فلسفہ یونان کا ابطال: امام غزالی کا طریقہ کار
تحریر (انگریزی) علی محمد رضوی، ترجمہ: ریحان احمد
تعارف:
اس مقالے کو ضابطِ تحریر میں لانے کا مقصد ان اصولوں کی تفہیم کی کوشش ہے جو مغربی فلسفہ اور بالخصوص یونانی مابعد الطبیعات کی تنقید سے متعلق امام غزالی کی تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ اس مطالعاتی جائزہ کو ہم کئی حصوں میں منقسم کرکے دیکھ سکتے ہیں مثال کے طور پر
١) اس تناظر سے مکمل واقفیت حاصل کی جائے جس کے تحت امام غزالی یونانی فلسفہ کی بنیادوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں کیوں کہ اس سے ہمیں امام غزالی کی تنقید کے بنیادی محرکات کو جاننے میں بھی مدد ملے گی۔
٢) اس دور میں مختلف افکار و نظریات اور عقائد و اعمال کی جانب سے درپیش مختلف النوع خطرات کا تجزیہ اور ان کا سدباب۔ اس ضمن میں آپ کے اصول و تفریقات اہم ہیں۔
٣) فلسفہ و منطق کے وہ عمومی اصول جو استدلال کے دوران امام نے استعمال کیے اور ان کی کس طرح توجیہہ بیان کی۔
٤) پھر وہ خاص اصول جو یونانی مابعد الطبیعات کی رد تشکیلیت کے سیاق میں امام نے نہایت عمدگی سے استعمال کیے۔
امام غزالی کے فکری کام کی اہمیت:
ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام غزالی کی منہاج کا مطالعہ کیوں ضروری ہے اس سوال کے جواب کے لیے مشہور مستشرق منٹگمری Watt کا تبصرہ قابل غور ہے۔
”مشرق و مغرب امام غزالی کے فکری مقام کی بلندی کے اس درجہ قائل ہیں کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد امام کو سب سے بڑا مسلمان گردانتے ہیں اور آپ بجا طور پر اس مقام کے مستحق بھی ہیں آپ کی شخصیت کی بلندی کے بیان میں جہاں دیگر پہلوئوں کو پیش کیا جاسکتا ہے وہاں یہ دو بالخصوص قابل ذکر ہیں فلسفۂ یونانی کے ساتھ مجادلہ عظیم کے دوران آپ فکر اسلامی کی رہنمائی کے فرائض انجام دے رہے تھے اور یقینا اسلامی فکر اس پیکار سے نہ صرف یہ کہ فاتح بن کر نکلی بلکہ فکری سطح پر اسے مزید استحکام بھی ملا اور مغرب نواز افلاطونیت کی فکر پر ایسی کاری ضرب لگی کہ جس سے وہ پھر سنبھل نہ سکی۔ آپ کا دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے شریعت اور طریقت کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور دونوں گروہوں کے راہنما قریب سے قریب تر ہوتے چلے گئے حالانکہ علمائے شریعت اور پیران طریقت دونوں اب بھی اپنے اپنے افکار و اقدار کو ہی برتر تصور کرتے تھے لیکن دونوں فریقین ایک دوسرے کے مقام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر آتے تھے علمائے شریعت صوفیاء کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے جب کہ دوسری جانب صوفیاء شرعی پابندیوں کے معاملے میں زیادہ محتاط رہنے لگے۔”
آج اسلام کو مغربی فکر کی جانب سے ویسی ہی صورتحال درپیش ہے جو کسی زمانے میں یونانی فلسفہ کے ساتھ تھی اور آج اس کڑے دور میں مغربی علوم کے احیاء کی اسی قدر ضرورت ہے جیسا کہ امام غزالی کے وقت میں تھی اور اگر آج اہل اسلام اس موجودہ نازک صورتحال سے کامیابی سے نکلنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں امام غزالی کی فکر کا غائر مطالعہ کرنا ہوگا۔
مغربی فکر کی جانب اب تک مسلمانوں کے بالعموم دو طرح کے رویے سامنے آئے ہیں’ ایک صورتحال یہ نظر آتی ہے کہ علماء کی اکثریت اور ان کے پیروکاروں نے مغربی فکر سے ہمیشہ دامن بچانے کی کوشش کی ہے تاکہ اسلامی فکر کو مغربی فکر کے اثرات سے محفوظ رکھا جائے’ دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ جدیدیت پسندوں کا ایک ایسا گروہ سامنے آیا ہے جس نے صراحتاً اس امر کی کوشش کی یا تو ہر دو افکار کے درمیان تطابق و تفاہم کے رشتہ کو سامنے لایا جائے یا پھر اسلامی فکر کی مغربی حیثیت کو مغربی اصول تنقید اور مغربی منہاج کی مدد سے جانچا جائے۔
مغربی فکر کے ساتھ جدال کی اس کیفیت کے دوران جس شے کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ غیر اسلامی افکار کا غزالی کے منہاج فکر کی روشنی میں جائزہ لینا ارو اس کا محاکمہ کرنا ہے۔ آج امام غزالی کی فکر کی طرف رجوع کرنے کا مقصد و غایت بھی یہی ہے کہ مغربی فکر و عقائد کو سمجھنے کے لیے قدیم اسلامی اصول تنقید کو ترویج دی جائے۔
جدوجہد امام غزالی کی غایت و تناظر:
امام غزالی کی عظیم کاوش کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس تناظر سے واقفیت حاصل کی جائے جس میں مغربی فکر کے محاکمہ کی ضرورت کا احساس دوچند ہو۔ صورت حال کچھ یوں تھی کہ اسلامی سلطنت کی توسیع کے دوران رومی’ یونانی تہذیب سے ٹکرائو وہ پہلا ٹکرائو تھا جب مسلمانان عرب انسانوں کے ایک ایسے گروہ سے برسرپیکار ہوئے جو ان تہذیبوں کے مقابلے میں تصور حق کے لیے متبادل فکری دلائل رکھتے تھے اس سے قبل تک جن اقوام سے مسلمانوں کا واسطہ پڑا تھا ان میں ایک کفار تھے جو اپنے عقائد کے لیے کسی قسم کی علمی بنیاد نہیں رکھتے تھے یا یہود و نصاریٰ کے گروہ تھے جو اسلام کے مماثل علمیت کے قائل تھے۔
ہر چند کہ یہ ٹکرائو امام غزالی کے زمانے سے دو صدی قبل سے جاری تھا لیکن آپ کے عہد میں اس تہذیبی ٹکرائو سے برآمد ہونے والے علمی و فکری مسائل نے امت مسلمہ کے لیے ایک فتنہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور علماء میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جو اپنے تدبر و تعقل کی بنیاد پر خود کو برتر تصور کرنے لگا تھا اس کے علاوہ وحی کو حق و صداقت کا منبع سمجھنے کی بجائے عقل و خرد کو صداقت کے حصول کا ذریعہ سمجھ رہے تھے۔ وحی کے لیے ان کا حقارت آمیز رویہ ان کے اسلامی طریقوں اور علامات کی دستبرداری سے ظاہر ہوتا تھا۔ امت کو درپیش اس نازک و پرفتن صورتحال کو امام غزالی یوں بیان فرماتے ہیں:
”انہوں نے وہ تمام پابندیوں ترک کر دی ہیں جو اسلام اپنے پیروکاروں پر عائد کرتا ہے۔ وہ دین کے ان احکام کی ہنسی اڑاتے ہیں جن میں طرائق بندگی اور حلال و حرام کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ وہ الہامی و شرعی قوانین کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ اپناتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ شریعت مطہرہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو مطلق بجا نہیں سمجھتے بلکہ عقائد و ایمان کو مختلف النوع قیاسات کی کسوٹی پر پرکھنے لگے ہیں۔ ان کی مثال دراصل ان لوگوں کی ہے جو خدا کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں اور شیطان کی راہ پر چل نکلتے ہیں اور جو آخرت کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے۔”
امام اس نازک صورتحال کو بخوبی سمجھ رہے تھے کہ بیرونی فکر کس طرح عام مسلمانوں کے عقائد و اعمال پر اثر انداز ہو رہی ہے اور وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھے کہ علمی معیارات میں یہ تبدل و تغیر، جو عقل و خرد کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ بالخصوص کفریہ عقائد کے فروغ کے ضمن میں راہ ہموار کرنے کا کام انجام دے رہا ہے۔
آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں وہاں سقراط’ بقراط’ افلاطون و ارسطو وغیرہ کو علمی شخصیات کے طور پر غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے اور ان فلاسفہ کے مقلدین مبالغہ کی حد تک انہیں مافوق الفطرت تدبر کے حامل افراد کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان عظیم عقلی صلاحیتوں کے بل پر جو اصول دریافت کیے گئے ہیں وہ کسی بھی قسم کی لغزش سے پاک اور ناقابل تغیر تصور کرتے ہیں اس کے علاوہ ریاضیاتی’ منطق’ طبیعاتی اور مابعد الطبیعاتی علوم کو بھی نہایت مکمل و جامع حیثیت میں پیش کیا ہے اور اس کے پس پشت و ہ عظیم ترین عقلی صلاحیتیں ہی تھیں جن کی بنیاد پر استخراجی طریقہ کار کے ذریعہ کائنات کے پوشیدہ حقائق کو دریافت کیا گیا اور تدبر و تعقل کی ایسی غیر معمولی صلاحیتوں کی بناء پر انہوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ مذہبی احکام محض بے بنیاد مفروضوں اور غیر اہم حقائق سے متعلق بیانات کا مجموعہ ہیں اور انہیں کسی بھی قسم کی برتری کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
درج بالا سطور اس لحاظ سے نہایت اہم ہیں کہ ہمیں ان وجوہات و اسباب کے بارے میں پتہ چلتا ہے جو امت مسلمہ میں کفریہ عقائد کی ترویج کا سبب بن رہے تھے ان اسباب کو نمبر وار یوں پیش کیا جاسکتا ہے۔
١۔ ذہنی و علمی برتری کے سبب فلاسفہ کو ہر ذی نفس بشمول انبیاء کرام سے بھی برتر سمجھنا۔
٢۔ فلاسفہ کے دریافت کردہ اصولوں کو غیر مشکوک اور بدیہی تصور کرنا۔
٣۔ استخراجی طریقۂ کار کو ایسی منہاجیات کے طور پر تصور کرنا جس کے ذریعے بدیہی اصولوں سے نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔
٤۔ نتیجتاً یونانی مابعد الطبیعات منطق اور طبعی علوم کی برتری پر یقین۔
٥۔ درج بالا عوامل مذہبی احکام و تعلیمات کی تحقیر و تذلیل کا سبب بنتے ہیں۔
درج بالا نکات کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ان فلاسفہ کے مقلدین کے اندر ایک تکبر پیدا ہوگیا جس نے یونانی فلاسفہ’ ان کی منہاجیات’ علمیات میں تکبر پیدا کیا۔ جس کا مربوط اور مبسوط محاکمہ کرنے کے لیے امام غزالی نے تہافة الفلاسفہ جیسی کتاب تصنیف کی۔ آپ خود اس مقصد کو یوں بیان فرماتے ہیں۔
”خرد سے عاری ان افراد کو جب میں نے اس فکر کو اپناتے ہوئے دیکھا تو یہ فیصلہ کر لیا کہ قدیم فلاسفہ کی فکر کے رد کے لیے ایک کتاب لکھنی چاہئے جو ان کے عقائد کی بے ربطی اور ان کے مابعد الطبیعاتی نظریات کی کجی کو واضح کر دے گی اور ان کی فکر کے کمزور ترین گوشوں کو اس طور پر عیاں کر دے گی کہ کچھ لوگوں کے لیے تفریح طبع کا سبب بنے گی تو کچھ لوگوں کی عقائد کی درستگی بھی۔ …اشارہ عقائد کے ان حصوں کی جانب ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنے تئیں خود کو دوسروں سے ممتاز و برتر تصور کرتے ہیں۔
امام غزالی کا نظریہ علم اور مختلف علوم کی تقسیم:
علم کیا ہے اور اس کا حصول کن مقاصد کے تحت کیا جانا چاہئے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جنہیں امام غزالی کی فکر میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اس کے علاوہ تنقید کے عمومی مقصد کو سمجھنے کے لیے بھی یہ سوالات نہایت اہم ہیں امام غزالی ابتداً علم اور حصول علم کی غایت سے متعلق کچھ ایسے تصورات و نظریات کو بیان فرماتے ہیں کہ جن کی بنیاد پر آپ نے مغربی فکر کی تنقید مرتب کی ہے۔
آپ کی نظر میں حصول علم کا مقصد (اس سے تصور علم کو بھی واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے) دو طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے (١) معاد’ (٢) معاش۔ ان ہر دو مقاصد میں ایک نوع کا گہرا تعلق موجود ہے کہ معاد کا فروغ حلال رزق کے حصول کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا مطمح نظر معاد کا حصول ہونا چاہئے اور معاش کے حصول میں سرگرمی فقط اس وقت تک مستحسن ہے جب تک وہ معاد کے حصول میں معاون ثابت ہو۔ اسی طرح وہ تمام علوم جو معاد کے حصول کے لیے وضع کیے گئے ہیں یقینی طور پر علم کے دائرے میں آتے ہیں اور کسی بھی طرح اس کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بنتے۔ لہٰذا اصل علم معاد کا علم ہے امام غزالی طالبان صداقت و علم کی توجہ خاص طور پر اس نکتہ کی جانب مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں :
”حصول علم کے لیے اس قدر شدید طلب رکھنے والے میرے دوست تم جو خود کو یہ احساس دلا رہے ہو کہ طلب علم کی راہ میں کس قدر صادق’ پرجوش اور مستقل مزاج ہو کیا تم نے اس امر پر غور کیا ہے کہ اس جستجوئے علم کے پس پشت کیا مقصد کارفرما ہے؟ اگر تمہارا مقصد اپنی ذات کا نفع اور اپنے ہم جماعتوں میں ممتاز حیثیت کا حصول ہے تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کرکے دنیاوی نعمتیں سمیٹ لو تو جان لو کہ تم اپنے دین کے لیے بے فائدہ و بے کار ہو تم خود کو تباہ و برباد کر رہے ہو تم نے ابدی زندگی کو اس عارضی آرام و سکون پر قربان کر دیا ہے اور خوب سمجھ لو کہ یہ سودا خسارے کا سودا ہے اس بے سود تجارت میں کچھ نفع نہیں اور تمہارا استاذ جو تمہیں اس گمراہی میں پختہ کار کرتا ہے وہ بھی اس خسارے میں برابر کا شریک ہے اس کی مثال اس شخص کی ہے جو ایک مسافر کو تلوار فروخت کرتا ہے۔ …… دوسری جانب اگر جویائے علم و صداقت کے ضمن میں تم یہ نیت رکھتے ہو کہ فقط بڑائی ظاہر کرنے کے لیے کچھ الفاظ نہ سیکھیں جائیں بلکہ صحیح راہنمائی حاصل کی جائے تو خوش ہوجاؤ کہ یہی درست راہ ہے۔
سطور بالا سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حصول علم کا مقصد ذات باری تعالیٰ کی خوشنودی اور علم دراصل خشیتِ الٰہی کا احساس ہے۔ یہاں علم اور معلومات کے درمیان بھی ہمیں واضح فرق دکھائی دیتا ہے کہ فقط کچھ حقائق جان لینے کا نام علم نہیں ہے بلکہ الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جو رضائے الٰہی کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہو اور خوف خدا پیدا کرے، امام غزالی کے مطابق علم کہلائے جانے کا مستحق ہوگا۔
اس گفتگو کی روشنی میں ہم علوم کو بہ اعتبار درجات درج ذیل اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں:
١) ایسے علوم جو کلی طور پر راست معاد سے متعلق ہیں مثلاً قرآن و حدیث کے علوم
٢) وہ علوم جو معاد کے لیے ضروری ہیں ان کے جاننے کا مقصد فقط ان علوم کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ معاد کا حصول ہوتا ہے اور اگر ان کو صرف ان کا علم حاصل کے لیے حاصل کیا جائے تو یہ علوم مضر ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً عربی شاعری کی تعلیم قرآن کریم کی تفہیم میں کارآمد ثابت ہوتی ہے۔
٣) ایسے تمام علوم جن کا معاد سے کسی طور پر واسطہ نہیں ہے جنہیں کلیتاً رد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صراط مستقیم کے بجائے گمراہی و ضلالت کی طرف لے جاتے ہیں’ یہ شیطانی علوم ہیں جس کا حاصل کرنا خسارہ ہی خسارہ ہے امام غزالی نے اس سیاق میں یونانی مابعد الطبیعات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔
٤) ایسے علوم شامل ہیں جو کلیتاً نہیں بلکہ آلاتی طور ر معاد کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں جن کو بحیثیت مجموعی رد نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو شیطانی علوم کی معاونت کی وجہ سے رد کیا جاتا ہے اس ضمن میں یونانی منطق کو مثال کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔
٥) ایسے تمام علوم جو معاد کے حصول کی راہ میں نہ تو کسی بھی طرح سود مند ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ضرر رساں قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ان کا رد کیا جانا نبی اکرم کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن کے ایمان کا حسن یہ ہے کہ وہ فضول و بے کار افعال سے الفت نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر وہ علوم پیش کئے جاسکتے ہیں جنہیں ہم آلاتی علوم کہتے ہیں اور جو معاونت کا کام سر انجام دیتے ہیں۔
درج بالا تقسیم کے حوالے سے کلیت اور آلائیت کے بارے میں دو رائے ہوسکتی ہیں لیکن بنیادی درجہ بندی وہی رہتی ہے۔
امام غزالی کی یونانی علوم پر تنقید:
علم کی یہ تعریف و مفہوم اس درجہ بندی اور عمومی اصولوں کے سیاق کو سامنے رکھتے ہوئے امام غزالی مختلف یونانی علوم کا نہایت بسیط محاکمہ پیش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی علمیاتی تناظر میں ان کا صحیح مقام بھی مرتب فرماتے ہیں۔ زیریں سطور میں مختلف یونانی علوم پر امام کی تنقید کو مختصر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
منطق:
امام غزالی کی رائے میں منطق ایک آلاتی علم ہے اس میں استدلال کے مختلف طریقوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور مباحث کے ایسے اصول سکھائے جاتے ہیں جنہیں ہر دو فریق میں سے کوئی بھی اپنی مطلب برآری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ اندازِ استدلال اور اصول جو کسی بھی استدلال کو مضبوط اور قوی بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں دراصل صرف قضایا کی ساخت سے گفتگو کرتے ہیں انہیں قضایا کے معنی و مفہوم سے کچھ بحث نہیں ہوا کرتی۔ اسلام منطق کو بطور آلہ علم رد نہیں کرتا اور نہ ہی اسے رد کرنے کی کوئی ضرورت ہے ۔
یہ تن تنہا آپ کی ذات والاصفات ہی کا کارنامہ تھا کہ آپ نے اس وقت کی موجود منطقی باریکیوں کو نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر سمجھا بلکہ ان کی مدد سے غیر اسلامی عقائد میں موجود بے ربطی اور کجی کو بھی واضح کر دیا۔ امام اس صورتحال کو یوں بیان فرماتے ہیں: ”جہاں تک اس تنازعے کا تعلق ہے کہ منطقی اصولوں و ضابطوں کے بغیر کوئی بحث مکمل نہیں ہوتی ان کا یہ موقف بالکل درست ہے لیکن یہ بھی اچھے طریقے سے سمجھ لینا چاہئے کہ منطق ان کی اجارہ داری نہیں ہے۔ بنیادی طور پر یہ وہی شے ہے جسے ہم فن علم الکلام میں کتاب تحقیق نظری کے نام سے موسوم کرتے ہیں فلاسفہ نے اسی کا نام تبدیل کرکے منطق رکھ دیا ہے اور اس کے بارے میں ایسا تصور قائم کر دیا ہے کہ عوام اس کے نام سے ہی مرعوب ہوجاتے ہیںا ور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ علم کی کوئی ایسی شاخ ہے جس سے متکلمین کلی طور پر ناواقف ہیں اور صرف فلاسفہ ہی منطقی موشگافیوں اور پیچیدگیوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔”
امام غزالی علم منطق کےمنفی پہلوئوں سے اجتناب برتنے کی بارہا تلقین کرتے ہیں اور اس سے متعلق خوش فہمیوں کا بھی نہایت عمدگی سے پردہ چاک کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو ان حدود کو سمجھنا چاہئے جن میں منطقی اصول اپنی جادوگری دکھا سکتے ہیں۔ نکتہ یہ ہے کہ منطق صرف دو قضایا کے درمیان تعلق کی نوعیت کو مکمل یقین کے ساتھ بیان کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جس کو اقتباساً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ ان قضایا کے معنی و مفہوم سے متعلق بھی قطعیت کے ساتھ رائے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امام فرماتے ہیں ”ایک عام معارف جس میں عموماً طالبان منطق گھرے ہوئے پائے گئے ہیں کہ وہ اس علم کی بنیاد پر کچھ ایسے معیارات وضع کرلیتے ہیں جن پر پورا اترنے والے قضایا کو بھی صحیح و درست تصور کیا جاتا ہے اور جب وہ انہی معیارات کے ساتھ مذہبی احکام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ مذہبی احکام ان معیارات پر پورے نہیں اترتے لیکن وہ اپنے طے کردہ معیارات کے ضمن میں یہ ضرر تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں مزید غور و فکر کی گنجائش ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے کہ مذہبی بیانات بدیہی حیثیت کے حامل نہیں ہوا کرتے لہٰذا ان کا ثبات و انکار بھی کرنا ممکن نہیں ہے سوائے اس صورت کے کہ اس کو استدلال کی صورتوں کے تبدل کے حوالے سے نہ جانچا جائے بلکہ ان عقائد و نظریات کے حوالے سے پرکھا جائے جو ہر دو مخالف صورتوں میں پائے جاتے ہیں جو منطق کی بجائے مابعد الطبیعات اور اس جیسے دیگر علوم کا میدان ہے۔ چنانچہ وہی لوگ اس مغالطہ میں گھرتے ہیں جو ساخت اور مفہوم کے اس فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ ”کفریہ عقائد جن کا فلاسفہ اپنی فکر میں اظہار کرتے ہیں۔ منطق کے اصول و معیارات پر پورے اترتے ہیں اور اس طرح وہ ان عقائد کی برتری پر بھی ایمان لے آتے ہیں۔
امام بڑی صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ منطق کا کوئی بھی اصول چاہے وہ قیاس کی مادی صحت جانچنے سے متعلق ہو یا اس کی صفوی صحت سے بحث کرتا ہو یا مفروضہ ہی کیوں نہ ہو جو منطق کی عمارت کے نہایت اہم ستون ہیں کسی بھی نوعیت کی تکنیک مابعد الطبیعاتی علوم کی بحث میں ان کی معاونت کرنے کی اہل نہیں ہے۔
ریاضی:
ریاضی ایک آلاتی علم ہے جو دیگر مقاصد کے حصول میں معاونت کا کام کرتا ہے اور کئی علوم میں اس کی ضرورت نہایت اہم ہے مثلاً میراث سے متعلق مسائل کی تفہیم کے سلسلے میں علم ریاضی مفید ہے یا نماز کے اوقات معلوم کرنے کے لیے بھی اس علم کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر دو خطرات ایسے شدید و مہلک ہیں کہ جنہیں علم ریاضی کے سیاق میں بالخصوص اور دیگر علوم میں بالعموم سمجھنا چاہئے۔
١۔ پہلا خطرہ یہ ہے کہ علم الحساب کی قطعیت اور اظہار بیان کی ندرت کو دیکھ کر عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے تمام علوم ریاضی سے مشابہہ صحت کے حامل ہیں جس خدشہ کو مکمل سنجیدگی کے ساتھ محسوس کیا جانا چاہئے وہ یہ کہ اس کائنات سے متعلق وہ حقائق جن کے بارے میں مختلف آراء موجود رہی ہیں اور بہت سے اذہان بھٹک کر گمراہ ہو گئے۔
تہذیبوں کے درمیان تصادم اور تاریخ کے اوراق کے مطالعہ کرنے والے طالب علم کو درپیش علمی مسائل کے حل کے لیے امام غزالی ایسا کلیہ پیش کرتے ہیں کہ جس سے تشفی بخش جوابات کی تلاش میں بہت مدد ملے گی ”ایک ایسا شخص جو کسی فن میں مہارت حاصل کرتا ہے اور اس میں نام پیدا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر فن میں اسی قابلیت کا حامل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک شخص جو قانون و الہٰیات کا نہایت عمدہ عالم ہے اور اس کی باریکیوں کو بہت عمدگی سے سمجھتا ہے تو وہ فن طب کے اصولوں سے بھی واقف ہوگا یا فلسفہ و دیگر عقلی علوم سے ناواقف شخص قواعد (گرامر) کے اصولوں سے بھی نابلد ہوگا۔ ہر علم کے کچھ ایسے ماہرین ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جو کہ ایک فن میں ماہر ہوتے ہیں مگر دوسرے فن کے لیے مطلق جاہل ہوتے ہیں۔”
سطور زیریں میں امام غزالی علم ریاضی اور دیگر علوم کے مابین تفریق نہایت وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں:
”ریاضی کے بنیادی اصول اپنی ماہیت میں اظہاری ہیں جب کہ الٰہیات (مابعد الطبیعات) کی بنیاد قیاسات پر ہے جو اہل علم ان علوم کا غائر مطالعہ کرچکے ہیں وہ اس نکتہ سے بخوبی واقف ہیں۔” اسلام اور سائنس کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے یہ نکتہ اہم ہے کہ اسلام اور سائنس کے درمیان بنیادی طور پر کوئی مخاصمت نہیں ہے لیکن مسائل وہاں جنم لیتے ہیں جب سائنس اپنی تحدیدات نظر انداز کرتے ہوئے مابعد الطبیعات و الہٰیاتی مباحث کو اپنے عمومی اظہاری طریقوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے، اس کے علاوہ سائنسی فکر اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ زندگی کے اسرار و رموز کلی طور پر سمجھنے میں اس کی رائے کو مقتدر و محترم سمجھا جائے اور اس طرح علماء دین کی رائے کو سائنسی فکر کے تابع کر دیا جائے۔ لیکن امام کا قول اس قضیہ کو یوں مٹاتا ہے کہ کسی ایک فن میں مہارت تامہ رکھنے والا شخص دوسرے فن میں اسی مقام و مرتبہ کا حامل نہیں ہوسکتا یعنی مابعد الطبیعاتی اور الٰہیاتی مباحث میں سائنس کی رائے کسی طور پر اہم و برتر متصور نہیں ہوسکتی لیکن ایسے افراد جو ان ہر دو فکری مقامات میں فرق نہیں کرسکتے وہ مابعد الطبیعات و الہٰیاتی معاملات میں سائنس کو اس کی دیگر مخصوص شعبوں میں برتری کے سبب مقتدر و محترم تسلیم کرلیتے ہیں اور اس رویہ کی بدولت صراط مستقیم سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں علم ریاضی کے حصول کے بارے میں امام کی قطعی رائے یہ ہے کہ
”وہ طلباء جو ریاضیاتی علوم کا نہایت دلجمعی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں انہیں اس سے روک دینا چاہئے چاہے وہ اسے مذہبی معاملات کی تفہیم میں بھی کیوں نہ استعمال کریں لیکن چونکہ یہ فلسفیانہ علوم کی بنیاد ہے اس طرح طالب علم فلاسفہ کی فکری بدعقیدگیوں اور انتشار ذہنی کا شکار ہوسکتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا ذہن خشیت الٰہی کے تصور سے خالی ہوجاتا ہے۔
ریاضی اور سائنس کے حوالے سے دوسرا خطرہ افراد کا وہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہیں کہ ”فلاسفہ کے دریافت کردہ ہر علم کے رد کے ذریعے ہی مذہب کا دفاع ممکن ہے اور اس طرح وہ ان کے تمام علوم کا انکار کرتے ہیں اور خود کو جہالت کی عمیق گہرائیوں میں لا پھینکتے ہیں۔ یہ رویہ مذہب اسلام کے لیے کسی بھی طرح سے سود مند قرار نہیں دیا جاسکتا کیوںکہ اس سے یہ باطل تصور نکلتا ہے کہ اسلام کی بنیاد حقائق سے انکار پر ہے جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ امام فرماتے ہیں ”وہ شخص اسلام کا شدید ترین دشمن ہے جو یہ یقین رکھتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کا دفاع ریاضیاتی علوم کے انکار کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یوں سمجھتا ہے کہ ان علوم کے مقابلے میں الہامی تعلیمات تہی دامن ہیں اور یا پھر یہ کہ مذہبی صداقتوں کے مقابلے میں یہ علوم طفلان شیر خوار ہیں۔”
فطری علوم Natural Sciences:
امام فطری علوم کو علم طب کے مماثل سمجھتے ہیں کہ جس طرح طب میں انسانی جسم سے متعلق تحقیق و جستجو کی جاتی ہے اسی طرح اس میں بھی کائنات کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش ہے اور اسلام طبی علوم کو رد نہیں کرتا لہٰذا فطری علوم کا رد بھی اسلام کے لیے لازم نہیں ہے لیکن ان علوم کے اس تصور کو پسندیدہ نہیں سمجھتے جو یونانی فکر کے بطن بطون سے نکلتی ہے اور اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ فطرت پسندی کا نظریہ ان علوم کا استخراج نہیں ہے بلکہ یہ ایک مابعد الطبیعاتی تصور ہے جو ان علوم کی تفہیم میں استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا اس تصور کی اصلاح کی ضرورت ہے کہ فطرت آپ اپنی مالک نہیں ہے بلکہ ایک مخلوق و واسطے کے طور پر اپنے افعال انجام دے رہی ہے۔ چاند سورج’ ستارے و سیارے سب اس کی تابع ہیں کوئی شے ایسی نہیں ہے جو آپ اپنی مرضی کی مالک اور بدیہی طور پر وجود رکھتی ہو۔
المختصر کسی بھی سائنسی نظام فکر کے پس پشت مابعد الطبعیاتی تناظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور انہیں نہ صرف یہ کہ تعدیلی اہمیت کا نہ سمجھا جائے بلکہ یہ بھی اچھے طریقے سے جان لینا چاہئے کہ کسی بھی سائنسی نظام میں موجود عمومی حقائق کو ان سے جدا کرکے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اسلام فطری علوم کی حیثیت پر کار فرما یونانی فکر کو تو تنقید کا نشانہ بناتا ہے لیکن تجرباتی حقائق کو بسر و چشم قبول کرتا ہے۔
سیاسیات و اخلاقیات:
ہر چند کہ سیاسیات و اخلاقیات سے متعلق امام غزالی نے مفصل گفتگو نہیں کی ہے لیکن یہاں ہم عمیق منہاجیات کی غرض سے نکات کا مختصر جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ سیاسیات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”فلاسفہ کی سیاسی فکر عموماً اس الہامی پیغام سے مستعار شدہ ہے جو انبیاء کرام بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے لے کر آئے اور اس کے علاوہ اولیاء کرام کے افکار سے بھی خوشہ چینی کی ہے” اخلاقیات کے علم کے متعلق بھی کم و بیش آپ کی یہی رائے ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر دو علوم میں آپ نے ایسے اضافے بھی کیے ہیں جن کا اطلاق علم سیاست پر بھی ہوتا ہے ان فلاسفہ نے اپنے فضول کام کو چمکانے کے لیے ان تعلیمات کو اپنی طویل و بے مقصد بحثوں میں خلط ملط کرکے رکھ دیا ہے۔
مابعد الطبعیات:
یونانی فکر کے محاکمہ و تنقید کا اصل مقصد درحقیقت یونانی مابعد الطبیعاتی عقائد کا بطلان ہی ہے جو امام غزالی مابعد البطعیاتی قضایا کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اول قسم میں وہ مباحث شامل ہیں جن میں الفاظ کے معنی و مفہوم پر بحث کی جاتی ہے مثال کے طور پر لفظ ”جوہر” کو خدائے واحد کی ذات کے طور پر موسوم کیا جاتا ہے اور اگر وجود حقیقی کے معنی و مفہوم پر اتفاق ممکن ہوجائے تو لفظ جوہر کے مفہوم کو اس سیاق میں اشتقاقی نقطۂ نظر سے جانچنا ہوگا اور اگر اس نقطۂ نگاہ سے لفظ جوہر کے اس استعمال کا جواز مل جائے تب بھی یہ سوال تشنہ ہی رہے گا کہ آیا مذہبی فکر اس استعمال کو سند بخشتی ہے یا نہیںا ور یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ درپیش تنازعہ کی لفظی اور غیر لفظی حیثیت جاننے کے لیے نہ صرف یہ کہ الفاظ کے عمومی استعمال کو سمجھا جائے بلکہ ان الفاظ کے عمومی معانی پر بھی اتفاق پیدا کیا جائے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ افرد کے درمیان الفاظ کا یکساں استعمال ان کے معانی کے یکسانیت پر بھی دلالت کرتا ہو۔
تیسری قسم میں وہ فلسفیانہ نظریات شامل ہیں جو مذہب کے بنیادی اصولوں سے متخاصم ہیں مثلاً: زمانے کے اندر تخلیق کائنات کا مذہبی تصور، خالق کائنات کے وجود کی صفات سے متعلق عقائد، قیامت میں اجسام کا دوبارہ اٹھایا جانا۔ ان تمام عقائد کا فلاسفہ نے صریحاً انکار کیا ہے۔
دوسری قسم میں ایسی چیزیں شامل ہیں جن پر فلاسفہ یقین رکھتے ہیں اور وہ مذہب کے کسی بھی اصول سے متخاصم نہیں ہیں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا فقط کلیات کا علم رکھتا ہے اور جزئیات سے اسے کچھ مطلب نہیں ہے امام نے اسے صریح کفر قرار دیا ہے۔ تہافتہ الفلاسفہ میں امام غزالی نے تیسری قسم میں شامل قضایا سے بھرپور بحث کی ہے اور ان قضایا پر مشتمل نظام کی کجی و کمزوریوں کو بالکل واضح کر دیا ہے۔
٦۔ Mode of Critique تنقید کے مختلف مناظر:
امام غزالی نے مغربی فکر پر جو بھرپور تنقید کی ہے اس کو ہم مختلف سطحوں پر سمجھ سکتے ہیں۔
١۔ داخلی ٢۔ خارجی ٣۔ اقل حقوق ٤۔ لازمی
داخلی تنقید کے باب میں تنقید کرنے والا اس مخصوص تناظر میں گفتگو کرتا ہے جس میں وہ رہتا بستا ہے اور اس کے مخاطب وہی لوگ ہوا کرتے ہیں جس معاشرہ میں وہ زندگی بسر کرتا ہے اور وہاں کی رائج شدہ اقدار برتتا ہے لیکن علمی و فکری برتری کے سبب و ہ ترویج شدہ نظریات میں نہ صرف یہ کہ کسی بھی قسم کی خرابی کو جان لیتا ہے بلکہ یہ اس کے سدباب کی بھی کوشش کرتا ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ غزالی کی تنقید داخلی تنقید نہیں ہے کیوں کہ فلسفہ کا محاکمہ پیش کرتے وقت آپ کی تمام تر وفاداریاں اسلامی فکر سے منسلک ہیں اور آپ اسلامی علمیت کی برتری کے بھی غیر متزلزل طور پر قائل ہیں آپ کی محاکماتی تحریروں کا اصل مقصد یونانی فلسفہ کی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور اس کی علمی برتری کے حوالے سے پھیلے ہوئے غلط العام تصورات کی بیخ کنی ہے تاہم آپ علمی تحقیق کے اس انداز سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ کسی بھی تنقید کو موثر بنانے کے لیے خود اس کے درون میں کمزوریاں تلاش کی جاتی ہیں اور جس فکر کو تنقید کا ہدف بنایا جائے اس سے مکمل واقفیت و آگہی حاصل کی جائے وگر نہ بھرپور و جامع تنقید ممکن نہیں ہوگی۔ آپ فرماتے ہیں:
”میری رائے یہ ہے کہ ایک شخص کسی بھی علم پر تنقید کا کوئی حق نہیں رکھتا جب تک وہ نہ صرف یہ کہ ان علوم کا اس قدر ماہر نہ ہوجائے کہ جس طرح خود اس علم کے ماہرین سے جس گہرائی کے ساتھ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ان گوشوں پر بھی نگاہ ڈالنے کی اہلیت رکھتا ہو جو ان ماہرین کی نظر سے اوجھل رہے ہیں اس وقت اس کی تنقید کو اس علم کے حوالے سے اہمیت دی جائے گی۔”
امام کے نقطہ نظر سے ”کسی نظام فکر کی مکمل تفہیم اور اس کی گہرائی و گیرائی کو سمجھے بغیر اس کی تردید کرنا عبث و بے فائدہ فعل ہے۔ اس نکتہ کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو امام غزالی کی فکر اپنے پیش رو متکلمین سے جدا نظر آتی ہے کیوں کہ متکلمین کا عموی رویہ یہی رہا کہ وہ بنیادی فلسفیانہ فکر کو رد کرنے کے بجائے عالم اسلام میں موجود علمی بدعات پیدا کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے یونانی فلسفہ سے متعلق ان کا مبلغ علم اس قدر سطحی اور چند منتشر قسم کے قیاسات پر مشتمل تھا کہ اپنی تحریروں میں ان کا فلاسفہ سے کسی قسم کا مناظرہ موجود نہیں تھا۔ مبہم اور منتشر خیالات کے علاوہ انکے دلائل اس قدر بکھرے ہوئے تھے کہ ایک عام فراست کا شخص ان سے دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا۔ یہ متکلمین یونانی فلسفہ کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے ان لوگوں کے نظریات سے بحث کر رہے تھے جو آہستہ آہستہ اہل اسلام میں در آئے تھے اور شریعت اسلام کی صورت مسخ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اس ضمن میں وہ یونانی فلسفہ سے مستعار شدہ تصورات اور تکنیک سے بھی مدد لے رہے تھے۔ یونانی فکر سے بحیثیت مجموعی ناواقفیت کی بنا پر ان متکلمین کا انداز تنقید خارجی و آلاتی تھا۔
جب علم الکلام ایک باقاعدہ علم کی صورت میں ظہور پذیر ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو متکلمین نے شریعت کے دفاع کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں اور جواہر و حوادث بشمول انکی ماہیت و خصوصیت سے متعلق مقاصد میں مشغول ہوگئے لیکن وہ ان مسائل پر بھرپور و جامع طریقے سے غور و فکرنہ کرسکے جس کے نتیجے میں وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے جو انسانی فکر کو گمراہیوں سے مکمل طور پر نجات دلاسکتے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ متکلمین کا مخاطب وہ گروہ تھا جو اسلام کے بنیادی نظریات و عقائد پر ایمان رکھتا تھا لیکن کچھ اصولوں کی تشریحات میں وہ معروف سے اختلاف کیا کرتے تھے اور بیرونی فکر کے استدلال کو اصولیات دین کے سمجھنے میں استعمال کو مستحسن سمجھتے تھے۔ یہاںا گر دور حاضر کی کیفیت پر نگاہ دوڑائی جائے تو آج بھی ایک گروہ اسی نوعیت کی کوشش و کاوش میں مصروف عمل ہے یعنی آج کی غالب سائنسی فکر کے پیش کردہ حقائق کو درست تسلیم کرتے ہوئے اسلامی عقائد کو ان کی مدد سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ نکتہ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس قسم کے استدلال فقط ان لوگوں کو قائل کرسکتے ہیں جو پہلے ہی اسلامی فکر کی برتری کے قائل ہیں لیکن سائنسی علوم کے تربیت یافتہ افراد کے لیے اس قسم کے استدلال ناقابل قبول ہوا کرتے ہیں۔ کسی بھی نظام کی مکمل تنقید کے لیے جس طرح کی تفہیم کی ضرورت ہوتی ہے وہ علم الکلام میں شاذ ہی نظر آتی ہے علم الکلام کے مباحث زیادہ تر شریعت اسلامی کے دفاع سے متعلق ہیں کہ بیرونی فکر سے متاثر افراد کی نت نئی اختراعات کو استدلال کے ذریعے غلط اور غیر مربوط ثابت کیا جائے اور تضادات سے بھرپور ان کی فکر کے منفی اثرات و نتائج کو بھی واضح کیا جائے۔ اس قسم کے طریقۂ کار مخالفین کے اس گروہ کے لیے تو کارآمد ہوسکتے ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن وہ جو عقل و خرد کی برتری کے قائل ہیں ان کے لیے یہ بے فائدہ و لاحاصل ہے اس فکر کے حامل افراد کے درست طریقہ یہ ہے کہ مخالف کی فکر کے بنیادی اصولوں کو جہاں تک ممکن ہو سکے اس کی مکمل گہرائی و گیرائی کے ساتھ تفہیم حاصل کی جائے اور اس نظام فکر کی بنیاد میں موجود التباسات و تسامحات کو واضح کیا جائے تاکہ خود اس کے بطن بطون سے اس کی تباہی جنم لے۔ جس بات کا ادراک بہت کم کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے سے تسلیم شدہ دلائل سے تسلیم کروانا بے کار محض ہے۔ سائنس کے افرد کے لیے دوسرے قسم کے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ امام کلام کے اثرات کو رد نہیں کر رہے مگر ان کے خیال میں یہ اسی طرح ہے جیسا کہ دوائیں مرض کی نوعیت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہیں۔
ان کی زیادہ تر منہاجیات ان اصولوں پر مبنی ہے کہ اپنے مخالفوں پر تضادات کو واضح کرنا اور جو منطقی نتائج وہ تسلیم کرچکے ہیں کے حوالے سے تنقید کرنا۔”
یہ طرز عمل ان مخالفین کے لیے ہے جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان مخالفین کے خلاف جو کچھ بھی تسلیم نہیں کرتے یہ طریقہ تنقید لاحاصل ہے اس طرح مخالفین کے لیے ضروری ہے کہ مخالف کے طریقہ کار کو ممکنہ حد تک داخل کیا جائے اس حد تک کہ اپنا ضابطہ اخلاق متاثر نہ ہو اور اس نظام کی بے ربطگی کو ظاہر کرنے کی کوشش کی جائے اس طرح وہ اندرونی طور پر ہی تباہ ہوجائیں گے۔
کسی بھی فکری نظام میں موجود ربط کو دو طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔
١۔ منطقی ربط ٢۔ مجموعی نظام کا ربط
منطقی ربط کسی نظام کے (صوری) اندرونی ربط سے متعلق ہوتا ہے۔ اس نوع کی تنقید (جس کا مقصد کسی نظام میں موجود صوری ربط کی صحت کو جانچتے ہیں) کو اقتل کل تنقید کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے جس کو ہم آگے چل کر تفصیل سے بیان کریں گے جب کہ انتظامی ربط سے مراد کسی نظام کے اندرونی ربط کو مکمل طور پر ساختی اور وجودی طور پر سمجھنا ہے جب امام غزالی فلاسفہ مغرب کے افکار کی اندرونی بے ربطگیوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں تو اس کا مقصد فقط فلسفیانہ عقائد و نظریات میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی نہیں بلکہ وہ اس مخصوص علمیت کے تضادات کو بھی بڑی صراحت کے ساتھ واضح کرتے چلے جاتے ہیں جس میں عقل مخفی کو خود مکتفی اور واحد راہنما کے طور پر تصور کیا جاتا ہے بایں وجہ امام غزالی کے رد و اعترضات کو جز کی شکل میں نہیں بلکہ کل کے طور پر سمجھنا چاہئے اور اسی بنیاد پر امام غزالی کی تنقیدی فکر ایک خاص مقام کے حامل ہے کہ یہ کسی نظام کے خارجی و داخلی ہر دو پہلوئوں سے مکمل طور پر بحث کرتی ہے اس کی وضاحت یوں سمجھ لیجئے کہ جس طرح متکلمین نے غیر اسلامی فکر پر تنقید مرتب کرتے ہوئے ہمیشہ اسلامی علمیت کی برتری کو جزو ایمان سمجھا اور اسکو محور و مرکز بناتے ہوئے باطل فکر کو ہدف تنقید بنایا اس انداز فکر کو بیرونی تنقید کا عنوان دیا جاسکتا ہے جب کہ دوسری جانب خارجی تنقید کے ضمن میں اس نظریہ کی مکمل طور پر تفہیم حاصل کی جاسکتی ہے جس پر تنقید کا مقصد یہ ہوتا کہ اس استدلال کی غلطی و کجی کو خود اس کے دروں سے واضح کی جائے۔
ہر چند کہ امام غزالی کی یونانی تنقیدی فکر مکمل طور پر مربوط حیثیت کی حامل ہے لیکن اس کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
ہر چند کہ امام غزالی کی یونانی فکر پر تنقید کئی سطحوں پر مبنی ہے لیکن اس سے اس کی مربوط حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس فکر کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ اول یہ ثابت کرنا کہ فلاسفہ جن تصورات کو بدیہی و غیر مشکوک تصور کرتے ہیں وہ بدیہی نہیں ہیں۔ دوسرے مرحلے میں امام غزالی کچھ اپنے متبادل نظریات پیش کرتے ہیں جنہیں فلاسفہ کے تصورات کی مانند بدیہی قرار دیا جاسکتا ہے اور اس طرح اس بنیادی دعویٰ کی حیثیت کو کمزور کر دیتے ہیں کہ ان کی فکر کی بنیاد عقل کی مدد سے حاصل کردہ بدیہی قضایا پر ہے۔ امام غزالی فلاسفہ کے تحقیق کائنات کے نظریہ کو غیر منطقی اور لایعنی تصور کرنے سے یوں بحث کرتے ہیں۔
”آپ حضرات کو یہ کیوں کر علم ہواکہ کسی بھی وقوعہ کی ابتداء ارداہ الٰہی کو قرار دینا غیر منطقی و محال ہے؟ آیا اس کے پس پشت کوئی ناقابل تردید بدیہی عقلی دلیل ہے یا کوئی اور نظریاتی بنیاد ہے اور کیا آپ کے اس بیان میں کوئی حد اوسط موجود ہے یا نہیں؟ اگر معاملہ یہ ہے کہ اس بیان میں حد اوسط موجود ہے اور آپ استخراجی طریقہ کار کے عامل ہیں تو آپ کو یہ بتانا پڑے گا کہ وہ حد کیا ہے اور اگر آپ اسے بدیہی قرار دیتے ہیں تو آپ کے مخالف اس کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ جب کہ وہ لوگ جو کائنات کو حادثہ تصور کرتے ہیں ایک خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں لہٰذا فلاسفہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ منطق کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کائنات کی ابتداء کو ارادہ الٰہی کے تابع ہونے کو محال قرار دیں۔
درج بالا استدلال کی مدد سے نہ صرف فلاسفہ کے عقائد و نظریات کے غیر حقیقی پن کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان کے استدلال میں ربط کا بھی پتا چلتا ہے کہ یہ فلاسفہ ریاضی اور منطق کے اظہاریوں سے متعلق یکساں رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن مذہبی اور مابعد البطیعاتی عقائد کا معاملہ آتا ہے تو نزاع کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اگر صداقت تک رسائی کے لیے عقل ہی واحد راہنما اور راہ بر ہوتی تو اس کے مقلدین کے درمیان یہ تفرقات جنم نہ لیتے۔ امام فرماتے ہیں
”’ان فلاسفہ کے ہاں کوئی شے مستقل وغیر متغیر نہیں ہے۔ ان کے تمام بیانات اندازوں اور قیاسات پر مبنی ہوا کرتے ہیں اور ان کا واسطہ نہ تو مذہبی عقائد سے ہوتا ہے اور نہ ہی ان کو تجربی طور پر ثابت کیا جاسکتا ہے۔ وہ ریاضیاتی اور منطقی علوم کی مدد سے مابعد الطبیعاتی نظریات اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر ریاضیاتی علوم کی مانند ان کے مابعد الطبیعاتی عقائد و نظریات بھی قطعی و مستند ہوتے تو ان کے درمیان اختلاف کی کوئی صورت نہ ابھرتی”۔
سطور بالا میں واضح طور پر امام غزالی اس نکتہ کو بیان فرماتے ہیں کہ اگر یہ مابعد الطبعیاتی عقائد غیر مشکوک’ واضح اور قطعی ہوتے تو ان میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ فلاسفہ اپنے استدلال کو مستحکم کرنے کے لیے ان خود ساختہ عقلی اصولوں پر انحصار نہیں کرسکتے اور اس سے ایک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ ان مسائل کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ جنہیں کسی نوع کے واقعاتی یا تاریخی شواہد کی مدد سے حل کیا جاسکے۔ اسی طرح یہ دلیل بھی ثابت کرتی ہے کہ اختلاف منطقی’ تضاد سے نہیں ابھرتا اور نہ یہ ابھرسکتا ہے اور ثبوت کی ذمہ داری فلاسفہ پر ہے جو مابعد الطبیعاتی عقائد کو واضح اور عقلی اصولوں کے مطابق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ہمارا تعلق منطق اور حقیقی عمل سے ہے اور ان فلاسفہ کے برخلاف غیر منطقی عقلی شواہد اور بدیہی تصورات کے وجود کو صحیح تصور نہیں کرتے۔
امام غزالی کے پس پشت کارفرما مقصد یہ ہے کہ عقل کے خود مکتفی و راہنمائے واحد کے نظریہ کے بودے پن کو ثابت کیا جائے اور یہی آپ کی فکر کا نہایت اہم نکتہ ہے۔ مابعد الطبیعاتی عقائد سے متعلق بیانات اپنی نوعیت میں ترکیبی ہوتے ہیں جن کے لیے حد اوسط کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حد اوسط اپنے موضوع موجود معلومات سے بڑھ کر فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ استخراجی طریقہ کار کے درست ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بنیادی قضا یا بدیہی و غیر مشکوک ہوں جب کہ امام یہ ثابت کرچکے ہیں کہ مابعد الطبیعاتی عقائد کا اظہار کرنے کے والے بیانات کے لیے یہ شرط ضروری نہیں۔ اگر بنیادی قضا یا بدیہی وغیر مشکوک نہیں ہیں تو اس سے کوئی لازمی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ دوم نتیجہ کی لزومی حیثیت ثابت کرنے کے لیے حد اوسط کا ہونا ضروری ہے جب کہ مابعد الطبیعاتی بیانات کی نوعیت تحلیلی کی بجائے ترکیبی ہوتی ہے لہٰذا ان بیانات میں حد اوسط کا ہونا ممکن نہیں۔ اب اگر تحلیل و تجزیہ کی مدد سے حد اوسط کو نہیں سمجھا جاسکتا تو کچھ ایسے ذرائع ضرور ہونے چاہییں جن کی مدد سے حد اوسط تک رسائی ممکن ہو اس ضمن میں یونانی فلاسفہ کا خیال تھا کہ عقل میں بذات خود وجدانی و انکشافی صلاحیت موجود ہے جس کی مدد سے وہ علم میں خاطر خواہ اضافہ کو ممکن بناتی ہے اور اسی صلاحیت کی بدولت بدیہی و قطعی قضایا بھی وضع کیے جاتے ہیں۔ مغربی فلاسفہ کے غیر منطقی لزومیت کے خود مکتفی ہونے کے نظریہ پر یقین کی بنیاد یہی ہے جس کو امام غزالی بالخصوص ہدف تنقید بناتے ہیں۔
عقلی لزومیت کے اس نظریہ کے بودے پن کو ثابت کرنے کے لیے امام ایک اور طریق استدلال کا سہارا لیتے ہیں جسے دلائل تضمین کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ اس طریق استدلال میں امام ایک دوسرے استدلال جسے فلاسفہ یونان بدیہی تصور کرتے ہیں ‘ کو غلط اور لغو ثابت کرتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ابتدائی استدلال کو بھی مہمل قرار دیتے ہیں اور یہ نکتہ نکالتے ہیں کہ عقلی لزومیت کا نظریہ اس قدر بدیہی و قطعی نہیں ہے کیوں کہ اگر کسی ایک استدلال کو مشکوک ثابت کر دیا جائے تو منطقی عقلی لزومیت اور خود وجودیت کا مکمل نظریہ مشتبہ و غیرہ بدیہی قرار پاتا ہے لہٰذا جب وہ کائنات کی ابدیت کے نظریے سے بحث کرتے اور اس میں شامل عقلی لزومیت اور خود مکتفی کو اس کے اجزاء کے طور پر لیتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی وہ افلاطون کے پیش کردہ روح کی ابدیت کے نظریہ کو بھی شامل بحث کرلیتے ہیں جسے وہ اسی انداز میں بدیہی و قطعی سمجھتا ہے۔ امام غزالی افلاطون کے عقیدے کو یوں بیان کرتے ہیں۔
”افلاطون کا خیال تھا کہ روح ابدی ہے اور جب اجسام میں جاتی ہے تو یہ تقسیم ہوجاتی ہے اور اجسام سے نکل کر واپس اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتی ہے”۔ امام اس عقیدے کو دلائل تضمین کی مدد سے تجزیہ کرتے اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ بدیہی نہیں ہے۔
‘اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ اس درجہ قابل مذمت ہے کہ اسے فوری رد کرنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا زید کی روح عمر کی روح کے مماثل ہے؟ اگر اسے مماثل قرار دیا جائے تو یہ نہایت لغو بات ہوگی۔ زید و عمر دونوں اپنے وجود سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دونوں آپس میں یکساں خصوصیات کے حامل نہیں۔ اگر ارواح اپنی نوعیت میں مماثل ہوتیں تو وہ یقینا وقوفی حیثیت میں بھی یکساں تصور کی جاتیں جو ارواح کی لازمی و ضروری صفات ہیں۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ زید کی روح عمر کی روح سے اپنی نوعیت میں مختلف ہے اور دونوں ارواح کے دو مختلف اجسام میں منقسم ہونے کے نتیجہ میں ایک دوہریت وجود میں آتی ہے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اس جوہر کی تقسیم’ جسے روح کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور جس کو کسی ماہیت یا مقدار کی اکائیوں میں نہیں سمجھا جاسکتا’ قطعی ناممکن و محال ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ روح جو اکائی کی شکل میں ہے اسے ہزاروں حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور پھر دوبارہ اسی سابقہ اکائی میں واپس آجائیں۔ اس نوعیت کا عمل فقط ان اشیاء کے ساتھ ممکن ہوتا ہے جو کسی مقدار اور ماہیت کی حامل ہوں۔ مثال کے طور پر سمندر کے پانی کو دریائوں وغیرہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ان کا دوبارہ سمند کی صورت بن جانا بھی ممکن ہے لیکن ایک غیر مقداری بے ماہیتی شے کو کس طرح منقسم کیا جاسکتا ہے؟
ایک ایسا استدلال جس کی علمی حیثیت کو قطعی و غیر مشکوک سمجھا جاتا تھا اس کی کمزوری کو مکمل طور پر واضح کر دیا۔ اس کے بعد آپ اس استدلال کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اصل موضوع بحث ہے۔ اس تمام استدلال کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کائنات کی بذریعہ ارادہ الٰہی کی تخلقی کے نظریے کو اپنے مخالفین کے لیے نہیں چھوڑ سکتے تھے جب کہ وہ ایسی کوئی چیز دلیل کے برعکس ثابت نہ کردیں مگر جب یہی دعویٰ ان کے فلاسفہ نے اپنے عقیدے کو جھٹلاتے ہوئے کیا تو ان کے لیے اس تنقید پر خاموشی اختیار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اور یہ ایک ناقابل فرار حالت تھی۔
امام غزالی نے اسی طریقہ استدلال کے ساتھ کام لیتے ہوئے فلاسفہ کے انکار تخلیق کائنات بذریعہ وحی الٰہی کے نظریہ سے بحث کی ہے۔ ‘فلاسفہ کا بیان ہے کہ اگر کائنات کی تخلیق ارادہ الٰہی کے ماتحت ہوتی ہے تو یہ اب کیوں ہوا اور اس سے پہلے کیوں نہ ہوا؟’
آپ جواباً یوں بحث کرتے ہیں ‘ایسا کیوں کر ہوا کہ شمال و جنوب میں دو نقاط کو قطبین تصور کر لیا گیا؟ کیا وجہ ہے کہ دائرة البروج کا رہگزر کسی اور دو نقاط سے نہیں ہو ااس طرح تو دائرة البروج کے مخالف نقاط کو بھی قطبین قرار دیا جانا چاہئے تھے؟ بہشت کی ماہیت و جسامت میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوسکتی ہے لیکن ایک قطب کو کسی بھی دوسرے مقام سے کیوں کر ممیز کیا جاسکتا ہے؟ یا وہ کیا وجہ تھی جس کی بنا پر کسی مخصوص نقطہ کو دیگر تمام نقاط کے مقابلے میں ایک قطب کے طور پر منتخب کر لیا گیا؟ کیا تمام نقاط مشابہہ نہیں ہیں جیسا کہ ایک دائرہ کے تمام اجزاء مساوی ہوتے ہیں؟ فلاسفہ اس مسئلہ کو کسی صورت میں بھی حل نہیں کرسکتے’ اس تمام گفتگو سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ فلاسفہ کا عقلی لزوم اور خود وجودیت پر ایمان اور اساس کی بنیاد پر تمام عقائد کی پرکھ فکر کی گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے اور خود یہ فلاسفہ اس درجہ اہلیت کے لائق نہیں کہ وہ فطرت اور مظاہر فطرت کی اپنی واقعاتی تشریح کے دفاع میں مضبوط و مستحکم استدلال پیش کرسکیں۔ اس کے علاوہ اس داخلی سقم کی بھی آگہی ملتی ہے کہ دوسروں کے عقائد و نظریات پرکھنے کے لیے جن براہین سے کام لیا جاتا ہے خود اپنے افکار کے سلسلے میں ان سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔
امام غزالی نے اپنی تنقیدی فکر میں جس استدلال سے کام لیا ہے اسے متکلمین از منہ وسطی کے دانشوروں اور مناظرہ کے فن میں اساتذہ کا درجہ رکھنے والوں کے ہاں ‘الجواب الالزامی’ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن یونانی مابعد الطبیعات کے ضمن میں اس طریقہ استدلال کو امام غزالی کی بدولت ایک نیا عروج حاصل ہوا۔ اس انداز تنقید میں ایک جانب تو یہ داخلی تنقید مرتب کی جاتی ہے اور مخالف عقیدہ کی صحت کو پرکھا جاتا ہے دوسری جانب اپنے عقائد و نظریات کو مخالف کے اصولوں کی نذر نہیں کرتے اور ان پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس سے ایک منفی سا تاثر ابھرتا ہے کہ یہ انداز فکر مخالف کو تو سوالات سے کٹہرے میں لاکھڑا کرتا ہے جب کہ خود پر کسی نوع کا اعتراض وارد نہیں ہونے دیتا اور اس کی علت یہ ہے کہ ابتدائی طور پر مدمقابل کو خود اپنے وضع کردہ معیارات کے مطابق اپنے دعووں کو ثابت کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور اس میں کسی خارجی معیار کو شامل نہیں کیا جاتا لیکن خود اپنے نظریات کو ان کے معیارات کے مطابق جانچنے کی اجازت نہیں دیتے کیوں کہ اس سے ماقبل وہ ان معیارات پر دلائل کی مدد سے اپنے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں مہمل و بے معنی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس طرح یہ ممکن نہیں رہتا کہ ان معیارات کی بنیاد پر ان کے عقائد و نظریات کو پرکھا جائے۔
اس مقصد کے لیے مختلف سطحوں پر مختلف دلائل کی ضرورت پڑتی ہے جس کا تفصیلی بیان اوپر آچکا ہے یہاں اس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
١۔ اس بنیادی دعویٰ کو رد کرنا کہ مابعد الطبیعاتی عقائد اور دیگر تنازعوں کی بنیاد پر کسی قسم کی قطعیت پر ہے اور جواب میں ایسی مثالیں پیش کرنا جس کی مدد سے ان کے متبادل دعووں کو بھی مذکورہ دعووں کی طرح قطعیت کا حامل قرار دیا جائے۔
٢۔ مخالف کے عقائد و نظریات میں موجود تاریخی و واقعاتی اغلاط کو واضح کرنا۔
٣۔ مخالف کے عقائد و نظریات میں موجود منطقی تضادات واضح کرنا۔
٤۔ ان نکات کی مدد سے عقل کعد مکتفی کے نظریہ کے ابہام کو واضح کرنا۔ اس ضمن میں اوپر بحث کیے گئے دلائل تضمین کو بھی شامل استدلال کی گیا ہے۔
خارجی تنقید:
خارجی تنقید سے مراد خود آپ اپنے وجود سے جدا دیگر افکار کو پرکھنا و جانچنا ہے۔ بیرونی فکر کی صحت کو اس طرح بھی پرکھا جاسکتا ہے کہ اس کے اندرونی ربط کو دیکھا جائے کہ وہ اپنے ذروں میں کس قدر مربوط و منضبط ہیں اس کے علاوہ خود ان کے وضع کردہ معیارات کی بنیاد پر بھی ان کے افکار کی صحت میں آزمائش کی جاسکتی ہے جیسا کہ عقل کی فضیلتوں کی تنقید کے بیان میں امام غزالی کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
داخلی و خارجی ہر دو تنقیدات کا یہ امتزاج اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ عقل کی موثر فضیلتوں کو درست طور پر سمجھا جائے اور اس اشتراک کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دیگر عقائد و نظریات کو کمزور و غیر مستحکم ثابت کر دیا جائے اور اس سطح پر ہمیں ہر قسم کے تیر و تفنگ سے کام لینا پڑے گا لہٰذا اس امر کی ہر ممکن کوشش کی جائیگی کہ حالت جنگ کی نوعیت کو درست طور پر سمجھتے ہوئے ہر طرح کی تنقید کو ایک کل میں سمو کر مخالف کی پوزیشن کو کمزور کیا جائے۔ درحقیقت ہم آج ایک خاص طور کی حالت جنگ میں ہیں جو عقائد و نظریات کی برتری کی جدوجہ ہے، جس میں ہر سو فریقین مصروف عمل ہیںا ور اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا ماحول یا فضا تخلیق کی جائے جو ہمارے حق میں ممد و معاون ثابت ہو اور مخالف افکار کے لیے غیر معاونت کا سبب بنے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس فضا کے سازگار ہونے میں ماہ و سال نہیں صدیاں لگ سکتی ہیں۔ یہ ایک طویل المیعاد علمی و تہذیبی جنگ ہے اور کسی بھی جنگ کی مانند اس میں بھی کبھی اقدامی حالت ہوگی تو کبھی پسپائی کی حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی’ کبھی شب خون مارنا پڑے گا تو کبھی دبک کر بیٹھ جانے میں عافیت ہوگی۔ غرض ہر طرح کی تدبیر سے کام لینا ہوگا۔ آپ فرماتے ہیں:
‘یہ خوب جان لو کہ ہماری جدوجہد کا مقصد ان لوگوں کے خلاف کاروائی کرنا ہے جو فلاسفہ یونان پر غیر متزلزل ایمان رکھتے ہیں اور ان کی فکر کو کسی بھی نوع کے اشتباہ سے مبرا و منزہ سمجھتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ یونانی فکر میں موجود تضادات و اغلاط کو مکمل طور پر عیاں کیا جائے اوراسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اپنی فکر کے بجائے ان عقائد و نظریات پر حملہ آور ہوا جائے’
یہاں اس نکتہ کو مکمل اہمیت کے ساتھ محسوس کیا جانا چاہئے کہ داخلی و اندرونی تنقید کے دوران امام غزالی نے اپنے اعتقادات کی حیثیت کو ہمیشہ برتر محسوس کیا اور آپ کی فکر کے مکمل مطالعہ میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ وہ کسی قسم کی مصالحت آمیز فکر کے قائل نہیں لیکن آپ اس کے قائل ضرور ہیں کہ ایک مضبوط و مستحکم تنقید مرتب کرنے کے لیے یونانی فلسفہ کے بنیادی اصولوں کے حوالے سے مکمل ادراک حاصل کیا جائے خود اس فکر کے اندر سے تنقید کے لیے کمزور گوشے تلاش کئے جائیں۔ مزید برآں یہ کہ آپ کسی بھی نوع کی معروضیت یا تجریدیت کے بھی قائل نہیں ہیں۔ آپ کی تمام تر گفتگو اسلامی علمیت و صداقت کی برتری کے حوالے سے متشرح ہے جب کہ یونانی علوم و فلسفہ کو آپ کفریہ عقائد کا مجموعہ تصور کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ یہ بنیاد تصور کیے بغیر مغربی تہذیب کا کسی قسم کا اسلامی محاکمہ سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اصولی طور پر یوں کہہ لیجئے کہ اندرونی تنقید کو خارجی تنقید کے تناظر میں ہی سمجھاجانا چاہئے۔
امام غزالی واضح طور پر یہاں فرماتے ہیں کہ عقلی بنیادوں پر صداقت کا حصول ممکن نہیں ہے بلکہ فقط وحی الٰہی اور رحمت خداوندی وہ کنجی ہیں جن کی بدولت انسان راہ حق پاسکتا ہے۔ کسی فرد کا کفریہ عقائد سے تائب ہو کر اسلام قبول کرلینا خداوند تعالیٰ کی عطا سے ہی ممکن ہے اس میں کسی منطقی استدلال اور عقلی موشاگافیوں کو کچھ دخل نہیں ہے۔ اندرونی تنقید کے باب میں یہ باور رکھنا چاہئے کہ آپ عقل کی خود مکتفی حیثیت کے قائل نہیں ہیں اس کے برعکس خارجی تنقید کو خاص اہمیت دیتے ہیں کہ جس کے تحت اندرونی تنقید اپنا تاثر قائم کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ داخلی تنقید کی نوعیت منفی ہوا کرتی ہے جب کہ اس کے اثبات کو خارجی و بیرونی تنقید کے باب میں سمجھا جاسکتا ہے۔ امام مثبت کے طور پر اس فیصلہ کن دلیل کو رد کرتے ہیں۔
مطلق سچائی تک پہنچنے کے لیے کوئی عقلی میدان موجود نہیں ہے’ مطلق سچائی کا انحصار مکمل طور پر رحمت خداوندی اور رہنمائی پر ہے۔ یہاں تک کہ ان کے کام کا بے جا طور پر کارتیسی نظریاتی سے موازانہ کیا گیا ہے۔ امام واضح طور پر کہتے ہیں کہ کسی شخص یا گروہ میں تبدیلی (یونانی عقیدہ سے اسلام میں) کا انحصار رحمت خداوندی پر ہے نہ کہ محض دلیل کی خود انحصاریت پر۔ امام غزالی کی داخلی تنقید دلیل کی خود انحصاریت پر دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ مستقل طور پر خارجی تنقید کے ضمن میں دیے گئے مواد کی تصدیق کرتی ہے۔ لہٰذا اندرونی تنقید خارجی تنقید کی دلالت کی حد تک منفی ہے۔
اب امام غزالی کی سطور کا جائزہ لیجئے
”یہ امر طے شدہ ہے کہ مطلق صداقت تک رسائی کسی دلیل یا عقل کی بدولت نہیں بلکہ خدا کی اس رحمت کی بدولت ہوا کرتی ہے جسے وہ راہ راست پر رکھنا چاہتا ہے اس کے دل میں اپنا نور داخل کردیتا ہے اور یہ نور خداوندی کا ایک جزو لازم ہے جب نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی نے جب شرع کے معنی دریافت کیے اور اس آیت کے حوالے سے مطلب پوچھا کہ ‘جب خدا کسی کو راہ راست پر لانا چاہتا ہے تو اس کے سینے کو اسلام یعنی خدا کی محبت کے لیے کھول دیتا ہے’ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ‘یہ وہ نور عظیم ہے جسے خدا دل میں داخل کردیتا ہے’ پوچھا گیا ‘اس کی نشانی کیا ہے؟” فرمایا ”ایسا شخص گمراہی کے اندھیروں سے نکل کر فکر آخرت کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے” اس نور خداوندی کے متعلق آپ کا ارشاد ہے ‘خدا نے مخلوق کو تاریکی میں تخلیق کیا اور پھر ان میں اپنا نور پھونکا’ اسی نور خداوندی کی بدولت ہی اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے اور یہ نور متعین عرصہ میں رحمت خداوندی کی جانب پھوٹتا ہے اس کے قرب و دیار کے لیے یقینا کوشش کرنا چاہئے۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ ‘آج اس دور میں رب کائنات کی رحمتوں کا دریا عروج پر ہے لہٰذا زیادہ سے زیادہ خود کو سیراب کرنے کی کوشش کرو’
کوئی اندرونی تنقید اسلامی عقائد و شعائر کو تسلیم کیے بغیر حق تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی اور تمام دیگر نظریات کو اسلامی علمیت کی بنیاد پر ہی جانچا پرکھا جائے اور یہ فقط خارجی تنقید کے ضمن میں ہی ممکن ہوتا ہے کہ دیگر عقائد کی مکمل تفہیم اور ان پر تنقید اسلامی فکر کو معیار سمجھتے ہوئے کی جائے۔
یہاں تہافہ کا ایک اور پہلو سامنے آتا ہے جو خالص اسلامی علمیت کے ساتھ ہی مخصوص ہے کہ اپنے عقائد کو ترک کیے بغیر خارجی تنقید مختلف نظام ہائے فکر پر ان کے بطن بطون سے تنقید مرتب کی جائے اس طرح داخلی و خارجی ہر دو انداز تنقید کے منفرد امتزاج دیکھنے میں آتا ہے۔
اسلام یک آفاقی پیغام کا حامل مذہب ہے جس کی ترویج اشاعت کے لیے ابتدائے کائنات ہر قوم و نسل میں انبیاء کا ظہور ہوا لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کا گروہ جس قدر بھی صراط مستقیم سے کیوں نہ ہٹ جائے ان کے قلوب میں حق کی روشنی کی کوئی نہ کوئی کرن ضرور موجود ہوگی۔ جسے کوشش و کاوش سے مزید روشن کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کا ہر علم اپنے دور میں خیر کاکوئی نہ کوئی پہلو ضرور پوشیدہ رکھے ہوئے ہے جو دراصل کسی نہ کسی طور پر انبیاء کی تعلیم کا استخراج ہے جنہوں نے خدا اور آخرت پر یقین کو ہمیشہ مرکزی حیثیت دی اور دور حاضر کے علوم (چاہے قدیم ہوں یا جدید) کسی حد تک ان عقائد سے متعلق نظر آتے ہیں۔
ایسے افراد جو ان بنیادی اصولوں سے منکر ہیں انہیں مکمل طور پر گمراہ سمجھنا چاہئے اور ان کے علمی مقام کو اہمیت دینے کی بھی چنداں ضرورت نہیں اور نہ ہی ان کی گفتگو پر دھیان دیا جائے۔ یہ لوگ درحقیقت شیاطین کے بہکاووں میں آکر گمراہی و جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرچکے ہیں۔ ایک باشعور و فہیم شخص یقینا غلط العام تصورات سے فوری چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جنہیں گمراہی و ضلالت کا شکار ان قوموں کو حکمت و دانش کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔
اس سیاق میں امام غزالی کی فکر کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یونانی فلسفہ میں موجود ان عناصر کو سمجھا جائے جو صداقت کے حصول اور کذب سے برأت کے اظہار میں معاونت کا سبب بنتے ہیں اس مقصد کے تحت آپ ہر دو ادوار کے یونانی فلسفہ کے نظریات کے درمیان امتیاز کرتے ہیں تو دوسری جانب یونانی فکر و فلسفہ کے مختلف مکاتب کے درمیان تفریق کرتے ہیں۔ اول جز کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:
‘یہ کتاب (تہافہ) اس امر کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ قدیم فلاسفہ کے وہ مقلدین جنہیں دھریے تصور کیا جاتا ہے وہ دراصل اس الزام کے مستحق نہیں ہیں۔ انہوں نے مذہبی قوانین کا کبھی انکار نہیں کیا۔ اس کے برعکس وہ نہ صرف وجود باری تعالیٰ کے قائل ہیں بلکہ انبیاء کرام پر بھی یقین رکھتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ معاملات میں وہ التباس کا شکار ہو کر صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور دوسروں کے لیے بھی گمراہی کا سبب بنے۔ ہم اس تصنیف میں ان کی غلطی کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جن کی بناء پر وہ باطل کا آلۂ کار بن گئے۔
آپ یونانی فلسفہ کو ان کی فکر کے اعتبار سے تین مکاتب میں تقسیم کرتے ہیں
١۔ مادیت پسند ٢۔ فطرت پسند ٣۔ مذہب پسند
ان مکاتب فکر سے متعلق امام کی رائے کو مختصر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
١ آپ مادیت پسند کو فلاسفہ کا وہ گروہ تصور کرتے ہیں جو کائنات کی ابدیت کے قائل ہیں کہ یہ ازل سے موجود ہے۔ یہ گروہ خالق کائنات کا بھی منکر ہے۔ امام غزالی اس فکر کے حامل افراد کو کافر و زندیق کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
٢ دوسرے گروہ میں وہ حکماء شامل ہیں جو عالم فطرت سے متعلق تحقیقات میں دلچسپی لیتے رہتے ہیں اور حیوانات کے اعضاء جسمانی کی جراحت کے علم کے بارے میں ان کی کاوشیں قابل ذکر ہیں لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تخلیق کے عمل میں گہری تفہیم اور عجائبات عالم پر اس قدر شدید غور و فکر کے بعد بھی انہیں یہ احساس نہ ہوا کہ اس عالم آب و گل کے پس پشت اک عظیم ہستی کارفرما ہے جو علیم و خبیر ہے اور جس نے اس تمام کائنات کو خلق کیا ہے۔ اس کے بجائے وہ فطرت کو خود مکتفی اور ماننداز خدا سمجھنے لگے۔ وہ ذات باری تعالیٰ کے انکاری نہیں تھے بلکہ وہ یقین رکھتے تھے کہ خدا کائنات کی تخلیق کے بعد کائنات سے ایک معنوں میں لاتعلق ہو گیا ہے اور اب وہ قوانین فطرت یا انسانی زندگی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتا۔ ان کا یہ تصور خدا بعد کے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے فطرتیت پسندوں کے گھڑی ساز خدا کے نظریہ کے مماثل نظر آتا ہے۔ آپ ان کے عقائد کے بارے میں فرماتے ہیں:
‘یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ موت روح کو آتی ہے اور وہ دوبارہ زندگی کی طرف نہیں لوٹتی اس کے علاوہ دوزخ’ بہشت کی ابدی زندگی’ اجسام کے دوبارہ اٹھائے جانے اور پھر ان کے بھی مماثل نہیں’ یعنی آخرت فرمانبرداروں کے لیے جزا اور گناہ گاروں کے لیے عذاب کا عقیدہ ان کے لیے درست نہیں ہے۔’
امام غزالی ان لوگوں کا شمار بھی کافروں میں کرتے ہیں کہ یہ خدا اور اس کی صفات کے تو قائل ہیں لیکن روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔
٣ تیسرے گروہ میں سقراط’ افلاطون اور ارسطو کے نام قابل ذکر ہیں۔ امام کی رائے میں خدا پرستوں کے اس گروہ نے مادیت پسندوں اور فطرت پرستوں کے نظریات پر اس درجہ کڑی تنقید کی کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش معلوم نہیں ہوتی اور قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہے کہ:
”خدا نے ان کی آپس کی لڑائی میں ایمان رکھنے والوں کو بخش دیا” … تہافة الفلاسفہ میں اسی قسم کے کلمات معتزلہ اور دیگر گروہوں کے بارے میں بھی موجود ہیں۔ چنانچہ امام فرماتے ہیں:
”ان فرقوں کے بارے میں میرا نظریہ کچھ اس نوعیت کا رہا ہے کہ ہم تمام تر اختلافات کے باوجود فلاسفہ کے مقابلے میں باہم متفق و متحد ہیں جب کہ اختلاف عموماً فقط معاملات کی تشریح کے حوالے سے ہی ہے لیکن فلاسفہ کے مذہبی عقائد پر اعتراضات کے جواب میں ہم اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف ایک ہیں اور ہمیں اس مقصد کی خاطر اپنے ذاتی تنازعات کو لازمی طور پر پس پشت ڈالنا ہوگا۔”
یہ سطور اس لحاظ سے نہایت اہم ہیں کہ ہمیں امام غزالی کے طریقۂ کار کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ امام اسلام کے دشمنوں کے خلاف جن قوتوں سے اشتراک و اتحاد کو ممکن قرار دیتے ہیں ان کے عقائد میں خدا اور روز آخرت پر ایمان ضرور شامل ہونا چاہئے اور یہی وہ معیار ہے کہ جو اہل اسلام کے ساتھ اشتراک عمل کی بنیاد بنتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ حق و صداقت کا تنہا و واحد معیار اسلام ہے اور دیگر قوتوں کے ساتھ کسی نوعیت کا عارضی اتحاد فقط مقصد کے حصول تک محدود رہنا چاہئے اور مستقل نوعیت کے اشتراک سے گریزاں ہی رہنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ مادیت پسندوں اور فطرت پسندوں کے مقابلے میں ان الٰہ پرستوں کو ترجیح دینے کے باوجود آپ انہیں کافر قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور اس کے علاوہ افلاطون و ارسطو کے مسلم مقلدین مثال کے طور پر ابن سینا’ فارابی وغیرہ کو بھی ان کے افکار کی بدولت مسلمان تصور نہیں کرتے۔
اگرچہ امام تینوں گروہوں کے افکار کو مسترد کردیتے ہیں لیکن الٰہ پرستوں کے معاملے میں آپ عارضی نوعیت کی مصالحت کو ممکن سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ گروہ بھی خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر کسی طرح کا اشتراک عمل ممکن نہیں۔
اس سے قطع نظر کہ یونانی الٰہ پرستوں کے حوالے سے امام کا تجزیہ تاریخی طور پر درست ہو یا نہ ہو اہمیت ان اصولوں کی ہے جن کی بنیاد پر وہ مختلف عقائد و نظریات کے درمیان امتیاز کرتے ہیں۔ ان کے نام نہاد الٰہ پرستوں کے خلاف امام غزالی کی فکر کو Watt نے مختصراً یوں بیان کیا ہے” ”الغزالی کی اصل کامیابی افلاطونی دلیل پر طرز فکر کی تعمیر اور پھر اس کا استعمال کرنا تھا اور پھر اسلامی الٰہیات کی از سر نو تعمیر تاکہ نئی افلاطونی تعلیمات کو اسلام سے ہم آہنگ کرسکے اور ان کے تمام دوسرے فلاسفہ کی کمزوریوں کو واضح کرسکے۔ یونانی فلسفیانہ طریق استدلال کا اسلامی عقائد کے ساتھ اشتراک’ العشری’ تک تقریباً مکمل ہو چکا تھا اگرچہ اس پر مزید کام غزالی کے بعد لوگوں پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غزالی نے ان نو افلاطونی فکر سے بہت کچھ سیکھا مگر یہ الزامات کہ انہوں نے بعض ان بنیادی فلسفوں سے استفادہ کیا ہے جس کی انہوں نے ابتداء میں تردید کی تھی’ قابل تردید ہیں۔ یہ الزامات ان افکار کی بنیاد پر لگائے گئے ہیں جو غلط طور پر غزالی سے منسلک کیے جاتے ہیں۔
درج بالا سطور سے ایک بنیادی اصول یہ سامنے آتا ہے کہ جس طرح ہر دور میں ہر جگہ خدا کے نیک بندے پائے جاتے ہیں اور دنیا کبھی ان سے خالی نہیں رہی یہ کائنات کے قائم و دائم رہنے کی علت ہے اور انہی کی وجہ سے دنیا پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صداقت کو کہیں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے یہاں تک کہ بدعقیدوں اور فلاسفہ کے افکار کو سچ اور جھوٹ کو علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ تنقید نگار کا کام اس جوہری کی طرح سے ہو جو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے کھرا اور کھوٹا علیحدہ کرلیتا ہے۔
لازمی تنقید کے باب میں استدلال کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ اس میں شہادت سے مدد لی جاتی ہے اب چاہے وہ شہادت تاریخی ہو یا واقعاتی ہم اس انداز تنقید کو کسی فکر کے واقعاتی سقم کو جانچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اگر وہ واقعاتی سقم اس فکر میں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں تو پھر ان کو مشکوک طور پر صحیح ثابت کرنے سے اس فکر کی مقام و اہمیت کم ہوجائے گی۔ جہاں تک امام غزالی کے تنقید سے متعلق اصولوں کاتعلق ہے۔ تو اس لازمی تنقید کو تین زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے اول امام نہایت قطعیت کے ساتھ یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام عقائد و اعمال میں سے کچھ بھی ان نام نہاد دنیاوی عقائد سے متصادم نہیں ہے۔
منطقی تنقید کسی بھی نظریے کے منطقی ربط سے منسلک ہوتی ہے۔ نظریے کا اندرونی ربط اس کی حقانیت کی دلالت کرتا ہے جب اس کی بے ربطگی اس کو جھوٹا ثابت کرتی ہے۔ تہافہ میں امام منطقی طریقہ استدلال کو استعمال کرتے ہیں یونانی فکر و فلسفہ کی بنیادی بے ربطگی کو ظاہر کیا ہے۔
امام کے خیال میں عقلی سطح ہی کسی مقام کی منطقی لزومیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے لہٰذا تہافہ میں اپنے جوابی دلائل میں انہوں نے بار بار اپنے مخالفین سے سوال کیا ہے کہ وہ امام کے پیش کردہ قیاسی متبادل کے متضاد خیالات میں کسی بھی قسم کا خود تضاد تلاش کریں وہ کہتے ہیں کہ عقلی بنیاد پر فلاسفہ اپنا دفاع نہیں کرسکتے۔ امام غزالی بار بار یہ سوال کرتے ہیں کہ:
”کیا چیز ہمیں ان چیزوں پر یقین رکھنے سے دور رکھتی ہے نیز اس میں کیا تضادات پائے جاتے ہیں۔”
امام قانون تضاد کو یونانی فلسفہ کے اندر موجود بے ربطگی کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
”آپ کہتے ہیں کہ زحل کی گردش سورج کی گردش سے تیس گنا کم ہے اور دونوں یکساں طور پر لامحدود ہیں۔ پھر کس طرح محدود اور لامحدود کے دو مقام ایک ہی چیز اور وقت کے لیے ہوسکتے ہیں۔ کیا یہ چیز کسی فرد کو مایوس کن خود تضادی کا شکار نہیں کردے گی۔ ان فلاسفہ کے بارے میں اس دلیل کو ناکافی سمجھتے ہوئے امام نے ان فلاسفہ کی خود تضادی اور بودے پن کو مزید واضح کیا ہے۔
دوسری طرف امام غزالی نے یونانی فلاسفہ اور یونانی علوم کے حاصل کردہ تاریخی حقائق کے درمیان تنائو کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے یونانی فلاسفہ کے ابدیت کے نظریہ اور یونانی طبیعات اور فلکیات کے کائناتی اشیاء کی خاص تعداد میں گردش کے نظریہ پر بھی نکتہ چینی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے مخالفین کو کس طرح رد کرسکتے ہیں جب وہ کہتے ہوں کہ دنیا کی ابدیت ناممکن ہے۔
لازمی تنقید کے ضمن میں امام غزالی اسلام اور یونانی فلاسفہ کے اس بنیادی اختلاف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے اختلافات مابعد الطبیعیاتی یا محض اعداد و شمار کے نہیں ہیں جن کو حقائق کی بنیاد پر حل کر لیا جائے۔ امام فرماتے ہیں ”ایک مذہبی آدمی اور فلسفی کے درمیان تنازع محض دنیا کے فانی یا غیر فانی ہونے پر نہیں ہے اگر دنیا کی ابتداء کے وقت کا تنازع حل ہوجائے تو دنیا کے گول’ چوکور یا شش پہلو یا ہشت پہلو ہونے پر اور زمین کی تہوں پر اختلافات ہوجائیں گے۔ اس طرح حقائق کی تحقیق مابعد الطبیعیاتی سے متعلق نہیں ہے۔ ہمارے دلچسپی کا موضوع یہ ہے کہ دنیا خدا کے تخلیقی عمل کا نتیجہ ہے خواہ یہ عمل کسی طرح بھی انجام پایا ہو۔ امام کہتے ہیں:
”کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ کائنات کی گردش جفت یا طاق ہے اگر آپ اسے جفت اور طاق دونوں کہیں گے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ نہ تو جفت ہے اور نہ طاق’ یہ بے ہنگم بات ہے۔ اگر آپ اسے جفت کہیں تو محض ایک کا اضافہ اسے طاق بنا دے گا اور اگر آپ طاق کہیں گے تو ایک کا اضافہ اسے جفت بنا دے گا ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک چیز جو لامحدود ہے محض ایک عدد کے اضافہ سے جفت سے طاق بن جائے یعنی آپ کو یہ بات ماننی پڑے گی کہ عدد نہ تو جفت ہے نہ ہی طاق”۔ یہ خود تضادی کی ایک شاندار مثال ہے۔
د) لازمی تنقید میں ہم ساختی دلیل استعمال کرتے ہیں جو کہ تاریخی یا حقیقی طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ اس طریقہ تنقید کو ہم کسی نظریے کے حقیقی نقائص کو تلاش کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔ امام کے اصول تنقید کے حوالے سے ہم لازمی تنقید کو تین حوالوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے امام غزالی غیر مبہم انداز میں واضح کرتے ہیں کہ اسلام میں کوئی عمل متضاد یا مبہم نہیں ہے۔ تہافہ کے تمہیدی باب میں امام اس بات کو کلی طور پر رد کرتے ہیں کہ بعض احادیث حقیقت سے متصادم ہیں’ ان احادیث کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ حدیث میں یہ ناجائز اضافے ہیں’ ہمیں اس کے مصنف کو جھوٹا سمجھتے ہوئے اس کی ملامت کرنی چاہئے۔ رسول کے الفاظ صرف وہی ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اگر یہ اضافے اصل میں تو ان کی وضاحت کی ضرورت ہے نہ کہ ان کو حقائق برخلاف ثابت کرنے کی۔
حرف آخر:
تنقید کی پوری حکمت عملی کی تلخیص اس طرح کی جاسکتی ہے۔
٭ گمراہ اقلیت کو ان کے داخلی خیالات کی بے ربطگی واضح کرکے مسترد کیا جائے اور یہ کام لازمی خارجیت کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک حد تک نفوذ کے ذریعے ممکن ہے۔
٭ داخلی تنقید اسلام کی حقانیت کے ایک واضح پیکر میں مضبوط عقیدے کی صورت میں لکھی گئی ہے۔
٭ یکسانیات کو نمایاں کرکے اﷲ اور آخرت کے بنیادی تصور کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
بلاشبہ یہ تنقید اس تمام مثبت کام پر ایک ابتدائی جائزے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس مقالے میں وسعت نہیں کہ وہ اس تمام کام کو سمیٹ سکے۔