لبرل ازم

جس طرح ایک ملک میں ہر چند عشرے بعد آپ کچھ نئے سِکوں اور کرنسی نوٹوں کا اجراء دیکھتے ہیں؛ جس کے نتیجے میں پرانے سِکے اور کرنسی نوٹ آہستہ آہستہ بازار سے غائب ہوتے چلے جاتے اور ان میں لوگوں کی دلچسپی کم ہونے لگتی ہے… اسی طرح عالمی ٹکسال سے ہر چند عشرے بعد آپ کوئی نئی اصطلاح یا کوئی نیا فکری فیشن جاری ہوتا ہوا پاتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے، دنیا بھر کے ’زمانے کا ساتھ دینے‘ والے مفکر اور دانشور اس کے اندر ’حقانیت‘ کی چکاچوند پاتے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی مالا جپنے لگتے ہیں؛ اور وہ سب پرانی اصطلاحات اور نظریاتی فیشن جو دانشوری کے بازار میں اس سے پہلے خوب بزنس کرتے رہے تھے، نظروں سے اوجھل اور لوگوں کی دلچسپی سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اتنا ہوتا تو شاید بڑی بات نہ تھی۔ مگر ان نئی فکری درآمدات کے ساتھ ’’شرحِ اسلام‘‘ کے سیکشن میں کچھ نئے شیلف shelves بھی يكايك کھل جاتے ہیں! یہ اس واقعے کا بدترین پہلو ہے۔ یہاں تک کہ قرآنی مطالب میں کچھ ایسے ’سامنے کے‘ نکات یک لخت سامنے آتے ہیں جو قرآنِ مبين کے تفسیری عمل میں اس سے پہلے کبھی سامنے نہ آئے تھے! اس کے نتیجے میں؛ خود ہمارے وہ جدت پسند جو اپنےاپنے وقت میں استشراقی ٹکسال سے نکلے ہوئے فکری فیشنز کو ’’اسلام‘‘ اور ’’قرآن‘‘ سے نہایت خوب ثابت کرتے اور اس پر ’زمانے‘ سے بھرپور داد پاتے رہے تھے… ’پرانےپرانے‘ سے لگتے ہیں! اُن (چند عشرے پرانے متجددین) کا قرآن مجید کی تفسیر کرنا اور آیات کو باہم ربط دینا ’عقلِ عام‘ کو اب کچھ اوپرا سا لگتا ہے اور صرف وہی بات ’عقل‘ کو لگتی ہے جو رائج کرنسی کے سب سے نئے اور سب سے آخری نوٹوں کے ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ شباہت رکھے! زمانے کی اس ’تیزرفتاری‘ کا نتیجہ ہےکہ عالم اسلام کے بڑےبڑے متجدد (’نئے‘ کے شیدائی) بھی وقفےوقفے سے فرسودہ اور پٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں! یعنی خود اِن جدت پسندوں کو کچھ ان سے بھی زیادہ جدت پسندوں کے ساتھ بدلنے کی ضرورت آ پڑتی ہے۔ سرسید، چکڑالوی، پرویز وغیرہ وغیرہ ایسے دماغ بےحد ’جدید‘ ہونے کے باوجود یہاں آپ کو ’اولڈ فیشنڈ‘ old-fashioned دکھائی دیتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ قرآن کا ’صحیح مقصود‘ ان سے بھی چھُوٹا ہی رہا ہے! چنانچہ قرآن کا ’صحیح مطلب‘ (العیاذباللہ) زمانے کا ہم رکاب، اور زمانے ہی کی رفتار سے، مسلسل آگے بڑھتا چلا جاتا ہے؛ جس کو پکڑنا خود ایک ہی شخص کی زندگی میں ایک تیزرفتار ’ارتقاء‘ کا متقاضی رہتا ہے۔ امت کو یہاں کس شدت کے ساتھ دوڑنا ہانپنا اور ایک کے بعد ایک انکشاف کی داد دینا ہوتا ہے، اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے!

استشراق کی ٹکسال سے عالم انسان کی سماجی و سیاسی زندگی میں اب ایک نیا جاری ہونے والا سِکہ ’’لبرلزم‘‘ کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ لفظ آپ کے سیاستدانوں کی زبان پر آ چڑھا ہے۔ آپ کے سیاستدان جنہیں عام طور پر ان پڑھ سمجھاجاتا ہے۔ ان کا پسندیدہ لفظ بھی اب ’’لبرلزم‘‘ ہو گیا ہے۔ یعنی عام لوگوں میں اس کا زہر پوری طرح اتر آیا ہے۔ جبکہ دانش وروں اور ذہن سازی پر مامور دماغوں کا تو پورا ڈسکورس اس وقت ’’لبرلزم‘‘ پر کھڑا ہے۔

جس طرح آج سے چند عشرے پیشتر، یہاں کے پڑھےلکھے دماغوں کےلیے کوئی مقناطیس ’’کمیونزم‘‘ میں نصب ہو کر رہ گیا تھااور تب یہ برسات کے پتنگوں کی طرح اس پر مرے جاتے تھے… عین ویسا ہی ایک مقناطیس اس وقت ’’لبرلزم‘‘ میں نصب ہے اور ان سب پتنگوں کا رخ اب اِس شمع کی طرف ہے۔ جس طرح بہت سے شارحینِ اسلام کو تب اشتراکیت اور اسلام میں ایک حیرت انگیز قربت دکھائی دے رہی تھی… عین ویسی ہی ایک قربت ہمارے شارحینِ اسلام کی ایک تعداد کو آج اِس لبرلسٹ ڈسکورس اور اسلام کے مابین نظر آنے لگی ہے۔ بدنیتی کا دعویٰ نہ اُن کی بابت کیا جا سکتا تھا اور نہ اِن کی بابت۔ موسمی وباؤں کی تاثیر ہی دراصل کچھ ایسی ہے۔ دماغوں کا اس سے اثر لینا یقینی ہے تاوقتیکہ ایک ’’پیچھے سے چلے آنے والے‘‘ فہمِ اسلام (أما بعد فإن كُلَّ محدَثَةٍ بدعة) کے حفاظتی ٹیکے immunization ہی بہتات کے ساتھ ماتقدّم ان کو نہ دے رکھے گئے ہوں۔ اصل حفاظت، خدا کی رکھوالی کے بعد، یہی اصولِ اہل سنت (پیچھے سے چلے آتے فہمِ اسلام) کی امیونائزیشن immunization ہے۔ ہمارے قارئین جانتے ہیں، ایقاظ کا یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ اصل چیز یہی ہے۔ تاہم کسی وقت ایک باطل نظریے کا خصوصی بطلان کر دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔

حق بنتا ہے کہ ہمارا منبر ومحراب، جو یہاں کتاب اللہ کے تعلیم و بیان کا امین ہے، لوگوں پر ان کا دین واضح کرے؛ اور اِس دین پر حملہ آور نئی ضلالتوں کی بابت قوم کو بروقت راہنمائی دے۔ ہمارے قال اللہ وقال الرسول پڑھانے والے، گمراہی کے اِس طوفان کے مقابلے پر قوم کی قلعہ بندی کریں۔

منبر و محراب کو یک آواز ہو کر اس وقت قوم پر واضح کرنا ہے کہ:’’لبرل ازم‘‘ کے نام سے یہاں جو ایک طوفان اٹھایا جا رہا ہے، اپنے اصل مضمون کے اعتبار سے ایک صاف ارتداد کی دعوت ہے۔ بہت سے لوگ بےشک نادانی میں اس کا نام جپ رہے ہیں، خواہ یہاں کے سیاستدان اور خواہ سماجی اصلاح کار، ان کے ساتھ یہ حسن ظن رکھنے میں ہمیں کوئی مانع نہیں کہ وہ اس کی حقیقت سے ناواقف ہوں اور محض ایک سنے سنائے لفظ کو نشر کیے جارہے ہوں۔ لہٰذا محض اِس لفظ کی بنیاد پر ہم کسی مسلمان کی بابت کوئی رائے قائم نہیں کرتے۔ نہ ہی جہالت کے اِس دور میں ایسے کسی رجحان کو فروغ دیتے ہیں۔ البتہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ کھلے کفر کی دعوت ہے بشرطیکہ کوئی جانے۔ اس کی بابت لوگوں کی جہالت دور کرنا، اور اس کی اصل کریہہ صورت سے ان کو متنبہ کرنا اس وقت تمام دینی آوازوں کا مشترکہ فرض ہے۔ نہایت واضح کردینا چاہئے، وہ چیز جو اِس وقت آزادیِ فکر کی پڑیوں میں ڈال کر دھڑادھڑ بیچی جا رہی ہے اپنی انتہائی صورت میں وہ آزادیِ کفر ہے۔

ہمارے اِس نئے سلسلۂ مضامین میں اسی حقیقت کو مختلف جوانب سے بیان کیا جا رہا ہے۔ وباللہ التوفیق


کچھ مقدمات ہم ابتدا میں واضح کریں گے اور پھر لبرل ازم کے ان جوانب کا ایک مختصر خلاصہ کریں گے جو ہمارے دین کے بنیادی ترین مسلّمات کے ساتھ براہِ راست تصادم ہے۔


حامد کمال الدین