لبرلزم سارا برا نہیں

کسی عقیدے یا نظریے کو ہمیشہ اس کی کلیت totality کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ یہ بحث تو بےشک درست ہے کہ فلاں مذہب یا فلاں نظریے کی کون کون سی بات اسلام کے موافق ہے اور کون کون سی بات اسلام سے متصادم۔ (کیونکہ ہر باطل مذہب میں حق اور باطل گڈمڈ ہوتا ہی ہے)۔ البتہ وہ مذہب یا عقیدہ اپنی مجموعی حیثیت میں ردّ ہی ہوتا ہے؛ تاوقتیکہ وہ پورے کا پورا اسلام کے تابع نہ ہو۔ یہ ہے ایک عقیدے کو اس کی کلیت کے ساتھ لینا؛ جو ایک طےشدہ قاعدہ ہے۔

رہ گیا یہ طرزِ فکر کہ مثلاً عیسائیت کا مرکزی مضمون چونکہ عیسی﷣ کو ماننا ہے، اور عیسیٰ﷣ کو ماننا تو ظاہر ہے ہمارے دین میں ہے، لہٰذا جس وقت ہم عیسیٰ﷣ پر ایمان کی بات کرتے ہیں اس وقت ہم عیسائیت پر ہوتے ہیں! یا کوئی صاحب اٹھ کر کہیں کہ عیسائیت کو ہم غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں کچھ باتیں اچھی بھی ہیں، ہاں عیسائیوں کی صرف ان باتوں کو غلط کہہ لیں جو اسلام سے متعارض ہوں! (اور اسلام سے متعارض باتیں تو ظاہر ہے اگر مسلمانوں کے ہاں بھی ہوں گی تو رد کی جائیں گی؛ لہٰذا دونوں میں کوئی فرق ہی نہ ہوا!)… کوئی اٹھ کر کہے: یہودیت چونکہ موسیٰ و دیگر انبیائے بنی اسرائیل﷨ کو ماننے سے عبارت ہے لہٰذا یہودی ہونے میں کیا حرج ہے، بلکہ یہودی تو ہم ہیں کیونکہ موسیٰ ودیگر ابنیائےبنی اسرائیل﷨ پر ایمان جو رکھتے ہیں! سو ایک مسلمان (معاذاللہ) بیک وقت عیسائی بھی ہوتا ہے، یہودی بھی، ہندو بھی، بدھ بھی، کمیونسٹ بھی، ہیومن اسٹ بھی، لبرلسٹ بھی، وغیرہ وغیرہ؛ کیونکہ اسلام کی کوئی نہ کوئی بات ان سب مذاہب اور نظریات کے ساتھ مشترک ہے… اِس طرزِفکر کا غلط اور منحرف ہونا اِس قدر واضح ہےکہ محتاجِ بیان نہیں۔

ظاہر ہے کوئی باطل ایسا نہیں جس میں کچھ نہ کچھ حق کی آمیزش نہ ہو۔ اور نہ کوئی باطل دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے؛ ورنہ نفسِ انسانی اس کو کبھی قبول کر ہی نہیں سکتا؛ کچھ نہ کچھ حق کا جھانسہ نفسِ انسانی کو لازماً دینا پڑے گا؛ ورنہ یہ کبھی اُس کے نرغے میں نہ آئے گا۔ پس ہر باطل میں ہی اسلام کے ساتھ مشترک باتیں پائی جا سکتی ہیں۔ لبرلزم میں بھی یقیناً کئی ایسی باتیں ہو سکتی ہیں جو اسلام کی رُو سے بڑی اچھی ہوں۔ جیسے ہندومت میں بہت سی باتیں ایسی ہو سکتی ہیں جو اسلام کی رُو سے بہت اچھی ہوں۔ یہ ہے باطل عقائد یا نظریات کو ان کی کلیت کے ساتھ لینا۔ ایک باطل عقیدہ اپنے ساتھ حق کی بہت سی ملاوٹ کے باوجود ردّ ہی کیا جائے گا۔ یہ نہ ہو تو پھر دنیا میں کوئی باطل عقیدہ ایسا نہیں جو ردّ ہونے کے قابل ہو؛ کیونکہ کچھ نہ کچھ آمیزش اس کے اندر حق کی ضرور ہو گی۔

اس پر ہم اگلی کسی نشست میں بات کریں گے کہ علمی طور پر ’’لبرلزم‘‘ ایک بےحد مبہم اصطلاح ہے اور اس کی شرح کرنے والے حسبِ ضرورت اس کو الاسٹک کی طرح کھینچ یا سکیڑ سکتے ہیں۔ عیسائیوں کے عقیدۂ تثلیث کی طرح، لبرلزم کی تفسیر explanation بھی یہاں ہر شخص اپنےاپنے انداز سے کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنااپنا مطلب لے سکتا اور ’دوسرے‘ جو مطلب لیتے ہیں اس سے اختلاف کر سکتا ہے۔ اس خصوصیت کی بدولت یہ سانپ جس وقت چاہے اپنی سری اندر لے جا سکتا ہے؛ یہاں تک کہ یہ ایک نرم بےحرکت گوشت کے ڈھیر کی مانند لگے جو کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ البتہ جس وقت چاہے اپنا پھن پھیلا کر کئی فٹ اونچا لہرا سکتا ہے۔ لہٰذا؛ مختلف لوگ جنہوں نے اسے مختلف حالتوں میں دیکھا ہو گا، اس کی حقیقت کے بیان میں طبعی طور پر مختلف ہوں گے؛ اور ان میں سے بیشتر سچے بھی ہو سکتے ہیں! ’’لبرلزم‘‘ ایسا ہی ایک سانپ ہے۔ نئے علاقوں میں، یہ زیادہ تر کنڈلی مارے دکھائے دیتا ہے؛ اور یہاں کے لوگ اس کی بےضرری پر اچھےخاصے لیکچر دے سکتے ہیں۔ البتہ جن خطوں پر اس کا قبضہ ہو چکا وہاں اس کو پھن پھیلائے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ’’لبرلزم‘‘ کے فروخت کنندگان اپنی اصل محنت ’’فضا‘‘ کو سازگار بنانے پر کرتے ہیں۔ دماغوں پر قبضہ اس سارے عمل کے پیچھے اصل کہانی ہے۔ (’میڈیا ریولیوشن‘ media revolution جس شخص کی نظر سے اوجھل ہے وہ اِس مخلوق کی حقیقت سے کبھی واقف نہیں ہو سکتا)۔ ہاں جیسےجیسے ’فضا‘ سازگار ہوتی چلی جاتی ہے ویسے ویسے اس مخلوق کے بدن میں کروٹیں آنے لگتی ہیں؛ رفتہ رفتہ اس کی کنڈلی نگاہوں سے غائب اور اس کا پھن برآمد ہونے لگتا ہے۔

یہ وجہ ہے کہ دورِحاضر کے باطل نظریات پر نظر رکھنے والے ہمارے علمائے عقیدہ اِس بات کی خصوصی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایک عام آدمی کےلیے لبرلزم کی محض تعریف لبرلزم کی عملی مثالوں کی جہاں تک بات ہے تو اس کے فروخت کنندہ مسلم معاشروں میں اس کی صرف وہی مثالیں دیں گے جو ایک مسلمان کو اپنے دین پر عمل کرنے کے معاملے میں نہایت خوش آئند اور حوصلہ افزا نظر آئیں! یعنی گمراہ کن مثالیں۔ لبرلزم کے بیان میں دی جانے والی مثالوں کو آپ تلبیس کی بدترین صورت کہہ سکتے ہیں۔ البتہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے مزید پرت اترتے آتے ہیں؛ اور رفتہ رفتہ یہ مخلوق اپنےبھیانک سے بھیانک تر روپ میں نمودار ہوتی چلی جاتی ہے۔ البتہ تب تلک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے؛ اور ’پچھلے پرت‘ کی جانب واپسی ناممکنات میں شامل ہو چکی ہوتی ہے۔

شیخ حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ