مغربی فرد کے اضطرار کی بنیاد گناہ سے آگاہی ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے انسان کو عبد پیدا کیا ہے اور جب وہ عبدیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو درحقیقت اپنی اصل اور فطرت سے لڑتا ہے اور نتیجتاً ہر وقت اضطرار اور گناہ کے احساس سے معمور رہتاہے اور گناہ پر مطمئن ہونے کے لیے لغو تعبیریں تلاش کرکے خود کو دھوکا دیتا ہے۔ گناہ سے چھٹکارا اس وقت ممکن ہے جب انسان عبدیت کی نیت کرے، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور گناہ معاف کردیتا ہے۔ اس کے دل کو اضطرار سے نجات دلا کر اطمینان کی دولت سے نوازتا ہے۔ حقیقت نفس کی آگاہی انسان کو عبدیت پر راضی کرتی ہے۔ لہذا تعمیر شخصیت میں کرنے کا سب سے پہلا کام نیتوں کو ٹھیک کرنے کا ہے یعنی فرد کی نیت حصول رضائے الہی کے سواء اور کچھ نہ رہے اور وہ ہر کام اور فیصلے کو اس بنیاد پر جانچے کہ اس کے نتیجے میں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ پھر محض نیت ٹھیک ہونے سے انسان اللہ کی رضا حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوجاتا بلکہ نیت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنے حال کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ حال کو ٹھیک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر معاملے میں اتباع سنت کی جائے۔ فرد اپنی ذاتی زندگی میں وہ پیمانے مقرر کرے کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل سے لیکر بڑے سے بڑے عمل تک اپنے محبوب نبیﷺ کی اتباع کرے۔ ہر شخص کا حال اتنا ہی ٹھیک ہے جتنا وہ اتباع سنت کرتا ہے اور جو اتباع سنت سے جتنا دور ہے اس کا حال اتنا ہی خراب ہے ، ممکن ہے اس کی نیت ٹھیک ہو۔ گویا ہم چاہتے ہیں کہ فرد کی محض خواہش ہی نہ ہو کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ افعال بھی انجام دے ۔ وہ آپﷺ کی زندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے اور آپﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا خواہش مند ہوجائے۔ دھیان رہے کہ حال سے ہماری مراد ظاہری اعمال اور احوال قلب دونوں ہیں کیونکہ احساس قلبی کیفیات اور جسمانی کیفیات دونوں کے تعلق کو بیان کرتا ہے۔ جس طرح قلبی میلانات انسان کے ظاہر پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح جسمانی اعمال بھی قلبی احوال پیدا کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں، الغرض دونوں کا تعلق نہایت پیچیدہ اور پہلو دار ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قلبی کیفیات کی تشکیل میں جسمانی کیفیات کے علاوہ دیگر ماورائے جسم ذرائع کا بھی اہم کردار ہے۔ رویائے صادقہ کا ورود عموماً باوضو اجسام پر ہوتا ہے لیکن باوضو ہونا رویائے صادقہ کے لیے نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی کافی۔ احساسات کو سمجھنے کے لیے محض بدنی، ماحولیاتی اور دیگر مادی حالات کا سمجھنا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے تعلقات استوار کرکے ذات میں شرکت کرنا لازم ہے۔ تو دعوت اولاً نیت کو ٹھیک کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر حال کو راہ راست پر لاتی ہے۔
جب یہ حال کو ٹھیک کرتی ہے تو انسان کو اس بات کے لیے تیار کردیتی ہے کہ وہ کائنات میں اپنے مقام کی پہچان (appreciate) کر کے معرفت حاصل کرلے ، یعنی یہ کہ وہ یہاں کس آزمائش میں رکھا گیا ہے اور اس کی حقیقی پوزیشن کیا ہے۔ وہ یہ ’محسوس کرنے ‘ لگے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے، دوسرے بندوں کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے اور اس کائنات کے ساتھ اس کا معاملہ کیا ہونا چاہیے۔ یاد رہے جب تک حال ٹھیک نہیں ہوگا وہ قلبی کیفیات اور تناظر (perspective) قائم نہیں ہوسکے گا جسکے نتیجے میں انسان اپنے مقام کو پہچان کر اسپر راضی ہوجائے۔ جس شخص کا قلب گناہوں کا اثیر ہو وہ اپنے مقام کو نہیں پہچان سکتا۔ حدیث شریف میں بیان ہوا کہ جو شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبہ لگا دیا جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرکے اپنے حال کو درست کرلے تو اسے مٹا دیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی روش برقرار رکھے تو آہستہ آہستہ اس کا سارادل سیاہ ہوجاتا ہے اور اس شخص سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ پس ادراک حقیقت کے لیے گناہوں سے توبہ کرکے حال کی درستگی لازم ہے۔ خود قرآن نے کہا کہ میں ھدی للمتقین ہوں۔ جب انسان اپنا مقام پہچان لیتا ہے تو اس کے اندر شہوت و غضب کے خبیث میلانات کم یا ختم ہو جاتے ہیں (اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس کا حال کتنا درست ہوا)۔
جب انسان اپنے اصل مقام کو پہچان لیتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے، اس کی مرضی کو قبول کرنا اور اسے نافذ کرنا اس کا مقصد ہے ، اپنے نفس کو تابع بنا کر خود کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے، اپنی تمام قوتوں کو خواہشات کی تسکین کے لیے صرف نہیں کرتا یعنی اپنے آپ کو خدا بنانے کی کوشش ترک کردیتا ہے اور اپنے مقام پر راضی ہوجاتا ہے تو شہوت و غضب جو عبدیت کو رد کرنے اور اسے خدا بنانے کے ہتھیار ہیں ان کے لیے اس کے دل میں کراہیت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے میلانات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو فرد کا حال ٹھیک نہیں ہے اور اہل دعوت و دل اسی بنیاد پر انسان کو چانچتے ہیں کہ اسمیں کس حد تک اپنے مقام پر راضی رہنے کی صلاحیت موجود ہے نیز کس حد تک اس کے اندر لذات کی رغبت موجود ہے۔ شیوخ فرد کی تربیت اسی بنیاد پر کرتے ہیں کہ وہ غضب اور شہوت کو ترک کرکے عبدیت کو چاہے جس کی شکل عشق ہے (حال کا انحصار دو چیزوں پر ہے، ایک نیت اور دوئم اخلاص۔ صوفیاء کے نزدیک وہ حال جسکی بنیاد پر نیت اور اخلاص کو ٹھیک رکھا جا سکتا ہے وہ محبت کی کیفیت ہے۔ یعنی اگر کیفیت ایک عاشق کی ہے تو ہماری نیت بھی ٹھیک ہوسکتی ہے اور اخلاص بھی قائم رہ سکتا ہے اور ہم کائنات میں اپنے مقام پر مطمئن اور راضی ہوسکتے ہیں۔ ہائیڈیگر کے الفاظ میں we are in home at the world والی کیفیت ہوگی۔ اگر بنیادی کیفیت عشق کی نہیں ہے تو جیسا صوفیاء نے ارشاد فرمایا کہ دو ہی کیفیات ہو سکتی ہیں، (۱) شہوت (۲) غضب۔ ان دونوں کیفیات کے نتیجے میں ہم اس مقام سے مطمئن نہیں رہ سکتے جس میں خود کو پاتے ہیں اس لیے یا تو ہمیں ہوس اور شہوت دامنگیر ہوگی اور یا پھر حسد و غضب ۔ دونوں خبیث قوتوں کا بنیادی جذبہ تخریب ہے، یہ جذبہ ہمیں کائنات کو مسخر کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے جسکے نتیجے میں فساد برپا ہوتا ہے اور ہمیں ایک ایسا مقام حاصل کرنے کی طرف راغب کرتا ہے جو ہمارا حقیقی مقام نہیں ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں نہ تو ہماری نیت ٹھیک رہ سکتی ہے اور نہ ہی حال ۔) ۔
تو خوب دھیان رہے کہ مقام کو پہچاننا صرف کوئی فکری (intellectual) چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری و قلبی چیز ہے، یہ ظاہر کا نہیں ہے بلکہ اندرون کا معاملہ ہے۔ اس کے ادراک کے لیے یہ کوشش کار آمد نہیں ہوسکتی کہ داعی کوئی منطقی دلیل دے کر یہ ثابت کردے کہ اللہ رب ہے اور میں اس کا بندہ ہوں یا یہ کہ کائنات مخلوق ہے، بلکہ یہاں تو معاملہ فرد کے اندر جذبات اور احساسات کا ہے کہ وہ رزائل کو دور کرکے عبدیت پر راضی ہوجائے۔ کتنی ہی اسلامی تحریکات ہیں جو لوگوں کے قلوب تک پہنچنے کے بجائے محض عقلی تقریر وں کی بنیاد پر ان کے مقام کو درست کرنے کی ناکام سعی کرتی ہیں۔ آخر کیا راز ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت باوجود عقلی مسلمان ہونے کہ اسلام میں داخل نہیں ہوپاتی؟
جب انسان کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مقام پہچان کر اس میں بلندی حاصل کرلے تو وہ مشاہدے کے قابل ہوجاتا ہے کہ جو کچھ اس کے حواس کے سامنے پیش آئے اور جو کچھ اس کے قلب پر وارد ہو اس سے صحیح نتائج اخذ کرسکے۔ جب تک اس کے اندر عبدیت اور ربوبیت کو قبول کرنے اور اسپر راضی ہونے کی کیفیت نہیں ہوگی تو اس کا زاویہ نگاہ (vision) اور تناظر ٹھیک نہیں ہوگا۔ ایسا اس لیے کہ اصل میں تو وہ عبد ہے مگر جب رب کا بندہ بننے کی خواہش نہ ہوگی تو جس چیز کا بھی وہ مشاہدہ کرے گا غلط مقام و نقطہ نگاہ (distorted vision)سے دیکھے گا اور نتیجتاً اس کی حقیقت تک رسائی حاصل نہ کرسکے گا۔ مگر جب اس کے ادراک کامقام درست ہوگا تو وہ معروضیت یعنی objectivity (چیزوں کو جیسی وہ ہیں ویسی دیکھنے) کے لائق ہوجاتا ہے کیونکہ شہوت وغضب کو رد کرکے وہ اس مقام سے دیکھنے لگتا ہے جو اس کا اصل مقام ہے۔ جب قلب شہوت و غضب سے پاک اور عشق الہی سے معمور ہو تو ایسے شفاف آئینے کی مانند ہوجاتا ہے جہاں انوار الٰہی منعکس ہوتے ہیں ۔
حدیث شریف میں ارشاد فرمایاگیا کہ ’بندۂ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘، ایسا قلب ادراک حقیقت کے قابل ہوجاتا ہے اور اسی کو معروضیت کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں بیان ہوا کہ جب بندہ مومن فرائض اور نوافل پر استقامت اختیار کرکے اپنے رب کا قر ب اختیار کرتا ہے تو پھر اللہ تعالی اس کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔ خوب سن لو کہ معروضیت کی بلند ترین سطح یہی ہے کہ انسان پوری طرح خدائی تناظر (perspective) میں آجائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلاَمِ (اللہ تعالی جس شخص کو راہ راست دکھانا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے)۔ رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ شرح صدر سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ نور ہے جو اللہ تعالی دل میں ڈالتا ہے اور جب پوچھا گیا کہ اس کی علامت کیا ہے تو حبیب خداﷺ نے فرمایا ’اس دار غرور سے کنارہ کشی اور ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف رجوع اختیار کرنا‘۔ قرآن میں ارشاد ہوا: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا (انفال: ۲۹) ’اے ایمان والو اگر تم خدا خوفی اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں ایک کسوٹی فراہم کردے گا (جسکے ذریعے تم حق و باطل میں تمیز کرسکوگے )‘۔ جان لو تقوی و زہد ہی معروضیت ہیں ، بجز تقوی اور نفس کشی کے ادراک حقیقت اور سعادت اخروی کی امید نہیں کی جاسکتی۔
وہ لوگ جو اللہ ہی کے لیے ہو لیتے ہیں امام ابو نصر سراج طوسیؒ نے ان کے بالترتیب سات مقامات بیان فرمائے ہیں: (ا) مقام توبہ (۲) مقام ورع (۳) مقام زھد (۴) مقام فقر (۵) مقام صبر (۶) مقام توکل اور (۷) مقام رضا (۲۶) ۔ انہی مقامات کے ادراک میں درجات بلند کرکے بندہ مومن ادراک حقیقت کے لائق ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس جسکا حال اور مقام جتنا بلند ہوتا ہے اس کا مشاہدہ بھی اتنا ہی معروضی اور درست ہوتا ہے۔ معروضیت قلب کو غضب و شہوت سے پاک کرکے اسے انوار الہی کا مسکن بنانے سے حاصل ہوتی ہے، عقلیت دماغی کے استعمال اور فروغ سے حاصل نہیں ہوتی۔ جو قلب طاہر نہیں وہ حقیقت کا شناسا نہیں ہوسکتا اور اس کا غضب و شہوت اس کے احساس پر غالب ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں کفار کے بارے میں ارشاد ہوا : بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ (دراصل ان کے قلوب پر ان کے گناہوں کے سبب زنگ چڑھ گیا ہے)۔ چونکہ ایسے شخص کا حال درست نہیں لہذا وہ کائنات میں اپنے مقام سے نہ آگاہ ہوسکتا ہے اور نہ مطمئن۔ ایسا شخص حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی کائنات تخلیق کرنا چاہتا ہے، ایک ایسی کائنات جو اس کی خودی (شہوت و غضب) کا اظہار بن سکے ۔ خود اظہاری (self-expression) کی اسی جستجو کو subjectivity (یعنی چیزوں کو اپنی ذات کی عینک سے دیکھنا) کہتے ہیں۔ خود اظہاری یا نفس پرستی کی یہ جستجو قلب اور حقیقت کے درمیان ایسے تاریک پردے حائل کردیتی ہے کہ انسان کو کائنات کی ہر شے میں اپنی ذات کا پرتو نظر آتا ہے۔ ایسا شخص ہر چیز کو ذاتی تناظر میں (subjectively) دیکھے گا، یعنی جو چیزیں اس کے مشاہدے میں آرہی ہیں کس طرح اس کے غضب یا شہوت کی تسکین کا باعث بن سکتی ہیں۔ معروضیت درحقیقت فنا (تمام خواہشات کو ختم کرکے نفس مطمئنہ کا درجہ حاصل کرلینے) کا دوسرا نام ہے۔ چونکہ فی الواقعہ انسان عبد ہے اس لیے اس subjectivity میں ہی objectivity ہے اس لیے کہ حقیقت یہی ہے اور فرد خود کو اس پوزیشن میں لے آتا ہے جو اس کا اصل میں حق مقام ہے۔ اسی لیے اللہ کا ایک نام حق بھی ہے اور ہم عبد الحق ہیں۔ یاد رکھو عقلیت دماغی عقلیت قلب کے ماتحت ہے۔ اگر قلب شہوت و غضب سے مغلوب ہے تو عقلیت دماغی شہوت و غضب کے فروغ کے طریقوں کی نشاندہی کرے گی۔ عقلیت دماغ کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کی مدد سے قلب کو شہوت و غضب سے پاک کیا جا سکے۔ سترہویں صدی سے لیکر آج تک کی مغربی تاریخ اسی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ وہاں عقلیت دماغی کو شہوت و غضب کی تسکین و فروغ کا ذریعہ بنایا گیا ہے ( آج کا پس جدیدی (post-modern) فلسفہ اس بات کا معترف ہے کہ عقلیت دماغی کے ذریعے غضب اور شہوت پر قابو پانا ناممکن ہے۔ عقلیت دماغی کسی معروضی اور آفاقی اخلاقیات کی نشاندہی یا تعبیر کرنے سے قاصر ہے۔ شہوت و غضب سے مغلوب ہوکر عقلیت دماغی کے ذریعے عیسائی اخلاقیات کو رد تو کردیا گیا لیکن اس کی جگہ کوئی اثباتی اخلاقی نظام آج تک مروج نہ ہوسکا اور جو کچھ مغرب میں قائم ہے تو وہ محض سرمایہ دارانہ اخلاقی قدروں (شہوت و غضب) کا غماز ہے ۔) ۔
دھیان رہے کہ یہ جو غیر جانبدار (neutral) ہونے کی دعوت دی جاتی ہے محض فریب اور جھوٹ ہے، اس دنیا میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں پہنچ کر انسان غیر جانبدار ہوجائے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ’تم مسلمان کے بجائے غیر جانبدار ہو کر غور کرو ‘ یہ نری جہالت ہے، کیا اسلا م سے باہر نکل کر انسان کافر ہوتا ہے یا غیر جانبدار ؟ کیا کفر بذات خود ایک جانبدارانہ مقام نہیں؟ ائمہ علم الکلام نے جو ’ المنزلۃ بین المنزلتین‘ ( معتزلہ کا عقیدہ تھا کہ کفر اور اسلام کے درمیان ایک ایسا مقام بھی ہے جہاں انسان نہ کافر ہوتا ہے اور نہ مسلمان۔ ان کے خیال میں گناہ کبیرہ کا مرتکب اسلام سے نکل کر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔) کے عقیدے کی بیخ کنی فرما ئی یہ اسی گمراہی سے امت کو بچانے کے لیے فرمائی۔ عبدیت سے باہر نکل کر انسانی عقل غیر جانبدار نہیں بلکہ خواہشات اور شیاطین کی غلام ہو جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا : فَاِن لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُونَ اَھْوَاءَہُمْ وَمَنْ اَضَلَّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِ (پس اے رسول اگر وہ قبول نہ کریں آپ کے ارشاد کو تو جان لو کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیرو کارہیں اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو خدائی ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرے)، مزید فرمایا: لاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ (اس شخص کی اطاعت نہ کرجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور جس نے اپنے خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے) ، نیز: مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَاناً فَہُوَ لَہُ قَرِینٌ (جو کوئی رحمن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے تو ہم اس کے اوپر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اس کا دوست بن جاتا ہے)۔
جب فرد اپنے مقام کو پہچان کر مشاہدے کے قابل ہوجاتا ہے تو پھر اس مشاہدے کے دو طریقے ہیں، ایک وہ جسے مراقبہ کہتے ہیں اور دوسرے کو مجاہدہ۔ مشاہدہ ایک تو اس چیز کا ہے کہ انسان پر ان حقیقتوں کو وارد کرے جو عقل و حواس سے ماوراء ہیں، یعنی جن کا تعلق عالم لاہوت وغیرہ سے ہے۔ یہ وہ دائرہ ہے جن سے مابعد الطبعیات (metaphysics) بحث کرتی ہے اور جہاں عقل کی رسائی ممکن نہیں۔ ان حقائق کو قلبی کیفیات پر وارد کرنے کی سعی کو مراقبہ کہتے ہیں۔ انسان جتنا زیادہ اپنے مقام کا ادراک حاصل کرتا ہے اور اس کا مشاہدہ جتنا زیادہ معروضی ہوجاتا ہے اس کے قلب پر بذریعہ مراقبہ سکون نازل ہوتا ہے اور اس کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے ۔ مراقبے سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان اپنے قلب کو پاک کرلے اور اس کے اندر وہ کیفیت پیدا ہوجائے جسے نفس مطمئنہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ وہ ذریعہ ہے جس سے گزر کر فرد استقامت اختیار کرتا ہے اس نعمت پر جو اللہ تعالی اسے عطا فرماتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ محض مراقبہ کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جہاں لوگ گمراہ ہیں وہاں ہدایت و ارشاد کی شمع جلانا اور جہاں غیر اللہ کا حکم جاری ہے وہاں غلبہ اسلام کی کوشش کرنا بھی لازم ہے، بصورت دیگر مراقبہ ایک بے جان شے بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ مراقبہ انسان کو فنا فی اللہ کے لیے تیار کرتا ہے لیکن اگر گرد وپیش کے ماحول میں فنا کے مواقع ہی موجود نہ ہوں تو مراقبہ صرف اپنے اندر جانے کی چند ٹیکنیک کا نام رہ جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے عالم انوار تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ فنا عملاً ممکن ہوسکے یعنی ایسی معاشرت و ریاست موجود ہو جو تطہیر قلب اور اسلامی انفرایت کے فروغ کو ممکن بنائے ۔ حصول فنا کا جو طریقہ سنت نبویﷺ سے ثابت ہے وہ جہاد کا طریقہ ہے کیونکہ منزل جہاد منصب ارشاد کا لازمی نتیجہ ہے اور جب صوفیاء تحریکیں جہاد سے ہاتھ کھینچ لیتی ہیں تو نہ صرف یہ کہ ان کا معاشرتی اثر بھی زائل ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک بے جان ساخت بن کر رہ جاتی ہیں ۔
واضح رہنا چاہیے کہ اصلاح معاشرہ اور قیام ریاست بذات خود مطلوب نہیں بلکہ تطہیر قلوب کا ذریعہ ہے ۔ تعمیر معاشرہ اور ریاست کی کوشش اسی حد تک رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہیں جس حد تک ان کے ذریعے تطہیر قلوب ممکن ہو (طہیر قلب ، اصلاح معاشرہ اور قیام ریاست کے کاموں کے ربط کو اچھی طرح سمجھنا تحریکات اسلامی کے کارکنان کے لیے نہایت ضروری ہے۔ آج کل یہ تینوں کام ان معنی میں جدا ہوگئے ہیں کہ تطہیر نفس اور اصلاح معاشرے کاکام وہ علماء وصوفیا ء اور جماعتیں کررہی ہیں جو تعمیر ریاست کے کام سے لاتعلق ہیں، تعمیر ریاست کا کام وہ جماعتیں کررہی ہیں جن کے پاس بالعموم تطہیر قلب کا کوئی واضح ضابطہ موجود نہیں ہے۔ نتیجتاً تطہیر قلب کا کام محض تبلیغ و تطہیر اور ریاست کا کام محض قتال یا جمہوری عمل بن کر رہ گیا ہے۔ تقریباً ہر اسلامی گروہ و جماعت اپنے کام کو دوسرے اسلامی گروہ کے کام کا متبادل (substitute) اور اس سے اعلی و ارفع سمجھتی ہے جبکہ حقیقتاً ان کے درمیان تعلق ایک دوسرے کے تکملے (complementarity) کا ہے اور ان تینوں میں سے کسی دینی کام کو دوسرے دینی کام پر کوئی اقداری فوقیت حاصل نہیں۔ اصل ضرورت کسی نئے دینی کام کو شروع کرنے، یا ایک دینی کام و جماعت کو چھوڑ کر کسی دوسری دینی جماعت میں ضم ہوجانے یا کوئی ایسی نئی دینی جماعت بنانے کی نہیں جو سب کام کرے کیونکہ الحمد للہ مختلف انفرادی دینی جماعتوں کا کام مل کر مطلوبہ مجموعی دینی کام کی کفایت کرتا ہے، اصل ضرورت موجودہ دینی تحاریک کے کام میں ارتباط پیدا (relate) کرنے کی ہے۔ ہر دینی گروہ اس بات کو لازم پکڑے کہ اپنے کارکنان کو دوسری دینی تحاریک کا قدر دان بنائے اور ان کے ساتھ اشتراک عمل کرنے پر رغبت دلائے۔ جب تک اسلامی گروہوں میں اشتراک عمل کا یہ طرز فکر عام نہ ہوگا، دوسرے گروہ کے دینی کام کو برابر اہمیت نہ دی جائے گی اور مجموعی کام کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں کیا جائے گا انقلابی جدوجہد کا سہ جہتی (three dimensional) کام ادھورا ہی رہے گا۔)۔ غلبہ اسلام تطہیر قلب کے ہم معنی ہے، ہر تاریخی دور میں اسلام اتنا ہی غالب ہوتا ہے جتنی عقیدے اور حال کی درستگی عام ہوتی ہے۔ اسلامی ریاست کا کام یا اس کے اثر اور حدود میں توسیع تطہیر قلوب کا ذریعہ بن کر غلبہ اسلامی کو ممکن بناتا ہے۔ پس غلبہ اسلامی تطہیر قلوب کا ہم معنی ہے قیام و استحکام ریاست کا ہم معنی نہیں۔ تطہیر قلوب کا اسلامی طریقہ تصوف ہے اور اسی طریقے پر امت کا عمل رہا ہے۔ تصوف کا تربیتی نظام قلوب کو شہوت و غضب سے پاک کرکے ان کو عشق الہی سے معمور کردیتا ہے۔ معروف سلسلہ ہائے تصوف سے تعلق اتنا ہی ضروری اور مفید ہے جتنا آئمہ اربعہ سے مطابقت اور تعلق ضروری اور مفید ہے۔ جن تحریکات نے تطہیر قلوب کے لیے طریقہ تصوف کو ترک کیا وہ اپنے کارکنان کے لیے تطہیر قلوب کا کوئی دوسرا طریقہ وضع نہ کرسکے اور نتیجتاً وہ بڑے خیر سے محروم ہوگئیں۔
المختصر دعوت کا مقصد فرد کے لیے جنت میں داخلے کو آسان بنانا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر تحریکات اسلامی اس بات کی کوشش کرتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ان تمام مراحل سے گزار لیں، یعنی :
(۱) فرد کی نیت ٹھیک کردیں ۔
(۲) اس کا حال ٹھیک کردیں ۔
(۳) وہ اپنے مقام کو پہچان کر اسپر راضی ہوجائے ۔
(۴) اس پہچاننے اور راضی ہونے کی بناء پر وہ اس مشاہدے کے لائق ہوجائے جس کے ذریعے حقیقت تک رسائی ممکن ہے۔
(۵) پھر اس رسائی کو تعمیر کرنے اور تقویت دینے کے لیے لوگوں کو مراقبے کے لیے تیار کریں کہ وہ اپنی نیت حال اور مقام پر مستحکم رہیں اور اس دعوت کو عام کرنے کے لیے جہاد بطور بنیادی طریقہ اختیار کریں کہ جسکے ذریعے فرد اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ سنت نبویﷺ کو نہ صرف قائم کرسکے بلکہ قائم رکھ بھی سکے
خوب سمجھ لو کہ اگر جہاد کو ترک کردیا جائے تو باقی تمام مراحل بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ نیتیں بھی آلودہ ہونے لگتی ہیں (یعنی فرد میں حصول رضائے الٰہی اور حصول جنت کا جذبہ مدہم پڑجاتا ہے اور شہوت و غضب اس کے قلب کو گھیر لیتے ہیں )۔ اسی طرح اگر جہاد کا تعلق بھی باقی تمام مراحل سے کٹ جائے تو محض قتال بن جاتا ہے اور ایسا جہاد معاشرے اور تاریخ پر اثر نہیں چھوڑتا۔ یہ بھی اچھی طرح جان لو کہ یہ سب کام ایک مسلسل عمل (process) ہے، ان میں تقدیم و تاخیر کا سوال غیر اہم ہے۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج میں اپنی نیت ٹھیک کرلوں، کل حال کی فکر کروں گا، پرسوں مقام کو پہچانوں گا، پھر مشاہدہ کرکے جمعہ کے روز جہاد کروں گا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے اسی لیے اداروں (institutions) کا قیام ناگزیر ہے جو ایک مستقل عمل کو چلاتے رہیں اور ہمیشہ نیتیں بھی ٹھیک ہوتی رہیں، ہمیشہ حال بھی درست ہوتا رہے، ہمیشہ لوگ اپنا مقام بھی پہچانتے رہیں اور ہمیشہ جہاد بھی جاری و ساری رہے۔ یہ سب بیک وقت کرنے کے کام ہیں۔ ان میں پہلے اور بعد یا زیادہ اہم اور کم اہم کا سوال نہیں ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ کسی معاشرے میں جب تعلیم کو عام کرنا ہو تو وہاں اس کولوں کی تعمیر، اساتذہ کی تربیت، بچوں کی تعلیم، ماں باپ میں تعلیم کی اہمیت کے احساسات کا فروغ ، نصاب کی تعمیر و تطہیر ، ریاستی تعلیمی پالیسی کا وضع کرنااور اس کی پشت پناہی کے لیے مناسب قانونی انتظام کا بندوبست وغیرہ سب پر ایک ساتھ توجہ کی جاتی ہے۔ پس اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عقائد کا درست ہونا حال کے درست ہونے پر اور کائنات میں اپنے صحیح مقام کو پہچاننے پر منحصر ہے۔ حال درست اس وقت ہوتا ہے جب قلب ایمان باللہ اور اخلاص فی اللہ سے معمور ہو۔ اگر ایمان کمزور اور اخلاص نا پید ہو تو انسان کے احساسات ایسے نہ ہونگے جو حال کی درستگی اور مقام کی اصلیت تک پہنچنے کے لیے مدد گار ہوں۔
حقیقت الہی کا ادراک صرف ان قلوب کے لیے ممکن ہوتا ہے جو عشق سے سرشار اور شہوت و غضب سے پاک ہوں۔ عشق عبادت اور خود فراموشی کو ممکن بناتا ہے۔ عشق مومن کا دائمی حال اور تحریکات اسلامی کا اساسی جذبہ ہے۔ تحریک اسلامی کا کارکن اصلاً اور فطرتاً ایک عاشق ہوتا ہے۔ اسے خدا سے محبت ہوتی ہے اسے عبادت کہتے ہیں، اسے خدا کے بندوں سے محبت ہوتی ہے اسے رفاقت کہتے ہیں۔ تحریک اسلامی کا کارکن عشق کے جذبے سے سرشار ہو کر ہی میدان کارزار میں اترتا ہے۔ اس کو اپنے رفیقوں کی فلاح اور اخروی کامیابی کی تمنا ہوتی ہے اور وہ انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اس کی یہی وارفتگی اور خود فراموشی دعوت کے مخاطب کا حال بدل دیتی ہے۔ وہ تحریک اسلامی کے کارکن کو اپنا محب، محسن اور اپنا اتنا بہی خواہ سمجھنے لگتا ہے کہ اپنا سب اس کے سپرد کردیتا ہے۔ خوب سن رکھو کہ لوگ ایمان دل کے بدلنے کی وجہ سے لاتے ہیں۔ دعوت اسلامی اگر پنپ سکتی ہے تو صرف محبت کی بنیاد پر خود غرضی اور حسد کی بنیاد پر ہرگز نہیں پنپ سکتی۔ خود غرضی اور حسد کو بنیاد بنا کر غیر کو اپنایا نہیں جاتا بلکہ اسے تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ تمام غیر اسلامی تحاریک (مثلاً لبرل ازم، قوم پرستی ، اشتراکیت وغیرہ) غیر کو فنا کرنے کی تحاریک ہیں۔ ان کی دعوت خود غرضی اور نفس پرستی کی دعوت ہے، وہ شہوت اور غضب کو فروغ دیتی ہیں۔ لبرلزم فرد کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ وہ اپنی انفرادی آزادی کے حصول اور توسیع کو ہر چیز پر مقدم رکھے، کسی غیر کو اس کی خواہش کی تحدید کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد نفسانی خواہشات کی تسکین کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔ وہ فطرتا شہوت اور ہوس سے مغلوب ہوتا ہے۔ قوم پرستی اور اشتراکیت انسانی گروہ کی خدائی کے قیام و استحکام کے دلدادہ ہیں۔ ایک قوم پرست اپنی شخصیت اپنی قوم میں سمو دیتا ہے، وہ اپنی قوم کو دیگر اقوام پر فوقیت دیتا ہے اور اسی فوقیت کا تحکم اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ وہ دیگر قوموں کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور ان سے سب کچھ چھین لینا چاہتا ہے ۔ ایک قوم پرست کے قلب پر غضب کا پردہ پڑا رہتا ہے اور یہی اس کی subjectification ہے کہ وہ غضب کو فروغ دیکر اپنی قوم کی پرستش کرتا ہے۔ اگر تم قوم پرست اور اشتراکی کی قلبی کیفیات پر غور کرو تو جان لو گے کہ اشتراکی کا قلب بھی حسد اور غضب کے اندھیروں کا شکار ہوتا ہے۔ حقیقت کا شناسا عشق کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے اور یہی مومن کا اصل حال ہے۔ فتح مکہ کے وقت حضور پر نورﷺ نے جو اسوہ حسنہ اختیار فرمایا وہ ایک مومن اور قوم پرست کے حال کا فرق واضح کرتا ہے۔ مومن عشق سے معمور ہوتا ہے جبکہ کافر و فاسق شہوت و غضب سے مغلوب ہوتے ہیں۔ کافر صرف اپنی ذات سے محبت کرسکتا ہے، وہ ہستی کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ ہستی کی بقا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ تمام تعلقات استوار کیے جائیں جو انسان کے حقیقی مقام کا تعین کرتے ہیں۔ ہستی کی بقا کا وسیلہ محبت ہے:
خدا سے محبت جو کہ عبدیت ہے
بندوں سے محبت جو کہ رفاقت ہے
کائنات سے محبت جو کہ خلافت ہے
کافر خدا کی ربوبیت کا انکار کرکے خود خدا بننے کی جستجو میں دوسرے انسانوں پر ظلم کرکے انہیں اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی باطل جستجو میں وہ کائنات کو مسخر کرتاہے۔ وہ رفاقت اور خلافت کا اہل نہیں کہ اس کا قلب شہوت و غضب کی آماجگاہ ہوتا ہے۔ اس کا مقام ایک سرکش باغی کا مقام ہے۔ اس کی معاشرت اغراض کی معاشرت ہے۔ اغراض کی اس جستجو کو اسنے حقوق (قومی حقوق، انسانی حقوق وغیرہ) کا نام دیا ہے۔ اس کی سیاست بھی حقوق کی سیاست ہوتی ہے جسکا مقصد انسانوں کی ربوبیت یعنی جمہوریت کا قیام و استحکام ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کی نیت حصول آزادی اور پرستش نفس ہے، اس کا حال شہوت و غضب اور اضطرار ہے، اس کا مقام باغی کا مقام ہے، اس کا مشاہدہ دنیا ہے اور اس کا مجاہدہ اسی مقصد یعنی تصرف فی الارض میں لامحدود اضافے کی سعی کرنا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس برے حال اور مقام سے محفوظ فرمائے ۔
ڈاکٹر زاہد مغل