سرمایہ داری کے اشترا کی نقیب

کارل مارکس

سرمایہ داری کا تصور کارل مارکس کی ایجاد ہے اور وہ ہمیشہ اپنے آپ کو سرمایہ داری کا حریف سمجھتا رہا۔میں کارل مارکس کو ایک سرمایہ دارسمجھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی عقائد (آزادی، مساوات اور ترقی )پر کامل ایمان رکھتا ہے اور ہر وہ شخص جو ان عقائد پر ایمان لانے وہ ایک سرمایہ دار ہے ۔

آزادی، مساوات اور ترقی وہ اہداف ہیں جن کے عمومی حصول کے لیے مارکس نے اپنی طالب علمی کے دور سے لے کر اپنی موت تک (پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ) مستقل فکری اور سیاسی جد و جہد کی اور اسی طویل جد و جہد کے دوران جلا وطنی کی صعوبتیں نہایت استقلال اور ثابت قدمی سے برداشت کیں۔ مارکس ان معنوں میں ایک مخلص ترین سرمایہ دار تھا کہ انسانیت کی آزادی، مساوات اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے اس نے اپنی اور اپنے خاندان کی طرف سے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا۔

آزادی، مساوات اور ترقی پر مارکس کے ایمان کی تفصیل بیان کرنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس نے “خیالی جنت” کی تصویر اپنی متعد د تصنیفات میں مرتب کی ہے، اس کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے۔

١۔۔مارکس كي دنیاوی جنت کی خصوصیات

i. اس خیالی جنت میں تقسیم کار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہر فردوہ کر سکنے کے قابل ہو گا جو وہ کر نا چاہتا ہے۔

ii. ہر فرد کی بنیادی ضرورت یہ ہوگی کہ وہ دوسروں کے لیے اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرے۔

iii. انفرادی ملکیت مستقلاً ختم ہو جائے گی ۔ ہر فرد کو ہر شے کے استعمال کا مساوی حق ہو گا۔

iv. انسانیت تمام کائناتی قوتوں کو مسخر کر کے قوانینِ فطرت پر اپنا ارادہ مسلط کرنے کے قابل ہو جائے گی۔

v. تمام قسم کی ادارتی تنظیم ختم ہو جائے گی۔ نہ خاندان باقی رہے گانہ مارکیٹ نہ قوم نہ ریاست – قانون بھی ختم ہو جائے گا۔ نہ کسی کو کسی بات پر سزادی جائے گی نہ کسی کو کسی چیز پر مجبور کیا جائے گا۔

اس کمیونسٹ معاشرے میں انفرادیت منتشر نہ ہو گی اور بدنی اور زانی محنت میں فرق ختم ہو جائے گا۔ہرشخص پیداواری عمل، سائنٹفک تحقیق اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھر پور شرکت کرے گا۔ ہر شخص میں سائنس دان ، کاری گر، شکاری ، کاشت کار اور بھانڈ بننے کی یکساں صلاحیت ہو گی اور جب چاہے گا بہترین سائنسی تحقیق کرے گا اور جب چاہے گا ایک ماہر جھانڈر کی طرح ناچنے گا۔

ہر فرد کو یہ احساس ہو گا کہ وہ ہیو منٹی کا محض ایک آلہ کار ہے۔ ہیومتی کے اس آلہ کار کو مارکس “اسپیشی بینگ کہتا ہے۔ اسپیٹی بینگ کسی فرض کی ادائیگی کا قائل نہیں۔ کمیونسٹ سوسائٹی میں فرض اور حقوق دونوں معدوم ہو جائیں گے ۔ وہ اپنی نوع کو خوش کر کے ہی اپنی خوشی حاصل کرتا ہے کیوں کہ ہیومنٹی یعنی شیطنت اس میں حلول کر جائے گی۔ انفرادی ذات نوعی ذات میں گم ہو جائے گی۔ انفرادی اختلافات اور تنازعات مطلقاً ختم ہو جائیں گے کیوں کہ اشیاء اور خد متوں کی کمیابی بالکل ختم ہو جائے گی۔ ہر شخص ہر وہ شے اور خدمت حاصل کر سکے گا جو وہ حاصل کرنا چاہے گا۔ کسی دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنے آپ کو محروم رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

کمیابی پر فتح ہیو منٹی کی تمام قدرتی قوتوں پر فتح کا دوسرا نام ہے۔ کمیونسٹ سوسائٹی میں ہیومن خدا بن جاتا ہے۔ وہ کائنات پر غالب آجاتا ہے۔ وہ سائنس پر حاوی ہو کر جو چاہے وہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ مارکس کے الفاظ میں “آدمی کمیونسٹ سوسائٹی میں خدابن جاتا ہے اور وہ کائنات کی از سرِنو تخلیق کرتا ہے”۔ لیبر اسی ہیومن کی خالقیت کے اظہار کے ذریعے کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ اسی نوعیت کی لیبر کے ذریعے آزادی حاصل کی جاتی ہے کیوں کہ آزادی ہیومن کی تخلیقیت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جو شخص ہیو منٹی کو خالق کائنات بنانے کا متمنی ہو وہ لازماً مذ ہب کا شدید ترین دشمن ثابت ہوتا ہے۔ اسی دور میں اللہ کا سب سے بڑا دشمن اور یہودیت کا پکا مخالف نطشے بھی تھا۔ مارکس کے مطابق کمیونسٹ سوسائٹی سوشلسٹ سوسائٹی سے بر آمد ہوتی ہے۔ مارکس سوشل ازم کو “مزدوروں کی آمریت ”سے تعبیر کرتا ہے۔ سوشلسٹ نظام کی خصوصیات مندرجہ زیل ہیں:۔

• انفرادی ملکیت اور وراثت کے قوانین کی منسوخی .

• ایسے نظام محصولات کی تنفیذ جو امیروں سے زیادہ ٹیکس وصول کرے .

• فائنانس پر ریاست کی اجارہ داری کا قیام

• تمام افراد کو اجرتی مزدوری اختیار کرنے پر مجبور کیا جانا۔ اجرتی مزدوری سے حصول رزق ہر فرد کا قانونی فرض قرار دیا جائے گا۔

• تیز ترین صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ریاستی پالیسی سازی

• تمام افراد کو مفت تعلیم کی فراہمی

مارکس کے مطابق ان اقدامات کا مقصد سرمایے کو بورژوا طبقے سے چھیننا اور ریاست کے ہاتھوں میں مرتکز کرنا اور معاشرتی پیداواری سکت کو زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد ترقی دینا ہے۔ سوشلسٹ دور میں تقسیم آمدنی میں نا مساویت ختم نہیں ہوتی۔ اس دور میں ریاستی قوت پر پرولتاریہ اور کسانوں کی اجارہ داری ہوگی اور بے دخل کیے ہوئے بورژواؤں اور جاگیر داروں کے جمہوری حقوق تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔ سوشلسٹ ریاست میں انتخابی عمل جاری رہے گا اور اس کے نتیجے میں لوگ جب چاہیں گے اپنے نمائند گان کو تبدیل کرتے رہیں گے۔ ایسی ریاست ہر فرد کے دفاع کی ذمہ داری قبول کرے گی اور فوجی نظام ختم کر دیا جائے گا۔

سوشلسٹ ریاست قائم ہوتے ہی اوقات کار دس گھنٹے سے کم کر کے پانچ گھنٹے کر دیے جائیں گے لیکن اس کے باوجود دولت کی پیداوار میں ہوش ربا اضافہ ہو گا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مارکس کو توقع تھی کہ سوشلسٹ انقلاب ترقی یافتہ ترین ممالک میں رونما ہوگا جہاں صنعتی ترقی کا عمل مدت سے جاری ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سوشلسٹ ریاست منصوبہ بندی کے ذریعے سرمایہ کاری کے عمل کو مہمیز دے گی اور ریاستی منصوبہ بندی نجی سرمایہ کاری کے مقابلے میں سرما یے کی بڑھوتری کو فروغ دینے کے لیے کہیں زیادہ موثر ثابت ہو گیا۔ ریا ستی منصوبہ بندی سرمایہ دارانہ عقلیت کا اعلی ترین اظہار ہے اور وہ ان تمام غلطیوں اور نا ہم واریوں کو رفع کرنے کا موثر ذریعہ بنے گی جو مارکیٹ کا غیر متوازن عمل تقسیم وسائل جنم دیتا ہے۔ پیداوار اور سرمائے کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ ہیو من خو اہشات میں بھی اضافہ ہو گا لیکن پیداوار میں اضافہ خواہشات میں اضافہ سے کہیں زیادہ تیز ہو گا۔ اجرتوں اور معیار زندگی کے تیزی سے مستقل اضافہ کے ذریعے مزدور کو اس کی کی گئی محنت کے مطابق اشیاءاو خدمت “مشتر کہ سوشل فنڈ” سے فراہم کی جائیں گیا۔ یہ مشترکہ سوشل فنڈ مارکیٹ کا متبادل ہو گا۔ خرید و فروخت کا عمل بندر نے معطل کر دیا جائے گا اور معیشت میں زر کا کردار بھی بتدریج کم کیا جائے گا۔ لیکن سوشلسٹ ریاست فا ئنانس کو منظم کرے گی اور ریاستی اور انفرادی سود موجود رہیں گے۔

مارکس کے مطابق سوشلسٹ دور میں دولت اتنی زیادہ ہو گی کہ ہر فرد اپنی خواہش بغیر کسی دوسرے کو محروم کے پوری کرے گا اور دولت میں اضافہ کی رفتار خواہشات میں اضافہ کی رفتار سے بہت تیز ہو گی اور کمیونسٹ سوسائٹی میں سرمایے کی بڑھوتری کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائے گی۔ دولت کی فراوانی کے نتیجے میں فرو”سپی شی بینگ“ بن جائے گا۔ فرد پورے یقین کے ساتھ اپنے آپ کو انسانیت میں محو کر دے گا اور اس کی ذاتی اغراض کا حصول اجتماعی نوعی خواہشات کے حصول کا ذریعہ بن جائے گا۔ ہر فرد محض ہیومن ہو گا۔ اس کی وابستگی نہ کسی مذہب سے ہوگی نہ کیا خاندان سے نہ کسی قوم سے نہ کسی طبقہ سے۔ ان حالات میں طبقاتی آمریت یعنی پرولتاری آمریت کی ضرورت نہ رہے گی اور ریاستی نظام خود بخود دھیرے دھیرے قلیل ہو تا چلا جائے گا۔ اسی نظریہ کو “Withering away of the state” کہتے ہیں۔ کمیونسٹ سوسائٹی میں ہر فرد اپنے نفس کا بندہ بن جائے گا۔

٢لبرل اور اشتراکی سرمایہ داری کا موازنہ

اشتراکیت اور لبرل ازم کی مابعد الطبیعیاتی بنیادیں اور ان کے عقائد مشترک ہیں۔ یہ دونوں نظریات تحریک تنویر کی کیا تعبیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دور حاضر کے ایک مشہور فلسفی چارلس ٹیلر نے دعوی کیا ہے کہ مارکس ایک انفرادیت پسند مفکر تھا۔ اسی لیے جب وہ کمیونسٹ سوسائٹی کی تصویر کشی کرتا ہے تو وہ اس خیالی جنت کی ادارتی صف بند کی پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اس کی پوری توجہ کمیونسٹ انفرادیت کی خصوصیات بیان کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ لبرل ازم اور اشتراکیت دونوں انسان کو شیطان بنانے کی مہمات ہیں۔ یہ دونوں نظریات انسان کو خدا سے بغاوت پر آمادہ کر کے اپنی انفرادی یا نوعی خدائی کا دعوی کرنے پر اکساتی ہیں۔ لبرل ازم اور اشتراکیت کا یہ مشترکہ دعوی ہے کہ ہر فرد کی جبلت اس کو خدایعنی اپنے نفس کا بندہ بننے پر آمادہ کرتی ہے۔ لبرلوں اور اشتراکیوں میں نزاع اس بنا پر نہیں کہ انسان کو خدا بننا چاہیے یا نہیں۔ دونوں انسان کو ایک ستم بنانے کی ضرورت پر متفق ہیں۔ اختلاف اس بات پر ہے کہ فردکو خدا کیسے بنایا جائے۔

پرولتاری آمریت کے زیر اثر مارکیٹ کے ذریعے یا سرمایہ دارانہ ریاست کی مارکیٹ کے ذریعے۔

مارکس کی فکر کے دو ماخذ ہیں، ایک ہیگل اور دوسرے ریکارڈو کے نظریات۔ ہیگل کے مطابق مجرد عقلیت اپنا اظہار تاریخ اور فطرت میں ایسے فرد کے اعمال کے ذریعے کرتی ہے جو دنیا کو عقلیت محض کی تخلیق کے طور پر پہچانتا ہے۔ ایسا فرد سپرٹ کا آلہ کار ہے اور سپرٹ خدا ہے۔ خدا کا نام ہیگلانے Geist رکھا ہے۔ لہذا ریشنل انفرادی اراده خدا ہے۔ خدا ہر ریشنل فرو کے ارادہ میں حلول کر گیا ہے اور تاریخی عمل کے تواتر سے فرد اپنی حقیقت سے واقف ہوتا جاتا ہے۔ تارین ریشنل فرد کی تخلیقیت اور ربوبیت کےمسلسل فروغ کا اظہار ہے۔ اسی چیز کو ہیگل آزادی کہتا ہے۔ فرد کا ارادہ یہ یقین ہے کہ وہ حق اور کائنات کا خالق اور رب ہے۔ انفرادی ارادہ ایسے قوانین اور ادارے تعمیر کرتا ہے جو عقلیت مجرد کی تجسیم نو ہیں۔ یہ قوانین اور ادارے اخلاقی حیات کو ممکن بناتے ہیں اور ان اداروں اور قوانین کی کار فرمائی اس یقین کو تقویت بخشی ہے کہ فرد آزاد یعنی خدا ہے۔ مجرد عقلیت آفاقی ارادے کو مخصوص ارادوں میں مجسم کر کے اپنی خود شناسی کی جد و جہد مسلسل کرتی رہتی ہے۔ یہ جد وجہد جدلیاتی ہوتی ہے اور فرد کا ہر مخصوص اظہارِ تخلیقیت اور ربوبیت نا مکمل اور نا حق ہوتا ہے۔ اسی یقین کو رفع کرنے کے لیے مجرد عقلیت ایک نیا مخصوص اظہار تعمیر کرتی ہے جو پچھلے نقائص کوواضح کر تا ہے لیکن اس فرد کے اس نے اظہار تخلیقیت و ربوبیت میں پھر کچھ نقائص رہ جاتے ہیں لہذاعقلیت مجرد کی تگ و دو جاری رہتی ہے۔ اس نظریہ کو جدلیاتی آئیڈیل ازم کہتے ہیں اور مارکس نے اپنا تصور تاریخ ” جدلیاتی مادیت” اسی منہج پر مرتب کیا۔

ہیگل کے مطابق تخلیقیت اور ربوبیت کے احساس کے فروغ کا یہ عمل فرد کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ربوبیت اور تخلیقیت کے مکمل اظہار کے لیے ضروری ہے کہ ایک معاشرہ بنایا جائے جس میں مخصوص ارادے آفاقی ارادے میں اس طرح ضم ہو جاتے ہیں کہ آقاتی ارادے کی قانونی اور ادارتی تجسیم انفرادی مخصوص ارادوں کی ربوبیت اور تخلیقیت کا اظہار ممکن بنادیتی ہے۔ یہ قوانین اور ارادہ فرد کو حقوق فراہم کرتے ہیں۔ جن حقوق کی ہیگل تصدیق کرتا ہے وہ ہیں حقِ املاک، حق آزادی رائے اور حقِ تصرف۔ یہ سب کلاسیکی لبرل حقوق ہیں اور اسی وجہ سے ہیگل نے بہت سے شاگردوں نے اسے ایک لبرل مفکر کہا ہے۔

افراد کو ان حقوق کی فراہمی کے بغیر مخصوص ارادوں کو ارادہ آفاقی کے اظہار ربوبیت اور تخلیقیت کا ذریعہ نہیں بتایا جا سکتا لیکن ہیگل کے ان انفرادی حقوق کی فراہمی مخصوص ارادوں اور ارادۂ آفاقی میں ضم ہو جانے کے لیے کافی نہیں۔ مخصوص ارادوں کا فطری دائرہ مار کیٹ ہے اور ہیگل صراحت سے مارکیٹ کو سول سوسائٹی کہتا ہے۔ وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ مارکیٹ میں کنٹریکٹ کے ذریعے ارادة آفاقی تعمیر نہیں ہوتا کیوں کہ مارکیٹ کنٹریکٹ کے ذریعے تو محض ایک مخصوص ارادے یعنی فرد کو دوسرے فرد کے مخصوص ارادوں اور خواہشات کے حصول کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ کوئی نیا اجتمائی ارادہ وجود میں نہیں آتا۔ ہیگل کے مطابق فرد محض اپنے ارادہ اور خواہشات کی اتباع کرہ کے حقیقتا آزاد نہیں ہوتا۔ فرد کو حقیقی آزادی اس وقت میسر آتی ہے جب وہ اپنے مخصوص ارادہ کو خیر مطلق سے محبت کرے۔ جو انفرادی اراده خیر مطلق کا مظہر ہو بیئل اسے “Moral will” کہتا ہے۔ یہ خبر مطلق تمام افراد کو ویلفیئر دینے کے لیے صرف انفرادی حقوق فراہم نہیں کرتی بلکہ وہ تمام حقوق جن کی تصدیق سوشل ڈیموکریٹ کرتے ہیں۔ ہیگل کو اس کا بھی احساس تھا کہ انفرادی اور ویلفیئر حقوق کی فراہمی ایک دوسرے کی تحدید کرتے ہیں۔ ویلفیئر رائٹس کی فراہمی کی ضرورت کو قبول کر کے اراده انفرادی معاشرتی ارادے سے منطبق ہو جاتا ہے۔ فرد حقیقی طور پر آزاد اسی وقت ہو تا ہے جب وہ بیان لے کہ اپنے ذاتی اغراض کے حصول کی جد و جہد کو اجتماعی اغراض کے حصول کی جد و جہد کا لازماًلاحقہ ہونا چاہیے۔ ویلفيئر حقوق صرف ریاست فراہم کر سکتی ہے اور ریاست کا قیام اور معاشرتی غلبہ مخصوص ارادوں کے اراده آفاقی سے منطبق ہونے کے لیے لازم ہے۔ ریاستی زندگی، اخلاقی زندگی کا اعلی و ارفع ترین مظہر ہے اور ریاستی زندگی میں بھی فرد کو حقیقی آزادی میسر آتی ہے۔ ایک جرمن ڈکٹیٹر بسمارک کی ریاست کو ایک بہتر نظام سمجھتا تھا جو بتدریج ہیومن اور ویلفیئر رائٹس کی فراہمی میں اضائے کر رہی تھی۔ وہ امریکی ریاست کا بھی مداح تھا اور برملا کہتا تھا کہ ایک مثالی ریاست کے قیام کی توقع سب سے زیادہ اسی امریکی ریاست سے کی جاسکتی ہے جو ہیگل کے دور میں لاکھوں سرخ ہندیوں کو مسلسل نقل کرتے چلی جارہی تھی۔

مارکس کے مطابق انسان کامل ہوتا ہے۔ یہ تصور لبرل تصورِ انفرادیت سے متصادم نہیں۔ لبرل ازم بھی فرد کو تخلیقیت اور ربوبیت کا مظہر سمجھتی ہے لیکن اس ربوبیت اور تخلیقیت کے اظہار کے لیے فرد کے کسی اجتماعیت میں ضم ہونے کی قائل ہے اور اراده عمومی کو اراده انفرادی کا مطیع قرار دیتی ہے، اس کا ادغام قرار نہیں دیتی۔ اشتراکیت اور قوم پرستی کے علی الرغم لبرل ازم کسی ایسی جد و جہد کی ضرورت کو تسلیم نہیں کرتی جس سے انفرادیت اجتماعیت میں ضم ہو جائے۔ لیکن لبرل ازم، اشتر اکت اور قوم پرستی تینوں نظریات کی بنیادی قدر آزادی ہی ہے اور اس اعتقادی یکسانیت کی بنیاد پر ہم ان تینوں کو سرمایہ دارانہ نظریات کہتے ہیں۔

آزادی وہ ا ساس ہے جس کی بنیاد پر مارکس نے تصوراتِ فطرت اور تاریخ کو مرتب کیا۔ آزادی ، مساوات اور ترتی لبرل ازم اور اشتراکیت کی مطلق ومشترک اقتدار ہیں۔ یہ دونوں نظریات تحریک تنویر کی تشریحات ہیں۔ فرق اس امر میں ہے کہ آزادی، مساوات اور ترقی حاصل کیسے کی جائے۔ لبرل مفکرین کی رائے میں کاشت کا تصور فنا منل سیلف (نفس امارہ)اور فنامنل سیلف( نفس لوامہ) ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ اور نفس لوامہ، نفس امارہ کے صحیح کرنے سے ہی ٹھیک کیا جا سکتا ہے اور جمہوریت وہ عمل ہے جس کے ذریعے نفس لوامہ کی تطہیر عمل میں آتی ہے۔

لبرل ریاست کا فرض ہے کہ نفس لوامہ کی اس جمہوری تطہیر کے ذریعے فرد کو زیادہ سے زیادہ اختیارات فراہم کرے ۔ اس کے بر عکس اشتراکی مفکرین نفسِ لوامہ کی تطہیر ایک ایسے تار یخی عمل کا نتیجہ سجھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک متمول معاشرہ قائم ہو، جہاں وسائل کی فراوانی ہر فرد کے مکمل تسخیر کائنات کو ممکن بنا کر اس کی ربوبیت اور تخلیقیت کو عملی جامہ پہنا دے ۔ لبرل سرمایہ داری پر مار کس کی تنقید کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ اس نظام میں ترقی محدود ہو جاتی ہے اور عام آدمی آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔ معاشرتی و معاشی ناہمواریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور حقوق انسانی کی عمومی فراہمی کا دعویٰ ایک دھوکا ثابت ہوتا ہے۔ لبرل معاشرتی اور ریاستی صف بندی کا انہدام فروغ آزادی اور سرمایے کی بڑھوتری کے لیے ضروری ہے۔

۔لبرل سرمایہ داری کی مارکسی تنقید

برٹرینڈ رسل اپنی مشہور کتاب “History of Western Philosophy” میں مارکس کو مغرب کا آخری نظاماتی متشکر کہتا ہے اور میری رائے میں یہ رائے درست ہے کیوں کہ مارکس کے بعد کی مغربی مفکر نے سرمایہ داری کو بحیثیت ایک نظام زندگی بیان کرنے کی کوشش نہیں کیا۔ اور اشتراکیت وہ آخری نظر یہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی ترتیبِ نو کا تصور پیش کرتا ہے۔ اشتراکیت سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی ترتیبِ نو کی متقاضی ہے، سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی تسخیر کی متقاضی نہیں ہے۔

مارکس لبرل سرمایہ داری کا باغی اور ایک جرأت مند انقلابی تھا۔ وہ پوری زندگی لبرل سرمایہ داری کے خلاف لڑتا رہا۔ وہ پرولتاریہ کے حقوق اور اقتدار کے فروغ کے لیے ساری زندگی جد و جہد کر تا ہے۔ اس نے اپنی انقلابی جدوجہد ۲۲ سال کی عمر سے شروع کی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود کبھی بھی کیرئیر سازی پر توجہ نہ دی۔ وہ ایک بے باک اور نڈر صحافی تھا اور جن پر چیوں کی وہ ادارت کر تا تھا وہ تواتر کے ساتھ بین قرار دیے جاتے رہے۔ ۱۸۴٢ء سے ۱۸٤۹ء تک ایک سرگرم سیاسی کارکن کی حیثیت سے فرانس اور جرمنی کی کمیونسٹ انقلابی تحریک میں حصہ لیتا رہا۔ ۱۸٤۷ء میں اینگلز کے ساتھ اپنا مشہور کتابچہ “کمیونسٹ مینی فیسٹو”لکھا جو پچھلے دو سو سال سے سرمایہ دارانہ انقلابی سیاست کا سنگ میل بنا ہوا ہے۔ انقلابیت کی بنیاد اس کا فطری جذبہ نفرت اور انتقام تھا جو انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ ۱۸۴۳ء میں مشہور انارکسٹ مفکر Bukharin نے مارکس کے کردار کی ان الفاظ میں تصویر کشی کیا ہے:

موسیودار کسی حد سے زیادہ نروس، فتنہ جو، مغرور اور حاسد شخصیت کا مالک ہے۔ کوئی ایسا جھوٹ یا بہتان نہیں جو وہ ان لوگوں کے خلاف بولنے سے رہ جائے جنہوں نے مارکس کے نظریات کی مخالفت کر کے مارکس کے جذبہ نفرت اور انتقام کو اکسایا ہے۔ مخالفین کے خلاف سازش کرنامارکس کی فطرت ثانیہ ہے۔ لیکن مار کا نہایت ذہین ہے اور اس کے مطالعہ کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ادق مباحث کا فہم حاصل کرنے کی صلاحیت جواب ہے۔

جب سے مارکس کو احساس ہوا کہ اشتراکی انقلاب مز دور جد وجہد کے بغیر رونما نہیں ہو سکتا تب سے اس نے اپنی ساری زندگی پرولتاریوں کو اسی جد و جہد کے لیے تیار اور منظم کرنے کے لیے وقف کر دی۔ ۱۸۴۰ء کی دہائی کی ابتدا میں اس نے کمیونسٹ لیگ قائم کی جو فرانس، جرمن، انگلستان اور بیجیم میں پھیلی ۔ مارکس کی سب سے اہم کتاب “Das Kapital” کا بنیادی مقصد اشتراکیت کو ایک سائنس بنا دینا ہے۔ اس کتاب میں مارکس نے کوشش کی ہے کہ ان قوانین کی نشان دہی کی جائے جن کی کار فرمائی کے نتیجے میں لبرل سرمایہ دارانہ مار کیٹ ، لبرل سرمایہ دارانہ ریاست اور معاشرت کے توسیع سے اشیا کی تخلیق کے ذریعے سرمایے کی بڑھوتری اور ارتکاز کو مستقل بنایا جائے۔ اس کتاب میں لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی ان داخلی کمزوریوں کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی گئی جن کے اسباب لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام اور سرمایہ دارانہ نظام کی اشتراکی ترتیب نو کے امکانات پیدا ہو جائیں۔ لیکن یہ کتاب اس حکمت عملی کی احاطہ بندی نہیں کرتی جس کو اپنا کر پرولتاریہ اشتراکی سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

مارکس لبرل سرمایہ داری کی ایک مادی تنقید پیش کرتا ہے۔ قدیم مادہ پرستوں کے خلاف مارکس خارجی حقائق کو قبول کرنے کا قائل نہیں جنہیں قبول کرنے پر انسان مجبور ہے۔ خارجی اشیاء کی معنویت ان کے انسانی استحصالی سے پیدا ہوتی ہے۔ لہذاقدیم مادہ پرستوں کے بر خلاف مارکس حقیقت کی تعمیر میں اراده انسانی کی شمولیت کا قائل ہے۔ یہ نظر یہ سرمایہ دارانہ انقلاب میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔

تاریخی مادیت فرد اور قدرت کے مسلسل اشتراک کو فکری اور سماجی تعمیر کا باعث بتاتی ہے۔ مارکس کے مطابق تاریخ کو رواں رکھنے والی قوت طبقہ ہے۔ اس کے خیال میں اس نے یہ بات سائنسی طور پر ثابت کردی ہے اور اس کا نظریہ ڈارون کے نظریہ ارتقا کی معاشرتی تشریح ہے۔ مارکس نے بار بار یہ بات دہرائی ہے کہ وہ پرولتاری طبقے کی حمایت اخلاقی بنیادوں پر نہیں کرتا بلکہ اس لیے کرتا ہے کہ اس نے سائنسی تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ پرولتاری طبقہ ہی تاریخی ارتقا یعنی پراگرس کا محرک ہو سکتا ہے۔ پر اگر کسی سے مارکس کیا مراد زیادہ سے زیادہ پیداوار مینی سرمایے کی بڑھوتری کے علاوہ کچھ نہیں۔ وہ اس پر انگرس کو فطری آفاقی قانون قرار دیتا ہے۔

پر اگر س کا بنیادی محرک طبقاتی کش مکش ہے اور طبقاتی کشمکش کا تصورمارکس نے ریکارڈ کی پیش کردہ “لیبرتھیوری آف ویلیو” سے اخذ کیا ہے۔ ریکارڈو کی طرح مارکس کی شے کی قدر خالصتا اس میں شامل محنت سےتعبیر کرتا ہے۔ اگر ایک میز بنانے کے لیے ایک مزدور دس گھنٹے صرف کرے اور ایک کر کیا بنانے کے لیے وہ پانچ گھنٹے صرف کرے تو ایک میز کی قدر دو کرسیوں کے برابر ہے۔ اگر اس مفروضہ کو قبول کر لیا جائے تو مارکس کے خیال میں قدر کا واحد حق دار مزدور ہے۔ مالک کو اس قدر سے کوئی حصہ نہیں ملنا چاہیے۔

اس مفرونے کی بنیاد پر مارکس اپنا تصور ظلم مرتب کرتا ہے۔ مارکس کے مطابق غلم یہ ہے کہ مزدور کو اس شے کی قدر کی مکمل تحویل سے محروم کر دیا جائے ۔ یہ ظلم سرمایہ دارانہ نظم پیداوار و تقسیم کا لازمی جزو ہے۔ سرمایہ دارانہ اصولوں کی پابندی سے یہ ظلم پید اہوتا ہے نہ کہ ان کی پامالی سے۔ مارکس کے نظریہ ظلم کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے:

ا- ہر مزدور کے اندر محنت کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

۲- یہ صلاحیت لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں ایک شے ہے۔

٣۔ ہر دوسری شے کی طرح لیبر پاور کی قدر اس کی پیداوار میں شامل محنت کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔

۴- لیبر پادر کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کے لیے ایک خاص مقدار میں اشیائے خور و نوش اور خدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔

۵۔ انہی اشیا کی قدر لیبر پاور کی قدر کو متعین کرتی ہے۔ مثلا اگر مزدور اس کے خاندان کو زندہ رہنے کے لیے ان اشیا کی ایک مقد ار درکار ہے جس کی قدرM=1000 ہو تو اس مزدور کی لیبر پاور کی قدر بھیR= 1000ہو گی ۔

٦۔فرض کریں کہ یہ مزدور ایک کپڑے کے کارخانے میں ملازم ہے اور کام کا دورانیہ دس گھنے ہے۔ لیکن پانچ گھنٹے کے اندر اندر یہ مزدور اتنے بنیانیں، موزے اوردستانے بنالیتا ہے جن کی قدرM= 1000 ہے۔ یہیM=1000 اس کی اجرت ہو گی۔ باقی پانچ گھنٹے میں وہ موزے وغیرہ بنا کر جو کچھ پیدا کرےگا اس کو مارکس”سرپلس ویلیو “یعنی اضافی قدر کہتا ہے ۔

٧۔ اور لبرل سرمایہ دارانہ نظام اور قانون کے مطابق مالک کوسرپلس ویلیو پرمکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔ وہ اس سرپلس ویلیو کا قانونی مالک ہے اور مزدور کا استحصال مزدور کو مسلسل ہر پیداواری اور تقسیم کے عمل کے ذریعے مستقلاً گرا تارہتا ہے۔ لبرل قانون اور لبرل ریاست کی نگاہ میں یہ استحصال جائز ہے، کوئی جرم نہیں۔

مارکس یہ بھی ثابت کر تا ہے کہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کے لیے شرح استحصال کا مستقل بڑھتے رہنا ضروری ہے۔ اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے:

مارکس کے مطابق شے کی لاگت کو یوں تصور کیا جا سکتا ہے :

O=C+V+S

جہاںO سے مراد جموعی لاگت ہے۔Cسے مراد وہ لاگت ہے جو مشینری کو استعمال کرنے پر آتی ہے۔ اس مشینری کو مار سکس Dead Labour کہتا ہے کیوں کہ اس کو صرف شدہ محنت کی صلاحیت کے اخراج سے تعبیر کیا گیا ہے۔ Vاسے مراد اجرت ہے۔S سے مراد مجمو کی لاگت کا وہ حصہ ہے جو مالک کا سرمایہ دارانہ قانونی حق ہے ۔

۲۔ سرمایہ دارانہ عمل کو تین شرحوں کی حرکت کی بنیاد پر سمجھا جاسکتا ہے۔ C/Y یعنی منجمند سرمایہ (مشینری) بہ موازنہ فعال سرمایہ (اجرت) ۔ اسے مار کمالOrganic Compositon of Capital کہتا ہے۔ S/V اضافی قدر بہ موازنہ اجرت کو مار سکس rate of exploitation یعنی شرح استحصال قرار دیتا ہے۔ S/C+V اضافی قدر بہ موازنہ مشینری اور اجرت پر کیے گئے اخراجات کو مارکس شرح منافع کہتا ہے۔ اس صورت میں شرح استحصال کو دوگنا کر سکے شرح منافع کو بھی دوگنا کیا جا سکتا ہے۔ یہی لبرل سرمایہ دارانہ عمل ہے لیکن مارکس کے مطابق مستقل شرح استحصال کو بڑھاتے رہنا ممکن نہیں لہذا سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کے ساتھ شرح منافع میں گرنے کا ر جمان موجود ہے۔ یہی ر یکارڈو کا بھی خیال تھا اور دونوں اس عمل کو Law of the tendency of the rate of profit to fall کہتے تھے۔

ماکان مستقل شرح استحصال بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور مارکس کے خیال میں جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام ترقی کرتا ہے مزدوروں کی حالت بری سے بری ہوتی جاتی ہے۔ وہ لبرل سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں اور بالآخر خونیں انقلاب ذریعہ سرمایہ دارانہ اشتراکی نظام یعنی پرولتاریوں کی آمریت قائم کرتے ہیں۔

مارکسی لبرل سرمایہ دارانہ نظام میں بحران رونما ہونے کی اور بھی کئی وجوہ بیان کر تا ہے۔ اس کے مطابق جیسے جیسے سرمایے کی بڑھوتری کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے مالکان میں مسابقت شدید ہوتی جاتی ہے۔ اشیاء اور خدمات کی فراہمی بڑھتی ہے لیکن معاشرے کی قوت خرید نہیں بڑھتی۔ اشیا اور خدمات فروخت نہیں کی جا سکتیں اور ان کا فاضل انبار لگ جاتا ہے جس کے نتیجے میں شرح منافع گر جاتی ہے۔ بیروزگاری بڑھتی ہے اور سرمایہ دارانہ مارکیٹ بحر ان کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان نظریات کو Under Consumption Theories بھی کہا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بیروز گار مفلوک الحال مزدوروں کی فوج وجود میں آتی ہے جس کا کوئی انفرادی یا ذاتی مفاد لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی بقا سے وابستہ نہیں ۔ مارکس کے یہ تصورات ریکارڈو کی کتاب سے ماخوذ ہیں اس فرق کے ساتھ کہ ریکارڈو بیروز گاروں کو انقلاب برپا کرنے والی قوت نہیں سمجھتا۔

انقلاب لانا پرولتاریہ کا کام ہے۔ انقلاب خود بخود نہیں رو نما ہوتا۔ ہر بحران کے بعد تجدید کے امکانات موجود رہتے ہیں اور بقول schumpeter بار کسی وہ پہلا متفکر ہے جو سرمایہ دارانہ معیشت کے گردشی عمل کی تشریح کرتا ہے۔ اس تشریح میں سرمایہ دارانہ ارتقا کے تین تصور پیش کیے گئے ہیں۔ نیو کلاسیکی نظریہ کے مطابق سرمایہ دارانہ ارتقا ایک سیدھی لکیر کی طرح مستقل ہوتا رہتا ہے اور کوئی تجارتی گردش رونما نہیں ہوتی۔ Schumpeter کے مطابق سرمایہ دارانہ ارتقانا ہمواریوں کا شکار ہو تا ہے لیکن ہر بحران کے بعد تجدید رونما ہوتی رہتی ہے اور سرمایہ دارانہ ارتقالا متناہی ہوتا ہے۔ کلاسیکی تصورمیں سرمایہ دارانہ انحطاط ناگزیر ہے اور بڑھوتری کی رفتار subsistence کی سطح پر آجاتی ہے۔

مارکس کے مطابق ارتقا کا عمل تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک لبرل سرمایہ داری کا دور ہے جس میں ارتقا اتار چڑھاؤ کے ساتھ رونما ہوتا رہتا ہے۔ پھر پرولتاریہ انقلاب برپا کر دیتے ہیں۔ دوسرا سوشلسٹ سرمایہ داری کا دور ہے جہاں گردش ختم ہو جاتی ہے لیکن ترقی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ تیسرا کمیونسٹ سرمایہ داری کا دور ہے جہاں سرمایہ دارانہ ارتقا لامتناہی اور لامحدود ہوجاتاہے۔ مارکس اور Schumpeter دونوں لبرلسرمایہ داری کے بالآخر انہدام اور اشتراکی سرمایہ داری کی بلآخر فتح کے قائل تھے۔

لیکن سوشلسٹ سرمایہ داری کب قائم ہو گی اس کا انحصار پرولتاریہ کی جد و جہد پر منحصر ہے۔ مارکس کا نظریہ مادیت پرستی یہ ہے کہ فطرت خود بخود تبدیل نہیں ہوتی اس کی تبدیلی کو رونما کرنے کے لیے اس پر فرد کو عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ لبرل سرمایہ داری کو اشتراکی سرمایہ داری میں تبدیل کرنے کے مواقع پید اہو رہے ہیں لیکن سوشلسٹ سرمایہ داری کے قیام کے لیے جس عمل کی ضرورت ہے وہ انقلاب ہے اور یہ عمل صرف پرولتاریہ بحیثیت ایک طبقہ کے انجام دے سکتی ہے۔ لیکن اس عمل کی نوعیت کیا ہے اور پرولتاریہ کو اسے انجام دینے کے لیے کیسے تیار کیا جا سکتا ہے اس کی تفصیل مارکس نے نہیں بلکہ لینن اور ماؤ نے بیان کی۔ اور وہ اپنے اپنے ملکوں میں لبرل سرمایہ داری کو سوشلسٹ سرمایہ داری میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

سوشلسٹ سرمایہ داری کو ریاستی سرمایہ داری بھی کہا گیا ہے کیوں کہ سوشلسٹ سرمایہ دارانہ نظام میں ریاستی ملکیت کارپوریٹ ملکیت کے ہم معنی ہے اور ریاستی ملکیت اور کارپوریٹ ملکیت دونوں کی نوعیت سرمایہ وارانہ ہے، ذاتی ملکیت نہیں۔ ریاستی ملکیت کے ذریے سوشلسٹ ریاست علمی، مذہبی، معاشرتی زندگی کےپہلو پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ بار کسی پیداواری ملکیتی نظام کو انفراسٹرکچر اورعلمی اورمعاشرتی نظام کو سپرسٹرکچرکہتا ہے اور اس کے مطابق انفراسٹرکچر کی کار فرمائی سپر سٹرکچر کی کار فرمائی کومتعین کرتی ہے۔ریاستی ملکیت کا معاشرتی اور سیاسی غلبہ ہر فرد کو آزادی دلانے کے لیے لازم ہے کیوں کہ ریاستی ملکیت فرد کی تخلیق سے محرومی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس چیز کو مارکس alienation کہتا ہے۔alienation مارکیٹ میں وجود میں آتی ہے جہاں صرف ما کان آراد ہوتے ہیں اور مزدوروں سے ان کی پید اداری تخلیق چھین کرسرپلس و پلیو حاصل کرتے ہیں۔ مارکس کے مطابق لبرل سول سوسائٹی فرد کو جو حقوق فراہم کرتی ہے وہ اس کو انسانیت سے الگ کر کے اس کی alientation میں اضانہ کر دیتے ہیں۔ سوشلسٹ سرمایہ داری میں سوشل رائٹس انفرادی ہیومن رائٹس کی جگہ لے لیتے ہیں ۔ مارکس کے مطابق جو ریاست ان حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے قائم ہوتی ہے وہ ایک استبدادی، طبقاتی ریاست ہوتی ہے جو جمہوری عمل کے ذریعے عوام کو انفرادی آزادی سے محروم کر دیتی ہے۔ ہیو من بینگ کو آزادی فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فرد کو نوع انسانیت میں سمودے اور اس کو ہر فطری پابندی سے آزاد کر دے اور اس آزادی کی فراہمی کے لیے ہر محدود اور اجتماعی ادارتی صف بندی مثلا خاندان، گرجہ، طبقہ اورریاست کا نوعی اجتماعیت میں ضم ہونا لازم ہے۔ اور لبرل سرمایہ دارانہ معاشرت اور ریاست اس نوعیت کے انضمام کو ناممکن بنانے کے لیے ہی کار فرمائی کرتی ہے۔

پرولتاریہ سوشلسٹ سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک موزوں طبقہ ہے۔ مارکس کے مطابق نہ اسی کے پاس ذاتی ملکیت ہے اور نہ ہی وہ ذاتی ملکیت حاصل کرنے کے لیے جد و جہد کر رہی ہے ۔ وہ ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت کے نظام کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے ۔ لیکن ذاتی ملکیت کو ختم کرنا طبقاتی نظام کوختم کر دینا ہے اور سوشلسٹ سرمایہ دارانہ ریاست میں پرولتاری آمریت کے ذریے بتدریج طبقاتی نظام اورطبقاتی کش مکش ختم کرنے سے ریاست مرجھاجاتی ہے اور ہیومینٹی کمیونسٹ دور میں داخل ہو جاتی ہے ۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ سوشلسٹ سرمایہ داری ایک قسم کی سرمایہ داری کی ہے، سرمایہ داری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے سرمایہ دارانہ اہداف کی عمومی فراہمی کی وجہ سے ہی جنم لیتی ہے اور انہی اہداف یعنی آزادی، مساوات اور ترقی کے فروغ کے لیے سرمایہ دارانہ نظام معاشرت و ریاست کی ایک نئی ادارتی صف بندی کرتی ہے۔ اشتراکی انفرادیت لبرل انفرادیت سے مختلف ہوتی ہے۔ اشتراکی ورقوم پرست سرمایہ دارحریص نہیں ہوتا، وہ اپنے گروہ، طبقہ یا قوم کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ مارکس، لینن ، ماؤ اورشی گویرا قربانی اور ایثار کی قابلِ رشک مثالیں ہیں۔ آج بھی کولمبیا کے گوریلے، آندھرا پردیش اور جھارکھنڈ کے ماؤسٹ اور تامل ٹائیگر عظیم قربانیاں نصف صدی سے پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ایک سوشلسٹ کے اخلاقی طبقاتی ہوتے ہیں آفاتی نہیں ہوتے۔ اس کے لیے گناہ کو ئی چیز نہیں ۔ مثلامارکس ایک عادی زانی تھا اور ایک حرامی بچے کا باپ تھا جو اس کی نوکرانی کے بطن سے پیدا ہوا اور اس کا شدید دکھ مارکس کی باوفا بیوی کو پوری زندگی رہا۔اشتراکی اور قوم پرست افراد کی ذاتی زندگی عموما نہایت غلیظ اور گھناؤنی ہوتی ہے۔ ایک مخلص سوشلسٹ اور قوم پرست کارکن کا قلب جذبے حسد اور انتقام سے مغلوب ہو تا ہے۔ یہی حسد اور نفرت اس کی انقلابی جد و جہد کے اصل روحانی مآخذ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دشمن سے شدید ترین نفرت کرتا ہے اور اس کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر جھوٹ، فریب، دغابازی اور مکاری کو اپنا فرض عین تصور کرتا ہے اور اسی پر نمایاں فخر کرتا ہے۔

مارکس کا خیال تھا کہ اشتراکی انفرادیت کی یہ خصوصیت سوشلسٹ دور میں کم ہوتے ہوتے کیونسٹ دور میں بالکل معدوم ہو جائے گی اور کمیونسٹ معاشرت کروڑوں دوستوں پر مشتمل ہو گی۔ نفرت اور حسد کو ترک کرنے کی وجہ مارکس کے مطابق دولت کی فراوانی ہو گی۔ ہرشخص ہر وہ شے اور خدمت بغیر کسی کو محروم کیے حاصل کر سکے گا جس کی اس کو خواہش ہو گیا۔ لہذا نفرت اور حسد کی کوئی گنجائش موجود نہیں رہے گی۔ مارکس کی دیگر پیش گوئیوں کی طرح یہ پیش گوئی بھی غلط ثابت ہوئی۔ کمیونسٹ معاشرہ کہیں رونما نہیں ہوا۔ کسی سوشلسٹ ریاست کے وسائل کے فروغ کی رفتار خواہشات کے فروغ کی رفتار سے تیز نہ ہو سکی اور ہر جگہ نفس غیرمطمئن اور ہل من مز ید کا نعرہ لگاتارہا۔ حسد اور نفرت ختم نہ ہوئی اور حرص جس کو انقلابی دور میں دبا دیا گیا تھا دوباره مجموعی سطح پر عود کر آئی۔ ۱۹۹۰ کے در میان میں بیشتر اشتراکی سرمایہ دارانہ ریاستوں میں لبرل انقلاب برپا ہوئے اور وہ عالمی لبرل نظام میں ضم ہوتی چلی جارہی ہیں۔

سرمایہ داری کے نقیب از ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، کمپوزنگ مزمل ارباب