سرمایہ دارانہ نظام کی اساسی اقدار
مغربی تہذیب چند جغرافیائی حد بندیوں کی مرہون منت نہیں بلکہ کچھ خاص عقائد (مابعد الطبیعات)’ اقدار اور نظریات پر مبنی ایک مخصوص ذہنیت کی عکاس ہے۔ کسی بھی تہذیب میں انسان کا ایک خاص تصور اور مقام ہوتا ہے۔ اگر اس تصور انسان کو اپنا لیا جائے تو اس تہذیب کو (انہی) علمی بنیادوں پر رد کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ مغرب کی تہذیبی برتری اس کی فکری برتری میں پنہاں ہے۔ کسی بھی تہذیبی غلبہ میں گو کہ عسکری عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا’ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ محض عسکری بنیادوں پر حاصل کردہ غلبہ زیادہ دیر پا نہیں ہوتا ہے۔ کسی تہذیب کا زوال اس کی علمی بنیادوں کی شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب کی فکری بنیادوں سے ناآشنائی کا خمیازہ ہم تین صورتوں میں بھگت رہے ہیں۔
1۔ مغربی فکری بنیادوں پر غلبہ اسلام کی کوششوں میں مصروف عمل انتہائی مخلص اور دیندار افراد اپنے مقاصد کے حصول میں شدید ناکامی سے دوچار ہوئے (اور مسلسل ناکام ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ شیشم کے درخت سے آموں کے پھل کی توقع عبث ہے۔) اور بتدریج اپنے اسلامی تشخص سے محروم ہوتے چلے گئے۔
2۔ مغربی تہذیب کی فکر سے سطحی واقفیت رکھنے اور اس کی اساسی بنیادوں کو نہ جاننے کے باعث مغربی فکر کو ناقابل شکست تسلیم کر لیا گیا اور معذرت خواہانہ جواز پیش کرکے ہر مغربی خیال اور نظریے کو اسلامیانے (Islamization) کی کوشش کی جاتی رہی۔
3۔ مغربی فکر کی شکست و ریخت سے ناواقفیت کی بنا پر ہم میں سے اکثر دور تنویر کو اسلامی فکر کی ارتقائی شکل قرار دیتے ہیں۔ اور مغرب کی مادی ترقی کو اسلامی فکر کی مرہون منت گردانتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد دور حاضر میں بھی اٹھارویں’ انیسویں صدی کی مغربی فکر کا راگ الاپ رہے ہیں اور اس علمی بحران سے بالکل ناآشنا ہیں جس کے باعث مغربی تہذیب اپنی فکری بنیادوں مثلاً اپنے مخصوص تصور انسان’ تصور خیر اور مقصد حیات وغیرہ کو عقلی بنیادوں پر ثابت کرنے کی کوشش سے رجوع کر چکی ہے۔
ان حالات میں ہم ناچیزوں کی رائے میں مغربی تہذیب کو فکری بنیادوں پر اکھاڑ پھینکنے کے امکانات جتنے آج موجود ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غلبۂ اسلام کی کوششوں میں مصروف عمل تمام قوتوں کو’ خواہ وہ عسکری’ معاشرتی’ سماجی اور سیاسی نوعیت کی ہوں یا علمی فکری نوعیت کی’ باہم ایک دوسرے سے مربوط کرکے ایک دھارے میں سمو دیا جائے۔ اور کسی ایک کے کام کو کسی دوسرے کے کام سے برتر ثابت کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اور ہر کام کو غلبۂ اسلام کے ہمہ وقتی اور آفاقی کام کا حصہ اور جزولاینفک سمجھا جائے۔
خاکسار کا مقصد ان فکری بنیادوں کی نشاندہی کرنا ہے’ جو مغربی تہذیب کی علمی اساس قرار دی جاتی ہیں۔ تاکہ ان فکری بنیادوں کو ان کی روح و تاریخیت کے ساتھ جان کر فکر اسلامی کو در پیش خطرات سے بچایا جاسکے۔ اور احیاء اسلام کے عظیم کام میں اس ناچیز کا بھی حصہ شامل ہوجائے۔
مغعیسائیت کی شکست و ریخت:
مغربی تہذیب کا ارتقاء عیسائیت کی شکست و ریخت کا نتیجہ ہے۔ عیسائیت میں خدا اور بندے کے باہمی تعلق کے لیے احکام موجود تھے’ لیکن بندے کے بندے سے تعلق کے لیے واضح احکام موجود نہ تھے۔ لہٰذا سماجی اور قانونی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے جو قوانین مرتب کئے گئے۔ وہ بنیادی طور پر رومی قوانین (جو کہ بنیادی طور پر سیکولر نوعیت کے تھے) سے اخذ کردہ تھے۔ عیسائی فکر کی اسی بنیادی کمزوری کے باعث ریاست اور معاشرہ کے مابین تصادم کا عنصر اپنی ابتداء ہی سے موجود تھا۔ اور آگے چل کر خود مخلص عیسائی مفکر آگسٹین نے City of man کو City of god سے الگ کرکے سیکولر ازم کے لیے مضبوط جواز فراہم کر دیا۔ شادی نہ کرنا’ رہبانیت’ زائد عبادات وغیرہ’ جس کے باعث گرجا سے وبستہ لوگوں (مرد و عورت) کے عام معاشرے سے کٹ جانے کی مذہبی بنیادیں موجود تھیں۔ اس غیر فطری طبقہ بندی کا نتیجہ طبقاتی کشمکش کی صورت میں برآمد ہوا اور عیسائی علماء نے مذہب کی من مانی تعبیر و توضیح کے ذریعے عام فرد کو مذہب سے باغی کر دیا۔ کیتھولک چرچ کی برتری کا نتیجہ پروٹسٹنٹ ازم کی صورت میں برآمد ہوا۔ لوتھر بذات خود ایک پادری تھا۔ اس نے تحریک اصلاح کی بنیاد رکھی’ جس کو بعد میں کیلون نے مزید تقویت بخشی۔ پروٹسٹنٹ ازم کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
١۔ ہر عیسائی کو بائبل کی تفسیر کرنے کا مکمل’ یکساں اور مساوی حق حاصل ہے۔
2۔ خدا اور بندے کا باہمی تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوسری آمد تک ختم ہوچکا ہے۔
3۔ کسی کو کسی کے معاشرتی مرتبے کے تعین کا کوئی مذہبی استحقاق حاصل نہیں۔
4۔ لہٰذا دنیوی کامیابی کو اخروی کامیابی کا پیش خیمہ سمجھا جائے۔
ان اصولوں کی بنیاد پر جو اقداری اجزا معاشرتی طور پر ابھر کر سامنے آئے وہ حسب ذیل ہیں:
1۔ آزادی 2(Freedom)۔ مساوات(Equality) 3۔ عقلیت (Rationality)
چونکہ ہر انسان یکساں طور پر عقل رکھتا ہے لہٰذا ہر ایک کو تفسیر انجیل کا مکمل یکساں اور مساوی حق حاصل ہوگا۔ اور اخلاقی و روحانی تربیتی اقدار کا تھوڑا بہت اہتمام جو عیسائیت میں موجود تھا اس کا بھی جنازہ نکل گیا۔ خدا سے تعلق ختم ہوجانے کے باعث معاشرتی مرتبوں کے تعین کی روحانی بنیادی ختم ہوگئیں۔ اور اس کی جگہ مادی جاہ و حشمت قرب الٰہی کی نشانی سمجھا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ پروٹسٹنٹ از م میں پوپ کی قوت بھی بادشاہ کے پاس ہی ہوتی ہے۔ اگر دنیاوی کامیابی ہی اخروی کامیابی کا پیش خیمہ ہے تو سب سے زیادہ کامیاب انسان بادشاہ ہی تو ہوا۔ لہٰذا بادشاہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہنا چاہے وہ چاہ سکتا ہے کیونکہ وہ اس کا مقدس حق رکھتا ہے اور کسی کو اس حق کے انکار کا کوئی حق حاصل نہیں۔ بادشاہ کا یہی مقدس حق ایک پروٹسٹنٹ ریاست کی ابتدائی شکل میں ریاستی’ سماجی اور قانونی ڈھانچے کی تشکیل نو میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آگے چل کر یہی مقدس حق کا تصور’ مذہبی لبادے میں چھپے رومی اور یونانی سیکولر نظریات کے باعث ریاست کے مکمل طور سے سیکولرائز ہونے کا باعث بنا۔ اسی مقدس حق کے تصور نے دنیا میں حاکمیت الٰہی کے دروازے بند کر دیے اور مسیحیت محض ایک انفرادی حیثیت میں خدا سے ایک خاص تعلق رکھنے کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی۔ بعد میں یہی مقدس حق ایک فرد یعنی بادشاہ سے لے کر تمام شہریوں یعنی سٹیزنز میں یکساں اور مساوی تقسیم کر دیا گیا۔ پہلے حق و باطل’ خیر و شر کے تعین کا مطلق حق صرف ایک فرد یعنی بادشاہ کو حاصل تھا مگر بعد میں یہی حق شہریوں کی رائے کی بنیاد پر جانچا جانے لگا’ جس کی موجودہ شکل جمہوریت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
جدیدیت کی فلسفیانہ بنیادیں:
گو کہ پروٹسٹنٹ ازم نے فکر جدیدیت کی ٹھوس بنیادیں فراہم کر دی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم پروٹسٹنٹ فکر کو جدیدیت سے دو بنیادوں پر ممیز کرسکتے ہیں۔
1۔ پروٹسٹنٹ ازم کا مطلق نصاب انجیل کی صورت میں موجود ہے۔ جبکہ جدیدیت کا کوئی ایسا مطلق اور قطعی نصاب موجود نہیں۔
2۔ پروٹسٹنٹ فکر میں آزادی کا محدود تصور خاص علمی بنیادوں پر ہے۔ جب کہ جدیدیت آزادی کے لامحدود تصور پر یقین رکھتی ہے۔
نصاب مطلق سے مراد یہ ہے کہ پروٹسٹنٹ فکر تفسیر انجیل کا حق ہر عیسائی کو دیتی ہے لیکن کسی بھی مصدقہ تفسیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ انجیل ہی سے کی جائے’ لہٰذا کسی نہ کسی طور پر وحی کی حیثیت برقرار رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی پروٹسٹنٹ عقائد کا حامل فرد (خالص علمی بنیادوں پر) تفسیر انجیل کی بنیاد پر خدا کا انکار نہیں کرسکتا۔ یا مثال کے طور ر تفسیر انجیل کی بنیاد پر لواطت کو جائز قرار دینا آسان نہیں ہے۔ جبکہ جدیدیت کا چونکہ کوئی نصاب مطلق موجود نہیں ہے لہٰذا فلاح انسانیت کی کوئی بھی تفسیر و تعبیر کی جاسکتی ہے’ اگر کسی جدید مفکر کے کام میں خدا کے وجود کی عقلی دلیل موجود ہے تو کسی دوسرے فلسفی کے کام میں خدا کے انکار کا بھی عقلی جواز موجود ہوتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پروٹسٹنٹ ازم گو کہ عیسائیت ہی کی بہت جدید شکل ہے لیکن اس کے باوجود اس میں مطلق آزادی کے حصول کے امکانات موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کی تلوار کی کاٹ سے عیسائیت کی یہ پروٹسٹنٹ بھی محفوظ نہ رہ سکی اور جدیدیت ایک لادینی تہذیب کے ارتقاء کا سبب بنی۔
جدیدیت کا بانی:
ڈیکارت (Descart) کو ہم جدیدیت کی فکر کا بانی کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس نے جدیدیت کی علمیت کی حدود کا نہ صرف تعین کیابلکہ بچی کھچی مذہبیت کو بھی علمی بنیادوں پر اکھاڑ پھینکا اور ایک نئے اقداری ڈھانچے کے لیے علمی بنیادیں فراہم کیں۔ ڈیکارت نے وجود انسان کے ادراک میں کسی بھی خارجی عامل کے کردار کو کلی طور پر رد کر دیا اور (Self knowledge) کی خالص عقلی دلیل دی اس کے مطابق علمی اور عقلی بنیادوں پر کوئی بھی انسان اپنے علاوہ کسی بھی چیز خواہ وہ خیالات ہوں یا اقدار’ معیارات خیر و شر ہوں یا وحی’ اور چاہے خدا کا وجود غرض کسی بھی چیز کا انکار کرسکتا ہے۔ اکیلی میری (عقل) ذات’ میرا اپنا وجود ہے۔ جس کا ہونا کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ڈیکارت کے نزدیک واحد قائم بذات سچ ”میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں” ہی ہے۔ یعنی میں اپنے اسی دنیا میں ہونے کا جواز اپنے اندر رکھتا ہوں نا کہ کسی خالق کائنات کے وجود کی بنیاد پر (میں ہوں)۔ ڈیکارت کے مطابق میری عقل کی ”استطاعت” نہیں” کہ میرے اپنے وجود کے علاوہ کسی بھی دوسری ذات کے وجود کا ماورائے شک جواز پیش کرسکے۔ اس طرح ڈیکارت نے ایک ایسی علمیت کی بنیاد رکھی جو کہ اولاً مابعد الطبیعات (وحی) سے ماورا تھی اور دوم ریب (Doubt)پر قائم تھی۔ یوں تو جدیدیت کی کوئی ایک تعریف موجود نہیں لیکن جدیدیت سے متعلق چند بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ انسان کائنات کا مرکز و محور ہے۔(Anthropocentricity)
2۔ آزادی بنیادی آئیڈیل ہے۔
3۔ مساوات بنیادی قدر ہے۔ (Equality is value)
4۔ عقلیت بحیثیت معیار۔ (Reason is the criterior)
جدید یت نے چونکہ علمی بنیادوں پر صرف اور صرف وجود انسانی کو ہر شک و شبہے سے عاری پایا تھا۔ چنانچہ کائنات کو صرف اور صرف انسانی پیمانوں پر پرکھنا ہی علمیت کی میراث قرار پایا۔ اور انسان پرستی (ہیومنزم) کو اقداری ڈھانچے میں کلیدی اور قطعی حیثیت حاصل ہو گئی۔ دوسری تمام جدیدیت پسند مفکرین کے یہاں اس بات پر اجماع نظر آتا ہے کہ انسان آزاد تو ہے ہی’ سوال یہ ہے کہ اس آزادی کے دائرہ کو کس طرح زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ اس طرح آزادی کی بڑھوتری ہی انسانیت کی معراج قرار پائی۔ چونکہ جدیدیت میں انسانی ذات کی اساس اس کی عقلیت میں پنہاں ہے لہٰذا ہر انسان برابر ہے اور عقلیت ہی خیر و شر کے پرکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ عقل کی بنیاد پر قطعی اور آفاقی سچ کا حصول ممکن ہے۔ جب انسان کو ہی تمام خیر و شر کے تعین کا حق حاصل ہے تو ایسی صورت میں خدا پرستی کا کیا سوال؟ حقیقتاً اگر دیکھا جائے تو جدیدیت نے خدا کی جگہ ایک ریشنل (عقل پرست) شخص کو بٹھادیا۔ جدیدت انسان کی الوھیت کی طرف دعوت ہے آزادی زیادہ سے زیادہ حصول اور اس کی مستقل بڑھوتری انسان کی الوہیت کا اظہار ہیں۔ جدیدیت انسان کو خدا اور دنیا میں جنت بنانے کی ایک شعوری اور عملی کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کے کسی بھی مفکر کے کام کو اٹھا کر دیکھیں تو اس میں کہیں بھی کائنات کے دائمی ہونے کی نفی نہیں ملتی۔ اگر اس دنیا کو کبھی فنا نہیں ہونا ہے تو پھر انسان کی زندگی کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دنیا میں اپنے قیام کو طویل اورپرلطف بنانے کی کوشش کرے۔ ماڈرنسٹ علمیت جس کلمہ پر لوگوں کو جمع کر رہی ہے’ وہ انسان پرستی کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ’ لا الہ الا انسان: یعنی نہیں کوئی معبود سوائے انسان کے’ اس صورت میں خدا پرستی کا گمان خارج از امکان ہے۔ حادثاتی طور پر تو جدیدیت پسند معاشرے میں خدا پرستی ممکن ہے مگر اس کی کوئی علمی بنیاد پوری جدید فکر میں کہیں نہیں ملتی۔ مغربی فکر میں انسان پرستی کی بہت سی شکلیں موجود ہیں۔ یہاں پر ہم صرف دو سے بحث کریں گے۔
1۔ لبرل ازم 2۔ کمیونیٹیرینزم
16ویں صدی کے بعد یور پ میں دو ہمہ گیر تحاریک کو فروغ ملا۔ یہ دونوں تحریکیں (اینلائٹمنٹ اور رومانٹسزم) عیسائیت کو مکمل رد کرتی تھیں اور ایک نیاتصور انسان و کائنات اور نیا مقصد حیات پیش کرتی تھیں۔ ان دونوں تحریکوں نے انسانی ترقی کو اس بات پر منحصر قرار دیا کہ انسان کو کتنا آزاد ہونا چاہئے۔ ان دونوں تحاریک نے آزادی کو بنیادی قدر اور ہدف کی حیثیت سے قبول کیا۔ آزادی سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر وہ چیز حاصل کرنے کا مکلف ہوجائے جس کی وہ خواہش کرتا ہو اور بحیثیت انسان اس کی اس حیثیت کو تسلیم کیا جائے کہ وہ خیر و شر کے معیارات خود متعین کرنے کا اہل ہے۔
کمیونیٹیرین ازم اور لبرل ازم دراصل اینلائٹمنٹ اور رومانویت کی تحاریک کے جا نشین نظریات ہیں ۔لبرل ازم اور کمیو نیٹر ین ازم میں اہم ترین قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں آزادی کو افضل ترین مقصود کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ دونوں کا اس بات پر ایمان راسخ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے قیام اور وجود کا اہم ترین کلیدی مقصد حصول آزادی ہے۔ آزادی دراصل مقصود بالذات ہے نہ کہ خدا پرستی اور رضائے الٰہی کا حصول۔ دونوں نظریات آزادی سے یہی مراد لیتے ہیں کہ انسان جو چاہے وہ حاصل کرسکے۔ اور حصول لذات کی راہ میں مادی اور معاشرتی قیود یکسر ختم ہوجائیں۔
لبرل ازم کا فروغ سولہویں صدی سے ہونا شروع ہوا اور اس کا غلبہ انقلاب فرانس کے بعد تمام مغرب پر قائم ہوا۔
لبرل ازم کا دعویٰ تھا کہ جب عیسائی قدروں کی معاشرتی گرفت کمزور ہوگی اور معاشرے کی ترتیب عقلی اور سیاسی بنیادوں پر کی جائیگی تو حصول آزادی آسان سے آسان تر ہوتا جا ئے گا اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے خیر و شر کے معیارات کا تعین کرسکنے کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات باآسانی پورا کرسکے گا۔ کمیونیٹیرینز کے نزدیک افراد خیر وشر کے معیارات کا تعین اپنے اغراض و میلانات کی بنیاد پر کرنے کے مکلف نہیں۔ بلکہ خیر وشر کے معیارات کا تعین نوع انسانی کی مجموعی انسانی دنیاوی اغراض کو سامنے رکھ کر کرنا چاہئے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لبرل ازم میں فرد اپنی الوہیت کے اظہار کا تنہا مکلف ہے’ جبکہ کمیونیٹیرین ازم کی فکر میں انسان بحیثیت نوع کے کلاس یا قوم و نسل کے اپنی الوہیت کے اظہار کا حق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پرستی اور سوشل ازم کمیونیٹیرینزم ہی کی اضافیت (Extention) ہیں۔
گو کہ لبرل ازم اور کمیونیٹیرینزم فکر میں آزادی بنیادی قدر ہے اور دونوں ہی فکریں بنیادی طور پر انسان پرست(Humanist) ہیں۔ لیکن لبرل اور کمیونیٹرین آزادی کے مختلف تصورات پر یقین رکھتے ہیں۔ اس فرق کو نہ سمجھنے کی بنیاد پر بہت سی خالص مذہبی تحریکیں سوشل ازم اور قوم پرستی کا شکار ہوتی نظر آتی ہیں۔
آزادی کیا ہے؟
آزادی سے مراد ہے کہ انسان اپنے خیر و شر کے معیارات کے تعین کا نہ صرف خود مجاز بلکہ حقدار ہے اور اس کی انسانیت کا جوہر ہی یہ ہے کہ وہ اپنی آزادانہ متعین کردہ اقدار کو اپنا سکے اور ان کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔
اس کا بہترین اظہار ہمیں مغربی مفکر کانٹ kant)) کے یہاں ملتا ہے جو انسان کو مقصود بالذات End in Himself)) قرار دیتا ہے وہ ایک جگہ کہتا ہے کوئی بھی کام یہ سوچ کر نہ کرو کہ تم ذریعہ ہو بلکہ ہر کام یہ سوچ کر کرو کہ تم ہر چیز کا مقصد ہو۔
مغربی مفکرین نے آزادی کی دو اقسام بیان کی ہیں: 1۔ آزادی کا منفی تصور 2۔ آزادی کا مثبت تصور
آزادی کا منفی تصور:
آزادی کا منفی تصور یہ ہے کہ معاشرہ جو ناگزیر پابندیاں لگاتا ہے اس کے باوجود انسان کے پاس ایک ایسا علاقہ بچ رہنا چاہئے جس میں وہ اپنی خدائی کا اظہار کرنے کا موقع رکھتا ہو او راپنے متعین کردہ اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکے۔ آزادی کے منفی تصور میں اس بات سے بحث نہیں کی جاتی کہ انسان اس دائرہ کار میں کس قسم کی زندگی گزارے گا؟ بلکہ صرف اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاشرتی اور ریاستی جکڑ بندیوں کے درمیان ایک ایسا علاقہ ضرور بچ رہنا چاہئے جس میں انسان جو چاہنا چاہے وہ چاہ سکے اور کر بھی گزرے اور اس معاملے میں کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو۔ وہ اس علاقے میں چاہے کچھ بھی کرے یہ وہ مقدس حق (Divine right) ہے جس کے اندر کوئی مداخلت نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ اس مقدس حق کی مذہبی بنیاد ہمیں مسیحیت کے پروٹسٹنٹ دھڑے میں واضح طور پر ملتی ہے جس کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ انفرادی حقوق کا سارا معاملہ اس مقدس حق آزادی کا تحفظ ہے جس میں آزادی فکر و نظر’ حق ملکیت’ اظہار رائے وغیرہ شامل ہیں۔ آزادی کے اس تصور کے نتیجے میں پبلک اور پرائیوٹ زندگی کا فرق پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اس تصور کے مطابق فرد اپنی نجی زندگی میں کسی کو بھی مداخلت کا حق نہیں دیتا۔ مقصود یہی ہے کہ فرد کی آزادی زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد تک وسیع ہوتی چلے جائے۔ تاکہ اس کی خدائی میں اضافہ ہوسکے۔ منفی تصور آزادی سے اخذ کردہ چند اہم نتائج مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزادی درحقیقت کچھ نہیں’یہ صرف وہ علاقہ ہے جہاں انسان جو کچھ چاہے کر گزرے۔ خود آزادی کچھ نہیں ہے۔ اس کی کوئی اصل (Content) نہیں ہے۔ بلکہ اس کی اصل (Content) نفسانیت یا نفسانی خواہشات سے پر ہوتا ہے۔
2۔ آزادی اقدار کی نفی ہے، کیونکہ جب آپ کہیں گے کہ آزادی ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں آپ جو چاہیں چاہ سکیں اور کر بھی گزریں اور جو آپ کر گزریں وہی حق ہے۔ تو اقدار کی بحث ہی بے معنی ہوجاتی ہے۔ ہر شخص قدر خود متعین کرتا ہے۔ حالانکہ قدر کی تعریف ہی یہ ہے کہ جس کا پیمانہ انسان کی ذات نہیں بلکہ خارجی اور معروضی ہو۔ اگر ہر شے اور خواہش کی قدر یکساں ہے تو فی الحقیقت کسی شے کی کوئی قدر نہیں۔
3۔ آزادی کے منفی تصور سے متصل تصور اقدار کے تعدد یعنی (Plurality of values) کا ہے۔ یعنی میری متعین کردہ قدر کسی بھی متعین کردہ قدر کے برابر ہے۔ اس سے یہ بات واضح طور پر نکلتی ہے کہ ترتیب اقدار ناممکن ہے کیونکہ ہر شخص کی متعین کردہ اقدار یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ اقدار کی فوقیت صرف ارتکاز قوت (کثرت رائے یا کثرت مال) سے قائم کی جاسکتی ہے۔ اور اس فوقیت کا کوئی نظری جواز پیش نہیں کیا جاسکتا اور سب سے اہم مقدس حق کا یہ تصور عیسائیت کی مسخ شدہ شکل سے اخذ کردہ ہے۔
آزادی کا مثبت تصور:
لبرل ازم کے برعکس کمیونیٹیریئن ازم آزادی کا ایک مثبت تصور پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں عقل ہمیں بتاسکتی ہے کہ آزاد ہونے کا کیا طریقہ ہے اس سلسلے میں روسو’ ہیگل اور مارکس نے مثبت آزادی کے مختلف تصورات بیان کیے ہیں اس تصور آزادی کا حصول ایسے معاشرتی نظام میں ممکن ہے جس کے نتیجے میں انسانیت بحیثیت نوع کے خدا بن سکے۔ اس تصور میں آزادی کا اظہار انفرادی حیثیت کی بجائے افراد بحیثیت نوع یا قوم یا کلاس کے اجتماعیت میں کرتے ہیں۔اس تصور آزادی کے حصول کے لیے لازماً فرد کو اپنی انفرادی آزادی اجتماعی آزادی کے حصول کے لیے قربان کرنا پڑتی ہے جس کے باعث اظہار آزادی کے ذریعے انسانیت بحیثیت نوع کے اپنی الوہیت کا ادراک کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔ روسو کے نزدیک ایک معاہدہ عمرانی کے ذریعے ایک ایسے انقلابی معاشرے کے قیام کا امکان موجود ہے جس کے ذریعے آزادی کا حصول ممکن ہے۔ مارکس کے مطابق طبقاتی کشمکش کے ذریعے انسانیت بحیثیت نوع کے خدا بن سکتی ہے۔ کمیونیٹیرئین ازم جس تعقل کو بنیاد بنا کر مثبت آزادی کو متشکل کرنے کا دعویدار ہے وہ بھی خواہشات کی غلام ہے۔ یعنی (Rationality bounded by desires) ہے اور اقدار کی آفاقی اور مستقل ترتیب کرنے سے قاصر ہے۔ اس تصور آزادی کو کمیو نیٹیر ین ازم (Communitarianism) کی مختلف شکلوں (Forums) میں الگ الگ طرف سے آشکار (Realize) کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر ہم یہاں صرف دو اقسام) (Forms سے بحث کریں گے۔
1۔ اشتراکیت (Socialism) ۔ 2قوم پرستی(Nationalism)
اشتراکی نظریہ کے مطابق پرولتاری یعنی مزدور طبقہ واحد آفاقی طبقہ ہے اور اس کے اغراض اور مفادات انسانیت کے اصل اغراص و مقاصد ہیں۔ لہٰذا معیارات خیر و شر کو پرولتاری طبقہ کے اغراض کی بنیاد پر متعین کرنا چاہئے۔ اس طرح نوع انسانی کی مجموعی آزادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔
قوم پرستی جزوی طور پر اس بات کا موقع فراہم کرتی ہے کہ لوگ اپنے اعلیٰ و ارفع جذبات کا اظہار اجتماعیت میں کریں قوم پرستی کی دو بنیادی اقسام ) (Forms ہیں:
1۔ (Civil grounded nationalism) جس میں تمام افراد کسی خاص مملکت کے شہری ہونے کی بنیاد پر ایک ہی (قوم) اکائی کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں اور اس اشتراک عمل کا مقصدقوم کی اجتماعی آزادی کی بڑھوتری اور زیادہ سے زیادہ مادی وسائل و قوت کا ارتکاز ہے۔
2۔ (Ethical / Racial ground nationalism) کے تصور میں تمام افراد ایک نسل سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر ایک اکائی کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں’ لیکن مقاصد کے حوالے سے دونوں تصور قوم پرستی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
قوم پرست نظریے میں بظاہر دنیاوی روحانیت کا عنصر اسلامی انقلابیوں کے لیے خاصا پرکشش ہے۔ چونکہ قوم پرستی بظاہر یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ لوگ اپنے انفرادی مفادات پر جان قربان کرنے کو تیار ہوجائیں گے اس لئے قوم پرستی کی بنیاد پر افراد اپنے اعلیٰ و ارفع جذبات کا اظہار کریں لیکن چونکہ قوم پرستی کی جڑ بنیادی طور پر ابلیسیت پر قائم ہے لہٰذا ان جذبوں کا اظہار اپنی قوم کے لیے محبت’ ایثار’ قربانی اور غیر قوموں کے لیے نفرت کی صورت میں نکلتا ہے ان معنوں میں قوم پرستی قلب کی بیماری ہے جس میں افراد کے کسی مجموعے کو اپنا اور کسی دوسرے مجموعے کو غیر تصور کرنے لگتے ہیں اور اپنے افراد یا قوم کے لیے وہ اس پریشانی کا شکار رہتے ہیں کہ ان کی قوم کا جو مقام ہے وہ اسے حاصل نہیں ہے اس لیے قوم کو اس کے اعلیٰ مقام تک صرف ایک چیز پہنچا سکتی ہے اور وہ ہے قوت۔ اس لیے ہر قوم پرست کا مقصد اور ہدف اپنی قوم کے لیے قوت میں اضافہ ہوہتا ہے اور قوت کا یہ اضافہ پیمانہ معیار خیر و شر بن جاتا ہے اور افراد کے اندر اس قسم کے جذبات پروان چڑھتے ہیں کہ وہ چیز حق ہے جو سندھی’ مہا جر’ پٹھان’ پنجابی’ جرمن یا امریکی قوم کی قوت میں اضافہ کا باعث ہو ۔ہر وہ چیز حق ہے جو پاکستان کی قوت میں اضافہ کا باعث ہو اسی خیال کو اگر مزید پھیلا کر دیکھاجائے تو ہر وہ چیز حق ہے جو مسلمانوں کی قوت میں اضافہ کا باعث ہو اور ہر وہ چیز باطل ہوجاتی ہے جو ایک قوم کی قوت میں کمی کا باعث بنے ،چاہے وہ چیز حق کے مسلمہ اصولوں پر کتنی ہی پوری کیوں نہ اترتی ہو چنانچہ اس طرح اخلاق ایک اضافی چیز بن کر رہ جاتا ہے اور دینی معیارات کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ دینی معیارات تو وحی کے ذریعے قائم کئے جاتے ہیں یعنی ان معیارات کوتخلیق کرنے میں انسانی عقل کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ لیکن اب چونکہ قوت کا اضافہ اور کمی خیر و شر کا معیار قرار پاتے ہیں لہٰذا قوم کے افراد وہ معیار خیر و شر وضع کرتے ہیں جو لازماً ان کے خود سے محبت (self love)کا مظہر ہوں۔ اس طرح جو بھی معیارات بنائے جائیں گے وہ بنیادی طور پر نفسانیت ہی کی بنیاد پر ہی بنائے جائیں گے۔ گویا قوم پرست کے دل میں نفس کی پرستش’ لالچ’ حسد اور نفرت ڈیرا ڈال لیتی ہے۔ نفرت کے اس منفی جذبہ اور قوم سے محبت کے حوالے سے قوم پرست یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر اس کی لذت کی خواہش قوم کی قوت کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے تو وہ اپنی اس خواہش کو ترک کر دیتا ہے۔ حتیٰ کہ قوت میں اضافے کے لیے اس کی جان بھی چلی جائے تو اس سے دریغ نہیں کرتا ہے ان مقاصد کے حصول کے لیے غیر پر ظلم کرنا حق سمجھتا ہے کیونکہ اس طرح غیر کی قوت میں کمی واقع ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام قوم پرست تنظیمیں متشدد ہوتی ہیں۔ قوت کی پرستش کرنے والا مسلم قوم پرست دعوت کے فریضے کو سر انجام نہیں دے سکتا۔ کیونکہ دعوت کا مطلب غیر کو اپناناہے اور اگر مطمح نظر غیر سے نفرت ہو تو اس کے خلاف سازش کرنا’ اس سے حسد کرنا جائز ہوا تو لازماً اس کو اسلام کی دعوت موثر طور پر نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح گو کہ ایک مسلم قوم پرست مسلم قوم کی قوت کے حصول کے لے کوشاں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوم پرستی کی کوئی بھی شکل دعوت کے آفاقی ہونے کی نفی کرتی ہے۔ ایک قوم پرست اپنے ملی تشخص کے ادراک کے لیے دوسری قوم کے وجود کو قابل جواز (Legitimate) قرار دیتا ہے اور ہمیشہ اس Paradoxical co-exitance کا شکار رہتا ہے۔ ایک قوم پرست کے پاس کوئی آفاقی دعوت نہیں ہوتی اور اپنے تشخص کی کلچرل’ نسلی اور تاریخی بنیادوں پر متمیز کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی اور دوسرا ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔ ہماری دعوت کا ہدف لوگوں کو اﷲ کی طرف بلانا اور جہنم سے بچانا ہے مسلمان قوم کی قوت میں اضافہ ہمارا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ ہم مسلم قوم پرست نہیں ہیں اگر مسلم قوم پرستی کے نتیجہ میں پاکستانی معیشت سوئیڈن جیسی بن گئی لیکن تمام لوگ جہنم کے حقدار ہوگئے تو یہ صریح ناکامی ہوگی۔ دنیاداری’ جاہ و حشمت اور رضائے الٰہی میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے لہٰذا ایک اسلامی انقلابی کو مسلم قوم پرستی سے محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے۔
دعوت اسلام ایک آفاقی تاریخ میں شامل ہوجانے کا نام ہے’ جو انبیاء علیہم السلام کی دعوت کے نتیجے میں تشکیل پائی ہے۔ لیکن اسلام نہ تو کوئی تاریخی طور پر مخصوص (Historically Specific)کسی خیر / سچ کی طرف لوگوں کو بلا رہا ہے اور نہ ہی اسلام مسلمانوں کی جاہ و حشمت کا قیام چاہتا ہے بلکہ اسلام کا صرف ایک مقصود ہے اور وہ ہے رضائے الٰہی کا حصول۔ دعوت کی بنیاد محبت ہے داعی کا کوئی غیر نہیں ہوتا’ وہ ہر شخص کا خیر خواہ ہوتا ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد قریش کے ساتھ جو حسن سلوک کیا وہ ایک انقلابی اور ایک قوم پرست کی قلبی کیفیت کے بنیادی فرق کو واضح کرتا ہے۔ احیائے اسلام کی کوششوں میں مصروف عمل جہادی تحریکوں سے وابستہ پرخلوص نوجوان کارکنوں کو قوم پرستی کی زہر ناکی سے بچانا ہم سب کا اہم ترین فریضہ ہے۔ قوم پرستی میں صرف وہ اقدار فوقیت رکھتی ہیں جو قوت میں اضافے کا باعث ہوں اور ان اقدار کو ناپسند کیا جاتا ہے جو قوت میں کمی کا باعث بنیں اس طرح معاشرے میں وہ افراد ہی بہتر خیال کیے جاتے ہیں جن کی قوت زیادہ ہو اور وہ اپنی قوم کے لیے زیادہ سے زیادہ قوت جمع کرسکیں اس طرح قوم پرستی کے شخصیت پرستی میں مدغم ہوجانے کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں اور یہ قومی ہیروز اپنی قوم کو طاقتور بنانے کے لیے مذہب’ اخلاقیات’ انسانی جذبوں اور لطیف رویوں کو روندتا ہوا ناپائیدار قوت کے زیادہ سے زیادہ ارتکاز میں سرگرم عمل ہوجاتا ہے جو یقینا احیائے اسلام کی کوششوں میں مصروف قوتوں کے لیے زہر قاتل کا کام کرتا ہے۔
تجزیہ:
سب سے پہلی بات جس کا ادراک نہایت ضروری ہے وہ یہ کہ خواہ لبرل ازم ہو یا کمیونیٹرین ازم کی کوئی بھی صورت (قوم پرستی خواہ سوشل ازم) ان کا ہدف ایک ہی ہے’ یعنی حصول آزادی’ گویا ہر فرد کو اس قابل بنانا کہ وہ جو چاہے وہ چاہ سکے اور اسے حاصل بھی کرسکے۔ بظاہر اشتراکیت لبرلزم پر یہ الزام لگاتی ہے کہ افراد کی آزادی کا حصول انفرادی ملکیت اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں ممکن نہیں۔ لیکن روس میں پچھتر سالہ اشتراکی تجربہ نے ثابت کر دیا کہ وسائل کو قومی ملکیت میں لے کر بھی آزادی کا یہ ہدف حاصل نہ کیا جاسکا۔ روس کے عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اشتراکیت سے برأت کا اعلان کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ سرمایہ دارنہ لبرل ازم کو حصول آزادی کا بہتر طریقہ سمجھتے ہیں اور روس میں اس کے احیاء کے لیے بڑے سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ یہاں سے ہم انسانیت پرستی’ لبرلزم اور سرمایہ داری میں ایک قدر مشترک پاتے ہیں’ اور یہ تینوں نظریات ایک دوسرے کی معاونت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ اسلامی انقلابی نوجوان جوان تینوں نظریات کو (علیحدہ علیحدہ رکھ کر) جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ اس فطری تعلق کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں جو مغربی تہذیب کی اساس کا درجہ رکھتا ہے یعنی ”آزادی”۔
مغربی تہذیب کی بنیاد انسان پرستی پر ہے یعنی انسان خود مقصود ہے اور اس دنیا میں اسکی آمد کا مقصد زیادہ سے زیادہ لذت اور اپنی خواہشات کی تکمیل ہے۔ مغرب اس بات پر یکسو ہے کہ انسان پرستی صرف آزادی کے حصول کے بعد ہی ممکن ہے۔ گویا دنیا میں کامیابی کے لیے آزادی کا حصول لازمی قرار پاتا ہے۔ یہی وہ قدر ہے جسے حاصل کرکے انسان انسان بن جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آزادی بذات خود کچھ نہیں ہے ۔اس کی ٹھوس ہیت ((Concrete form سرمایہ ہے اور اس کی مجرد شکل ووٹ ہے، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ کمیونیٹرین ازم (communitarianism )بھی Humanism ہی کی ایک شکل ہے تاہم انسانیت پرستی کے لیے پھلنے پھولنے کے امکانات ایک لبرل معاشرے میں کہیں زیادہ ہیں۔اس لئے کہ ایک لبرل معاشرہ میں سرمائے کی بڑھوتری کے امکانات اشتراکی معاشرے سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور سرمایہ کی بڑھوتری دراصل آزادی کی بڑھوتری کا ہی دوسرا نام ہے۔
لبرلزم میں جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فرد بحیثیت فرد کے مقصود ٹھہرتا ہے، اگر انسان اپنی آزادی کا شعور حاصل کرلینے کے بعد اپنی انفرادی آزادی کو کسی شے پر قربان کردے تو لبرل معاشرے کی نگاہ میں وہ انسان ہی نہیں رہتا۔ لہٰذا انسان کی انسانیت اس کی آزادی میں پنہاں ہے۔ اب اس آزادی کے حصول کی دو معاشرتی صورتیں ہیں۔
1۔ افادیت پسندی (Utilitarianism)۔ 2رالسی نظریہ (Rawlsianism)
افادیت پسندی کے نظریے میں معاشرے کی مجموعی فلاح کے نام پر لبرل اقدار کا تحفظ کیا جاتا ہے ۔افادیت پسند انسان کی آزادی کے قائل ہیں لیکن اس کے نتیجے میں مجموعی فلاح کی بڑھوتری ضروری خیال کرتے ہیں۔ افادیت پسندوں کے مطابق ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ممکن ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں کم لوگوں کی افادیت اور حقوق قربان کیا جانا جائز ہے یعنی اگر کسی عمل کے ذریعے زیادہ لوگوں کو فلاح حاصل ہورہی ہو تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔ یعنی ایسے معاشرے میں شراب کے ناجائز ہونے کی صرف ایک صورت ہوسکتی ہے کہ اس سے لوگوں کی صحت خراب ہورہی ہو اور وہ دنیا میں زیادہ لذت کے حصول سے محروم رہے۔
رالسی نظریہ افادیت پسندی کا جزوی رد ہے۔ رالس کے مطابق افادیت پسند معاشرے کو ایک فرد کی حیثیت سے دیکھتا ہے جس کے نتیجے میں افادیت پسندی انسان کی آزادی پر حد لگا کر اسے محض لذات کے حصول کے ذریعہ بنا دیتی ہے جس کے باعث وہ اپنی انسانیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ رالس لبرل معاشرے کا جو تصوراتی خاکہ پیش کرتا ہے وہ خود غرض (Self intersted)افراد کا ایسا گروہ ہے جو باہمی رضا مندی سے ایک ایسا سماجی معاہدہ ترتیب دیتاہے جس کی بنیاد عدل کے ان دو اصولوں پر قائم ہے۔
1۔ ہر فرد کو اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے ممکنہ حد تک آزادی مہیا کی جائے۔
2۔ معاشرے کے پسماندہ ترین گروہ کے مفادات کو حتی الوسع فروغ دیا جائے۔
رالس کے مطابق ان مفادات کے حصول چند ابتدائی ”خیر” میں پنہاں ہے اور یہ بنیادی ابتدائی خیر حسب ذیل ہیں:
1۔ دولت 2(Wealth)۔ آمدنی(Income)
3۔ قوت(Power) 4۔ اختیار(Authorty
رالس کے مطابق یہی چار اشیاء قدر مطلق کی حامل ہیں اور ان میں اضافہ دراصل آزادی میں اضافے کا مماثل ہے ۔چونکہ یہ بنیادی آزادی کے اظہار کے لیے نہایت ضروری ہیں اس لئے دوسرے لفظوں میں ایک لبرل معاشرے میں آزادی ان اشیاء کی بڑھوتری کا ہی نام ہے لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لبرل یا مغربی تصور آزادی خالص مادی نوعیت کا ہے اور اس تصور کے عام ہونے کا مطلب مذہبیت’ روحانیت’ عقیدۂ آخرت’ احیاء دین اور حصول رضائے الٰہی کی خواہش کی پامالی کے سواکچھ اور نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں رالس مفادات کا خالص مادہ پرستانہ تصور پیش کرتا ہے جس میں افراد کی آزادی کی بڑھوتری کا انحصار مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ پر مبنی ہے۔ لہٰذا قومی پیداوار میں اضافہ ایک ایسا آفاقی ہدف قرار پاتا ہے جس کو قبول کرنے پر ہر شخص کی خود غرضی اسے اکساتی ہے چنانچہ لبرل معاشرہ پیداوار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ پیدواری ترقی فروغ خودغرضی کے بغیر ممکن نہیں گو کہ اس خود غرضی کو فروغ دینے کے نتیجے میں دولت قوت وغیرہ کی تقسیم لامحالہ غیر منصفانہ ہوتی ہے۔ چنانچہ ان اسلامی انقلابیوں کو جو بہبود انسانی اور سرمائے کی بڑھوتری اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول کو اسلامی انقلاب کی بنیاد سمجھتے ہیں ان کو یہ جان لینا چاہئے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے مغرب اسلامی تحریکوں سے زیادہ راسخ العقیدہ ہے اور ان مقاصد کے حصول کا احیاء اسلام سے کوئی لازمی تعلق (Equal morl status) نہیں۔
رالس اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاشرتی غیر مساویانہ تقسیم دولت و قوت افراد کی اخلاقی مساوی حیثیت کی نفی نہیں کرتی گو کہ رالس کے مطابق اخلاقی مساوی حیثیت سے مراد ہے کہ ہر شخص کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنے خیر و شر کے معیارات کا خود تعین کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود ایک لبرل معاشرے کے سرمایہ درانہ معاشرے میں تبدیل ہوجانے کے امکانات سو فیصدی ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لبرل معاشرہ آزادی کے لامحدود تصور پر یقین رکھتا ہے جو کہ پیدوار میں لامحدود اضافہ کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیدوار میں لامحدود اضافہ ممکن نہیں ہے بلکہ اس کی ایک حد ہے جبکہ سرمائے میں اضافہ کی کوئی حد نہیں ہے لہٰذا سرمایہ درانہ عمل کی کوشش ہوتی ہے کہ معاشرے میں موجود افراد کی خواہشات کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے اور اس کے حرص و حسد کو مزید بھڑکایا جائے تاکہ وہ اپنی انفرادی آزادی کے حصول کے لیے سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں شریک ہوجائے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ لبرل معاشرے لازماً سرمایہ درانہ معیشت کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔
ربحرف آخر:
مغربی تہذیبی بنیاد کے اس مختصر خاکے سے ہم اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ اشتراکیت اور لبرلزم کا ہدف ایک ہی ہے یعنی زیادہ سے زیادہ آزادی کا حصول ۔ اشتراکیت کا دراصل لبرلزم پر اعتراض ہی یہ ہے کہ اس سیاسی’ ریاستی اور معاشی سماجی ڈھانچے میں حصول آزادی ممکن نہیں لیکن روس میں اشتراکیت کی شکست سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے حصول کی خواہش کی تکمیل کے لئے لبرلزم اور سرمایہ داری جو سیاسی اور معاشی نظام وضع کرتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور مربوط ہیں۔
اسلامی نقطۂ نگاہ سے لبرلزم اور کمیونیٹریئینزم دونوں ہی نظام ہائے حیات میں کوئی اقداری فرق نہیں۔ دونوں کا مقصود انسان کو خدا بنانا ہے دونوں خواہشات کو پرکھنے اور ان کو ترتیب دینے کے لیے کوئی پیمانہ نہیں رکھتے دونوں کا مطمح نگاہ صرف حصول دنیا ہے وہ انسان کو خود غرض’ لالچی اور حاسد بناتے ہیں اور فطرت انسانی کو مسخ کرتے ہیں، روحانی ارتقاء کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ اسلامی انقلابیوں کو ان دونوں نظاموں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔
الغرض اس مضمون سے ہمارا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ تصورات کو اگر ان کے تاریخی تسلسل سے کاٹ کر دیکھا جائے تو اس بات کا شدید احتمال رہتا ہے کہ ہم ان تصورات کے اندرونی تفرقات کو بالکل نظر انداز کر دیں جو اس تصور کی زہر ناکی کو ہم پر آشکارا کر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں یا پھر ان اندرونی تفریقات میں پھنس کر رہ جائیں گے اور تصور کا مجموعی تاثر ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے گا مغربی تصورات کے اس تاریخی عدم تسلسل یا دوسرے معنوں میں Libral توضیح کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے ان غیر اسلامی اقسام) (Forms کے لئے اسلامی بنیادیں فراہم کرنا شروع کر دیں ۔مغربی تصورات مثلاً لبرلزم’ قوم پرستی، انسان پرستی’ اشتراکیت وغیرہ کو اگر ایک خاص تاریخ میں اور خاص تاریخ میں ان کی سیاسی’ سماجی’ معاشی اور ریاستی صف بندی کیں دیکھیں جو ان تصورات کے معنی و مطالب کے ادراک کے لیے ضروری اور نامیاتی طور پر منسلک ہیں تو یہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں کہ ان تصورات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
آزادی، مساوات، فلاح انسانی، عدل و غیرہ کو اسلام کلیتہً رد نہیں کرتا لیکن ان تصورات کے معنی و مطالب اس تاریخیت میں پنہاں ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی تاریخ سے منسلک و پیوستہ ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ مغربی تصور برداشت (Tolerance) کو آپ اسلام کے تصور صبر کے مماثل کرلیں اور اس کی حمایت میں قرآن و حدیث کو بھی بطور دلیل پیش کر دیں لیکن یہ ان تصورات کی مجرد تفسیر ہوگی اور ان ہی علمی بنیادوں پر استوار ہوگی جو کہ غالب اکثریت کی عقلیت سے مطابقت رکھتی ہوں اس طرز فکر کا لامحالہ یہ نتیجہ نکلے گا کہ آپ اسلام کو مغربی اقسام) (Forms میں ٹھونستے چلے جائیں گے اور اس کو عین عبادت بھی سمجھتے جائیں گے، اس تناظر میں اگر ہم 1857ء سے لے کر آج تک اپنی جدوجہد پر نگاہ ڈالیں تو ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی انقلابی تحریک بھی مغربی تہذیبی اثر سے محفوظ نہیں رہ سکی اور ہم نے بہت سے ایسے اسلامی جواز (اسلامی علمیت کی بنیاد پر) پیش کیے جن کے سہارے میں جمہوریت’ حقوق کی سیاست’ سیکولر ازم’ مقننہ’ آئین وغیرہ جیسے تصورات اسلامی سیاست کا جزو لاینفک متصور ہونے لگے۔ اور ان کو خالص اسلامی تصورات کے یا بعض معنیٰ میں غیر اقداری ) (Value Nutural تصور کر لیا گیا۔ اس بات کا ادراک نہایت ضروری ہے کہ بنیادی طور پر غیر اسلامی اقسام) (Forms کے ذریعے غلبۂ اسلام ممکن نہیں ہوسکتا جس لئے کہ ان اقسام (Forms)کو استعمال کرنے کے نتیجے میں ایک خاص قسم کی علمیت’ عقلیت’ تصور کائنات’ تصور انسان تشکیل پاتا ہے، جو کہ لامحالہ اسلامی تصورات سے متصادم ہے۔
ڈاکٹر عبدالوہاب سوریی