روح انسانی کیا چیز ہے ؟ اس کی ماہیت و حقیقت کیا ہے ؟ یہ سوال صحیحین کی روایت کے موافق یہود مدینہ نے آنحضرت ﷺ کے آزمانے میں کیا تھا۔ اور “سیر” کی روایات سے معلوم ہوتا ہےکہ مکہ میں قریش نے یہود کے مشورہ سے یہ سوال کیا۔ اسلئے آیت کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے ، ممکن ہے نزول مکرر ہوا ہو ، واللہ اعلم۔ یہاں اس سوال کے درج کرنے سے غالبًا یہ مقصود ہوگا کہ جن چیزوں کے سمجھنے کی ان لوگوں کو ضرورت ہے ادھر سے تو اعراض کرتےہیں اور غیر ضروری مسائل میں ازراہ تعنت و عناد جھگڑتے رہتے ہیں ۔ ضرورت اس کی تھی کہ وحی قرآنی کی روح سے باطنی زندگی حاصل کرتےاور اس نسخہ شفا سے فائدہ اٹھاتے ” اور اس طرح ہم ے تمہارے پاس اپنے حکم سے ایک روح بطور وحی نازل کی ہے”(شوریٰ ۔۵۲)”وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اس زندگی بخشنے والی روح (وحی) کیساتھ اتارتا” (نحل۔۲) مگر انہیں دورازکار اور معاندانہ بحثوں سے فرصت کہاں۔
“روح” کیا ہے ؟ جوہر ہے یا عرض ؟ مادی ہے یا مجرد ؟ بسیط ہے یا مرکب ؟ اس قسم کے غامض اور بے ضرورت مسائل کے سمجھنے پر نجات موقوف ہے نہ یہ بحثیں انبیاء کے فرائض تبلیغ سےتعلق رکھتی ہیں۔ بڑے بڑے حکماء اور فلاسفر آج تک خود “مادہ” کی حقیقت پر مطلع نہ ہو سکے “روح” جو بہرحال “مادہ” سےکہیں زیادہ لطیف و خفی ہے اس کی اصل ماہیت و کنہ تک پہنچنے کی پھر کیا امید کی جاسکتی ہے۔ مشرکین کی جہالات اور یہود مدینہ کی اسرائیلیات کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جو قوم موٹی موٹی باتوں اور نہایت واضح حقائق کو نہیں سمجھ سکتی ، وہ روح کی حقائق پر دسترس پانے کی کیا خاک استعداد و اہلیت رکھتی ہو گی ؟ تو کارز میں رانکو ساختی ، کہ باآسماں نیز پرداختی۔
موضح القرآن میں ہے کہ “حضرت کو آزمانے کو یہود نے پوچھا ، سو اللہ نے (کھول کر) نہ بتایا کیونکہ ان کو سمجھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ آگے پیغمبروں نے بھی مخلوق سے ایسی باریک باتیں نہیں کیں۔ اتنا جاننا کافی ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آ پڑی ، وہ جی اٹھا ، جب نکل گئ مر گیا” اھ (تنبیہ) حق تعالیٰ کا کلام اپنے اندر عجیب و غریب اعجاز رکھتا ہے ۔ روح کے متعلق یہاں جو کچھ فرمایا اس کا سطحی مضمون عوام اور قاصر الفہم یا کجرو معاندین کے لئے کافی ہے۔ لیکن اسی سطح کے نیچے ان ہی مختصرًا الفاظ کی تہ میں روح کے متعلق وہ بصیرت افروز حقائق مستور ہیں جو بڑے سے بڑے عالی دماغ نکتہ رس فلسفی اور ایک عارف کامل کی راہ طلب و تحقیق میں چراغ ہدایت کا کام دیتی ہیں۔ روح کے متعلق عہد قدیم سے جو سلسلہ تحقیقات کا جاری ہے وہ آج تک ختم نہیں ہوا، اور نہ شاید ہو سکے۔ روح کی اصلی کنہ و حقیقت تک پہنچنے کا دعویٰ تو بہت ہی مشکل ہے۔ کیونکہ ابھی تک کتنی ہی محسوسات ہیں جن کی کنہ و حقیقت معلوم کرنے سے ہم عاجز رہے ہیں۔ تاہم میرے نزدیک آیات قرآنیہ سے روح کے متعلق ان چند نظریات پر صاف روشنی پڑتی ہے۔
(۱) انسان میں اس مادی جسم کےعلاہ کوئی اور چیز موجود ہے جسے “روح” کہتے ہیں وہ “عالم امر” کی چیز ہے اور خدا کے حکم و ارادہ سے فائز ہوتی ہےقُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ۔سورۃ الاسراآیت 85۔خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ کُنْ فَيَکُوْنُ (آل عمران۔۵۹) ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرالمومنون ۔ ۱۴) اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَيَکُوْنُ (نحل۔۴۰)
(۲) روح کی صفات علم و شعور وغیرہ بتدریج کمال کو پہنچتی ہیں اور ارواح میں حصول کمال کے اعتبار سے بےحد تفاوت و فرق مراتب ہے۔ حتٰی کہ خدا تعالیٰ کی تربیت سے ایک روح ایسے بلند اور اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں دوسری ارواح کی قطعًا رسائی نہ ہو سکے۔ جیسے روح محمدی ﷺ پہنچی ۔ یشیر الیہ اضافۃ الامرا لی الرب والرب الی یاء المتکلم المراد بہ ہہنا محمد ﷺ۔ وقولہ تعالیٰ فیما بعد”قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا (سورۃ الاسرا۔88)
(۳) مگر اس کے یہ کمالات ذاتی نہیں۔ وہاب حقیقی کے عطا کئے ہوئے ہیں اور محدود ہیں۔ یدل علیہ قول تعالی وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ۔ روح انسانی خواہ علم و قدرت وغیرہ صفات میں کتنی ہی ترقی کر جائے حتٰی کہ اپنے تمام ہم جنسوں سے گوئے سبقت لے جائے پھر بھی اس کی صفات محدود رہتی ہیں صفات باری کی طرح لا محدود نہیں ہو جاتیں۔ اور یہ ہی بڑی دلیل اس کی ہے کہ آریوں کے عقیدہ کے موافق روح خدا سے علیحدہ کوئی قدیم و غیر مخلوق ہستی نہیں ہو سکتی۔ ورنہ تحدید کہاں سے آئی ۔
(۴) کتنی ہی بڑی کامل روح ہو ، حق تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جس وقت چاہے اس سے کمالات سلب کر لے ۔ گو اس کے فضل و رحمت سےکبھی ایسا کرنے کی نوبت نہ آئے۔ یدل علیہ قولہ تعالی: وَلَىِٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِهٖ عَلَيْنَا وَکِيْلًا 86 اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّکَ ۔ اِنَّ فَضْلَهٗ کَانَ عَلَيْکَ کَبِيْرًا 87(سورۃ الاسراء)
امر ربی کیا ہے؟
یہ چند اصول جو ہم نے بیان کئے اہل فہم کو نسق آیات میں ادنیٰ تامل کرنے سے معلوم ہو سکتے ہیں صرف ایک “عالم امر”( قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي) کا لفظ ہے جس کی مناسب تشریح ضروری ہے اور جس کے سمجھنے سے امید ہے روح کی معرفت حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔
لفظ “امر” قرآن کریم میں بیسیوں جگہ آیا اور اس کے معنی کی تعیین میں علماء نے کافی کلام کیا ہے لیکن میری غرض اس وقت سورہ “اعراف” کی آیت ۵۴ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ (یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا کام ہے)کی طرف توجہ دلانا ہے۔ جہاں “امر” کو “خلق” کے مقابل رکھا ہے ۔ جس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خدا کے یہاں دومَدۡ بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں ایک “خلق” دوسرا “امر” دونوں میں کیا فرق ہے ؟ اس کو ہم سیاق آیات سے بسہولت سمجھ سکتے ہیں۔
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۔ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِهٖ ۔ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ فتَبٰرَکَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54
ترجمہ: یقینا تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے سارے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے۔ (٢٨) پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ (٢٩) وہ دن کو رات کی چادر اڑھا دیتا ہے، جو تیز رفتاری سے چلتی ہوئی اس کو آدبوچتی ہے۔ اور اس نے سورج اور چاند تارے پیدا کیے ہیں جو سب اس کے حکم کے آگے رام ہیں۔ یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا کام ہے۔ بڑی برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
پہلے فرمایا۔ اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ یہ تو خلق ہوا۔ درمیان میں اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ کا ذکر کر کے جو شان حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۔ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِهٖ یعنی ان مخلوقات کو ایک معین و محکم نظام پر چلاتے رہنا جسے تدبیر و تصریف کہہ سکتے ہیں۔ یہ “امر” ہوا ۔ دوسری جگہ :” اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ ۔( اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے، اور زمین بھی انہی کی طرح ۔ اللہ کا حکم ان کے درمیان اترتا رہتا ہے،)طلاق۔۱۲) گویا دنیا کی مثال ایک بڑے کارخانہ کی سمجھو جس میں مختلف قسم کی مشینیں لگی ہوں۔ کوئی کپڑا بن رہی ہے کوئی آٹا پیس رہی ہے کوئی کتاب چھاپتی ہے کوئی شہر میں روشنی پہنچا رہی ہے۔ کسی سے پنکھے چل رہے ہیں۔ وغیرہ ذٰلک۔ ہر ایک مشین میں بہت سے کل پرزے ہیں جو مشین کی غرض و غایت کا لحاظ کر کے ایک معین اندازے سے ڈھالے جاتے اور لگائے جاتے ہیں۔ پھر سب پرزے جوڑ کر مشین کو فٹ کیا جاتا ہے۔ جب تمام مشینیں فٹ ہو کر کھڑی ہو جاتی ہیں ، تب الیکٹرک (بجلی) کے خزانہ سےہر مشین کی طرف جدا جدا راستہ سے کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے آن واحد میں ساکن و خاموش مشینیں اپنی اپنی ساخت کے موافق گھومنے اور کام کرنے لگ جاتی ہیں۔ بجلی ہر مشین اور ہر پرزہ کو اس کی مخصوص ساخت اور غرض کے مطابق گھماتی ہے۔ حتٰی کہ جو قلیل و کثیر کہربائیہ روشنی کے لیمپوں اور قمقموں میں پہنچتی ہے ، وہاں پہنچ کر ان ہی قمقموں کی ہیأت اور رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ اس مثال میں یہ بات واضح ہو گئ کہ مشین کا ڈھانچہ تیار کرنا ، اس کے کل پرزوں کا ٹھیک اندازہ پر رکھنا ، پھر فٹ کرنا ، ایک سلسلہ کے کام ہیں جس کی تکمیل کے بعد مشین کو چالو کرنے کے لئے ایک دوسری چیز (بجلی یا اسٹیم) اس کے خزانہ سے لانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سمجھ لو حق تعالیٰ نے اول آسمان و زمین کی تمام مشینیں بنائیں جس کو “خلق” کہتے ہیں ، ہر چھوٹا بڑا پرزہ ٹھیک اندازہ کے موافق تیار کیا جسے “تقدیر” کہا گیا ہے وَخَلَقَ کُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا (الفرقان۔۲) سب کل پرزوں کو جوڑ کر مشین کو فٹ کیا جسے “تصویر” کہتے ہیں خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ (اعراف۔۱۱) یہ سب افعال خلق کی مد میں تھے ۔ اب ضرورت تھی کہ جس مشین کو جس کام میں لگانا ہے لگا دیا جائے ۔ آخر مشین کو چالو کرنے کے لئے ‘امر الہٰی” کی بجلی چھوڑ دی گئ۔ شاید اس کا تعلق اسم “باری” سے ہے: الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ (الحشر۔۲۴) و فی الحدیث فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَاَ النَّسَمَۃَ وفی سورہ الحدید۔۲۲ مِّن قَبلِ اَن نَّبرَاَہَا ۔ ای النفوس کما ہو مروی عن ابن عباس و قتادۃ والحسن۔
کن فیکُون کی علمی توجیہہ:
غرض ادھر سے حکم ہوا “چل” فورًا چلنے لگی۔ اسی “امر الہٰی” کو فرمایا اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَئًا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَيَکُوْنُ 82 (یٰسٓ۔۸۲) دوسری جگہ نہایت وضاحت کے ساتھ اَمْر “کُنْ” کو خلق جسد پر مرتب کرتے ہوئے ارشاد ہوا خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ کُنْ فَيَکُوْنُ (آل عمران۔۵۹) بلکہ تتبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں کُنْ فَیَکُوْنُ کا مضمون جتنے مواضع میں آیا عمومًا خلق و ابداع کے ذکر کے بعد آیا ہے۔ جس سے خیال گذرتا ہے کہ کلمہ “کن” کا خطاب “خلق” کے بعد تدبیر و تصریف وغیرہ کے لئے ہوتا ہو گا۔ واللہ اعلم۔ بہرحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں “امر” کے معنی “حکم” کے ہیں اور وہ حکم یہ ہی ہے جسے لفظ “کن” سے تعبیر کیا گیا۔ اور “کن” جنس کلام سے ہے حق تعالیٰ کی صفت قدیمہ ہے۔ جس طرح ہم اس کی تمامی صفات (مثلاً حیات سمع ، بصر وغیرہ) کو بلاکیف تسلیم کرتے ہیں ، کلام اللہ و کلمۃ اللہ کے متعلق بھی یہ ہی مسلک رکھنا چاہئے۔
خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ “روح” کے ساتھ اکثر جگہ قرآن میں امر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً قُلِ الرُّوحُ مِن اَمرِ رَبِّی ۔ وَ کَذٰلِکَ اَوحَینَااِلَیکَ رُوحًا مِّن اَمرِنَا (الشوریٰ۔۵۲) یُلقِی الرُّوحَ مِن اَمرِہٖ عَلٰی مَن یَّشَآءُ مِن عِبَادِہٖ (المومن۔۱۵) یُنَزِّلُ المَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوحِ مِن اَمرِہٖ عَلٰی مَن یَّشَآءُ مِن عِبَادِہٖۤ (النحل۔۲) اور پہلے گذر چکا ہے کہ “امر” عبارت ہے کلمہ “کن” سے یعنی وہ کلام انشائی جس سے مخلوقات کی تدبیر و تصریف اس طریقہ پر کی جائے جس پر غرض ایجاد و تکوین مرتب ہو ۔لہذا ثابت ہوا کہ “روح” کا مبداء حق تعالیٰ کی صفت کلام ہے جو صفت علم کے ماتحت ہے ۔ شاید اسی لئے نَفَختُ فِیہِ مِن رُّوحِی (ص۔۷۲) میں اسے اپنی طرف منسوب کیا “کلام” اور “امر” کی نسبت متکلم اور امر سے “صادر” و “مصدور” کی ہوتی ہے “مخلوق” و “خالق” کی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اَلَا لَہُ الخَلقُ وَ الاَمرُ (اعراف۔۵۴) میں “امر” کو “خلق” کے مقابل رکھا۔
ہاں یہ امر “کن” باری تعالیٰ شانہ سے صادر ہو کر ممکن ہے جوہر مجرد کے لباس میں یہ ایک “ملک اکبر” اور “روح اعظم” کی صورت میں ظہور پکڑے ۔ جس کا ذکر بعض آثار میں ہوا ہے اور جسے ہم “کہربائیہ روحیہ” کا خزانہ کہہ سکتےہیں۔ گویا یہیں سے روح حیات کی لہریں دنیا کی ذوی الارواح پر تقسیم کی جاتی ہیں ۔ اور اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدۃٌ الخ کے بےشمار تاروں کا یہیں کنکشن ہوتا ہے اب جو کرنٹ چھوٹی بڑی بےشمار مشینوں کی طرف چھوڑا جاتا ہے وہ مشین سے اس کی بناوٹ اور استعداد کے موافق کام لیتا اور اس کی ساخت کے مناسب حرکت دیتا ہے۔ بلکہ جن لیمپوں اور قمقموں میں یہ بجلی پہنچتی ہے ان ہی کہ مناسب رنگ و ہئیت اختیار کر لیتی ہے۔ رہی یہ بات کہ “کن” کا حکم جو قسم کلام سے ہے، جوہر مجرد یا جس نورانی لطیف کی شکل کیونکر اختیار کر سکتا ہے اسے یوں سمجھ لو کہ تمام عقلاء اس پر متفق ہیں کہ ہم خواب میں جو اشکال و صور دیکھتے ہیں ، بعض اوقات وہ محض ہمارے خیالات ہوتے ہیں جو دریا ، پہاڑ ، شیر ، بھیڑیے وغیرہ کی شکلوں میں نظر آتے ہیں ۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ خیالات جو اعراض ہیں اور دماغ کے ساتھ قائم ہیں وہ جواہر و اجسام کیونکر بن گئے اورکس طرح ان میں اجسام کے لوازم و خواص پیدا ہو گئے۔ یہاں تک بعض دفعہ خواب دیکھنے والے سے بیدار ہونے کے بعد بھی ان کے آثار جدا نہیں ہوتے فی الحقیقت خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو خواب کے ذریعہ سے بڑی بھاری ہدایت کی ہے کہ جب ایک آدمی کی قوت مصورہ میں اس نے اس قدر طاقت رکھی ہے کہ وہ اپنی بساط کے موافق غیر مجسم خیالات کو جسمی سانچہ میں ڈھال لے اور ان میں وہ ہی خواص و آثار باذن اللہ پیدا کرے جو عالم بیداری میں اجسام سے وابستہ تھے۔ پھر تماشہ یہ ہے کہ وہ خیالات خواب دیکھنے والے کے دماغ سے ایک منٹ کو علیحدہ بھی نہیں ہوئے۔ ان کا ذہنی وجود بدستور قائم ہے تو کیا اس حقیر سے نمونہ کو دیکھ کر ہم اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ ممکن ہے قادر مطلق اور مصور برحق جل و علا کا امر بے کیف “کن” باوجود صفت قائمہ بذاتہ تعالیٰ ہونے کے کسی ایک یا متعدد صورتوں میں جلوہ گر ہو جائے۔ ان صورتوں کو ہم ارواح یا فرشتے یا کسی اور نام سے پکاریں۔ وہ ارواح و ملائکہ وغیرہ سب حادث ہوں۔ اور “امر الہٰی” بحالہ قدیم رہے۔ امکان و حدوث کے آثار و احکام ارواح وغیرہ تک محدود رہیں اور “امر الہٰی” ان سے پاک و برتر ہو ۔ جیسے جو صورت خیالیہ بحالت خواب آگ کی صورت میں نظر آتی ہے اس صورت ناریہ میں احراق ، سوزش ، گرمی وغیرہ سب آثار ہم محسوس کرتے ہیں حالانکہ اسی آگ کا تصور سالہاسال بھی دماغوں میں رہے تو ہمیں ایک سیکنڈ کے لئے یہ آثار محسوس نہیں ہوتے۔ پس کوئی شبہ نہیں کہ روح انسانی (خواہ جوہر مجرد ہو یا جسم لطیف نورانی) “امر ربی” کا مظہر ہے۔ لیکن یہ ضرور نہیں کہ مظہر کے سب احکام و آثار ظاہر پر جاری ہوں کما ہوالظاہر ۔ واضح رہے کہ جو کچھ ہم نے لکھا اور جو مثالیں پیش کیں ان سے مقصود محض تسہیل و تقریب الی الفہم ہے ورنہ ایسی کوئی مثال دستیاب نہیں ہو سکتی جو ان حقائق غیبیہ پر پوری طرح منطبق ہو اے بروں از دہم و قال و قیل من ، خاک ہر فرق من و تمثیل من۔ رہا یہ مسئلہ کہ روح جوہر مجرد ہے جیسا کہ اکثر حکمائے قدیم اور صوفیہ کا مذہب ہے یا جسم نورانی لطیف جیسا کہ جمہور اہل حدیث وغیرہ کی رائے ہے۔ اس میں میرے نزدیک قول فیصل وہی ہے جو بقیۃ السلف بحر العلوم سید انور شاہ صاحب اطال اللہ بقائہ نے فرمایا کہ بالفاظ عارف جامی یہاں تین چیزیں ہیں ۔
(
ا)
وہ جواہر جن میں مادہ اور کمیت دونوں ہوں جیسے ہمارے ابدان مادیہ
(۲)
جواہر جن میں مادہ نہیں صرف کمیت ہے جنہیں صوفیہ “اجسام مثالیہ” کہتے ہیں
(۳)
وہ جواہر جو مادہ اور کمیت دونوں سےخالی ہوں جن کو صوفیہ “ارواح” یا حکماء جواہر مجردہ کے نام سے پکارتے ہیں۔
جمہور اہل شرع جس کو “روح” کہتے ہیں وہ صوفیہ کے نزدیک “بدن مثالی” سے موسوم ہے جو بدن مادی میں حلول کرتا ہے۔ اور بدن مادی کی طرح آنکھ ، ناک ، کان ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ اعضاء رکھتا ہے۔ یہ روح بدن مادی سے کبھی جدا ہو جاتی ہے اور اس جدائی کی حالت میں بھی ایک طرح کا مجہول الکیفیت علاقہ بدن کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے جس سے بدن پر حالت موت طاری ہونے نہیں پاتی۔ گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کے موافق جو بغوی نے اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الاَنفُسَ حِینَ مَوتِہَا (الزمر۔۴۲) کی تفسیر میں نقل کیا، اس وقت روح خود علیحدہ رہتی ہے مگر اس کی شعاع جسد میں پہنچ کر بقائے حیات کا سبب بنتی ہے۔ جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے۔ یا جیسے آج ہی میں نے اخبار میں ایک تار پڑھا کہ “حال ہی میں فرانس کے محمکہ پرواز نے ہوا بازوں کے بغیر طیارے چلا کر خفیہ تجربے کئے ہیں اور تعجب انگیز نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ حال میں ایک خاص بم پھینکنے والا طیارہ بھیجا گیا تھا جس میں کوئی شخص سوار نہ تھا۔ لیکن لاسکی کے ذریعہ سے منزل مقصود پر پہنچایا گیا۔ اس طیارہ میں بم بھر کر وہاں گرائے گئے اور پھر وہ مرکز میں واپس لایا گیا(یہ اس دور کی تحریر ہے جب یہ گائیڈڈ میزائل اور ڈرون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ایڈمن)دعویٰ کیا جاتا ہےکہ لاسکی کے ذریعہ سے ہوائی جہاز نے خود بخود جو کام کیا وہ ایسا مکمل ہے جیسا کہ ہوا باز کی مدد سے عمل میں آتا”۔ آج کل یورپ میں جو سوسائٹیاں روح کی تحقیقات کر رہی ہیں انہوں نے بعض ایسے مشاہدات بیان کئے ہیں کہ ایک روح جسم سے علیحدہ تھی اور روح کی ٹانگ پر حملہ کرنے کا اثر جسم مادی کی ٹانگ پر ظاہر ہوا۔ بہرحال اہل شرع جو روح ثابت کرتے ہیں صوفیہ کو اس کا انکار نہیں بلکہ وہ اس کے اوپر ایک اور روح مجرد مانتے ہیں جس میں کوئی استحالہ نہیں بلکہ اگر اس روح مجرد کی بھی کوئی اور روح ہو اور آخر میں کثرت کا سارا سلسلہ سمٹ کر “امر ربی” کی وحدت پر منتہی ہو جائے تو انکار کی ضرورت نہیں ۔ شیخ فرید الدین عطارؒ نے “منطق الطیر” میں کیا فرمایا ہم زجملہ وہم پیش ازہمہ ، جملہ از خود دیدہ و خویش از ہمہ ۔ جاں نہاں در جسم و اودر جاں نہاں ، اے نہاں اندر نہاں اے جان جان ۔ مذکورہ بالا تقریر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر چیز میں جو “کن” کی مخاطب ہوئی ، روح حیات پائی جائے ۔ بیشک میں یہ ہی سمجھتا ہوں کہ ہر مخلوق کی ہر ایک نوع کو اس کی استعداد کے موافق قوی یا ضعیف زندگی ملی ہے یعنی جس کام کے لیے وہ چیز پیدا کی گئ ، ڈھانچہ تیار کر کے اس کو حکم دینا “کن” (اس کام میں لگ جا) بس یہ ہی اس کی روح حیات ہے جب تک اور جس حد تک یہ اپنی غرض ایجاد کو پورا کرے گی اسی حد تک زندہ سمجھی جائے گی۔ اور جس قدر اس سے بعید ہو کر معطل ہوتی جائے گی اسی قدر موت سے نزدیک یا مردہ کہلائے گی۔ ہذاما عندی و عند الناس ماعند ہم واللہ سبحانہ و تعالیٰ ہوا لملہم للصواب۔
از شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ