نظام کی تبدیلی بہت سے لوگوں کے لیے ایک اجنبی تصور ہے۔ اسلامی تاریخ میں کلی نظاماتی تغیر کی تحریکات تقریباً ناپید ہیں۔ بارہ سو سال تک اسلامی ریاست قائم رہی۔ شرع کے احکامات نافذ رہے۔ تمام اجتماعی معاملات علوم اسلامی (فقہ اور کلام) کی روشنی میں مجتمع کیے جاتے رہے اور ہمارا ریاستی اقتدار اتنا مستحکم تھا کہ فاتح تاتاری حاکموں نے بھی شرع مطہرہ اور علوم اسلامی کی بالادستی قبول کر لی۔ بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ سامراج نے اسلامی نظام کو ریاستی سطح پر کلیتاً معطل کر دیا۔ سرمایہ داری ایک کلیت ہے جو قانون سرمایہ کے ذریعہ ایک مخصوص انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو جنم دیتی ہے۔ جہاں نہ تنفیذ شرع کی گنجائش باقی رہتی ہے نہ علوم اسلامی کی معاشرتی بالادستی کی۔ پوری مسلم دنیا میں ایک دہریہ نظام مسلمان عوام پر مسلط ہے۔
اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ نظام کی مکمل تبدیلی کی جدوجہد کی ضرورت پیش آئی ہے۔ برصغیر میں سامراج کے خلاف جدوجہد انیسویں صدی سے شروع ہوئی۔ اس کے جلیل القدر رہنمائوں میں حیدر علی، نواب نجیب الدولہ، سید بادشاہ، حاجی شریعت اللہ، مولانا فضل الحق خیر آبادی، صادق پوری سیدوں، شیخ المشائخ مہاجر مکی، مولانا محمود الحسن دیوبندی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن انیسویں صدی کی یہ تحریکیں پسپا ہو گئیں جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ سرمایہ دارانہ نظاماتی غلبے کی نوعیت کو نہ سمجھ سکے اور مخلصین دین کو اس جدوجہد میں شرکت کا قائل نہ کر سکے۔ اسلامی انقلاب کا تصور اس نظریاتی کمزوری کو دور کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ یہ ایک تقلیدی اجتہاد ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے غلبے کے مدور میں تحفظ اور غلبہ دین کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ عمومی طور پر غلبہ کی ضرورت کو اصولاً رد نہیں کرتے لیکن عملاً اس کو ناممکن سمجھتے ہیں۔ ان کی رائے میں معاشرہ کے کسی ایک شعبہ (تعلیم، تربیت، رفاہ عامہ) میں سرمایہ دارانہ طرز حیات کی اصلاح خود بخود (spontaneously) غیر ارادی (automatic) طور پر غلبہ ٔ دین پر منتج ہو گی۔ ہماری پوری تاریخ میں کبھی بھی اسلامی ریاست بلا سیاسی جدوجہد قائم نہیں ہوئی۔ تحریکات تحفظ دین اور غلبہ دین ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں یعنی تحفظ دین کی جدوجہد غلبہ دین کی جدوجہد میں لازماً پیوست ہونی چاہیے اور اقامت دین کے دھاروں میں ارتباط پیدا کرنا تمام اسلامی گروہوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
تصورِ انقلاب سرمایہ دارانہ دورِ تغلب کی پیدا وار ہے۔ چونکہ انیسویں صدی عیسویں تک اسلامی تاریخ سرمایہ دارانہ نظاماتی غلبہ سے ناآشنا تھی لہٰذا ہماری کلاسیکی سیاسی فکر میں انقلاب کا تصور بھی کہیں نہیں ملتا۔ انقلاب کی ضرورت آج مقدم ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ انقلاب کا مطلب ہے سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل انہدام۔ برطانیہ کا 1688 کا انقلاب، امریکا کا 1776 کا انقلاب، فرانس کا 1787 کا انقلاب، روس کا 1917 کا انقلاب، چین کا 1949 کا انقلاب اور لاطینی امریکی ممالک کے 2000 کی پہلی دہائی کے انقلابات سب سرمایہ دارانہ تھے۔ ان کا مقصد سرمایہ دارانہ ریاستی اقتدار کی ترتیب نو تھا۔ یعنی لبرل سرمایہ دارانہ ریاستی تحکم سے اشتراکی یا سوشل ڈیموکریٹ ریاستی نظام کی طرف مراجعت یا بادشاہی نظام کو تباہ کرکے لبرل سرمایہ دارانہ نظام کا قیام۔ ان انقلابات کی کامیابی کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت ایک نئے سرمایہ دارانہ ریاستی جبر کے تحت پھلتی پھولتی ہے۔ ہم جس انقلاب کو برپا کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں وہ انہدام سرمایہ دارانہ نظام کا ہدف رکھتا ہے۔ اس انقلاب کی کامیابی کی صورت میں سرمایہ دارانہ انفرادیت و معاشرت منہدم ہو جائے گی۔ شرع مطہرہ کے تمام احکامات کی تنفیذ ہو گی اور تمام اجتماعی معاملات علوم اسلامی کی ہدایت کی بنیاد پر طے کیے جائیں گے۔ یہی غلبہ دین کا عملی مطلب ہے۔
اسلامی انقلاب کا تصور بیسویں صدی کی اسلامی کلامی بحثوں میں مولانا مودودی، سید قطب شہید اور امام خمینی نے متعارف کرایا۔ تینوں بزرگوں کے مطابق اسلامی انقلاب وہ سیاسی عمل ہے، جس کے جاری ہونے کے نتیجہ میں ایک دہریہ (سیکولر) ریاستی نظام منہدم ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ کلی نظاماتی سطح پر اسلامی اقتدار قائم کر دیا جاتا ہے۔ اسلامی انقلابی عمل کے ذریعہ جو واقعہ رونما ہوتا ہے وہ اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ انقلابی واقعہ سے مراد محض حکومت کی تبدیلی نہیں۔ پورے دہریہ نظام اقتدار کا بتدریج انہدام ہے۔ حکومت تو ریاستی نظام کا ایک جزو ہے اور اس کے دوسرے اجزا انتظامیہ، فوج، عدلیہ، کارپوریشن میڈیا عموماً حکومت اور مقننہ پر غالب رہتے ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک دہریہ ریاست میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔ جیسا کہ مصر میں 2012 میں ہوا۔ لیکن اگر دہریہ اقتدار کے دوسرے مراکز (انتظامیہ، عدلیہ، کارپوریشن، میڈیا وغیرہ) کو منہدم کر کے تنفیذ شرع اور علوم اسلامی کی نظاماتی بالادستی قائم نہ کر سکی تو ریاست دہریہ ہی رہے گی اور یہ ادارہ جمہوری اور استبدادی عمل کے ذریعے جلد یا بدیر اسلامی حکومت کو مفلوج کر دیں گے۔
انقلابی واقعہ (قیام ریاست اسلامی) ہمہ جہت ہے۔ جب بھی اور جس حد تک بھی سرمایہ دارانہ اقتداری اداروں (انتظامیہ، عدلیہ، کارپوریشن، میڈیا) کمزور کیے جاتے رہیں گے اور مخلصین دین کی نظاماتی تحکیمی صلاحیت بڑھائی جاتی رہے گی، اسلامی ریاست قائم ہوتی رہے گی اور اس انقلابی عمل کی تشکیل اس وقت ہوگی جب اقتدار کلیتاً مخلصین دین کے ہاتھوں میں مرتکز ہو جائے گا۔ نظاماتی سطح پر شرع نافذ کرد ی جائے اور تمام اجتماعی فیصلے علوم اسلامی کی ہدایت کے تابع ہوں۔ انقلاب برپا کرنے کی خواہش کی عمومیت انقلابی عمل کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے لیکن یہ خواہش شاذ و نادر ہی مکمل انقلابی واقعہ (قیام نظاماتی اقتدار مخلصین دین کا) پر منتج ہوتی کیونکہ مادی اور معاشرتی حالات مکمل نظاماتی تغیر کے لیے عموماً موزوں نہیں ہوتے۔
آج مخلصین دین کی عظیم اکثریت اسلامی انقلابی عمل کو جاری رکھنے کی خواہش نہیں رکھتی۔ مصلحین دین کی توجہ انفرادی اعمال کی اصلاح تک محدود ہے۔ وہ ان اعمال کے نظاماتی ارتباط کو خاطر میں نہیں لاتے۔
آج سودی اور سٹہ باز معاہدات کی شرعی حیثیت تو واضح کی جا رہی ہے لیکن سرمایہ دارانہ مارکیٹوں کی کلی کارفرمائی سے سہو نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس کے نتیجے میں جو شخصیت فروغ پاتی ہے وہ عموماً سرمایہ دارانہ نظم میں تحلیل ہو جاتی ہے اور مخلصین دین کی نظاماتی سطح پر بے اختیار لاچار اور مجبور ہی رہتے ہیں مخلصین دین کی نظاماتی بے کسی کو دور کرنے کا سرمایہ دارانہ دور اقتدار میں واحد ذریعہ اسلامی انقلابی عمل کا جاری رکھنا ہے گوکہ اس عمل کے جاری رہنے کے نتیجہ میں لازماً انقلابی واقعہ (اسلامی نظاماتی اقتدار کا قیام) کا ظہور پزیر ہونا ایک غیر یقینی امکان ہے۔
انقلابی عمل پر یقین وہ بنیادی خصوصیت ہے کہ وہ مخلصین دین کی عظیم اکثریت کو اسلامی انقلابیوں سے جدا کرتی ہے۔ مخلصین دین انقلابی عمل پر یقین نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود کہ وہ انقلابی واقعہ (قیام ریاست اسلامی) کو ہدف کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ بتدریج نہیں بلکہ یک بہ یک معجزاتی طور پر کبھی نہ کبھی خود بہ خود رونما ہو جائے گا۔ انقلاب کے لیے لازماً مخلصین دین میں انقلابی عمل کے جاری رہنے کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ یہ یقین محض تعلیم، تلقین اور وقتی مہمات سے اجاگر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ہمیں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کی ترتیب نو کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ ہمیں مخلصین دین کے اقتدار کی مائیکرو فانڈیشن قائم کرنا ہوں گی اور ایک طویل المدت منصوبہ بندی کے تحت محلہ اور بازار کی سطح پر ایسی ادارتی صف بندی کرنا ہوگی جس کے نتیجے میں اقتدار سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں سے منتقل ہو کر مخلصین دین کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتا چلا جائے۔ انیسویں صدی کی سامراج مخالف اسلامی جماعتیں یہ نہ کر سکیں۔ مخلصین دین کی اکثریت ان سے لاتعلق رہی اور یہی ان کی پسپائی کا اہم سبب بنا۔
ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری