485 میںاورمفتی سعید احمد پالنپوری مدظلہ نے تحفۃ الالعمی 6/446 میں
- ( ایسی روایات کے بیان کرنے کے بارے ) میں کہا ہے
- مذکورہ روایت موضوع ہے ۔ حوالے نیچے حاشیے میں ہیں 150
- (828/ 2) موسوعة الإسرائيليات والموضوعات لمحمد أحمد عيسى-دار الغد الجديد
- (828/ 2) موسوعة الإسرائيليات والموضوعات لمحمد أحمد عيسى-دار الغد الجديد
(4/ 239) الإتقان في علوم القرآن للسيوطي (ت: 911هـ)-الهيئةالمصريةالعامةللکتاب
حضرت ابن عباس سے تفسیر میں تقریبا 100 احادیث ہی ثابت ہیں۔
ص: 305)الإسرائيليات والموضوعات في كتب التفسير لمحمد بن محمد بن سويلم أبو شُهبة (ت: 1403هـ) – مكتبةالسنة
ان روایات کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مضطرب طور پر منقول ہونا ہی ان پر اعتبار کو کمزور بنا دیتا ہے بالخصوص پہلا قول تو من گھڑت لگتا ہے یا شاید وہ اسرائیلیات میں سے ہے جسکو ان پر چسپاں کر دیا گیا ہے۔
اس حوالہ سے ایک بڑے نقاد عالم امام حافظ ابن قیم الجوزیہ کا قول پیش خدمت ہے جو اس مكتب فكر سے تعلق رکھتے ہیں جو خالص نقد وپرکھ کے اعتبار سے معروف ہے، وہ موضوع ومن گھڑت احادیث پر گفتگو کرتے ہوے فرماتے ہیں “اور اسی قبیل سے وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ سبز زمرد سے بنا ایک پہاڑ دنیا کو یوں احاطہ میں لئے ہوئے ہے جیسے کسی گلستان کو چار دیواری اور اس پہ آسمان اپنے کندھے ٹکائے ہوئے ہے۔
اور اسی قسم میں سے وہ حدیث بھی ھے جس میں ہے؛ زمین ایک چٹان پہ ٹہری ہوئی ہے جو خود ایک بیل کے سینگ پر ٹکی ہوئی ہے تو جب کبھی بیل سینگ ہلاتا ہے تو چٹان میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔ الغرض یہ سب اہل کتاب کی وضع کردہ باتیں ہیں جو انھوں نے انبیاء کرام کے ساتھ استہزاء کے مقصد سے گھڑ لی تھیں۔
ص: 113) الإسرائيليات والموضوعات في كتب التفسير لمحمد بن محمد بن سويلم أبو شُهبة (ت: 1403هـ) – مكتبةالسنہ
حوالاجات:
1) أخرجه عبد الرزاق في “تفسيره” (2/307) وابن أبي شيبة (14/101) وابن أبي حاتم 150 كما في تفسير ابن كثير (8/210) 150 والطبري في “جامع البيان” (23/140) والحاكم في “المستدرك” (2/540) ، وغيرهم كثير ، جميعهم من طريق الأعمش ، عن أبي ظبيان حصين بن جندب ، عن ابن عباس به . وهذا إسناد صحيح . قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه ، وقال الذهبي في التلخيص : على شرط البخاري ومسلم . كما ورد ذلك عن مجاهد ومقاتل والسدي والكلبي . وانظر: “الدر المنثور” (8/240) ، وتفسير ابن كثير (8/185) في بداية تفسير سورة القلم.
2) معالم التنزيل” (8/186) ونحوه في تفسير القرطبي (29/442)، وكلام كعب الأحبار رواه أبو نعيم في “حلية الأولياء” (6/8)، وعلق محققو تفسير القرطبي (1/385): كل من الدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي، ومحمد رضوان عرقسوسي على هذا الأثر بقولهم: ” خبر إسرائيلي لا أساس له، وكان من الأولى بالمصنف أن ينزه كتابه عن مثل هذا ” انتهى
3) شیخ ابو حیان رحمۃ اللہ علیہ نے “ن” کی مختلف تفاسیر ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ان روایتوں میں سے ایک روایت بھی صحیح نہیں ہے “لعله لا یصح شی ء من ذلک.تفسیر البحر المحیط