مغربی اجتماعیت : اعلیٰ اخلاق یا سرمایہ دارانہ ڈسپلن کا مظہر؟

محمد زاہد صدیق مغل

مغربی اثرات کے تحت اسلامی دنیا میں بیسویں صدی کے دوران جو فکری مواد لکھا گیا اس کا ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ’مغرب کی اجتماعی زندگی چند اعلی انسانی اخلاقی اقدار کا مظہر ہے، لہٰذا مغرب ہم سے بہتر مسلمان ہے بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے‘۔ یہی دعویٰ ان الفاظ میں بھی دہرایا جاتا ہے کہ ’اجتماعی زندگی کی تشکیل کے معاملے میں مغرب ہم سے بہت بہتر اقدار کا حامل ہے، البتہ ذاتی معاملات (مثلاً بدکاری، شراب نوشی وغیرہ کے استعمال ) میں کچھ نا ہمواریاں پائی جاتی ہیں‘۔ دوسرے لفظوں میں یہ دعویٰ کرنے والے حضرات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغرب کا اجتماعی نظم ’اسلامی تعلیمات کی روح ‘ کا عکاس ہے۔ اس دلیل کو درست ماننے کے نتائج یہ نکلتے ہیں کہ (۱) ہم مغرب کے نظم اجتماعی کی اسلامی توجیہ پیش کرکے اسے اپنانے کا اسلامی جواز پیش کرتے ہیں اور (۲) ساتھ ہی ساتھ مغربی انفرادیت کی برائیوں کو ثانوی قرار دے کر نئی آنے والی نسل کے لیے انہیں برداشت اور قبول کرنے کا راستہ کھولتے ہیں۔

درج بالا دعوے کی کمزوری یہ ہے کہ اس کی روشنی میں مغربی معاشرے کے ان تضادات کو سمجھنا انتہائی مشکل ہے جو بڑی آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً عام طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مغرب احترام انسانیت کا بہت قائل ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مغربی انسان نے ماں باپ کو اولڈ ہاوسز کے حوالے کیوں کردیا ہے۔ ظاہر ہے احترام انسانیت کا سب سے پہلا حق دار انسان کے ماں باپ ہیں تو مغرب میں یہ احترام کیوں نہیں پایا جاتا؟ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مغرب میں قانون کی پاسداری ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی مغربی انسان جونہی اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر قدم رکھ کر کمزور ملکوں کی سرحدوں میں داخل ہوتا ہے تو کیوں کر ہر طرح کی کرپشن، ناانصافی، قتل و غارت گری کو روا سمجھتا ہے؟ درحقیقت درج بالا تجزیہ پیش کرنے والے مفکرین مباحث اخلاقیات نیز morality اورethics کے فرق سے ناواقف ہیں اور اسی فکری خلجان کی بنا پر یہ لوگ ’سرمایہ دارانہ ڈسپلن‘ (capitalist disciplines) کو اخلاق کے ساتھ خلط ملط کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا اجتماعی نظم اعلیٰ اخلاق کا نہیں بلکہ انتہائی رزیل انسانی احساسات پر مبنی عقلیت (حرص ، حسد، شہوت، غضب، طول امل، حب جاہ، دنیا و مال) اور اس پر قائم ہونے والی ادارتی صف بندی (مارکیٹ اور ریاست) کے قیام کے لیے مطلوب نظم کی پابندی کا غماز ہے جس میں اعلیٰ اخلاق (مثلاً للہیت، عشق رسول، شوق عبادت، خوف آخرت ،طہارت، تقوی، عفت ،حیا، ایثار، شوق شہادت، توکل، صبر، شکر، زہد، فقر، قناعت ، عزیمت وغیرہ) پنپنے کا کوئی امکان موجود نہیں رہتا۔ اس مضمون میں ہم مختصرا نہی حقائق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ درج بالا مباحث کو سمجھنے کے لیے جن مقدمات کا پیش نظر ہونا ضروری ہے ہم انہیں ترتیب وار بیان کرتے ہیں، وما توفیقی الا باللہ

نیکی کے بجائے لذت پرستی (Utility maximization / Happiness)

مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والی معاشرت و ریاست کا مقصد ایسی ادارتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں فرد کے لیے نیک زندگی (virtous life) گزارنا ممکن ہو سکے، یعنی اسے ثواب کمانے نیز گناہ سے بچنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں، تاکہ مرنے کے بعد وہ جنت کا حق دار بن سکے۔ دوسرے لفظوں میں مذہبی معاشرت و ریاست کی بنیاد یہ اصول ہوتا ہے کہ کس طرح ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جس میں زندگی گزارنے کے بعد ایک فرد کے لیے حق عبدیت ادا کرنا نیز جنت کا حصول آسان تر اور حصول جہنم مشکل سے مشکل تر بن جائے۔ پندرہویں صدی سے قبل یورپ میں جو عیسائی معاشرے قائم تھے ان کی بنیاد کے طور پر بھی یہی اصول تھا۔ البتہ عیسائیت کی داخلی کمزوریوں، یونانی فلسفے کے اثرات کے تحت ابھرنے والی تحاریک نشاۃ ثانیہ واصلاح مذہب ، سرمایہ دارانہ سیاسی انقلابات اور بالآخر تحریک تنویر و رومانویت (یعنی رد مذہب ) و سائنسی علمیت کے غلبے کے نتیجے میں یورپی معاشروں نے نیکی (عبدیت) کے بجائے حصول آزادی (happiness) کو مطمع نظر بنا لیا۔ اپنے گمراہ کن تصورات کو فروغ دینے کے لیے مغربی مفکرین نے یہ خوش کن عذر پیش کیا کہ نیکی ایک مبہم تصور ہے (کیونکہ خدا کیا چاہتا ہے اس میں اہل مذہب کا اختلاف ہے، اس لیے یہ کبھی معلوم نہیں کیا جا سکتا) لہٰذا اس قدر کی بنیاد پر قائم ہونے والے معاشرے اختلاف اور افتراق کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں انسانی عقل کا بدیہی تقاضا آزادی ( حصول لذت ) کو زندگی کا مقصد مان لینا ہے اور انسان آزاد کیسے ہوتا ہے اس کے لیے سائنسی طریقہ علم کو اپنانے کی ضرورت ہے نہ کہ خدا کی کتاب کی طرف رجوع کرنے کی۔

آزادی کا معنی سرمایے میں اضافہ

مغربی علمیت کے مطابق انسان اصولاً آزاد ہے، ان معنی میں کہ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ قائم بالذات بن جائے، لیکن عملاً وہ آزاد نہیں کیونکہ بالفعل اس کی آزادی کو مادی اور سماجی دونوں طرح کی قوتیں محدود کرتی ہیں (مثلاً آج وہ نظام شمسی سے باہر نہیں جا سکتا، زلزلے یا طوفان کو روک نہیں سکتا، ماں باپ کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا، یورپ و امریکہ میں دو شادیاں نہیں کر سکتا، کیوبا میں زمین نہیں خرید سکتا، ایران یا سعودی عرب میں سرے عام بدکاری نہیں کر سکتا وغیرہ)۔ سرمایہ داری ان مادی اور سماجی پابندیوں کے خلاف جدوجہد کا نظام ہے جو ارادہ انسانی کی متصور اصولی آزادی پر لگی ہوئی ہیں یا لگائی گئی ہیں۔ انسان کی اس اصولی مطلق العنان ربوبیت کی عملی تشریح کا وسیلہ سرمایہ کاری ہے کیونکہ آزادی کا معنی ذرائع (سرمایے) میں لامحدود اضافہ کرنا ہے، سرمایہ وہ شے ہے جو فرد کے لیے جو وہ چاہنا چاہتا ہے چاہنا اور پانا ممکن بناتا ہے۔ آزادی کا معنی لامحدود خواہشات کی تکمیل کو عقل کا تقاضا ماننا ہے اور اس جدوجہد پر قدغن لگانے والی شے سرمایہ ہے۔ چنانچہ حصول آزادی بطور قدر کا سرمایے کی چاہت کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب نہ کبھی تھا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ سرمایہ کارانہ عملیات (processes) میں حصہ لینے پر ہر وہ شخص مجبور ہوتا ہے جو آزادی پر ایمان لاتا ہے (انہی معنی میں آزادی کا متوالا عبد الدرہم و دینار ہوتا ہے)۔ سرمایہ دارانہ نظم کا بنیادی وظیفہ ایک ایسی معاشرتی و ریاستی ترتیب وجود میں لانا ہے جو فرد کے لیے حصول سرمایے کے مواقع کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنا سکے۔ مغربی علمیت کا مفروضہ ہے کہ چونکہ ہر انسان فطری (جائز) طور پر حریص ہے لہٰذا دنیا کا ہر انسان سرمایے کی چاہت کو دیگر تمام چاہتوں پر فطری طور پر ترجیح دینا چاہتا ہے، اور اگر وہ ایسا نہیں کررہا یا کرنے پر راضی نہیں تو یقیناًکافر ، بدعقیدہ، جاہل و گمراہ ہے۔ ایسے کافر و گمراہ انسان کی یا تو (بذریعہ تعلیم وترغیب، ماحول وجبر) اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور ناقابل اصلاح ہونے کی صورت میں اس کی سزا پہلے معاشرتی اخراج (social marginalization) اور پھر موت ہے۔

سرمایے کا مطلب مارکیٹ

البتہ مغربی مفکرین کے درمیان اس امر پر سخت اختلاف ہے کہ انسان آزادی کا مکلف کس نظم معاشرت کے ذریعے ہوپاتا ہے۔ اس سوال پر ان لوگوں کے اختلافات درحقیقت انتہائی شدید اور بدنما نوعیت کے ہیں اور ان کے سبب جتنے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیااور جتنے لوگوں کا معاشی و سماجی استحصال کیا گیا، اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دور حاضر میں اس سوال کا جو جواب مقبول اور غالب ہے اسے مارکیٹ اکانومی کہتے ہیں، جو ایک معنی میں اس سوال کا تاریخی طور پر پہلا نظریہ بھی تھا۔ جن مفکرین کے خیال میں فرد کو سب زیادہ آزاد زندگی گزارنے (یعنی سرمایہ جمع کرنے) کے مواقع مارکیٹ اکانومی فراہم کرتی ہے انہیں لبرل سرمایہ دار (liberal capitalists) کہا جاتا ہے۔ لبرل مفکرین کے خیال میں جب ہر شخص اپنی اپنی ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معاشرہ خود بخود بحیثیت مجموعی تمام افراد کے لیے ویلفیئر کا باعث بنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے خیال میں ذاتی اغراض اور لذت کا حصول سوشل ویلفیئر یا مجموعی لذت کی بڑھوتری کا بنیادی سبب و محرک ہے، معاشرے کی مجموعی لذت کا انحصار اس امر پر نہیں کہ لوگ ’مجموعی ‘ لذت یا مجموعی سرمایے کے لیے شعوری جدوجہد کریں، بلکہ اس امر پر ہے کہ لوگ حصول سرمایے کی جدوجہد اپنی ذاتی اغراض کی تسکین کے لیے کریں۔ چنانچہ لبرل مفکرین معاشرے کو مارکیٹ بنانے کے خواہاں ہیں۔ دھیان رہے کہ مارکیٹ سے مراد محض اشیاء کی لین دین نہیں ہوتا، بلکہ اس سے مراد وہ تمام تعلقات ہیں جن کا مقصد ذاتی اغراض کا حصول ہوتا ہے یا جو ذاتی اغراض کی تکمیل کی عقلیت کے تحت قائم کیے جاتے ہیں۔ ان معنی میں ہمارے جدید اسکول، یونیورسٹیاں، ہسپتال وغیرہ سب مارکیٹ بن چکے ہیں۔ انہی معنی میں ہمارے خاندان، بازار، مسجد، مدرسے ،مذہبی و صوفی حلقے مارکیٹ نہیں ہوتے کہ تعلقات کے یہ تانے بانے اغراض نہیں بلکہ محبت، صلہ رحمی واخوت کی عقلیت کے تحت قائم کیے جاتے ہیں۔ لبرلز کی شدید خواہش ہے کہ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ان اداروں کو بھی مارکیٹ نظم کے اندر سمو لیا جائے (جس طرح یورپ وغیرہ میں یہ دخول تقریبا مکمل ہونے کو ہے)۔ لذت پرستی کے حصول کے لیے دیگر نظریات بھی پیش کیے گئے البتہ اس مضمون میں تمام نظریات کا احاطہ کرنا ہمارا مقصد نہیں، لہٰذا ہم دور حاضر کے غالب نظریے پر ہی اکتفا کریں گے۔

مارکیٹ نظم کی ضروریات و مضمرات

لبرل نظریات اور انڈسٹریل انقلاب کے تحت جب روایتی عیسائی مغربی معاشرے مارکیٹ میں تبدیل ہونا شروع ہوئے تو ایک طرف روایت پسند عیسائی اقدار پر مبنی معاشرت و ریاست (system of obedience) تحلیل ہونے لگی اور دوسری طرف ایک نئی طرز کی صف بندی وجود میں آنے لگی۔ مارکیٹ پر مبنی یہ نئی قسم کی سرمایہ دارانہ صف بندی لوگوں سے ایک نئے قسم کے نظم کی پابندی کا تقاضا کرتی تھی۔ اس نئے قسم کی پابندی نظم کو ہم سرمایہ دارانہ ڈسپلن (capitalist public discipline) کہتے ہیں، اور اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مارکیٹ کے پھیلاؤکے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں پر ذیل میں کچھ روشنی ڈالیں۔

نفع خوری پر مبنی عمل پیداوار (For-profit business enterprise) کا فروغ:

سرمایہ دارانہ پیداواری نظم کے نتیجے میں عمل پیداوار میں ایک بنیادی نوعیت کی تبدیلی رونما ہوئی اور وہ یہ کہ روایتی مذہبی معاشروں کے برعکس اب عمل پیداوار حصول جنت ، صلہ رحمی و اخوت نہیں بلکہ نفع خوری کی بنیاد پر استوار ہونے لگا۔ غیر سرمایہ دارانہ معاشروں میں اکثریت کے روزگار کا انحصار نفع خوری پر چلنے والے کاروبار اور سرمایہ کاری پر نہیں ہوتا تھا۔ اس نظام پیداوار کی چند بنیادی خصوصیات ہوتی تھیں:

الف) پیداواری عمل کا بنیادی یونٹ فرم (firm) نہیں بلکہ خاندان، برادری یا قبیلے ہوتے اور پیداواری عمل سے حاصل شدہ پیداوار مشترکہ طور پر صرف (consume) کی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غیر سرمایہ دارانہ نظام پیداوار میں غربت کی شرح اور آمدنیوں کا تفاوت انتہائی کم ہوتا تھا۔ پیداواری عمل کا مقصد efficiency (زیادہ سے زیادہ اضافی پیداوار کا حصول) نہیں بلکہ خاندان کی کفالت اور صلہ رحمی و محبت کو برقرار رکھنا ہوتا تھا، اسی لیے تنخواہ دار لیبر (wage-labor) کا وجود نہ ہونے کے برابر ہوتا، کسی دوسرے کے لیے کام کرنے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا اور لوگ اپنے خاندانی پیشوں سے منسلک ہونے کو بالعموم پسند کرتے تھے

ب) معاشروں پر حرص و حسد کے بجائے قناعت اور شکر گزاری کی عقلیت غالب رہتی اور لوگ زیادہ سے زیادہ صرف کرنے کو زندگی کا مقصد نہ گردانتے۔ دنیاوی زندگی کو ضروریات کی حد تک محدود رکھا جاتا۔ عمل پیداوار کا مقصد خاندان یا قبیلے کی ضروریات کی تکمیل ہوتا نہ کہ اضافی (surplus) پیداوار کے حصول کے ذریعے مزید سرمایے کے حصول کا چکر بڑھاتے چلے جانا۔ دوسرے لفظوں میں ان معاشروں میں ترقی (سرمایے میں مسلسل اضافہ) کوئی پسندیدہ قدر نہ سمجھی جاتی، اشیاء بنیادی طور پر بیچنے کے لیے نہیں بلکہ صرف کرنے کے لیے پیدا کی جاتی تھیں

ج) مسجد، مدرسہ، خانقاہ اور بازار لوگوں کی روز مرہ اجتماعی معاشرت کی تشکیل کے بنیادی ادارے ہوتے تھے جن میں شمولیت کے ذریعے لوگ خود کو سوشلائز کرتے۔

سرمایہ دارانہ ریاستی اور انڈسٹریل انقلابات (جس کی بنیاد ہی اضافی پیداوار کا مسلسل اور لا متناہی حصول تھا) کے نتیجے میں پیداواری عمل خاندانی کفالت و صلہ رحمی کے بجائے نفع خوری (حرص و حسد) کی عقلیت کے تابع ہونے لگا اور یوں دولت سرمایے میں تبدیل ہونے کی ابتداء ہوئی۔ سرمایہ دولت کا استحصال اور اس کانا جائز استعمال ہے، جب دولت کا مقصد بذات خود اس میں مسلسل اضافہ بن جائے تو دولت سرمایہ بن جاتی ہے۔ انہی معنی میں کارپوریشن سرمایے کی عملی تجسیم ہے کہ اس کامقصد وجود ہی سرمایے میں اضافہ ہے۔ اب پیداواری عمل کا مطمع نظر مزید اضافی پیداوار کے حصول کے لیے اضافی پیداوار (production of surplus for the sake of more surplus production) کا حصول بن گیااور کارپوریشنز وجود میں آنے لگیں۔ ریاستی جبر ، بڑی صنعتوں کو فروغ دینے والی پالیسیوں اورنظام بینکاری کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ذرائع کھنچ کھنچ کر کارپوریشنز کے قبضے میں آنے لگے، خاندان کی سطح پر موجود چھوٹے کاروبار کا وجود سکڑنے لگا، تنخواہ دار لیبر عام ہونا شروع ہوئی، لوگ آہستہ آہستہ زیادہ تنخواہ کی لالچ اور چھوٹے کاروبار کے خاتمے کے باعث خاندانوں سے دور شہری علاقوں میں آکربسنے لگے جہاں ان کے آپسی تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی و بھائی چارہ نہیں بلکہ اغراض ہوتی تھی۔ یوں معاشروں کی مارکیٹ سازی (marketization) کا عمل شروع ہوا۔

نئے نظام جبر (system of obedience)کی تشکیل:

انڈسٹریل پیداوار ی عمل کا تقاضا یہ تھا کہ مسلسل کام کیا جائے تاکہ لاگت کم سے کم اور نفع زیادہ سے زیادہ ہو۔ بھاری لاگت سے تیار کردہ مشینوں کو بغیر کام چھوڑا نہیں جا سکتا تھا، لہٰذا ’کام کے اوقات ‘ میں غیر ضروری گفتگو ، چہل پہل، دیر سے کام پر پہنچنا یا آرام وغیرہ کرنا سرمایہ دارانہ منطق (efficiency) کے خلاف تھا۔ لہٰذا جو لوگ دوران کام ان باتوں کا خیال نہ رکھتے انہیں مختلف قسم کی سزائیں دی جاتیں (مثلاً جسمانی، تنخواہ میں کٹوتی، زیادہ کام کی ذمہ داری، کام کے اوقات میں اضافہ )، کون کب آتا اور جاتا ہے اور کام کے دوران کون کیا کرتا ہے اس پر کڑی نظر رکھی جاتی۔ دھیان رہے غیر سرمایہ دارانہ پیداواری عمل اس قسم کی نگرانی (survelience) کا متقاضی نہ ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ انڈسٹریلائزیشن کے ابتدائی دور میں کمپنی مالکان کو لیبر تلاش کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ لوگ اس قسم کی ’پابندیوں اور نگرانی ‘ کے عادی نہ تھے اور نہ ہی اسے اچھا سمجھتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مل مالکان نے مزدوروں کی پیداواری صلاحیت ماپنے اور survelience کے قدرے پیچیدہ طریقے ایجاد کرنا شروع کر دیے (موجودہ دور میں Annual Performance Report اسی کی ترقی یافتہ شکل ہے)۔

نیا سرمایہ دارانہ پیداواری عمل محض مسلسل کام نہیں بلکہ ’وقت‘ کی پابندی کا بھی سختی سے متقاضی تھا۔ صبح فلاں وقت پر ڈیوٹی شروع ہوگی، اس لیے مخصوص وقت پر اٹھنا ہے، فلاں وقت پر اتنی دیر کھانے کا وقفہ ہوگا۔ یہی وہ دور ہے جب گھڑیاں رکھنے کا رواج عام ہونا شروع ہوا کیونکہ روایتی معاشروں میں کوئی ’گھڑی کے اوقات‘ (clock time) کے بارے میں حساس نہ ہوتا (اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پہلے لوگ نماز کی جماعت بھی آج کی طرح گھڑی دیکھ کر ادا نہیں کرتے تھے)۔ مزدور باقاعدہ فیکٹری مالکان کی گھڑیاں چرا لیتے تھے تاکہ وہ لوگوں کے آنے جانے کے اوقات کا اندازہ نہ رکھ سکیں۔ جوں جوں معاشروں کی مارکیٹ سازی کا عمل آگے بڑھا، نئی قسم کی معاشرتی صف بندی کو ممکن بنانے والے جدید اداروں (مثلاً اسکول، ہسپتال) کی صف بندی بھی اسی ’فیکٹری ڈسپلن‘ پر استوار کی گئی (روایتی معاشرے کا حکیم ’مخصوص اوقات ‘ کے جبر کا پابند نہ ہوتاتھا) اور ان اداروں میں خود کو سمونے کے لیے لوگوں نے خود کو اس نئے نظام جبر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ جیسے جیسے معاشروں کی مارکیٹ سازی وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے افراد اسی قدر خود کو سرمایہ دارانہ یا مارکیٹ ڈسپلن کا عادی بنانے پر مجبور ہوتے چلے جاتے ہیں بصورت دیگر سرمایہ دارانہ نظام انہیں سزا دیتا ہے (جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں جگہ بنانا ان کے لیے مشکل سے مشکل تر ہو جاتا ہے)۔ مشہور فلسفی Focault کی کتب (مثلاً Birth of Clinic, Discipline and Punish, Order of Things) میں سرمایہ دارانہ ڈسپلن کے ارتقا کی دلچسپ مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔

’ڈسپلن کے پابند ‘ سرمایہ دارانہ پیداواری نظام نے ’آرام کے اوقات ‘ (Leisure) کا ایک مخصوص احساس اور تصور بھی پیدا کیا۔ کڑی نگرانی، بڑھتی ہوئی تخصیص کاری (specialization) اور دوران کام دیگر تما م کاموں سے قطع تعلق کا نتیجہ کام سے اکتاہٹ اور بیزاری کی صورت میں نکلا، اور لوگوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ کام سے چھٹی کے بعد زندگی کے وہ لمحات شروع ہوتے ہیں جہاں ہم بغیر کسی کی نگرانی اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ ورک ڈسپلن دوران کام ان کی یہ آزادی مکمل طور پر سلب کرلیتا ہے۔ اس ڈسپلن ماحول کی وجہ سے مزدور کو کام سے نفرت ہونے لگتی ہے اور وہ کام نہ کرکے خوشی محسوس کرتا ہے (اسی چیز کو مارکس Alienization سے تعبیر کرتا ہے، یعنی اس کے خیال میں انسان کی فطرت ’پیداواری عمل کا حصہ بننا ہی ہے چونکہ اسی کے ذریعے وہ اپنی انسانیت کا اظہار کرتا ہے‘ مگر سرمایہ دارانہ عمل مزدور کو اپنی فطرت سے متنفر کردیتا ہے)۔ انہی معنی میں سرمایہ داری نے غلامی کی ایک جدید صورت متعارف کروائی جہاں ایک فرد اپنے زندگی کے بہترین اوقات، دن کا وقت، سرمایے کی غلامی میں صرف کرنے پر مجبور ہوتا ہے (ذہن نشین رہے کہ سرمایہ داری کے ابتدائی دور میں کام کے اوقات چودہ سے سولہ گھنٹے تک ہوتے) اور سرمایہ داری اس غلامی کو آفاقی بنا دیتی ہے (کہ اس کے علاوہ روز گار کمانے کے دیگر مواقع معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں)۔ عام طور پر لیژر (leisure) کی شکلیں شام کے اوقات ،ہفتہ وار اور سالانہ چھٹیاں وغیرہ ہوتیں اور لیژر کے یہ اوقات بذات خود ریاستی قانون سازی کا حصہ بننے لگے۔

سرمایہ داری چونکہ ایک نظام زندگی ہے (ان معنی میں کہ یہ زندگی کے ہر شعبے پر غلبہ پانا چاہتی ہے) لہٰذا سرمایے میں اضافے کے لیے لیژر کی کمرشلائزیشن (commercialization of leisure) عمل میں لائی گئی، یعنی بجائے اس سے کہ لوگ لیژر کے اوقات اپنی مرضی سے استعمال کریں ایسے کاموں کو فروغ دیا جانے لگا جن کے ذریعے لیژر کے اوقات کو نفع خوری اور سرمایے میں اضافے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ خاندانی زندگی سے دور اور کام سے اکتاہٹ کے مارے مزدوروں کی لیے ریلوے کمپنیوں نے اپنے سرمایے میں اضافے کی خاطر سستے پکنک ٹرپس اور سیر سپاٹے کے مواقع اور سہولیا ت فراہم کرنا شروع کیں (چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے دادا کی نسل کے لوگ عموماً پکنک میں کوئی رغبت نہیں رکھتے کیونکہ وہ اس ڈسپلن ورک کے مارے ہوئے نہ تھے)، اسی کے زیر اثر کھیل تماشوں اور گانے بجانے کی انڈسٹریز کو فروغ ملنا شروع ہوا (جو اب ٹریلین ڈالر انڈسٹریز کی صورت اختیار کر چکی ہیں)۔ ایسے روایتی کھیل اور ثقافتی تہوار جو سرمایے میں اضافے کے ڈسپلن کا حصہ نہ بن سکے آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے میں زندگی گزارنے والی ننانوے فیصد اکثریت کی صبح اور شام سرمایہ دارانہ تعلقات سے گہری ہوئی ہے، چنانچہ دن کے وقت یہ لوگ کسی کارپوریشن وغیرہ کے لیے کام کرتے ہیں اور شام کے اوقات ٹی وی (جو بذات خود ایک سرمایہ دارانہ اداراہ ہے) دیکھ کر گزارتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سرمایہ دارنہ پیداواری عمل نے پوری طرح انہیں جکڑ رکھا ہے (مگر پھر بھی وہ اس دھوکے کا شکار ہیں کہ وہ جو کرنا چاہیں کرنے کے لیے ’آزاد ‘ ہیں!)۔

خاندان کی تباہی اور اس کے نتائج:

سرمایہ دارانہ پیداواری عمل سے نہ صرف لوگوں کی ذاتی عادات و اطوار متاثر ہوئیں، بلکہ تمام انسانی تہذیبوں کا مشترکہ و قدیم ترین معاشرتی ادارہ یعنی خاندان بھی اس کے اثرات بد سے محفوظ نہ رہا۔ انڈسٹریلائزیشن اور سرمایہ دارانہ مسابقتی عمل اس ادارے کی تباہی کے متقاضی تھے۔ چنانچہ ایک طرف بڑھتی ہوئی پیداواری صلاحیت (production capacity) زیادہ مزدوروں کی متقاضی تھی مگر دوسری طرف مسابقتی عمل قیمتوں میں کمی کا باعث بن رہا تھا۔ اس کا ایک آسان حل سستی لیبر (عورتوں اور بچوں) کو پیداواری عمل میں شامل کرلینا تھا۔ عورت کی مارکیٹ کاری (marketization) کے اس عمل کو سہل بنانے میں ذیل عناصر نے بنیادی کردار ادا کیا:

کمپنیاں عورتوں کو مارکیٹ میں شمولیت پر اکسانے کے لیے آسان شرائط پر نوکریوں کی پیش کش کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتیں

عورت کی مارکیٹ سازی کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بچوں کی پیدائش اور اسکی تربیت سے متعلقہ ذمہ داریاں تھیں، اس کے حل کے لیے ضبط تولید اور خاندانی منصوبہ بندی جیسے نظریات کو فروغ دیا گیا (اس عمل کے لیے Malthus کے گمراہ کن نظریات نے فکری جواز فراہم کیا ) تاکہ خواتین طویل عرصے تک مارکیٹ کا حصہ رہ سکیں اور اس مارکیٹ سازی کے نتیجے میں خواتین کی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تربیت کی جاسکے

تنویری فکر کے زیر اثر مساوات مرد و زن جیسے خوشنما نعروں نیز گھریلو ذمہ داریوں کو حقیر سمجھنے کی روش کا فروغ۔ خواتین کی مارکیٹ کاری کے عمل کو تیز تر بنانے کے لیے ضروری تھا کہ ان کی گھریلوذمہ داریوں کابوجھ کم ہوجائے ، اس ضرورت کو سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کو مزید بڑھوتری دینے کے لیے استعمال کیا گیا جس کے زیر اثر فاسٹ فوڈ، بے بی نیپی، خشک دودھ، واشنگ مشین اور دیگر انڈسٹریز کو فروغ ملا۔

بڑھتی ہوئی خواہشات و معیار زندگی کو پورا کرنا اکیلے مرد کے بس کی بات نہ رہی اور عورتوں کو بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کا بوجھ اٹھانا پڑا (درحقیقت انسانی تاریخ میں عورت پر ہونے والا یہ سب سے بڑا ظلم تھا) ۔

رہائشی لاگت کم رکھنے کے لیے مل مالکان فلیٹ بنانے کو ترجیح دیتے جس کے نتیجے میں پانی، گندگی اور اس جیسے دیگر مسائل کے حل کے لیے انتظامات کرنا بھی ضروری ٹھرے۔ خواتین کی مارکیٹ کاری کے نتیجے میں فواحش و بدکاری عام ہوئے، طلاق کی شرح میں اضافہ ہوااور بچوں کی تربیت کا خاندانی نظام درہم برہم ہوگیا۔ اپنے آبائی خاندانوں سے دور شہروں میں رہنے کے نتیجے میں نئی نسلوں میں اجتماعی زندگی کی اخلاقی قدریں (محبت، حفظ مراتب، صلہ رحمی، پڑوس وغیرہ) منتقل نہ ہوسکیں، اور خاندان کا تصور ’میاں، بیوی اور بچے‘ تک محدود ہوگیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ایسی شہری زندگی وجود میں آئی جہاں لوگ ایک دوسرے کو اپنی ذاتی اغراض کے سواء اور کسی بنیاد پر نہیں پہچانتے تھے۔

عورتوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے بے بی ڈے کئیر سینٹرز بھی وجود میں آئے۔ ظاہر بات ہے روایتی معاشروں کو ایسے کسی ادارے کی ضرورت نہ تھی، اگر وہاں عورت کام کرتی تب بھی اسے بچے کے حوالے سے کوئی پریشانی نہ ہوتی کیونکہ اس کی ساتھی کوئی نہ کوئی عورت (مثلاً ساس، نند، بھاوج وغیرہ ) ضرور اس کے بچے کی کفالت کرلیتی۔ درحقیقت قبائلی یا خاندانی معاشروں میں ایک فرد خود کو قبائلی و خاندانی تعلقات کے تانے بانے میں محفوظ پاتا ہے، اور اسے اپنی حفاظت اور ضروریات کے لیے ریاستی اداروں کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً بیمار ہونے کی صورت میں اسے کسی ایسے بیرونی ادارے کے معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں مریض کے پہنچنے کے بعد ہسپتال کا عملہ خود کار طریقے کے تحت اس کاخیا ل رکھے کیونکہ اس کی تیمار داری کے لیے اس کے عزیز و اقارب کا خود کار نظام موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں اسے کسی تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا، بلکہ اس کی یہ ضرورت خاندانی نظام پورا کرتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے خاندانی نظام درہم برہم ہوا، انفرادیت پسندانہ طرز زندگی عام ہوئی، فرد اپنی حفاظت اور ضروریات کی کفالت کے لیے نئے تعلقات کا محتاج ہوگیا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے فرد کے یہ مسئلے مارکیٹ (یعنی ذاتی اغراض) پر مبنی تعلقات کی بنیادوں پر استوار کیے، جس کے تحت خود کار معالجاتی نظام (caring system) کی طرز پر ہسپتال اور ریسکیو سینٹرز وجود میں آئے جہاں عزیز و اقارب کے بجائے پروفیشنل لوگ فرد کی حفاظت پر معمور ہوتے، اسی طرح مردے کی کارپوریٹائزیشن کے لیے مرنے کے بعد میت کو ٹھکانے لگانے والے ادارے وجود میں آئے۔

غربت اور افلاس کا فروغ اور اس کے مجوزہ حل

ذرائع پیداوار پر مارکیٹ ڈسپلن کے غلبے کے نتیجے میں غربت و افلاس ،معاشی و سماجی ناہمواریوں اور استحصال نے جنم لیا۔ (یہاں اس بات کا دھیان رہے کہ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام میں لوگوں کی مطلق آمدن (absolute income) میں اضافہ ہونے کی بنا پر مطلق (absolute) غربت تو کم ہوجاتی ہے، البتہ اضافی (relative) آمدنیوں کا تفاوت اور اضافی غربت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے میں لوگوں کی آمدنیوں میں مسلسل اضافے کے باوجود ۹۸ فیصد لوگ خود کو محروم اور ناخوش محسوس کرتے ہیں)۔ اس کی بنیادی طور پر چند وجوہات ہیں:

روایتی معاشروں میں عمل صرف اجتماعی (shared) ہوا کرتا تھا، یعنی خاندان یا قبیلہ جتنی دولت پیدا کرتا، سب لوگ اس میں یکساں حصہ دار سمجھے جاتے (اس کی جھلک ہمارے موجودہ خاندانی نظام میں بھی دیکھی جاسکتی ہے)، لہٰذا کوئی شخص نہ تو غریب ہوتا اور نہ ہی افلاس کی وجہ سے بنیادی ضروریات زندگی سے محروم رہتا۔ ان معاشروں میں ایک شخص کا عمل صرف اس کی پیداواری صلاحیت سے منسلک نہ تھا۔ لیکن مارکیٹ نظم کے بعد جب یہ نظام منتشر ہوا اور انفرادیت پسندانہ نظم غالب آنے لگا تو عمل صرف فر دکی پیدواری صلاحیت کے ساتھ براہ راست منسلک ہوگیا۔ مارکیٹ نظم میں ایک شخص کا کل پیداوار میں حصہ اس اصول سے متعین ہوتا ہے کہ وہ نفع خوری پر مبنی پیداواری عمل میں کتنا اضافہ کرنے (نیز اس پر سودے بازی کی کتنی )صلاحیت رکھتا ہے، جو شخص زیادہ efficient ہوگا مارکیٹ اس کی صلاحیتوں کی اسی قدر زیادہ قدر متعین کرے گی اور مجموعی پیداوار میں اس کاحصہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ چنانچہ آبادی کی وہ عظیم اکثریت جو سرمایے میں اضافے کے لائق نہ تھی ان کے روز گار کے مواقع ناپید ہوتے چلے گئے اور خاندانی و قبائلی حفاظت نہ ہونے کی بنا پر وہ افلاس کی چکی میں پسنے لگے ۔

چونکہ لوگوں کی پیداواری اور سودے بازی کی صلاحیتوں میں تفاوت پایا جاتا ہے، لہٰذا ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں تقسیم وسائل لازماً غیر مساویانہ ہوتی ہے (ایک نہایت قلیل اقلیت بہت امیر ہوتی ہے اور غالب اکثریت غربت و افلاس کا شکار ہوتی ہے)۔ درحقیقت سرمایے کی بڑھوتری و گردش کا چکر سرمایے کے ارتکاز (concentration of capital) کا عمل ہے، یعنی سرمایہ بے شمار جگہوں اور ملکیتوں سے کھنچ کھنچ کر مستقلاً چند مقامات اور چند کارپوریشنوں کے زیر تسلط جمع ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام فروغ پاتا ہے معاشرتی، معاشی و سیاسی نامساویت (inequality) بڑھتی چلی جاتی ہے، بے روز گار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے

درحقیقت مارکیٹ میں قیمتوں اور اجرتوں کا تعین اجتماعی سودے بازی کی صلاحیت اور طبقاتی کشمکش کی قوتوں سے ہوتا ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ پیداواری عمل سرمایے کو چند ہاتھوں میں مرتکز کردیتا ہے لہٰذا ان معاشروں میں سیاسی و سماجی قوت بھی انہی چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے۔ نتیجتاً کارپوریشنوں اور بڑے کاروبار مالکان کو لاکھوں مزدوروں کے استحصال کا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ انڈسٹریل انقلاب کے ابتدائی ایام کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یورپ و امریکہ کے حالات کچھ ایسے تھے: ورکنگ ڈے سولہ گھنٹے طویل ہوتا ، فیکٹریوں میں بچوں اور عورتوں سے کام کروایا جاتا، افریقی غلاموں کو روٹی اور کپڑے کے عوض تمام عمر کے لیے ان فیکٹریوں میں جھونک دیا جاتا (مگر بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ یورپی مفکرین ہم سے پوچھتے ہیں کہ اسلام میں غلامی کیوں روا رکھی گئی)، مزدوروں کے کوئی سوشل حقوق نہ ہوتے (مثلاً اگر دوران کام کسی مزدور کا ہاتھ کٹ گیا تو مل مالک اس کی کفالت کا ذمہ دار نہیں)، فیکٹریوں میں کام کا ماحول اتنا خراب ہوتا کہ مزدور دمے کے مرض سے مر جاتے۔

یہ وہ مظالم تھے جو سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ اور استحکام کے منطقی نتیجے کے طور پر سامنے آئے۔ ظاہر بات ہے کہ مارکیٹ نظم کے اندر ان مظالم (غربت، افلاس، استحصال، معاشی ناہمواریوں، سماجی اخراج) کے حل کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں، کیونکہ مارکیٹ ذاتی نفع خوری (private profit maximization) کے تحت کام کرتی ہے۔ اس اصول کے تحت سرمایہ وہیں جائے گا جہاں اس میں مزید اضافے کا امکان ہو۔ ان مظالم کو کم کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ اشتراکی اور سوشل ڈیموکریٹ ریاستوں نے سوشل رائٹس (social rights) کا تصور پیش کیا۔ اہم ترین سوشل رائٹس یہ ہیں:

الف) اجتماعی سودے بازی (collective bargaining) کا حق۔ اشتراکی اور سوشل ڈیموکریٹ مفکرین اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے نمایاں نا مساویت مزدور اور مینجمنٹ (management) کے درمیان تقسیم اختیار اور قوت کے ضمن میں پائی جاتی ہے (مثلاً ایک عام مزدور کمپنی مینجمنٹ کے سامنے بالکل بے بس ہوتا ہے)، لہٰذا مزدور یونیوں کو مینجمنٹ کے عمل میں شرکت اور اجرتوں کے تعین میں اختیارات کے مواقع ملنا چاہیے (تاکہ وہ فیکٹری کے ورکنگ ماحول کو بہتر بنانے نیز مزدوروں کے سوشل حقوق وغیرہ منوانے کے لیے مزدوروں کی پر زور نمائندگی کرسکیں) ۔

ب) غربت، افلاس اور سماجی اخراج ذدہ طبقے کے لیے دوسرا اہم سوشل رائٹ سرمایہ دارانہ ریاستوں سے یہ مطالبہ تھا کہ وہ عوام کو ویلفئیر حقوق کی فراہمی یقینی بنائے، جن کے ذریعے ہر سٹیزن مسلسل بڑھتی ہوئی آمدنی، صحت، تعلیم اور رہائش حاصل کر سکے (غور کیجیے روایتی نظم معاشرت میں یا تو یہ مظالم سرے سے تھے ہی نہیں اور اس قسم کی ضروریات کے حصول کے لیے فرد ریاست کا محتاج نہیں تھا، جو مفکرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’یورپی ریاستوں نے جو ویلفیئر رائٹس اپنی عوام کو دیے وہ مغل سلطنت کیوں نہ دیتی تھی ‘ وہ درحقیقت سرمایہ دارانہ اور غیر سرمایہ دارانہ نظم معاشرت و ریاست کے فرق سے نا واقف ہیں)۔ ان سوشل رائٹس کا مقصد فرد کو مارکیٹ نظم میں شرکت کے لائق بنانا تھا، مارکیٹ سوسائٹی میں ایک شخص یا تو صارف اور یا پھر سرمایہ کار کی حیثیت سے شرکت کرتا ہے، جس شخص کے پاس نہ سرمایہ دارانہ علم ہو، نہ صحت ہو اور نہ خرچ کرنے کے لیے آمدن ہو تو ظاہر بات ہے اس میں مارکیٹ (یعنی سوسائٹی) میں شرکت کرنے کی صلاحیت (capability) ہی نہیں۔ لہٰذا یہ ضروری سمجھا گیا کہ سرمایہ دارانہ ریاست بڑھوتری سرمایے کے عمل کو اس طرح ترتیب دے کہ اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ لوگ سرمایے میں اضافے سے مستفیذ ہو سکیں۔

مذہب کی مارکیٹ کاری اور اس کے ثمرات

سرمایہ دارانہ معاشرہ ہر اس شے کو اپنے اندر سمونے کی خواہش اور صلاحیت رکھتا ہے جس کے ذریعے سرمایے میں اضافہ کرنا ممکن ہو، اور مذہبی شعائر بھی اس اصول سے مستثنی نہیں۔ سرمایہ داری کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہر معاشرے میں وہاں کے عمومی غالب نظریات کے ذریعے اپنا راستہ بناتی ہے۔ یورپ میں اس کا راستہ ہموار کرنے کے لیے پروٹسٹنٹ ازم نے خاص کردار ادا کیا جس نے پوپ کی اجتماعیت کو رد کرکے مذہب کی انفرادیت پسندانہ تشریحات کا علمی جواز پیش کیا۔ چونکہ یہ بالکل ظاہر ہے کہ علوم لدنی سے بے بہرہ شخص کی عقل نفسانی خواہشات ہی کی غلام ہوتی ہے، لہٰذا ہر شخص کو کتاب الٰہی کی تشریح کا حق دینے کا لازمی مطلب وحی الٰہی کو نفسانی خواہشات کے تابع کردینا ہے، یعنی یہ وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک فرد کتاب الہی سے محض اپنی خواہشات کا جواز حاصل کرنے کے لیے رجوع کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پروٹسٹنٹ ازم نے سرمایہ دارانہ ورک ایتھکس (work-ethics) (مثلاً جو دنیا میں زیادہ کامیاب ہے وہی آخرت میں کامیاب ہے، حصول دولت حصول آخرت کا ذریعہ ہے، اصل عبادت چرچ جانا یا ذکر و ازکار کرنا نہیں بلکہ دنیا کے کام زیادہ انہماک سے کرنا ہے، نیز فطرت کا مطا لعہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جتنا بائبل کا وغیرہ) کا مذہبی جواز بھی فراہم کیا۔ سرمایہ دارانہ ریاست روایتی معاشروں میں مذہب کی ایسی تشریحات کو بھر پور فروغ دیتی ہے جن کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ اداروں کا جواز اور ورک ڈسپلن مستحکم ہوسکے۔ موجودہ دور میں اسلامی بینکاری ، اسلامی جمہوریت و اسلامی سائنس کے فکری منہج کی یہی وہ نظریاتی خدمت ہے جس کی بنا پر انہیں سرمایہ دارانہ استعمار کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اسی طرح سرمایہ داری سے ہم آہنگ انفرادی مذہبی اخلاقیات (مثلاً سچ بولنا، ایمانداری، وقت کی پابندی وغیرہ) کی اہمیت بھی خوب اجاگر کی جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر ایسے مذہبی اخلاقیات کے پابند شخص کی نگرانی (survelience) کرنے کی ضرورت نسبتاً کم ہوتی ہے ( کیونکہ وہ اپنے ایمانی تقاضے کی بنا پر اپنا کام پوری مستعدی یعنی efficiency سے کرتا ہے)، ایسا شخص بالعموم ہڑتال وغیرہ کے ذریعے کمپنی مینیجنٹ کے لیے مسائل پیدا نہیں کرتا نیز سرمایہ دارانہ وظائف (وقت پر آنا جانا، کام کے اوقات میں کام کرنا، قرض کی وقت پر ادائیگی وغیرہ) کو بخوبی سر انجام دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرت و ریاست کے استحکام کے لیے ان مذہبی اخلاقیات کے فروغ کی ضرورت کو جدید ماہرین معاشیات نے خوب اچھی طرح بھانپ لیا ہے اور اسی کے زیر اثر آجکل economics and ethics, economics and religioin جیسی شاخیں وجود میں آرہی ہیں۔ مذہب کی اس مارکیٹ سازی کا مقصد سرمایہ دارانہ مظالم کم کرنا بھی ہوتاہے۔ چنانچہ دنیا کی ایسی کوئی سرمایہ دارانہ ریاست نہیں جو تمام سٹیزنز کو مارکیٹ کے مظالم سے چھٹکارا دلانے کی صلاحیت رکھتی ہو، اسی لیے ایسے انفرادی مذہبی اخلاقیات کو اپنانے کی ترغیب دلائی جاتی ہے جو ذاتی نفع خوری پر مبنی عمومی نظم اجتماعی کے ظلم و جبر کو نسبتاً کم کرسکیں (مثلاً خیرات کرنے کا جذبہ اس لیے اجاگر کیا جاتا ہے تاکہ افلاس کے شکار لوگوں کا بندوبست ہوسکے وغیرہ)۔ مذہب کی مارکیٹ سازی میں سب سے اہم کردار ٹی وی ادا کرتا ہے جس کی ایک مثال امریکہ میں اونجلیکل (evangelical) عیسائیت کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے (اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے ہمارا مضمون ’ٹی وی اور تبلیغ اسلام‘ ماہنامہ محدث لاہور، شمارہ اگست ۲۰۰۸)۔

علم کی مارکیٹ کاری

مذہبی تہذیبوں میں علم سے مراد خدا کی مرضی جان کر اس کے مطابق عمل کرنا سمجھا جاتاہے، اس کے مقابلے میں لذت پرستانہ تصور زندگی کے مطابق علم سے مراد ایسی بات جاننا ہے جس کے ذریعے انسان اس چیز پر قادر ہو جا ئے کہ اس کے ارادے کی تکمیل کیسے ہوسکتی ہے۔ وہ علم جو انسان کو یہ بتا تا ہے کہ کائنات پر اس کے ارادے کا تسلط کیسے ممکن ہے اسے ’سائنس ‘ کہتے ہیں ۔ لہٰذا لذت پرستی و ترقی کا اصل معنی علم کو سائنس کے ہم معنی قرار دینا ہے، یعنی ترقی سے مراد ان معلومات میں اضافہ ہے جو انسانی ارادے کی تکمیل کو ممکن بناتی ہوں ۔ گویا مغربی تہذیب میں ’ارادے و خواہشات کی تکمیل ‘ ہی معلومات کے مجموعے اور عالم (knower)کے درمیان تعلق کی بنیاد ٹھہر ا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں علم وہ چیز جاننا نہیں ہے کہ جس سے انسان اپنے رب کی رضا جان لے ( یعنی علم یہ نہیں کہ مجھے وضو یا غسل وغیرہ کرنے کا طریقہ اور مسائل معلوم ہو جائیں) بلکہ علم تو یہ ہے کہ میں یہ جان لوں کہ پنکھا کیسے چلتا ہے، بجلی کیسے دوڑتی ہے، جہاز کیسے اڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا اب علم رضا ئے الہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں، بلکہ تسخیر کا ئنا ت یا با الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کے ہم معنی بن گیا ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں علم اللہ تعالی کی رضا نہیں بلکہ نفس انسانی کی رضا اور اس کی تکمیل کا سامان فراہم کرنے والی معلومات کا نام پڑ گیا۔ تصور علم کی یہ تبدیلی انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی تبدیلی تھی جس نے انسان کی کامیابی کو کسی خدا کی اطا عت (obedience) کے ساتھ نہیں بلکہ لا متناہی خواہشات انسانی کی تکمیل و ارادہ انسانی کے تسلط (dominance) کے ساتھ مشروط کر دیا۔ اس تصور علم میں فطرت ان معنوں میں انسا ن کی حریف ٹھہری کہ یہ انسانی ارادے کی تکمیل پر حد بندی کرتی ہے اور اسے تسخیر کرکے انسا نی ارادے و خوا ہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا ضروری ٹھہرا۔ آج بھی مو جودہ سائنسی علمیت کا یہ جنون ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اس کے اپنے سواء ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔

پس جدیدی فلسفیوں کے بقول سرمایہ دارانہ (یا سائنسی علمیت ) کی اقداری حقیقت ’خرید وفروخت‘ کے معنی خیز الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے۔ چونکہ آزادی کا مطلب سرمایے میں اضافہ ہے، لہٰذا علم بھی اسی کے ہم معنی ٹھرا۔ سرمایے کی بڑھوتری کا عمل اسی وقت ظہور پزیر اور قوی ہوتا ہے جب علم بذات خود نفع خوری (profit-maximization) کے نظم (Discipline) کا پابند اور اس کے تابع ہوجائے ، یعنی علم تعمیر کیا جائے ’بیچنے‘ کے لیے اور اسے ’خریدا ‘ جائے صرف (consumption) کرنے کے لیے and purchased for consumption۔ دوسرے لفظوں میں لذت پرستی کی ذہنیت علم کو خریدوفروخت میں تبدیل کردیتی ہے اور خرید و فروخت کی یہ ذہنیت ہی سرمایہ دارانہ علمیت (طبعی و عمرانی سائنسز) کا اصل جوہر (essence) ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات سے لیکر سوشل و بزنس سائنسز کی تحقیقات تک خرید وفروخت کے اسی عمل کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مثلاً جب ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر یا بزنس سائنس کا طالب علم چار سال کی محنت شاقہ کے بعد اپنے تعلیمی کیرئیر کے آخری سال میں اپنا تحقیقی کام (Research project) کرنے لگتا ہے تو اس کے اساتذہ اس کے پلے یہ ہدایت نامہ باندھتے ہیں: ’بیٹا ایسا کام کرو جس کی کوئی مارکیٹ میں مانگ (Market value) ہو ، فضول کاموں میں وقت برباد مت کرو‘۔ درحقیقت یہی نصیحت تمام تر علم اور ٹیکنالوجی کا نقطہ آغاز و انتہا ہوتا ہے۔ تعلیم، تحقیق اور کنسلٹنسی (consultancy) کے تمام تر ادارے اسی اصول پر اور ایسا ہی علم تعمیر کرتے ہیں جسے زیادہ متوقع منافع و آمدنی کے ساتھ کمپنیوں کو بیچنا ممکن ہو، اور کمپنیاں ایسے ہی علم کو خریدتی ہیں جسے وہ اپنے پیداواری عمل میں استعمال کرکے مزید اشیاء بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ خرید و فروخت کے اس علم کی پروان کے ساتھ معاشروں کی ’مارکیٹ کاری ‘ مستحکم تر ہوجاتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی معاشرے میں سائنسی علوم عام ہوں اور افراد میں ذاتی اغراض اور حرص و حسد نیز دیگر اخلاق رزیلہ پروان نہ چڑھیں۔ یہ تعلق بالکل ایسا ہی ہے جیسے مذہبی علوم کا مقصد افراد میں زہد، تقوی ، عزیمت ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفنا جیسی صفات عام کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ علوم کی بالا دستی کا مطلب در حقیقت افراد کی ذہنیت اور معاشروں کو خرید وفروخت کے نظم میں شامل اور تابع کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ایسے علوم (مثلاًمذہبی علم) جو خریدوفروخت کی کسوٹی پر پورا نہ اترتے ہوں یعنی جنہیں خریدنے اور بیچنے کے نتیجے میں سرمایے کی بڑہوتری کے مواقع کم ہوں ان کے پنپنے کے مواقع بھی اتنے ہی کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ علم کے اس جا ہلانہ تصور کو عوام الناس میں رائج کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس وقت کے معاشروں میں پائے جانے والے مقبول عام تصور علم کو غیر معتبر اور لا یعنی ثا بت کیا جائے۔ قرون وسطی میں موجود علمیت کوئی اور نہیں بلکہ عیسائی علمیت تھی جسے ہر طرح کے جھوٹے پروپیگنڈوں اور نام نہاد عقل پرستی کے دعووں کی آڑ میں حقارت سے دیکھا جا نے لگا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ کہ عوام الناس کا عیسائی علمیت سے ایمان کمزور کرنے کے لیے سب سے ضروری یہ تھا کہ اس علمیت کے حا مل فرد یعنی پوپ (اور ہمارے معاشروں میں مولوی) کی شخصیت کو متنازع اور مشکوک بنا یا جائے۔ اس کامقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کا رابطہ ان مذہبی پیشواوں سے ٹوٹ جائے جہاں سے انہیں دنیا کے دارا لا متحان ہونے اور آخرت کی تیاری کا سبق ملتا ہے تاکہ جدیدیت کے حامی ان کے قلوب میں دنیا داری کے بیج بو سکیں۔ جدیدیت دنیا کے جس ملک میں بھی گئی اس نے مذہبی پیشواؤں کے عوامی اثر و رسوخ کم کرنے کے تمام حربے استعمال کیے ۔

دھیان رہے یہ تمام تر تبدیلیاں سرمایہ دارانہ پیداواری عمل میں زیادہ سے زیادہ افراد کو سمونے کے لیے سرمایہ دارانہ بنیادوں (for-profit business enterprise) کے تحت رونما ہوئیں۔ تنویری مفکرین (اور ان کے زیر اثر لبرل مسلم مفکرین) یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ سرما یہ دارانہ نظام فرد کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ جیسی زندگی گزارنا چاہے گزار سکتا ہے، مگر یہ سراسر جھوٹ ہے۔ درج بالا تجزئیے کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ دارانہ پیداواری عمل نے انسانی زندگی کے انتہائی پاکیزہ ترین اداروں کو تباہ و برباد کرکے فرد کو مارکیٹ ڈسپلن اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ سرمایہ دارانہ نظام اس حد تک فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرتا ہے کہ ’اس کے بچوں کی تعداد‘ اور ’ان کی تربیت کے پیمانوں ‘ تک کے فیصلے مارکیٹ نظم کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام فرد کو ایک ایسی زندگی گذارنے پر مجبور کردیتا ہے جس میں وہ سرمایے کی غلامی کے سواء کچھ اور کرنے کے لائق نہیں رہتا۔ اس حقیقت کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ Market is a totalizer (یعنی مارکیٹ فردکی ذاتی و اجتماعی زندگی پر پوری طرح حاوی ہوجاتی ہے)۔

نتائج

درج بالا تفصیلات سے ہم ان نتائج پر پہنچتے ہیں کہ:

۱) مغربی نظم اجتماعی اور ادارے اس مارکیٹ ڈسپلن کا اظہار ہے جو ذاتی اغراض پر مبنی سرمایہ دارانہ پیدواری عمل کے قیام، تشکیل و استحکام کے لیے لازمی حیثیت رکھتا تھا۔ مغربی معاشروں میں سڑکوں پرٹریفک سگنلز کی پابندی، ہسپتالوں میں مریضوں کے خیال کا نظام، قطاروں میں اپنی باری کا انتظار وغیرہ اخلاقیات نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظم ڈسپلن کی پابندی اورsurvelience کا نتیجہ ہے (یہ ایسی چیزیں ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے قیام کے لوازمات ہیں اور ایک سٹیزن کے اس ذمہ دارانہ سرمایہ دارانہ شعور (mature capitalist subjectivity) کا اظہار ہے جو سٹیزن کے اندر ایک سرمایہ دارانہ نظم میں زندگی گزارنے کے بعد ارتقاء پزیر ہوتا ہے)۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ پیداواری نظام ہمارے معاشروں کو اپنی جکڑ میں لیتا جا رہا ہے (جیسے شہروں کو) ویسے ویسے ہماری عوام بھی سرمایہ دارانہ ایتھکس (ethics) کے پابند ہوتے چلے جارہے (مثلاً اب ہمارے ہاں بھی لوگ اطمینان کے ساتھ گھنٹوں قطار میں CNG کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں)۔ یہیں سے ایتھکس (ethics) اور اخلاقیات (morality) کا فرق سمجھا جا سکتا ہے۔ ایتھکس (ethics) کا مطلب کسی بھی کام کو اس کے منطقی لوازمات و مضمرات کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ سر انجام دینا ہوتا ہے۔ اس بات کو اس دلچسپ مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ ہماری نظر سے ایک کتاب گزری جس کا عنوان تھا Ethical guide for call girls (جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ جسم فروشی کے پروفیشن سے منسلک خواتین کی procedural ذمہ داریاں کیا ہیں)۔ اس کے برعکس اخلاقیات (morality) کا مطلب یہ ہے کہ فرد خواہشات میں ترجیحات کا پیمانہ قائم کرسکے، یعنی یہ سوال اٹھائے کہ قدر ( اچھا اور برا) کیا ہے۔ یہ سوال کہ انسا ن کو کس چیز کی خواہش کرنا چاہیے تنویری یا سرمایہ دارانہ نقطہ نگاہ سے ایک ناقابل تفہیم سوال ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تنویری مفکرین کے مطابق حصول آزادی واحد مقصد حیات ہے اور چونکہ وہ ہر انسان کو اس حق کا مکلف گردانتے ہیں، لہٰذا ان کے نزدیک ہر شخص کو مساوی حق ہے کہ وہ جو چاہنا چاہتا ہے چاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنویری فکر کسی ابدی اخلاقیات کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے، اس کا مقصد حصول آزادی کی جستجو ہے اور چونکہ آزادی لا حاصل (درحقیقت کچھ نہیں محض خلا ) ہے، لہٰذا قدر کا اثبات کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ ایتھکس (ethics) کا تعلق کسی فعل کی ادائیگی و تنفیذ کے لیے اس کی داخلی prodecural consistency (عملی ہم آہنگی) سے ہوتا ہے، جبکہ اخلاقیات کا تعلق کسی فعل کی قدر سے متعلق سوال اٹھانا ہے۔ قدر کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ سوال اٹھاس کے کہ اسے کیا چاہنا چاہیے اور کیا نہیں، کیا اہم ہے اور کیا غیر اہم۔ چونکہ تنویری فکر میں اخلاقیات کی بنیاد صرف انسانی خواہشات ہیں، لہٰذا اخلاقی قدروں کا تعین وہاں ناممکن ہے کیونکہ یہ بالکل واضح ہے کہ نفس لوامہ خواہشات کو صرف احکام الہی کے سامنے تول کر ہی پرکھ سکتا ہے اور اگر احکامات الہی سے انکار کرکے انسان خدا بن بیٹھے تو نفس امارہ نفس لوامہ پر غالب آجاتا ہے۔ ہائیڈیگر کہتا ہے کہ مغربی علمی تناظر میں ’نفس لوامہ کی بحث صرف خاموشی ہے‘ (discourse of discriminatury self is pure silence)۔ وہ نفس جس کے احکام کی بنیاد خواہشات ہوں، قدر کی پہچان اور علم و عرفان کے حصول سے قاصر رہتا ہے۔ قدر کا تعین صرف احکام الہی کی بنیاد پر ممکن ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے امام اشعری و غزالی نے صدیوں پہلے بیان فرما دیا تھا کہ خیر و شر اعمال کے ذاتی نہیں بلکہ شرعی اوصاف ہیں، انسانی عقل، وجدان یا فطرت میں صلاحیت نہیں کہ انکا ادراک کر سکے۔

ایتھکس (ethics) اور اخلاق کا فرق ایک اور مثال سے سمجھا جا سکتا ہے، اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کھانا کس طرح کھایا جائے تو ظاہر بات ہے اس فعل کو سر انجام دینے کے بے شمار ممکنہ طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ( مثلاً کھڑے ہوکر، چلتے ہوئے، بیٹھ کر، لیٹ کر، جانور کی طرح کھانے میں منہ مار کر، رکابی میں ڈال کر، ہاتھ سے، چمچ کانٹے سے، زمین پر بیٹھ کر، کرسی پر بیٹھ کر وغیرہ)۔ ان میں سے جو بھی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ہر طریقہ کار کی ادائیگی کے چند جداگانہ عملی لوازمات ہوں گے جن کے بغیر اس کی ادائیگی نامکمل تصور کی جائے گی، چنانچہ ان بے شمار ممکنہ طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کار کو اپنا کر اسے اس کے منطقی لوازمات کے ساتھ ادا کرنا ایتھکس (ethics) ہے (انہی معنی میں کرسی میز پر بیٹھ کر کھانے کی ایتھکس (ethics) چلتے پھرتے یا بیٹھ کر کھانے کی ایتھکس سے مختلف ہوگی)۔ اس کے مقابلے میں اخلاقیات کا مطلب یہ سوال اٹھانا ہے کہ ان بے شمار ممکنہ طریقوں میں سے کون سا طریقہ بہتر و افضل ہے، ظاہر بات ہے عقل یا وجدان کی روشنی میں اس کاکوئی جواب دینا ممکن نہیں اور یہاں قول فیصل یہی ہوگا کہ حضور پر نور ﷺ نے کس طرح کھانا کھایا اور درحقیقت یہی طریقہ اخلاقیات کا مظہر ہے (حدیث شریف انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق یعنی ’مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے‘ کا معنی یہی ہے)۔ اس طریقہ کار کے سواء دیگر طریقے ethical تو ہو سکتے ہیں مگر moral نہیں۔ اسی طرح بدکاری کو فروغ دینے کے بہت سے ethical طریقے تجویز کیے جا سکتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ سب غیر اخلاقی (immoral) ہوں گے۔ انہی معنوں میں مغربی اجتماعیت ethical تو ہے (کہ وہاں سرمایہ دارانہ نظم ڈسپلن داخلی ہم آہنگی کے ساتھ ہمارے معاشروں کے مقابلے میں قدرے بہتر طور پر نافذ ہے)، البتہ یہ کسی طور اخلاقی نہیں (بلکہ اخلاق بد کا مظہر ہے) ۔ اسی لیے ہم پورے شرح صدر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ’مغرب کا اجتماعی نظم اعلی اخلاق نہیں بلکہ انتہائی رزیل انسانی احساسات پر مبنی عقلیت (حرص، حسد، شہوت، غضب، طول امل، حب جاہ دنیا و مال) اور اس پر قائم ہونے والی ادارتی صف بندی (مارکیٹ و ریاست) کے قیام کے لیے مطلوب نظم کی پابندی کا غماز ہے‘۔ یہی وجہ ہے کہ کسی سرمایہ دارانہ معاشرے میں اعلی اخلاق (مثلاً للہیت، عشق رسول، شوق عبادت، خوف آخرت ،طہارت، تقوی، عفت، حیا، ایثار، محبت، شوق شہادت، توکل، صبر، شکر، زہد، فقر، قناعت ، عزیمت وغیرہ) نہیں پنپتے۔ جو مسلم مفکرین ethics اور morality کے اس فرق سے واقف نہیں اور مغربی اجتماعیت کو اسلامی اقدار کا غماز قرار دینے کی غلط فہمی کا شکار ہیں وہ اس بات کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں دے سکتے کہ آخر مغرب میں (اور جہاں کہیں یہ نظام پروان چڑھتا ہے وہاں) درج بالا اخلاقی قدریں کیوں نا پید ہوجاتی ہیں۔

۲) مغرب میں جسے rule of law اور سوشل رائٹس کہا جاتا ہے ان کی فراہمی کا مقصد سٹیزن کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ مارکیٹ نظم میں شامل ہو کر سرمایے کی بڑھوتری کے عمل میں اپنا کردار ادا کرسکے اور اس عمل میں شرکت کے ذریعے اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کرسکے (یعنی لذات کو فروغ دینے کا مکلف بن سکے)۔ یہی سرمایہ دارانہ عدل ہے اور سرمایہ داری کی تاریخ اسی عدل کے حصول کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ اس سرمایہ دارانہ عدل (جو درحقیقت ظلم ہے) کی فراہمی کو خلافت کا مظہر سمجھنا ناسمجھی کے سواء اور کچھ نہیں کیونکہ نفس پرستی کے فروغ کے نتیجے میں عبدیت ہرگز پروان نہیں چڑھتی۔

۳) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’مغرب ہم سے بہتر مسلمان ہے‘ وہ درحقیقت سرمایہ داری کو بطور نظام زندگی نہیں پہچانتے اور نہ ہی انہیں مغرب میں اس کے معاشرتی ارتقا و لوازمات کا ادراک ہے۔ حقیقت یہ نہیں کہ مغرب ہم سے بہتر مسلمان ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی ’ہم مغرب سے برے سرمایہ دار ہیں‘۔ مغرب میں چونکہ سرمایہ دارانہ نظام دو صدیاں قبل مستحکم ہونا شروع ہوگیا تھا لہٰذا ان کے ہاں سرمایہ دارانہ ڈسپلن اور ادارے پختہ ہو چکے ہیں، ان کی معاشرت و ریاست خاندانی تعلقات کے تانے بانے (web of relationships) سے نکل کر مارکیٹ نظم میں پوری طرح سمو چکی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں دو نظاموں کے درمیان کشمکش کا دور ہے، تہذیبی تبدیلیوں کے معاملے میں ایسے دور کو عبوری دور (transitionary phase) کہا جاتا ہے۔ اس دور کی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ ایک نظام تحلیل ہورہا ہوتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا نظام اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے توڑ پھوڑ کے عمل کا شکار ہوتے ہیں اور نتیجتاً فرد کو نہ تو پرانے نظام کا عدل اور نہ ہی نئے نظام کا عدل پوری طرح میسر ہو پاتا ہے اور وہ گونا گوں نفاق کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے (یعنی جسے پسند نہیں کرتا کرسکتا وہی ہے ، اور جسے پسند کرتا ہے اسے کرنے کے مواقع نہیں پاتا)۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں سرمایہ دارانہ ڈسپلن کی پابندی اور اداروں کی کارکردگی نسبتاً خراب ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مغرب میں سرمایہ دارانہ مظالم ہمارے معاشروں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہیں اور وہاں سٹیزن کے لیے سرمایہ دارانہ عدل کی فراہمی نسبتاً بہتر ہے ]حضرت علیؓ کی طرف ایک مشہور قول منسوب ہے کہ ’کفر کے ساتھ حکومت کی جاسکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں‘۔ اگر واقعی یہ نسبت درست ہے تو ہمارے نزدیک اس قول میں ظلم کفر کے مقابلے میں استعمال نہیں ہوا کیونکہ کفر بذات خود ظلم ہے اور حضرت علیؓ جیسی علمی شخصیت سے بعید ہے کہ وہ کفر کو ظلم سے علیحدہ قرار دیں گے، اس قول کا معنی یہ ہیں کہ اگر کفر بھی اپنا تصور عدل( جو درحقیقت ظلم ہی ہوتا ہے) پیہم فراہم کرنا شروع کردے تو اس کی حکومت بھی قائم رہ سکتی ہے (جیسے سرمایہ دارانہ حکومتیں قائم ہیں) اور اگر اہل حق اپنے تصور عدل کی تنفیذ سے پھر جائیں (یعنی اس کے ساتھ ظلم کریں) تو ان کی حکومت بھی قائم نہ رہے گی۔ دوسرے لفظوں میں ایک ظالمانہ نظام عدل (مثلاً سرمایہ دارانہ عدل) اگر بھر پور طریقے سے فراہم کیا جائے تو وہ بھی قائم رہ سکتا ہے اور اگر ایک منصفانہ نظام عدل کے ساتھ ظلم کیا جائے (یعنی اسے فراہم نہ کیا جائے) تو وہ بھی دنیاوی اعتبار سے مغلوب ہو جائے گا، گویا حضرت علیؓ اس قول میں اہل ایمان کو یہ تلقین فرما رہے ہیں کہ اسلامی تصور عدل کی محض تبلیغ ہی کافی نہیں بلکہ اس کانفاذ بھی ضروری ہے کیونکہ اگر تم اپنے عدل کی تنفیذ نہ کرکے اس کے ساتھ ظلم کرو گے تو کافر اپنے ظلم کی تنفیذ کرکے تمہیں زیر کر سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی تشریح حضرت علیؓ جیسی بالغ النظر شخصیت کے شایا ن شان ہے نہ کہ وہ غلط تشریح جو عام طور پر بیان کی جاتی ہے[۔

۴) جیسا کہ عرض کیا گیا کہ سرمایہ دارانہ عدل ظلم ہے کیونکہ یہ عبدیت نہیں بلکہ آزادی یعنی لذت پرستی کے فروغ کا دوسرا نام ہے۔ جب اسلامی تحریکات مغربی اجتماعی نظم کو اسلامی اقدار کا عکاس فرض کرکے اسلامی معاشروں کو مغربی آدرشوں (آزادی، مساوات، ترقی، ہیومن رائٹس، سوشل رائٹس) اور ادارتی صف بندی (سائنس، جمہوریت، مارکیٹ، بینکاری، سول سوسائٹی) پر استوار کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں تو درحقیقت وہ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کا اسلامی جواز فراہم کرتی ہیں (جو ایک انتہائی فاسد فکری رویہ اور خطرناک حکمت عملی ہے)۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بیشتر سیاسی اسلامی تحریکات نے سرمایہ دارانہ نظم ڈسپلن کو ٹیکنیکل اور غیر اقداری ڈھانچہ فرض کرکے اسے مقاصد شریعت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ان کے خیال میں اس ملحدانہ ڈھانچے کے نفاذ کے ذریعے ضروریات دین کی تکمیل کرنا ممکن ہے۔ یہی وہ فاسد خیال ہے جس کی وجہ سے ہمیں سکینڈنیوین (scandinavian) ممالک کی سرمایہ دارانہ ویلفیئر ریاستوں میں خلافت راشدہ کی جھلک دکھا ئی دیتی ہے، فیا للعجب (گویا یا تو ان حضرات کا یہ مفروضہ ہے کہ ان مما لک میں بسنے والے لوگ مانند صحابہ ایمان و کردار کے حامل ہیں اور یا پھر ان کے خیال میں خلافت راشدہ کے قیام کے لیے صحابہ جیسا ایمان و کردار سرے سے درکار ہی نہیں)۔

۵) اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ مغربی معاشروں میں بھلائی (مثلاً خیرات کرنا، چرچ جانا وغیرہ) کے جو چند شعائر ہمیں دکھائی دیتے ہیں ان کی کیا توجیہ کی جائے، تو اس کاجواب یہ ہے کہ ایک فرد بیک وقت دو مختلف اور متضاد عقلیتوں (rationalities) کا شکار ہو سکتا ہے اور ایسا اکثر ہوتا ہے کہ زندگی کے کسی ایک گوشے میں وہ ایک عقلیت سے اور دوسرے حصے میں دوسری عقلیت سے متاثر ہوکر فیصلے کرتا ہے۔ مغربی فرد بھی کسی حد تک اسی مخمصے کا شکار ہے، چنانچہ ایک طرف وہ قدیم عیسائی شناخت کا وارث ہے (یہ اور بات ہے کہ اس کی شناخت کا یہ شعور اس کی زندگی کے بیشتر معاملات میں لایعنی ہو چکا ہے) مگر ساتھ ہی ساتھ وہ ایک غالب ملحدانہ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے قالب میں خود کو ڈھال چکا ہے۔ گو کہ عیسائی انفرادیت اور عصبیت مغربی ممالک میں نہایت کمزور ہو چکی ہے البتہ یہ پوری طرح ختم نہیں ہوگئی (ظاہر بات ہے انسان کبھی بھی پوری طرح شیطان کی مانند شر محض نہیں بن جاتا بلکہ بد سے بد تر انسان میں بھی خیر کا کوئی نہ کوئی پہلو بہرحال موجود رہتا ہے)۔ پس مغربی فرد کے شعور پر جس حد تک ایک محدود عیسائی انفرادیت و شناخت کے اثرات باقی ہیں اسی قدر ان معاشروں میں خیر کے چند مظاہر ابھی تک باقی ہیں۔ یہ بات بھی دھیان میں رہنی چاہیے کہ سرمایہ داری مذہب کو مکمل طور پر نیست و نابود نہیں کردیتی بلکہ فرد کو اس کی ایک ایسی تشریح قبول کرنے پر راضی کرتی ہے جس کے ذریعے وہ بارضا ورغبت سرمایہ دارانہ ڈسپلن اختیار کرلے نیز سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم کا مداوا کیا جا سکے (جیسا کہ اوپر بتایا گیا)۔

۶) سرمایہ دارانہ خطوط پر معاشروں کی مارکیٹ کاری خود بخو دکسی فطری قانون کے تحت رونما نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لیے بھرپور سرمایہ دارانہ ریاستی جبر درکار ہوتا ہے (یعنی سرمایہ داری evolution نہیں بلکہ engineering کے نتیجہ میں بر آمد ہوتی ہے)۔ اس ضمن میں سرمایہ دارانہ ریاست کی ذمہ داریوں کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے۔