جدیدیت ذدہ انسان یہ دم بھرتا ھے کہ اس نے مذھب کو اسکی ‘ڈاگمیٹزم” کی وجہ سے ترک کرکے اجتماعی زندگی کی بنیاد ”سائنس” پر استوار کرلی ھے جو نہ تو مذھب کی طرح ڈاگمیٹک ھے اور نہ ہی جابرانہ۔ مگر اسکا یہ دعوی محض لفاظی ھے کیونکہ جدید اجتماعی زندگی جن سوشل سائنسز پر استوار ھوئی ھے وہ علوم اپنی ساخت و عملی رویے میں ہر چند مذھب سے مختلف نہیں۔ ان سماجی سائنسز میں سے جس سوشل سائنس نے موجودہ معاشرتی و ریاستی صف بندی پر سب سے گہرے اثرات قائم کئے ہیں وہ معاشیات ھے جسکے تمام نظریات و سکول آف تھاٹس مذھب کی مانند ھیں۔ چنانچہ یہ نظریات مذھب کی طرح انسانیت کی بابت ایک حتمی تصور حقیقت، چند مخصوص اخلاقی تصورات، انسانیت کے چند مخصوص مسائل اور انکے حل کیلئے مخصوص تعلیمات و لائحہ عمل (پالیسی پیکج) اور ان پر عمل پیرا ھونے والے گروہ کیلئے ایک شاندار مستقبل (جنت) اور مخالفین کیلئے بھیانک انجام کا وعدہ کرتی ہیں۔
مثلا لبرل یا نیوکلاسیکل نظریہ معاشیات کو لیجئے۔ یہ نظریہ کہتا ھے:
–> انسان کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسان ایک قائم بالذات خود غرض ہستی ھے جو اپنی آزادی میں اضافہ چاھتی ھے
–> انسانیت کا بنیادی مسئلہ کیاھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسانیت کا بینادی مسئلہ خواہشات کی لامتناہی کثرت اور ذرائع کی لازمی محدودیت کی وجہ سے پیدا ھونے والی ذرائع کی قلت (scarcity) ھے
–> اس مسئلے کا حل کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے کا حل efficiency یعنی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرکے بڑھوتری سرمائے کی جدوجہد کرنا ھے
–> اس حل کے حصول کا طریقہ کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا طریقہ یہ ھے کہ فرد کو مارکیٹ نظم کے تابع کردو جہاں ہر فرد اپنی ذاتی اغراض کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرے کہ وہ اپنی کن خواہشات کی تکمیل کیلئے اپنی صلاحیتوں کو حصول سرمایہ کیلئے استعمال کرنا چاھتا ھے۔ لبرل ماہرین معاشیات کا ماننا ھے کہ مکمل مسابقت (perfect competition) پر مبنی مارکیٹ نظم efficiency کا خودبخود ممکنہ حدتک زیادہ سے زیادہ حصول ممکن بنادیتا ھے کیونکہ جب ہر فرد اپنی ذاتی اغراض کیلئے سرمائے میں اضافے کی جدوجہد کرے گا تب مجموعی سرمائے میں سب سے زیادہ اضافہ ھوگا
–> ریاستی پالیسی پیکج کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ لہذا ضروری ھے کہ:
— دنیا کے تمام معاشروں کو مارکیٹ نظم قبول کرنے پر مجبور کیا جائے
— اسکے لئے لبرل سرمایہ دارانہ ریاست کا قیام از بس لازم ھے (کہ اسکے بغیر مارکیٹ کا قیام، استحکام، بقا و فروغ ناممکن ھے)۔ یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں مقامی (نیشن سٹیٹ کی) سطح پر لبرل سرمایہ دارانہ لا اینڈ آرڈر (ھیومن رائٹس فریم ورک) مسلط کرکے معاشروں کو مارکیٹ نظم کے تابع کریں گی
— جو کام مارکیٹ نہیں کرسکتی وہ تمام کام یہ سرانجام دیں گی (مثلا پبلک گڈز کی فراہمی وغیرہ)
— پرائیویٹائزیشن، ڈی ریگولیشن، لبرلائزیشن وغیرھم کے ذریعے ذرائع پیداوار اور بڑھوتری سرمائے کے نظام پر کارپوریشنز کے عالمی تسلط کو ممکن بنا کر گلوبلائزیشن کی راہ ہموار کریں گی
— مقامی سطح پر ایسی قوتوں کی بیخ کنی کریں گی جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کیلئے خطرہ ھوں
— سرمایہ دارانہ علوم (سائنس و سوشل سائنسز) کو فروغ دیں گی
— ان تمام سرمایہ دارانہ ریاستوں کے اوپر اس نظام کا سربراہ (hegemon) اور چند عالمی نگران ادارے ھونے چاھئے جن کی ذمہ داری اس عالمی نظام کی حفاظت، ریگولیشن و فروغ اور ایسی مخالف قوتیں جنکی بیخ کنی کرنے کی صلاحیت ان لوکل سرمایہ دارانہ ریاستوں میں نہ ھو انکی بیخ کنی کرنا ھوگی (موجودہ دور میں لبرل سرمایہ داری کا یہ ہیجمن امریکہ ھے اور نگران عالمی اداروں کی مثالیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ ہیں)
–> انسانیت اس نظم کو کیوں اختیار کرے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ پوری دنیا پر مارکیٹ نظم کے تسلط کے نتیجے میں efficiency سب سے زیادہ ھوگی اور بالآخر فرد کیلئے جو وہ چاھنا چاھے گا چا ھنا اور حاصل کرنا ممکن ھوگا، یعنی وہ آزاد (قائم بالذات) ھوجائے گا
کچھ ایسا ہی نقشہ علم معاشیات کے دوسرے بڑے سکول آف تھاٹ سوشلزم (یعنی ریاستی سرمایہ داری) کا بھی کھینچا جا سکتا ھے۔
بتائیے اس پورے نقشے میں ایسی کونسی بات ھے جسے ”سائنس” کہہ کر مذھب سے مختلف یا بالاتر ثابت کرنے کی کوشش کی جارھی ھے؟ درحقیقت سوشل سائنسز بالعموم اور اکنامکس بالخصوص جدید انسان کا مذھب ھے جسکی بنیاد پر وہ اپنی ذاتی و اجتماعی زندگی کو بعینہہ اسی طرح مرتب کرتا ھے جس طرح مذہبی شخص مذہبی علمیت کی بنیاد پر اپنی ذاتی و اجتماعی زندگی کو تشکیل دیتا ھے۔ دونوں میں فرق صرف ایمان کے ماخذ کا ھے (ایک کا ماخذ خدا کا ارادہ ھے دوسرے کا خواہشات نفس) نہ کہ ایمان بمقابلہ عقل کا۔
یہاں دو مزید باتیں قابل غور ہیں۔ پہلی یہ کہ سوشل سائنسز کی بنیاد پر جو معاشرت و ریاست قائم ھوتی ھے وہ مذہبی معاشرت و ریاست کو نیست و نابود کردیتی ھے کیونکہ انکا مقصد سرمایہ دارانہ معاشرت و ریاست کا قیام و فروغ ھے۔ پس جس معاشرت و ریاست کی پالیسی سازی پر ان علوم کا غلبہ ھو انکا ‘اسلامی’ ھونا محال ھے۔
دوسری بات یہ کہ جو مسلم مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ دورحاضر ”لوگوں کی رائے” (جمہوری عمل) سے تشکیل پاتا ھے وہ نا وجود رکھنے والی خیالی دنیا میں رھتے ہیں کیونکہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں جو لوگوں کی مرضی سے ھوتا ھے (جسکی ایک جھلک درج بالا نقشے میں دیکھی جا سکتی ھے)۔ سرمایہ داری ایک نظام زندگی کا نام ھے اور نظام زندگی میں فیصلے اسکی ”علمیت” کی بنیاد پر ھوتے ہیں عوام کی رائے سے نہیں۔
اوپر علم معاشیات کے ایک بڑے نظرئیے نیوکلاسیکل اکنامکس (یا لبرل سرمایہ داری) کی بابت بتایا گیا کہ اپنی ساخت میں یہ ایک ڈاگمیٹک نظریہ ھے۔ یہاں اسی ضمن میں علم معاشیات کے دوسرے بڑے سیکولر نظرئیے سوشل ازم (یا ریاستی سرمایہ داری) کا مختصر نقشہ دیکھتے ہیں:
–> انسان کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسان قائم بالذات ہستی ھے اور اسکی آزادی کا اظہار فرد کی ذات میں نہیں بلکہ ایک مخصوص نوع یا گروہ (کلاس) میں ھوتا ھے
–> انسانیت کا بنیادی مسئلہ کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ انسانیت کا بنیادی مسئلہ طبقاتی کشمکش ھے جسکا مقصد استحصال کو ممکن بنانا ھے۔ اس کشمکش کی بنیاد ذرائع کی قلت (scarcity) ھے، اس قلت کی وجہ سے لوگ ہمیشہ سے زیادہ سے زیادہ ذرائع پر قبضہ کرنے پر مجبور رھے ہیں اور اس کوشش میں انسانیت دو طبقات میں تقسیم ھوجاتی ھے، ایک طبقہ وہ جو ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ھوجاتا ھے دوسرا وہ جسے یہ پہلا طبقہ اپنے لئے کام کرنے پر مجبور کرکے اسکی پیداوار پر قبضہ کرتا ھے۔ اپنے اس استحصال کو جواز دینے کیلئے یہ استحصالی طبقہ علم، مذھب، ریاست، معاشرت کے نام پر چند نظریات گڑھ لیتا ھے
–> اس مسئلے کا حل کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے کا حل scarcity کا خاتمہ ھے (جو ”اصلی گناہ” کی جڑ ھے)، مگر اسکے لئے طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ضروری ھے جو ذرائع پیدوار کے لامتناہی اضافے کی راہ میں رکاوٹ ھے کیونکہ استحصالی طبقہ سرمائے میں اتنا ہی اضافہ کرتا اور اسے اسطرح تقسیم کرتا ھے جو اسکے ذاتی مفادات کا تحفظ کرے نہ کہ انسانیت کی ترجیحات کا لحاظ رکھے
–> اس حل کا طریقہ کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس حل کے حصول کیلئے لازم ھے کہ سرمائے کی نجی ملکیت ختم کرکے اجتماعی ملکیت قائم کردی جائے جو زیادہ efficiency کے ساتھ ساتھ equity (قدرے مساویانہ تقسیم سرمایہ) کو بھی ممکن بنائے گی
–> ریاستی یا سیاسی پالیسی پیکج کیا ھے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ لہذا ضروری ھے کہ:
— تمام مزدوروں کو ایک (وین گارڈ پارٹی کے) پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے جس کا مقصد موجودہ استحصالی طبقے سے دولت چھین کر اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنا ھوگا
— اس کیلئے استحصالی طبقے (سوشلسٹ آئیدیالوجی کی ‘شیطانی قوت’) کے ساتھ جنگ و جدل ناگزیر ھے
— استحصالی طبقے کا استحصال جوں جوں بڑھتا جائے گا (جو کہ ناگزیر عمل ھے) زیادہ سے زیادہ مزدور اس بغاوت میں شامل ھوتے چلے جائیں گے
— اس جدوجہد کے نتیجے میں یہ پارٹی کامیاب ھوکر مزدوروں کی ڈکٹیٹرشپ (جو درحقیقت اصل جمہوریت ھوگی کہ انسانیت کی عظیم ترین اکثریت مزدور ھے) یعنی سوشلسٹ ریاست قائم کرے گی
— یہ ریاست طویل عرصے تک سوشلسٹ تعلیمات کے مطابق ریاستی معاملات کو چلائے گی اور ان پالیسیوں نیز سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے نتیجے میں ذرائع پیدوار (سرمائے) میں لامتناہی اضافے کی بنیاد ڈالے گی
–> انسانیت اس نظام کو کیوں قبول کرے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ سوشلسٹ ریاست کی پالیسیوں کے نتیجے میں جب ذرائع پیداوار میں لامتناہی اضافہ ھوگا تو:
— انسان scarcity پر ہمیشہ کیلئے قابو پالے گا، یوں انسانیت اس طبقاتی کشمکش کے شکنجے سے آزاد ھوجائے گی
— تمام قسم کے طبقات (خاندان، مذھب، قومیتں وغیرھم) ختم ھوجائیں گے
— scarcity اور طبقات کے خاتمے کے نتیجے میں ایک نیا انسان (specie being) اور معاشرہ (کمیونسٹ معاشرہ) دریافت ھوگا جہاں موجودہ اخلاقی قدریں لغو ھوجائیں گی (کیونکہ انکا مقصد استحصالی طبقے کے مفادات کا تحفظ ھے)، ریاست تحلیل ھوجائے گی (کہ اسکا مقصد تو استحصالی طبقے کیلئے جبر کرنا ھوتا ھے اور کمیونسٹ معاشرے میں جبر کی ضرورت ہی نہ ھوگی کہ وہاں طبقہ ہی نہ ھوگا)، چنانچہ وہاں فرد کیلئے جو وہ چاھناچاھے گا چاھنا ممکن ھوسکے گا (یعنی انسان عملا خدا بن جائے گا)
قابل غور بات یہ ھے کہ سیکولرازم کے یہ دونوں ہی بڑے دھڑے اس بات پر متفق ہیں کہ مقصد تو انسان کو قائم بالذات بنانا ھے البتہ فرق طریقے اور لائحہ عمل کا ھے۔ اسی لئے ھم کہتے ہیں کہ سوشل ازم ھو یا لبرل ازم، دونوں ہی سرمایہ داری کی دو مختلف شکلیں ہیں، دونوں کی جڑ ایک ہی کلمہ خبیثہ ‘لا الہ الا الانسان’ (ھیومن ازم) ھے جو تنویری علمیت (enlightenment) سے نکلنے والا اپنی نوعیت کا ایک نیا الحاد ھے۔
ڈاکٹر زاہد مغل