جدید مغربی (تنویری یعنی enlightenment) ڈسکورس خدا پرستی کو رد کرکے انسانیت (یا نفس) پرستی کی دعوت عام کرنے کا ڈسکورس ھے۔ اس علمی ڈسکورس نے انسان کو قائم بالذات اور آزاد ہستی مان کر پہلے خدا کو انسان سے اخذ کرنے کی کوشش کی (یعنی ترتیب حقائق بدل دی)، پھر خدا کو غیر متعلقہ ثابت کرکے انسانی زندگی کی تشکیل کے حق سے بے دخل کیا، پھر اسے مہمل قرار دے کر اس انکار کیا اور بالآخر اسے ضلالت قرار دیا۔
ڈیکارٹ جو جدید الحاد کا بانی ھے اسنے I think therefore I am کا دعوی کرکے صرف عاقلانہ انسانی نفس کو قائم بالذات قرار دیا، یوں اس نے تمام علم و حقیقت کا منبع انسان کو قرار دیا (یہاں سے جدید انسانیت پرستانہ الحاد کا آغاز ھوا)، اگرچہ اس نے اپنے تئیں اس انسان پرستانہ علمیت کی بنا پر وجود خداوندی کا عقلی جواز دینے کی ناکام کوشش بھی کی۔ جان لاک، بارکلے اور روسو وغیرہ نے علم کی عقلی توجیہہ کی بنیادیں منہدم کرکے اسے تجربے کی بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کی اور بارکلے پادری نے اس علم سے وجود خداودی پر استدلال بھی قائم کئے جسے ہیوم کی تشکیکیت نے تہس نہس کردیا۔ عقلیت اور تجربیت کی اس کشمکش کو کانٹ نے ملانے نیز سائنسی علم کی آفاقی توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کی لیکن اسکے نتیجے میں مابعدالطبعیات جسے کانٹ نامینا کہتا ھے (بشمول وجود خداوندی) علم کے دائرے سے باہر نکل گیا (یعنی یہ غیر متعلقہ شے بن کر رہ گئی)۔ ھیگل نے آکر نامینا کے وجود ہی کا انکار کردیا (یعنی جو انسانی ذرائع معلومات کی گرفت سے باھر ھے اسکا وجود ھے ہی نہیں) اور بالآخر فرائیڈ و مارکس وغیرہ جیسے چند دیگر فلاسفہ نے مذھب کو نفسیاتی بیماری و معاشرتی رویے کی پیدوار قرار دیکر اسکی خالصتا مادی و سماجی تشریحات بیان کرکے ڈیکارٹ سے شروع ہونے والے اس الحاد کو منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ انکے بعد مغربی ڈسکورس میں خدا اور مذھب آج تک کبھی سنجیدہ امور بحث نہیں بنے۔
ھہارے یہاں کے مفکرین چند سائنسدانوں یا مغربی فلسفیوں کے خدا پر ایمان رکھنے سے مغربی و سائنسی ڈسکورس کو مذہبی سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ھوجاتے ہیں، مگر یہ محض غلط فہمی ھے۔ مثلا نیوٹن، آئین سٹائین وغیرھم طرز کے سائنس دان بظاہر تو عیسائ ھونے یا خدا پر ایمان کے مدعی تھے مگر یہ اس خدا کو نہیں مانتے تھے جو مذہبی کتاب سے اخذ ھوتا ھے بلکہ یہ انکا اپنا عقلی تراشیدہ خدا ہوتا تھا جسکا اظہار کسی کے نزدیک ‘میتھس کے فارمولوں’ میں ھوتا تھا، کسی کے نزدیک ‘قوانین فطرت’ میں، تو کوئ اسے ‘گھڑی ساز خدا’ سمجھتا تھا۔ مگر ظاھر ھے خدا وہ نہیں ھے جو میں اپنی عقل سے تراشتا ھوں بلکہ وہ ھے جسے نبی خدا کہتا ھے۔ اگر خدا وہ ھے جسے ‘میں’ تخلیق کرتا ھوں تو ایسے خدا کی کیا وقعت؟ ایسا خدا بالآخر مر ہی جاتا ھے اور آخر میں بچتا ‘میں’ ہی ھوں، جیسے نطشے نے بتایا کہ مغربی ڈسکورس میں خدا مرچکا (god is dead)۔
چنانچہ کسی ڈسکورس میں محض تصور خدا کا وجود اسے مذہبی نہیں بنادیتا، اصل سوال یہ ھے کہ اس خدا کی حیثیت کیا ھے، یعنی کیا وہ خدا انسان اور اسکی زندگی کو متعین بھی کرتا ھے یا نہیں؟ ظاہر ھے سائنسدانوں کا خدا بس ایک ذہنی تصور ھے جسکا دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہاں خدا اگر ھے بھی تو فارمولے یا قوانین فطرت وغیرہ کا نام ھے، تو ایسے خدا کی کیا حیثیت، یہ تو خود انسان کے قابو میں ھے؟ پس مذہبی ڈسکورس میں اصل اہمیت الہام اور نبی کی ضرورت کو ماننے کی ہوتی ھے جسے یہ جدید الحادی ڈسکورس ہرگز قبول نہیں کرتا۔