مغربی اخلاقی معیارات اور اجتماعی انسانی شعور

انسانی اجتماعی شعور کا احساس اپنے آپ میں خود سے ایک سبجیکٹیو اور غیر آفاقی نکتہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی خاص ماحول اور سیاق و سباق میں انسانی اجتماعی شعور کچھ اور ہی نتائج اخذ کرے اور دوسرے سیاق میں کچھ اور۔ کسی خاص ماحول میں پیدا ہوئے انسانی اجتماعی شعور کو پوری انسانیت کا اجتماعی شعور قرار دینا خود ایک قسم کی ذہنی غلامی کی نشانی ہے۔

یہ انسانی شعور کی معراج ہی کہی جاسکتی ہے کہ اس میں دنیا کے طاقتور ترین ممالک جو خطرناک قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہیں اور جہاں جی کرے وہاں کی سرکاروں کو الٹ پلٹ کردیتے ہیں،

میڈیا کے ذریعے انسانی دماغوں کو اغوا کرتے ہیں،

حاضر و موجود کے پجاری،

اپنے لئے ہر قسم کی اخلاقیات سے استثناء پیدا کرنے والے،

اپنے ہاں امن قائم کر کے بلا جواز دوسرے ممالک کو آگ اور خون سے نہلا دینے والے اخلاقی اعتبار سے بھی بہترین نکل آتے ہیں۔

اور

بھوکے ننگے،

طاقتور ممالک کے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والے،

کمزور، پتھروں اور ٹوٹے پھوٹے ہتھیار رکھنے والے،

بے اختیار، اپنے مقصد کے لئے جان پر کھیل جانے والے،

سٹیٹس کو بدلنے کی کوشش کرنے والے،

اپنے سے کئی گنا بڑی طاقتوں سے بھڑ جانے والے،

تبدیلی کی امید اور جد و جہد میں اپنے عیش و آرام کو تج کر دینے والے، مستقبل کی اُمید میں اپنا حال بے حال کردینے والے

اخلاقی اعتبار سے انتہائی پست نظر آتے ہیں۔۔

کوئی تو گڑ بڑ ہے اس اجتماعی شعور میں۔۔!!

آپ جس اجتماعی انسانی شعور کی بات کر رہے ہیں اس میں شاید شعور کا مطلب مرعوبیت یا طاقت کی پوچا ہے۔ یا پھر آپ جب انسانی شعور کی بات کرتے ہیں تو وہاں پر “انسان” سے مراد کوئی خاص قسم کی اور خاص ماحول میں بنی یا کسی خاص رنگ کی مخلوق ہے۔

عبدالسلام خلیفہ