ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری تعارف:
آپ کا شمار ملک کے معروف اکنامسٹ میں ہوتا ہے، آپ نے لندن اسکول آف اکنامکس سے اکنامکس میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی آف سسیکس، انگلینڈ سے ڈاکٹریٹ کی ۔ آپ کی تحقیقاتی دلچسپیوں میں فنانشل اینڈ انڈسٹریل اکنامکس، ماڈرن کیپٹلزم اور ماڈرن اور پوسٹ ماڈرن پولیٹیکل اور اخلاقی فلسفے شامل ہیں۔ آپ نے مختلف برطانوی یونیورسٹیز، یونایٹڈ نیشنز ایجنسیز، اور پاکستان کی مالی اداروں پاکستان انسٹیٹوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں کام کیا ہےآپ سنٹر فار ڈویلپمنٹ سٹڈیز، انسٹیٹوٹ آف بزنس مینجمنٹ، کراچی ، صفا یونیورسٹی ڈی ایچ اے میں پڑھا چکے اور ڈان کے اکنامکس اینڈ بزنس پیج کے لیے بھی لکھتے رہے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دور ِحاضر میں جو ریاستی نظم دنیا پر مسلط ہے وہ سرمایہ دارانہ نظم اقتدار ہے اور اسکے استحکام اور توسیع سے اسلامی انفرادیت، معاشرت او رریاست شدید خطرات سے دوچار ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ اقتدار کی موجودگی میں مذہبی اقدار تادیر قائم رکھنا نہایت مشکل امر ہے۔ مغرب میں عیسائی اقدار کی تباہی اس کا واضح تاریخی ثبوت ہے۔ نفس مضمون یعنی سرمایہ دارانہ ریاست کی حقیقت و ماہیت بیان کرنے سے قبل ہم چند اصولی تمہیدی نکات پیش کرنا چاہتے ہیں جن سے ریاستی معاملات پر انقلابی نقطہ نظر اختیار کرنے کی اہمیت واضح ہوگی۔
اولاً : خلافت یعنی شریعت محمدی کی پابند حکومت کے قیام کے بغیر نہ تو اسلام کو قوت اور غلبہ حاصل ہوسکتا ہے اور نہ ہی طاغوتی نظام کا خاتمہ ممکن ہے۔ شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے ، لہٰذا ریاست اسلامیہ کے قیام کیلئے جو ذرائع ناگزیر ہیں ان کے حصول کی کوشش کرنا مسلمانوں پر واجب ہے
ثانیاً : ١٨٥٧ کے جہاد میں ناکامی اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد سے لے کر اب تک سرمایہ دارانہ استعمار کے جواب میں احیائے اسلام کیلئے بے شمار تحریکات برپا ہوئیں جن کے کام کو تقسیم کار کے اعتبار سے چارسطحوں پر رکھا جاسکتا ہے:
١۔ مدرسین اور مزکی:
ان کا بنیادی ہدف اسلامی علوم کا تحفظ اور اسلامی انفرادیت و تشخص کا فروغ ہے۔ ان کے بنیادی ادارے مسجد، مدرسہ اور خانقاہ ہیں
٢۔ مبلغین اور مصلحین:
ان کا بنیادی مقصد اسلامی معاشرت کا استحکام و فروغ ہے اور جو دینی تہذیبی روایات کے تحفظ و فروغ اور حلال کاروبار کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے نمایاں کام تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کا ہے جو صحیح معنی میں عوامی اسلامی تحریکات ہیں
٣۔ انقلابی :
ان کا نقطہ ماسکہ ریاست کی اسلامی نہج پر اصلاح و قیام ہے اور یہ رائج شدہ نظام زندگی میں مکمل تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
٤۔ مجاہدین:
ان کا مرکزی نکتہ بھی تعمیر و غلبہ اسلامی ریاست ہے اور یہ استعماراور اس کے ایجنٹوں سے عسکری سطح پر بر سر پیکار ہیں اور طاغوتی طاقتوں کے پھیلاؤ کے مدمقابل مزاحمت پیدا کرکے اسلامی ریاستوں کے قیام کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال طالبان عالیشان ہیں
اول الذکر دو تحریکات دفاع امت جبکہ موخر الذکر دونوں غلبہ دین کی تحریکات ہیں۔ یہ تمام راسخ العقیدہ دینی گروہ پورے اخلاص کے ساتھ اپنے اپنے کام میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ البتہ انکے کاموں میں ایک بنیادی کمزوری یہ ہے کہ یہ تینوں کام اس معنی میں جدا جدا ہوگئے ہیں کہ تطہیر نفس اور اصلاح معاشرے کاکام وہ علماء وصوفیا ء اور جماعتیں کررہی ہیں جو تعمیر ریاست کے کام سے لاتعلق ہیں، اسی طرح تعمیر ریاست اور جہاد کا کام وہ جماعتیں کررہی ہیں جن کے پاس بالعموم تطہیر قلب کا کوئی واضح ضابطہ موجود نہیں ہے۔ نتیجتاً تطہیر قلب کا کام محض تبلیغ و تطہیر اور ریاست کا کام محض قتال یا جمہوری عمل بن کر رہ گیا ہے۔ تقریباً ہر اسلامی گروہ اور جماعت اپنے کام کو دوسرے اسلامی گروہ کے کام کا متبادل (substitute) اور اس سے اعلی و ارفع سمجھتی ہے جبکہ حقیقتاً انکے درمیان تعلق ایک دوسرے کے تکملے (complementarity) کا ہے اور ان تینوں میں سے کسی دینی کام کو دوسرے دینی کام پر کوئی اقداری فوقیت حاصل نہیں۔ اصل ضرورت کسی نئے دینی کام کو شروع کرنے یا ایک دینی کام کو چھوڑ کر کسی دوسری دینی جماعت میں ضم ہوجانے یا کوئی ایسی نئی دینی جماعت بنانے کی نہیں جو سب کام کرے کیونکہ الحمد للہ مختلف انفرادی دینی جماعتوں کا کام ملکر مطلوبہ مجموعی دینی کام کی کفایت کرتا ہے، اصل ضرورت موجودہ دینی تحریکات کے کام میں ارتباط پیدا (relate) کرنے کی ہے۔ ہر دینی گروہ اس بات کو لازم پکڑے کہ اپنے کارکنان کو دوسری دینی تحریکات کا قدر دان بنائے اور ان کے ساتھ اشتراک عمل کرنے پر رغبت دلائے۔ جب تک اسلامی گروہوں میں اشتراک عمل کا یہ طرز فکر عام نہ ہوگا، دوسرے گروہ کے دینی کام کو برابر اہمیت نہ دی جائے گی اور مجموعی کام کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں کیا جائے گا انقلابی جدوجہد کا سہ جہتی (three dimensional) کام ادھورا ہی رہے گا۔
ثالثا: ان تحریکات کی جدوجہد بالعموم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے مرتب ہوتی ہے اور ان کے پاس ریاست کے اندر ریاست (state within the state) قائم کرنے کا کوئی لائحہ عمل موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر جاری و ساری کام کے باوجود اسلامی قوت یکجا نہیں ہورہی اور ان غیر مجتمع انفرادی دینی کاموں کے نتیجے میں غلبہ دین کے امکانات سامنے نہیں آتے اور نہ ہی تحفظ دین کا کام کما حقہ ہوپاتا ہے کیونکہ ہم ہمیشہ دفاع اور رد عمل کی پوزیشن ہی میں رہتے ہیں۔ موجودہ ریاستی ڈھانچے کے حوالے سے اسلامی تحریکات کے رویوں میں دو طرح کی خامیاں ہیں، ایک وہ جوتحفظ امت کی تحریکات کو لاحق ہیں اور دوم وہ جن کا شکار غلبہ دین کی تحریکات ہیں:
(الف) اصلاح انفرادیت و معاشرہ کی تحریکات اصولاً تحفظ اسلام کی تحریکا ت ہیں جن کامقصد سرمایہ دارانہ نظم اجتماعی کے اندر ایک ایسے دائرے کی تلاش رہی ہے جہاں اسلامیت کی حفاظت و بقا ممکن ہو سکے۔ ان تحریکات نے اس مفروضے کی بنیاد پر خود کو ریاستی معاملات سے علیحدہ رکھا ہے کہ نظام اقتدار سے غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہے جبکہ یہ مفروضہ درست نہیں۔ ریاست سے غیرجانبداری ناممکن الوقوع شے ہے کیونکہ ریاست تو بالفعل ‘موجود ہے’ اور وہ احکام کے صدور کے ذریعے فرد اور معاشرے پر اثر انداز ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ اقتدار کے معاملے میں لاتعلقی یا غیر جانب دار رویے کی کوئی حقیقت نہیں، یا تو آپ کسی نظام اقتدار کے خلاف ہوتے ہیں یا اسکے حق میں ان کے درمیان کوئی راستہ موجود نہیں۔ ہماری سب سے بڑی عوامی تحریکات یعنی دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت ریاستی مسائل سے نہ صرف یہ کہ صرف نظر کرتی ہیں بلکہ انہیں گندگی سمجھتی ہیں۔ یہ جماعتیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ غیر سیاسی جماعتیں ہیں حالانکہ ان کی اس بات کا مطلب اسکے سوا اور کچھ نہیں کہ انہوں نے باطل نظام اقتدار کی سیادت اور اس سے مصالحت قبول کرلی ہے۔ اقتدار سے لاتعلقی کے امکان کی اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام پر عمل کرنے کا دائرہ دن بہ دن چھوٹا ہوتا چلا جا رہا ہے اور سرمایہ داری پر مبنی نظام اقتدار ہم پر غالب آتا جارہا ہے۔ کسی منکر کو ہوتے دیکھ کر خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ منکر کے معاملے میں نیوٹرل ہیں، بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ اسکی بالادستی قبول کرتے ہیں اور منکر کے ساتھ یہ مفاہمت اسکی تقویت اور فروغ کا باعث بنتا ہے۔ لہذا اقتدار (نہ کہ محض حکومت) اور غلبے کے مسئلے پر تمام دینی کام کو مربوط کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ اگر یہ نہ کیا گیا تو انفرادی اصلاح تو ہوجائے گی لیکن اسکے نتیجے میں کافر اقتدار کو نقصان نہیں پہنچے گا اور بالآخر اصلاح نفوس بھی مشکل ہوتا چلا جائے گا کیونکہ اصلاح کتنی ممکن ہے اسکا انحصار واقعیت (facticity) کی ان معاشرتی و ریاستی جکڑ بندیوں پر ہوتا ہے جن سے ایک فرد دوچار ہوتا ہے۔ اسلامی انفرادیت کے فروغ کیلئے ایسی ترتیب اقتدار چاہئے جو واقعیت کو بدل دے اور اسلامی انفرادیت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردے۔ مصلحانہ جدوجہد کرنے والی تحریکات کا یہ مفروضہ غلط ہے کہ اسلامی انفرادیت کا سیاسی اظہار اور ترتیب اقتدار خودبخود رونما ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب اسلامی علمیت کے تحفظ کیلئے شعوری طور پر ادارتی صف بندی عمل میں لانا لازم ہے محض افراد کو اسکی اہمیت بتلا دینے سے کام نہیں چلتا تو اسلامی اقتدار کے قیام کیلئے مطلوبہ صف بندی سے صرف نظر کیسے کیا جاسکتا ہے اور اسکا ظہور خود بخود کیسے ہوجائے گا؟ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مدارس میں بھی ریاست و سلطنت کی نظریاتی بحثیں بالکل معدوم ہو گئی ہیں اور متقدمین میں سے کسی مسلم سیاسی مفکر کی کوئی کتاب ہمارے درس نظامی میں شامل نہیں
(ب) انقلابیوں کا اصل کام یہی ہے کہ وہ سارے دینی کام کو اس طرح مجتمع کریں کہ اسلامی اقتدار قائم ہو سکے۔ مگر جن تحریکات نے غلبہ دین کو اپنی جدوجہد کا بنیادی مرکز بنایا انہوں نے یا تو انقلاب کو جمہوری سیاست کا ہم معنی سمجھ لیا یا پھر احتجاجی و مطالباتی سیاست۔ یاد رہنا چاہئے کہ ہماری جدوجہد کا مقصد موجودہ نظام اقتدار کے اندر شمولیت نہیں بلکہ ایک متبادل نظام زندگی اور اقتدار قائم کرنا ہے جہاں عوام یا کسی فرد کے بجائے ‘اہل الرائے ‘ کا اقتدار قائم ہو جن کی مرضی و مشورے سے ہی ریاست کے امور طے پائیں ۔ جن تحریکات نے جمہوری سیاست کو اصل مقصود بنا رکھا ہے انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ انقلابی (state within the state) سعی کے بغیر اقتدار نہیں بلکہ حکومتیں تبدیل ہوا کرتی ہیں کیونکہ قانون کے اندر رہ کر کی جانے والی جدوجہد توloyal disobedience (تابعدارانہ مخلص نا فرمانی ) ہوتی ہے جسکے نتیجے میں نظام اقتدار تبدیل نہیں ہوتے۔ نظام باطل کے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اقتدار تبدیل کرنے کی خواہش رکھنا self-defeating (تضاد پر مبنی ) اصول ہے کیونکہ ہر نظام اقتدار کے قوانین اسکے اپنے استحکام کیلئے بنائے جاتے ہیں نہ کہ اسے ڈھادینے کے لئے۔ disobedience Loyal کے ذریعے اقتدار تبدیل کرنے کی غلط فہمی اس لئے پیدا ہوئی کہ ہم نے قانون کو ‘غیر اقداری’ (value-neutral) سمجھ لیا ہے حالانکہ ہر قانون ایک مخصوص انفرادیت و معاشرت نافذ کرنے کیلئے وضع کیا جاتا ہے اور یہی حال ہیومن رائٹس پر مبنی دستوری قانون کا بھی ہے جس کامقصد سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن) ، معاشرت (سول سوسائٹی) اور ریاست (ریپبلک) کا قیام و فروغ ہے۔ جو تحریکات خود کو اصولاً اور عملاً انقلابی کہتی بھی ہیں انکے پاس بھی انقلابی عمل کا کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں۔ انکے انقلاب کا تصور بس یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو کسی دعوت کے تحت منظم کرکے حکومت وقت سے بھڑ جاؤ یا اس سے چند مطالبات تسلیم کرالو۔ ظاہر ہے یہ تصور غلط ہے کیونکہ انقلابی عمل کا مطلب ہوتا ہے قوت نافذہ کو موجودہ افراد اور اداروں سے چھین کر متبادل افراد اور ادارتی صف بندی کے تحت مربوط اور مجتمع کرنا۔ انقلابی تحریکات اس قسم کی سعی پر کوئی توجہ نہیں دیتیں کیونکہ وہ حکومت اور ریاست کے فرق کو سمجھ نہ سکیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بہت سی انقلابی تحریکات ریاستی قوت کے متبادل ادارے قائم کرنے کو ناجائز گردانتی ہیں گویا وہ ریاست کے اندر یاست قائم کئے بغیر انقلاب لانے کا خواب دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحی جماعتوں کی مانند انقلابی جماعتیں بھی تحریک لال مسجد کی انقلابی حکمت عملی کو غلط قرار دیتی رہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ تاریخ میں کوئی انقلاب محض دعوت و تبلیغ کے زور پر نہیں آیا بلکہ اسکے لئے لازماً قوت کو غالب نظام اقتدار کے خلاف جمع کرنا پڑتا ہے۔ اگر سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں محض حکومتی افراد تبدیل ہوجائیں مگر اقتدار کا مرکز موجودہ ادارے ہی رہیں تو اس جدوجہد سے کوئی بامعنی تبدیلی نہیں ہوپاتی۔ وہ لوگ جو انقلابی عمل کی حقیقت اور حکومت و ریاست کے فرق کو نہیں پہچانتے وہ مجاہدین کی جدوجہد کو سمجھنے سے سرے قاصر ہیں، وہ کبھی انہیں غم و غصے کا اظہار کہتے ہیں اور کبھی شدت پسندانہ رویے پر مبنی رد عمل۔ ایسے لوگ مجاہدین کی جدوجہد کو عالمی قوانین کی پاسداری کرنے کے حوالے سے شرع کی تعلیمات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں …فیا للعجب
رابعاً: یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دور حاضر میں قائم اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں کافرانہ نظم اجتماعی پر قائم ہیں گو انہیں چلانے والے مسلمان ہیں، اور ان ریاستوں کا خلافت ہونا تو کجا سلطنت اسلامیہ کے درجے سے بھی دور کا واسطہ نہیں کیونکہ یہ تمام ریاستیں قومی ہیں جہاں حاکمیت کی بنیاد عوامی نمائندگی ہے، جہاں علوم شریعہ کے بجائے سائنسز کی بالادستی ہے، جہاں شرع کے بجائے دستوری قانون نافذ ہے وغیرہ ۔ انقلابیوں کا بنیادی مقدمہ یہی ہے کہ تحفظ اور غلبہ اسلامی کا کام اسی وجہ سے انتشار کا شکار ہے کہ وہ اسلامی ریاست جو تسلسل کے ساتھ سلطان عبد الحمیدثانی کے دور تک قائم تھی اور جس نے تمام دینی کام کو سمیٹ رکھا تھا اب مفقود ہوگئی ہے۔ سلطان اسی معنی میں ظل اللہ تھا کہ اسکی برکت سے تمام دینی کام مربوط تھے اور اقتدار کی کنجیاں علماء اور صوفیاء کے ہاتھوں میں محفوظ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجدد الف ثا نی رحمہ اللہ اورشاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے مغل سلطنت کے استحکام کی کوششیں کیں (ماسواء اکبر کی حکومت کہ اس نے دینِ الٰہی کو فروغ دینے کی کوشش کی)۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ باطل نظام اقتدار کے اندر غلبہ دین کی کوشش بار آور نہیں ہوسکتی اور اسلامی ریاست قائم کرنا ضروری ہے۔
درج بالا جدوجہد مرتب کرنے کیلئے یہ سمجھنا لازم ہے کہ جس ریاستی نظم سے ہمارا مقابلہ ہے اسکی نوعیت کیا ہے اور یہ ریاست کس طرح کام کرتی ہے کیونکہ ان اصولی مباحث کو سمجھنے کے بعد ہی ہم یہ سوال اٹھا سکیں گے کہ کس طرح اسلامی ریاست قائم اور مستحکم کرنے کی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔
لبرل سرما یہ دارانہ ریا ست – حقیقت و ما ہیت میں سرمایہ دارانہ ریاست کا ایک عمومی خاکہ مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اگر ہم کسی جگہ اسلامی نظام کو غالب کرنا چاہتے ہیں تو وہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کا کلیتاً انہدام ضروری ہے، کیوں کہ اسلامی نظام اورسرمایہ دارانہ نظام میں اختلاف جزوی نہیں بلکہ اصولی اور بنیادی ہے۔ اب یہ اسلامی نظام کی پیش قدمی اور سرمایہ دارانہ نظام کا کسی مخصوص ملک سے اخراج کس طرح ممکن ہو گا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخصوص ملک میں سرمایہ داری اور اس کی مخصوص نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
حوالہ کتاب : سرمایہ دارانہ نظام – اک تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری