سرمایہ کیا ہے؟
سرمایہ میں اور دولت میں فرق ہے۔ سرمایہ کا تعلق آزادی سے ہے جبکہ دولت کا تعلق جائز اور ناجائز، حرام و حلال سے ہے۔ سرمایہ نفس کی وہ خواہش ہے کہ سرمایہ زیادہ سے زیادہ حاصل ہو’ سرمایہ دراصل بڑھوتری برائے بڑھوتری ہے۔ یہ تکاثر ہے۔ سرمایہ نفس کی خواہش کہ دنیا کا حریص ہو اور اس کے حصول کے لئے آپس میں حسد کرے۔ سرمایہ آزادی کا دوسرا نام ہے۔ سرمائے میں آزادی کامطلب ہے کہ حلال و حرام اور جائزہ و ناجائز کی تمیز نہ رکھی جائے۔ آزادی کن کو حاصل ہوتی ہے ان کو جن کے پاس سرمایہ زیادہ ہو۔ جب آپ آزادی کے حصول کے لئے کوشاںہوتے ہیں تو آپ اپنی خواہشات کی اتباع اس دنیا میں کرنا چاہتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے عملی طور پر جس خواہش کے لئے کارفرما ہوتے ہیں اورجس مقصد کے لئے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو پروان چڑھاتے ہیں وہ سرمائے کا حصول ہے۔ سرمائے کی خواہش کے بغیر آزادی کی خواہش ناممکن ہے۔ اس لئے مغربی تصور آزادی کی عملی تعبیر سرمائے کی خواہش ہے۔ ایک آزاد شخص یا گروہ جس چیز کا طالب ہوتا ہے وہ سرمایہ ہے اس کی زندگی کا مقصد سرمایہ ہی ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے ہی وہ آزادی کو ممکن بنا سکتا ہے۔
سرمائے اور دولت میں فرق:
سرمایہ جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ خواہش کا نام ہے یہ وہ خواہش ہے جو خود اپنی تلاش میں سرگرداں ہوتی ہے۔ وہ سرمایہ جو کہ متشکل ہو کسی بھی اجزا میں وہ دولت بن جاتی ہے۔ یہ دولت جو کہ سرمائے کی بڑھوتری کے نتیجے میں حاصل ہوگی یہ حرام دولت اور سودی دولت ہوگی۔ اس کے برعکس اگر حلال طریقہ اور ذرائع سے حاصل ہو تو وہ دولت حلال دولت ہوگی۔
مارکیٹ کیا ہے؟
مارکیٹ وہ جگہ ہے جہاں پر سرمائے کے طلب گار آزادی کے حصول کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اسی لئے مارکیٹ کا تعلق سرمائے سے ہے۔ اس کی خصوصیت میں ہم تفصیل سے دیکھیں گے کہ مارکیٹ پورے معاشرے کو کس طرح اپنے تابع کرلیتی ہے۔ مارکیٹ کا تعلق اس خاص قسم کے معاشرے سے ہے اور اس میں نشوونما پانے والے اداروں سے ہے۔
مارکیٹ اور بازار میں فرق:
ہم جس اصطلاح کو عام طور پر مارکیٹ کے مماثل سمجھتے ہیں وہ بازار ہے۔ بازار اور مارکیٹ میں بنیادی فرق ہے ۔بازار کا تعلق سرمایہ داری سے نہیں ہے بلکہ ماقبل سرمایہ داری بھی اسکا وجود تھا۔ بازار وہ ادارہ ہے جس کا تعلق مخصوص تہذیب’ اخلاقیات اور مذاہب سے ہے۔ بازار معاشروں کی تعمیر نہیں کرتا بلکہ بازار پہلے سے قائم معاشرتی قدروں کے تابع ہوتا ہے۔ بازار مارکیٹ کے مقابلے میں معاشرتوں کا ایک بہت قلیل حصہ ہوتا ہے۔ جبکہ مارکیٹ پورے معاشرے کے اندر غالب قدر ہوتی ہے اور وہ ہی معاشرتی قدروں کو متعین کرتی ہے۔ اسلامی معاشروں میں بازار ہوتے ہیں۔ جن میں حرام و حلال کی تمیز ہوتی ہے۔ اسلامی مارکیٹ کبھی نہیں ہوسکتی کیونکہ مارکیٹ کے معیارات سرمایہ داری سے متعلق ہیں۔ اسلامی مارکیٹ ایک غلط عقیدہ ہے۔ اب ہم مارکیٹ کے خواص کا جائزہ لیں گے کہ مارکیٹ کن خواص رویوں کو پروان چڑھاتی ہے۔
مارکیٹ کی خصوصیت:
1۔ مارکیٹ کا غلبہ
مارکیٹ پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے مارکیٹ جہاں پر آزادی کو فروغ حاصل ہوتا ہے وہ اس کے رجحان کو پورے معاشرے پر غالب کردیتی ہے۔ اور معاشرتی قدریں کسی اور بنیاد پر نہیں طے ہوتیں بلکہ وہ مارکیٹ کے نافذ کردہ اقدار پر استوار ہوتی ہیں۔ مارکیٹ برخلاف بازار کے صرف معاشی ادارتی صف بندی نہیں کرتی بلکہ معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے تابع کرلیتی ہے ایک مذہبی معاشرہ جس کی بنیاد محبت اور بھائی چارہ پر استوار ہوتی ہے۔ مارکیٹ ان اقدار کی جگہ غرض’ حرص و حسد کو پروان چڑھاتی ہے۔ ان بنیادوں پر جو معاشرہ استوار ہوتا ہے اس کو سول معاشرہ (Civil Society) کہتے ہیں ۔مارکیٹ جس معاشرے کو جنم دیتی ہے وہ سول معاشرہ ہوتا ہے سول معاشرے میں پورا معاشرہ دراصل مارکیٹ بن جاتا ہے جہاں پر تعلقات کی بنیاد معاہدوں پر رکھی جاتی ہے۔ ایسے معاشرے میں خاندانی رشتے ناتے ٹوٹ جاتے ہیں اس لئے کہ خاندان کی بنیاد غرض اور معاہدہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی بنیاد محبت و ایثار ہوتی ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی شوہر یہ تمام رشتے جب غرض کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں تو خاندانی نظام تباہ ہوجاتا ہے جیسا کہ مغربی ممالک میں ہورہا ہے اور ہر اس ملک میں ہوتا ہے جہاں سرمایہ داری کو فروغ ملتا ہے۔
2۔ مارکیٹ میں ہر خواہش مساوی اور جائز ہوتی ہے مگر ترتیب سے نہیں ہوتی
مارکیٹ میں آزادی کے فروغ کا مطلب یہ ہوا کہ آپ آزاد ہیں جو چاہنا چاہیں چاہ سکیں۔ اس طرح مارکیٹ میں ہر شخص مساوی ہے وہ چاہے نماز پڑھے یا شراب پیے یا بیچے، دونوں عمل اس لئے جائز ہیں کہ انہیں آپ نے آزادانہ خواہش کی اتباع کرتے ہوئے کیا ہے۔ جب ہر خواہش جائز اور مساوی ہوئی تو پھر کسی خواہش کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ آپ خواہشات کی کوئی بھی ترتیب رکھ سکتے ہیں۔ مگر عملی طور پر آپ ہر اس خواہش کو اولیت دیتے ہیں جو کہ سرمائے کے ارتکاز میں معاون و مددگار ہو۔ مثلاً آپ اپنا تمام وقت تفریحات میں نہیں گزار سکتے کہ اس کی بنیاد پر آپ کو سرمائے میں بڑھوتری کے مواقع کم ملیں گے اس لئے آپ پابند ہیں کہ آپ کاروبار دفتر اور تعلیم پر بھی اپنا وقت صرف کریں۔ مارکیٹ میں آپ سرمائے کے غلام ہو کر اس خواہش کو کرنے کے پابند ہیں جو کہ آپ کے سرمائے میں اضافہ کرے۔
3۔ مارکیٹ نجی ملکیت کو ختم کردیتی ہے۔
سرمایہ داری یہ دھوکہ دیتی ہے کہ وہ نجی ملکیت کو پروان چڑھاتی ہے۔ یہ تصور ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ نجکاری اور نجی ملکیت میں فرق ہے۔ اس فرق کو واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مارکیٹ کے اداروں کا جائزہ لیا جائے جو کہ نجکاری کے عمل کو پروان چڑھاتے ہیں۔ سرمایہ داری ایک فنانشل مارکیٹ کو پروان چڑھاتی ہے کارپوریشن اس فنانشل مارکیٹ کی روح رواں ہوتی ہے۔ سرمایہ داری میں جب بھی کوئی شے یا خدمات مارکیٹ میں آتی ہیں توہ وہ کارپوریشن کے تحت پیداوار یا خدمات انجام دیتا ہے۔ کارپوریشن کے بغیر مارکیٹ تک رسائی نہیں ہوتی۔ کارپوریشن میں یا تو ملازمین ہوتے ہیں یا اس کے شیئر ہولڈرز۔
شیئر ہولڈرز وہ ہوتے ہیں جو اس کمپنی کے مالک تصور کیے جاتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے کہ جو بھی اسٹاک مارکیٹ سے اس کمپنی کے شیئرز خرید لے وہ شیئر ہولڈر کہلائے گا۔ ان کے علاوہ ملازمین میں ایک مینیجر اور دوسرے دیگر عملہ یا مزدور شامل ہیں اس کارپوریشن کو چلانے کی تمام ذمہ داری مینیجرز پر ہوتی ہے۔ و ہی دیگر ملازمین رکھتے اور نکالتے ہیں اور وہی فیصلہ کرتے ہیں۔ شیئر ہولڈر کا کمپنی کے معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ زیادہ تر بچارے شیئر ہولڈرز کو کمپنی کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا کہ یہ کہاں ہے اور کام کیسے انجام دیتی ہے۔
مینیجرز جو تمام کمپنی کو چلانے کا مجاز ہوتا ہے وہ فیصلے ان بنیادوں پر کرتا ہے کہ کمپنی کے منافع/ سرمائے میں اضافہ ہوا، گر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر وہ بھی ملازمت سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔ شیئر ہولڈرز، مینیجرز اور مزدور تمام کے تمام اسی جستجو میں ہوتے ہیں کہ سرمائے کو کس طرح بڑھائیں۔ حلال اور حرام کی تمیز کے بغیر اصل مقصد کارپوریشن کے منافع محض کو بڑھانا ہوتا ہے اس طرح ملکیت نہ تو شیئر ہولڈرز کی ہوئی نہ ہی مینیجرز کی اور نہ ہی مزدوروں کی تو پھر مارکیٹ میں ملکیت کس کی ہوتی ہے؟ دراصل مارکیٹ میں ہر شخص ایک ہی کا غلام’ بندہ ہوتا وہ سرمایہ ہے اسی لئے ملکیت بھی سرمائے کی ہوئی۔ کارپوریشن جو کہ سرمائے کی ایجنٹ ہوتی ہے۔ وہ ایک نئی قسم کی شخصیت کو قائم کرتی ہے جس کو شخص قانونی (Corporate Porsonality) کہتے ہیں۔ یہ ایسا شخص قانونی ہے جو قلاش تو ہوسکتا ہے مر نہیں سکتا ذاتی ملکیت میں کسی شخص کی ملکیت ہوتی ہے وہ اگر مرجائے تو ملکیت تقسیم ہوجاتی ہے ۔سرمایہ دارانہ تصور ملکیت میں یہ ناممکن ہے۔ اس طرح ذاتی ملکیت کا خاتمہ کارپوریشن کے ذریعہ ہوتا ہے۔
4۔ مارکیٹ میں ہر شخص مزدور بن جاتا ہے:
جب ملکیت ختم ہوجاتی ہے تو پھر ہر شخص ملازم بن جاتا ہے اور کارپوریشن میں ہر شخص ملازم ہوتا ہے یعنی ہر شخص اجرت کمانے والا بن جاتا ہے۔ سرمایہ داری میں ہر شخص مزدور بن جاتا ہے اور اپنی خدمات کو بیچتا ہے جس کے عوض اس کو اجرت ملتی ہے جب سب لوگ مزدور بن گئے تو وہ غلام بن گئے اس کے جس نے اس کے وقت کو خریدا۔ وہ اس وقت کے اندر آپ سے جو چاہے کروائے آپ اس کے پابند ہیں۔
5۔ اصل بازار سود اور سٹے کا بازار ہوتا ہے:
مارکیٹ دو طرح کی ہوتی ہے ایک فنانشل مارکیٹ اور دوسری اشیاء کی مارکیٹ: فنانشل مارکیٹ وہ مارکیٹ ہے جہاں سود اور سٹہ کے بل بوتے پر زر اور اسٹاک کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور اشیاء کی مارکیٹ میں اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں فوقیت چونکہ سرمائے کی بڑھوتری کو حاصل ہوتی ہے اس لئے سرمایہ خود اپنی تلاش میں سرگرداں فنانشل مارکیٹ کو اپنا محور اور مرکز بناتا ہے۔ اس لئے کہ زر اور اسٹاک دونوں ہر لمحے بغیر پیداوار کے عمل میں شریک ہوئے تیزی سے سود اور سٹہ کی بنیاد پر بڑھتے ہیں۔ پیداوار جو کہ سرمایہ دار کی مجبوری ہوتی ہے اس کے لئے بھی اس کو سودی قرضے اور اسٹاک مارکیٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جتنا مارکیٹ کا رجحان غالب ہوگا اتنا ہی سود اور سٹہ کا بازار پیداواری عمل پر غالب آجائے گا اور فنانشل مارکیٹ کی فوقیت پیداواری مارکیٹ کے اوپر ہوتی جائے گی۔ جیسا کہ کسی بھی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں دیکھ سکتے ہیں۔ فنانشل مارکیٹ پیداوار کی مارکیٹ سے کئی گنا بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔
6۔سود اور سٹے کے بازار کا غلبہ:
جب فنانشل مارکیٹ کا غلبہ ہوگا تو اس کا مطلب ہی یہ ہوگا کہ سود اور سٹے کے تحت ہی مارکیٹ میں قدر طے ہوگی۔ فنانشل مارکیٹ جو کہ زر اور سرمائے کی مارکیٹ کا مرکب ہے۔ زر کی مارکیٹ میں زر کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اور زر کی قدر و قیمت سود ہوتی ہے۔ اور سرمائے کی مارکیٹ میں شیئرز کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور یہ خرید و فروخت سٹہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اس طرح سود اور سٹہ کا غلبہ پورے معاشرے پر ہوتا ہے کہ مارکیٹ کا رجحان پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
سرمایہ داری میں ہر شے کی قدر قیمت سے متعین ہوتی ہے وہ شے زیادہ قابل قدر ہوگی جس کی زیادہ قیمت ہوگی۔ شے کسی بھی جگہ ہو اس کی قدر فنانشل مارکیٹ میں طے ہوگی اور اس طرح ہر شے کی قدر سود اور سٹے کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔
یہ تو مارکیٹ کے چند خواص تھے اب ہم ماکیٹ کی تاریخ کو دو ادوار میں بانٹ کر دیکھتے ہیں ایک دور کو فورڈ ازم اور دوسرے دور کو پس فورڈ ازم کہتے ہیں۔
فورڈ ازم کا دور 1933 سے 1980 تک کا دور
یہ سرمایہ کاری کا ابتدائی دور ہے یہ دور دونوں جنگ عظیم اور یورپ کے اندر عظیم کساد بازاری 1930 کے بعد کا دور ہے۔ اس دور کا عروج 1945 جنگ عظیم دوئم کے بعد ہوا۔ سرمایہ داری جیسا کہ ہم نے دیکھا اس کا تعلق مغربی ثقافت سے ہے۔ مغربی ثقافت کے عروج کے ساتھ ہی سرمایہ داری کو عروج حاصل ہوا اس سے پہلے نہ ہی مارکیٹ کا تصور تھا اور نہ ہی سول معاشرہ تھا۔ تاریخ کے اس مطالعہ میں ہم دیکھیں گے کہ کس طرح سرمایہ داری اپنے اندر سے پھوٹنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ساخت میں تبدیلیاں کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر یہ بھی دیکھیں گے کہ سرمایہ داری خود جن اقدار کے اوپر پرورش پاتی ہے ان اقدار کو امر بیل کی طرح خود اپنے ہاتھوں برباد کرکے نئے ادارے اور اقدار قائم کرتی ہے۔ اس طرح سرمایہ داری خود اپنی بربادی (Self distruction) کا سامان کرتی ہے۔ اور پس فورڈ ازم اس کی شکست اور بربادی کا ہی دور ہے۔
فورڈ ازم کے دور میں اس کو جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا تھا وہ اشتراکیت تھا۔ اور اشتراکیت میں بھی مزدور اجتماعیت سے اس کو اصل خطرہ تھا۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ سرمایہ داری ہی کی وجہ سے مزدور اجتماعیت پیدا ہوئی اشتراکیت جو کہ مغربی ثقافت سے ہی نکلنے والا شجر تھا۔ وہ اس بات کا قائل تھا کہ آزادی کا حصول اس وقت ممکن ہے جب مزدوروں کو کارپوریشن کے منافع میں برابر کا حصہ ملے۔ وہ سرمایہ دار کو مزدورں کے حق میں ڈاکہ ڈالنے والا تصور کرتا ہے۔ جس کی تفصیل آگے ملاحظہ کریں گے۔
اس دور میں عیسائی اجتماعیت کی جگہ جن دو اجتماعیتوں کو سرمایہ داری نے مارکیٹ کے فروغ کے لیے استعمال کیا ایک مزدور اجتماعیت اور دوسری قومی اجتماعیت (Nationalism) تھی۔
پس فورڈ ازم 1980 کے بعد کا دور
پس فورڈ ازم کا دور سرمائے کی مکمل آزادی کا دور ہے اس دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اپنی قائم کردہ دو اجتماعیتوں کو خود اپنے ہاتھوں ختم کر دیا۔ ایک مزدور اجتماعیت جو کسی نہ کسی صورت میں سوشل ڈیموکریٹ کی صورت میں موجود تھی وہ مکمل ختم ہو گئی اور دوسرا بریٹن وڈ سسٹم ناکام ہو گیا اور سرمایہ ریاست کے تابع ہونے کے بجائے ریاست سرمائے کے تابع ہو گئی۔
مزدور اجتماعیت:
یورپ میں سوشلزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو زائل کرنے کے لیے جو اجتماعیت قائم ہوئی اس کو سوشل ڈیمو کریٹ کہتے ہیں۔
یہ ایک سیاسی صف بندی تھی جو مزدوروں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گئی کہ سرمایہ داری تمہارے لیے خطرہ نہیں ہے۔ تم سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اجتماعی سودے بازی کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہو۔ اس طرح اس تحریک کے نتیجے میں مزدور نے اپنی بقا سرمایہ داری میں جانی اور سرمایہ داری میں شمولیت کے نتیجے میں مزدور اجتماعیتیں سیاسی طور پر کمزور ہو گئیں۔ سرمایہ داری نے اس دور میں اپنا دوسرا حلیف بنایا جوکہ ریاست تھی اس دور میں ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ سرمائے کی پشت پناہ ہو۔ سرمایہ کی بڑھوتری’ برطانیہ جرمنی جاپان کے اندر ہوتی اور سرمایہ جاپانی’ برطانوی سرمایہ کہلاتا۔ سرمائے کے پیچھے ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہوتی جو کہ سرمایہ کا دفا ع کرتی۔
فورڈ ازم کے دور میں مزدور اجتماعیتیں سوشل ڈیموکریٹ کی وجہ سے باقی رہیں بس ان کی حیثیت تبدیل ہو گئی ان کی حکومت میں شرکت کے نتیجے میں مزدور انقلابی عمل سے دور ہو گئے اور وہ مکمل طور پر سرمایہ داری میں شریک ہو گئے ایسی حکمت عملی کے نتیجے میں اشتراکیت کو مغرب میں شکست ہوئی۔ اشتراکیت مزدور اجتماعیتوں کو متحرک ہونے اور قربانی دینے پر آمادہ نہ کرسکی اس لیے یہ تحریکیں پر امن اور بے جان ہو کر رہ گئیں۔
ریاست کی سطح پر جو نظام قائم تھا اس کو برٹین ووڈ نظام کہتے ہیں۔ اس میں مالیاتی نظام کو چلانے کے لیے ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کیا گیا جس کو آئی ایم ایف کہتے ہیں اس ادارہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ ممبر ممالک کو اس مالیاتی نظام کے تابع کریں جس کے نتیجے میں سرمایہ ان ممالک میں پروان چڑھ سکے۔ مگر جب سرمایہ ریاست میں پروان چڑھنے لگا تو پھر وہ آزاد نہ رہا اور وہ مقید ہو گیا ریاست کی چار دیواری میں۔ ریاست اس سرمائے کو ایسے استعمال کرتی جس سے ریاست کو فائدہ ہو نہ کہ سرمایۂ محض میں اضافہ ہو۔ سرمایہ چونکہ کسی کا پابند نہیں ہے تو 1980 تک ریاست اور مزدوروں کے ساتھ مجبوری کے تحت رہا مگر یہ مجبوری سوشلزم اور قوم پرستی کی کمزوری کے نتیجے میں رفع ہو گئی اور 1980 کے بعد کا پس فورڈ ازم دور اس کی مکمل آزادی کا دور ہے۔
سمزدور اجتماعیت کا خاتمہ:
مزدور اجتماعیت جو کہ اجتماعی سودے بازی کے ذریعہ اپنا حق سرمایہ دار سے لیتی تھی۔ اس پس فورڈ ازم کے دور میں وہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں شامل ہو گئی اور اجتماعی سودے بازی کی جگہ ہر مزدور انفرادی طور پر اپنی اپنی اجرت کمپنی میں طے کرنے لگا جس کو مکمل معیاری مینجمنٹ یا انسانی ذرائع کی مینجمنٹ کہتے ہیں۔ اس میں ہر کمپنی خود اپنے مزدور کو منظم کرتی ہے۔ مزدور بذات خود سرمایہ بن جاتا ہے اسے آپ انسانی سرمایہ کہتے ہیں انسانی سرمایہ کا مطلب یہ ہے کہ مشین اور زمین کی طرح انسان بھی سرمایہ ہے۔
ان نظریات کی پذیرائی کے نتیجے میں مزدور اپنے آپ کو سرمائے میں ضم کر لیتا ہے اور ہر شخص کا ذاتی فائدہ اس میں ہوتا ہے کہ سرمائے میں اضافہ ہوتا رہے دونوں مزدور اور آجر سرمائے کے خادم اور غلام بن جاتے ہیں اور اس طرح اجتماعی سودے بازی اور اجتماعی حقوق وغیرہ بالکل لاحاصل ہوجاتے ہیں۔ مارکیٹ ریاست کی سطح سے بلند ہو جاتی ہے۔ اور کارپوریشن کے اثرات ریاستی پالیسیوں پر بڑھتے جاتے ہیں۔ نجکاری کے نام پر سرمائے کی حاکمیت ہر ادارے پر قائم ہوجاتی ہے۔ ریاست ان منصوبوں کی توثیق کرتی ہے جس سے سرمائے میں اضافہ ممکن ہو تمام ریاستیں ماسوائے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے سرمائے کی باجگزار اور محکوم ریاستیں بن جاتی ہیں۔ یہ دور ایک طرح ریاستوں کی کمزوری کا دور ہے سرمائے کی آخری اجتماعیت ریاست کے کمزور ہونے کے ساتھ سرمایہ کوئی دوسری ایسی اجتماعیت قائم کرنے سے قاصر رہی جس کے ذریعہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔ کارپوریشن جو کہ خود اجتماعیت کو ختم کرتی ہیں سرمائے کے دفاع سے قاصر ہیں۔ اس لیے سرمایہ داری اپنے آ پ کو خود تباہی سے دو چار کررہی ہے۔ان تاریخی حقائق سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے آپ کو سرمائے (مارکیٹ) کے سپرد کردیا تو پھر ہم بھی سرمائے کے مطیع اور بندے بن جائیں گے اور تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن جائے گی۔اس لیے ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ ہم مارکیٹ کی جگہ اسلامی بازار کو فروغ دیں ۔ زر اور اسٹاک کی مارکیٹ سے ناتا توڑ کر اپنے لیے ایک جداگانہ مالیاتی نظام کو کھڑا کریں جو کہ مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے زیر اثر ہو۔
تحریر محمد یونس قادری