کچھ عرصہ پہلے ایک مارکسی فلسفی عمران شاہد بھنڈر صاحب نے مذہب پر اعتراض اٹھایا کہ مذہب کا علمیت سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسکا جواب ڈاکٹر زاہد مغل صاحب نے دیا۔ بعد میں انہوں مذہب پر کچھ مزید اعتراضات اٹھائے جن سے یہ بحث ایک دلچسپ مکالمے کی شکل اختیار کرگئی۔انکا بنیادی دعوی یہ تھا کہ انسان اور کائنات کی حقیقت کے متعلق مذہب کی توجیہات مفروضے ہیں اس کے جواب کیساتھ ان سے آخر تک یہ پوچھا جاتا رہا کہ حقیقت کا آپ کوئی ایسا سائنسی یا فلسفیانہ علم سے تصور پیش فرمادیں جو مفروضہ نا ہو اور وہ تصور/ توجیہہ مذہبی توجیہہ سے ذیادہ بہتر بھی ہو لیکن وہ آخر تک اس سوال کو نظر انداز کرتے اورمزید نئے سوالات اٹھاتے رہے۔۔ اس بحث میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا جن میں زاہد مغل ، محمد فاروق، نعمان علی خان، مراد سوات، عزیزی اچکزئی صاحب کےجوابات پڑھنے کے لائق ہیں ۔یہ بحث مختلف پوسٹوں پر ہوئی ہم اس میں عمران صاحب اور انکے جواب میں کیے گئے موضوع سے متعلقہ تمام کمنٹس کو یکجا کرکے ترتیب کیساتھ ایک مکالمے کی شکل میں پیش کررہے ہیں، ی ۔ ایڈمن
٭٭٭٭٭
Imran Shahid Bhinder
انسان کی فکری تاریخ کا واحد درس یہ ہے کہ مذہب کا علمیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ دنیا کو دیکھنا کیسے ہے، اسے پرکھنا کیسے ہے، فطرت میں مضمر اصول و قوانین کا سراغ کیسے لگانا ہے، ان اصولوں کے غلط اور درست ہونے کا تعین کیسے کرنا ہے، غلط کو درست اور درست کو کیسے غلط ہوتے ہوئے دیکھنا ہے، ان سب نکات کا جواب فلسفہ اور سائنس دیتے ہیں، ان کو خود سے برسر پیکار ہونے سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔ مذہب کا واحد اور اکلوتا مقصد انسان کی اخلاقی تربیت کرنا تھا، جس میں مذہب بری طرح سے ناکام ہوا ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ کوئی اخلاقیات سماجی، سیاسی، معاشی تضادات سے بالا ہو کر تشکیل نہیں پاتی، مثالی آدرش اپنی جگہ، لیکن جونہی یہ مثالی آدرش حقیقت سے ٹکراتے ہیں تو بکھر جاتے ہیں۔ مذہب پرستوں کی اخلاقیات کی تبلیغ فقط نظریاتی غلبے کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ عہد حاضر میں مذہب پرستوں کے کردار و اقدار کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مذہب اپنی “افادیت” (اگر کوئی تھی) کھو چکا ہے۔ محمد اقبال نے درست کہا تھا کہ عقل استقرائی کی پیدائش اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کو وحی جیسی بیساکھی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مذہب پرست انسان کو دوبارہ وہی بیساکھی پکڑا کر اسے عقل کے استعمال سے روکنے کے در پر ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فکر کی بلند سطح سے دوبارہ پستی کی جانب جانا ممکن نہیں ہوتا۔
Zahid Mughal
یہ پیراگراف علم کے ایک “فرضی تصور” پر مبنی ہے، مذھب کے ایک “فرضی تصور” پر مبنی ہے، عقل کے ایک “فرضی تصور” پر مبنی ہے، یہاں تک کہ حقیقت کے بھی ایک “فرضی تصور” پر مبنی ہے۔ ان تمام فرضی تصورات کو جب درست کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پورا پیراگراف فرضی ہے،تفصیل میں جانے کا یہاں وقت نہیں کیونکہ یہ پورا پیراگراف غلط فہمیوں کا مجموعہ ہے، بس صرف ایک کی مختصرا وضاحت کرتا ہوں۔
جب یہ کہا گیا کہ “دنیا کو کیسے دیکھنا ہے مذھب کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں” تو یہ فرض کیا گیا کہ دنیا کی حقیقت اس دنیا کے اندر ہے، نیز انسان اسے جان سکتا ہے۔ یہ دونوں حقیقت کے بارے میں مابعدالطبعیاتی مفروضے ہیں۔ اگر مذھب کا دنیا کو کیسے دیکھنا ہے سے تعلق نہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ خود کو خدا کی مخلوق ماننے کا کیا مطلب؟ میں دنیا کو کیسے دیکھتا ہوں اس کا تعلق اس امر سے ہے کہ میں یہاں اپنا کیا مابعدالطبعیاتی مقام فرض کرتا یا مانتا ہوں۔ اگر میرا تصور یہ ہے کہ میں یہاں امین ہوں اور کسی کے حکم کا پابند ہوں تو “دنیا کیا ہے” اور “میرا یہاں کیا کردار ہے” کا میرا تصور اس شخص سے بالکل مختلف ہوگا جو خود کو آزاد ھستی فرض کرتا ہے۔ چنانچہ میں دنیا کو کیا سمجھتا ہوں اس کا انحصار اس پر ہے کہ میں دنیا کے ساتھ اپنا کیا تعلق سمجھتا ہوں اور اس تعلق کا انحصار اس پر ہے کہ میں یہاں اپنا کیا مقام فرض کرتا ہوں۔ الغرض خدا پر ایمان دنیا کی حقیقت (حق) کے بارے میں مخصوص تصور قائم کرنا ہے۔ حقیقت کا یہی تصور پھر آگے چل کر علم و عقل کے تصورات کی بنیاد بنتا ہے جس کا اس پیراگراف میں کوئی ادراک موجود نہیں۔
Imran Shahid Bhinder
اوپر زاہد مغل صاحب کا کمنٹ پڑھ کر حیرت ہوئی ویسے۔ راستے میں چلتے ہوئے یہی کہوں گا کہ آپ کے مفروضاتی عقیدے کی بنیاد جس اللہ پر ہے اس سے بڑا مفروضہ آج تک انسان کی تاریخ میں قائم نہیں ہوا۔ اور پھر آگے قیامت پر مفروضاتی ایمان سمیت باقی مفروضوں پر ایمان کو کونسی سماجی، تاریخی شہادتیں ثابت کرتی ہیں۔ زندگی سے پہلے کا مفروضہ، پھر زندگی گزارنے، عبادت کرنے کے مفروضے، پھر قیامت کے دن کا مفروضہ، جہنم و جنت کا مفروضہ۔ باقی اپنی بات کی شہادت میں تاریخ کے اوراق سے رقم کر دوں گا گھر پہنچ کر۔
Zahid Mughal
چلیں حقیقت سے متعلق اس مذھبی مفروضے کو ایک لمحے کے لئے ترک کردیتے ہیں، اب میں چاہوں گا کہ آپ حقیقت کا کوئی ایسا تصور پیش فرمائیں جو اسی طرح مفروضاتی و مابعدالطبعیاتی نہ ہو۔ میں منتظر رہوں گا۔
Imran Shahid Bhinder
گھر پہنچتے ہی، پہلی ہی فرصت میں۔
Zahid Mughal
ضرور
Zahid Mughal
سوال متعین کرلیتے ہیں۔ “دنیا کیا ہے”، “انسان کیا ہے”، ان دونوں کی حقیقت کا غیر مابعدالطبعیاتی تصور پیش فرمائیے گا۔میں چاھوں گا کہ جواب دیتے ھوئے آپ یہ واضح کیجئے گا کہ پوسٹ میں اختیار کردہ پوزیشن کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے:
1۔ یہ کہ مذھب کا حقیقت و علم سے تعلق نہیں یہ بات خود مذھب اور اسکے ماننے والوں کا دعوی رہا ھے؟
2۔ یہ دعوی آپ کی مذھب کے بارے میں رائے ھے کہ مذھب ھوتا ہی یہ ھے؟
3۔ یا یہ دعوی “مذھب عملا کیا کرپایا اور کیا نہیں” کے واقعاتی تناظر میں ھے؟
ہر تناظر میں گفتگو کا معیار اور زیر غور سوال یکسر مختلف ہوگا لہذا اسکی وضاحت از حد لازم ھے کیونکہ آپ کے بقول گفتگو تاریخ کے تناظر میں ھے. تو پہلے ذرا تناظر واضح ھوجائے تاکہ سوال درست متعین کیا جاسکے
Zahid Mughal
بھنڈر صاحب اپنے کمنٹ سے متعلق ایک وضاحت کرتا چلوں۔ میرے اوپر والے کمنٹ میں “فرضی” کا مطلب pre-supposed یا pre-conceived ہے نہ کہ “غیر حقیقی”
Imran Shahid Bhinder
زاہد مغل صاحب، آپ نے لکھا کہ یہ سارا اقتباس غلط فہمیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے بعد اس پیراگراف سے غلط فہمی دکھانے کی بجائے آپ نے مذہب کی اپنی تشریح پیش کردی۔ طریقہ یہ ہے کہ آپ اس اقتباس سے تاریخ کی روشنی میں کوئی غلطی دکھائیں۔ چلیں آپ کی بات پر ہی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’یہ فرض کیا گیا کہ دنیا کی حقیقت اس دنیا کے اندر ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ آپ کے نزدیک یہ دنیا حقیقت نہیں ہے۔ یعنی جو دنیا آنکھوں کے سامنے ہے، یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ دنیا جو ہمیں دکھائی نہیں دیتی، جو اللہ اور اس کے مفروضہ فرمودات پر قائم ہے وہ حقیقت ہے۔ اور وہ دنیا بلاشبہ ماورائے حواس ہے۔ میرے نزدیک بھی دنیا جیسی دکھتی ہے ویسی نہیں ہے، اور نہ ہی اس ’’حقیقت‘‘ تک حواس کی مدد سے پہنچا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں عقل کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ نے واضح طور پر تو نہیں کہا لیکن تاثر یہ دیا کہ آکی ماورائے حواس دنیا کو جانا نہیں جاسکتا۔ مطلب اس دنیا کو جانا نہیں جاسکتا جو ایک مفروضے پر قائم ہے۔ تو یہ کہیں کہ اس دنیا کو جو کہ مفروضاتی ہے اسے جانا نہیں جاسکتا۔ لہذا ایک مستقل فرض کی ہوئی دنیا ہی ’’حقیقی‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ آپکی ساری بات وہی ہے جس کو میں پانچ برس کی عمر سے سنتا، مانتا چلا آیا ہوں، اور اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ محلے کے مولوی کو جاتا ہے۔ باقی اور کوئی بھی قابلِ ذکر بات آپ نے نہیں کی۔
Zahid Mughal
آپ میری پوزیشن کے فرضی معنی نکال کر سوالات متعین کرنے کے بجائے گفتگو کو اس نہج پر آگے بڑھائیں جس کا میں منتظر ہوں اور جن پر آپ نے پہلی فرصت میں کچھ کہنا تھا۔ میں نے اوپر دو سوالات کئے ہیں( “دنیا کیا ہے”، “انسان کیا ہے”، ان دونوں کی حقیقت کا غیر مابعدالطبعیاتی تصور پیش فرمائیے گا)، ان کا معین جواب تحریر فرمائیں نیز جن تین تناظرات کو میں نے ھائلائیٹ کیا ہے اس پر روشنی ڈال دیجئے کہ پوسٹ میں کئے گئے دعوے میں ان میں سے کونسا تناظر مراد ہے۔آپ چاہیں تو اپنی بات تفصیل سے الگ پوسٹ میں لکھ دیجئے۔ میں اپنی وال پر انکا اسی ترتیب سے ان شاء اللہ تجزیہ و جواب دینے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ کسی دوسرے کی وال پر بے شمار کمنٹس کرنا مجھے مناسب نہیں لگتا۔باقی رہی بات محلے کے مولوی والی تو مجھے کبھی بھی محلے کے مولوی کے علم سے زیادہ علم کا زعم نہیں رہا۔ ھاں یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگوں کو پاکستان میں سب سے زیادہ “فلسفے کی کتابیں (صرف) پڑھے ہوئے” کا زعم ہے
Imran Shahid Bhinder
آپ پہلے اس بات کو سمجھیے جو آپ نے اس پوسٹ پر اعتراض کی صورت میں کی ہے۔ میں آپکے پہلے سے متصورہ نتیجے یعنی فرض کی ہوئی بات کے جواب میں یہ وضاحت دے رہا ہوں کہ مذہب کا سارا قصہ ہی ایک مفروضے کی پیداوار ہے۔ اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے۔ میں آپ کی کشادہ دلی پر مسرت محسوس کروں گا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں تو پھر اسی پوسٹ پر آپ کایہ اعتراض کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔ بلکہ الٹا آپ کا اعتراض آپ پر ہی وارد ہوتا ہے۔
Zahid Mughal
آپ ایک مناظرانہ طریقہ کار اختیار کررہے ہیں۔ بجائے اس سوال کا جواب دینے کے جس پر آپ نے پہلی فرصت میں کچھ کہنا تھا الٹا سوال کررہے ہیں۔خیر، آپ کی وال پر پہلے ہی بہت کمنٹس ہوچکے۔ اب ان شاء اللہ اس پر اپنی وال پر تفصیل سے لکھوں گا
Imran Shahid Bhinder
چلیں آپ مختصر اپنے نکات یہاں لکھیے، میں جواب دیتا ہوں۔
Mohsan Raza
زاہد مغل صاحب نے جو سوال اٹھائے تھے,ہنوز جواب طلب ہیں.امید ہے آپ اپنا نقطہ نظر واضح کریں گے.
Muhammad Saad
مذہب نے انسان اور کائنات کی جو مقصدیت بتائی ہے ہمارے ملحد فلسفی اسکو مفروضہ قرار دے کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتائے کہ فلسفہ اور سائنس نے آج تک اسکی کیا توجیہہ پیش کی ہے اور وہ کتنی معقول اورحقیقت پر مبنی ہے۔؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ کوئی ایک متفقہ توجیہہ نہیں اور پھر انکی اچھی سے اچھی توجیہہ بھی مذہبی توجیہہ کے مقابلے میں اتنی غیر معقول ہے کہ اسکو سامنے لانے کی ان میں جرات ہی نہیں اس لیے مذہب کی توجیہہ کو ہی مفروضہ قرار دینے پر زور لگائے رکھتے ہیں۔ زاہد صاحب کے اس سوال کا جواب بھنڈر صاحب کبھی بھی نہیں دیں گے کہ اگرحقیقت کےمتعلق مذہبی بیان مفروضہ ہے تو اپنے فلسفہ کے علم سے حقیقت کا کوئی ایسا تصور پیش فرمائیں جو اسی طرح مفروضاتی و مابعدالطبعیاتی نہ ہو۔؟
Ammar Khan Nasir
حقیقت یہ ہے کہ فلسفہ، سائنس اور مذہب، تینوں میں سلسلہ استدلال کسی ایسے مفروضے پر جا رک جاتا ہے جس کو انسان بس مانتا ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں دے سکتا اور اس پر شک بھی نہیں کر سکتا۔ یہ انسانی شعور کی بے چارگی اور محدودیت ہے جس سے اسے کسی بھی حال میں کوئی مفر نہیں۔ سارا استدلالی عمل اس بے دلیل ماننے کے تابع ہوتا ہے، اسے ماورا ہو ہی نہیں سکتا۔ سو معلوم نہیں، مذہب کے مقابلے میں فلسفے یا سائنس کا ’’غرہ’’ کس بات پر ہے؟
Wittgenstein argued that questioning and doubting can only take place within a ‘frame of reference’, which he also terms a ‘world picture’ or even ‘mythology’, which is not itself questioned or doubted; that is a ‘system’ which is ‘the element in which arguments have their life’, which ‘stands fast’, and is the ‘substratum of all my enquiring and asserting’, the ‘hinge …. on which the questions we raise and our doubts depend. (Burn, philosophies of history, page 11)
Mohammad Farooq
ایک سوال ۔۔! کیا یہ بات طے ہے کہ ” محمد اقبال ” نے عقل استقرائ کی پیدائش کو جو اس بات کا ثبوت قرار دیا تھا کہ : ” انسان کو وحی جیسی بیساکھی کی ضرورت نہیں ” یہ اس context میں تھا کہ : مطلق وحی کی ضرورت ہی سے انکار کیا گیا تھا ۔۔؟ یا: ” محمد اقبال ” کے مذہب میں موجود وحی کو ماننے کے بعد وہ کسی ” بعد میں آنے والی ” وحی کے امکان کو رد کر رہا تھا ۔۔؟
۔۔۔ اور ایک اور سوال ۔
کہ مذہب نے ماضی میں صحیح ۔۔۔ یا آج کے پانچ فیصد انسانوں میں بھی ( اس کا تو انکار ہم کر نہیں سکتے ) آخلاقیات کی تربیت کا کام کیا ہے ۔۔ تو سوال یہ ہے کہ اس کام میں مذہب نے انسانی عقل کو مکمل طور نظر انداز کیا ہے ۔۔؟ ۔۔۔ یعنی آخلاقیات کی تربیت یا اُنہیں تبدیل کرنے کے اس جان گسل کام میں مذہب کے سامنے نہ تو عقل کی طرف سے کوی روکاوٹ آئ ہے ۔۔ ؟ ۔۔ نہ مذہب کو انسانی عقل کی سمجھ بوجھ اور اس کے استعمال کرنے کی ضرورت ہی پڑی ہے ۔۔؟
کیا ایسا مانا جاسکتا ہے ۔۔؟
Zahid Mughal
استقرائی عقل کو وحی کا متبادل یا تکملہ سمجھنا ناسمجھی کی علامت ہے، چاہے یہ خیال جس کسی نے بھی پیش کیا ہو۔ استقرائی عقل کی چھلانگ حواس کی پہنچ سے پرے ممکن نہیں جبکہ وحی جن حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے وہ حواس کی گرفت میں ہی نہیں۔ استقرائی عقل کے ذریعے اخلاق کے اس بنیادی سوال کا جواب دینا بھی ممکن نہیں کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا، الا یہ کہ عقل استقراء کے عمل سے قبل خیر و شر کا کوئی پیمانہ مفروضے کے طور پر قبول کرلے۔ استقراء patterns تلاش کرنے کا نام ہے مگر جب یہ طے نہ ہو کہ patterns “کس لئے” اور “کس جہت” میں دیکھنا ہیں استقرائی عقل آپریشنل نہیں ہوسکتی۔ ایک مارکسسٹ کی استقرائی عقل کو اس دنیا کے ہر عمل میں پیداواری عمل سے جنم لینے والے تضادات کے patterns دکھائی دیتے ہیں، مگر تب کہ جب اس سے قبل اس کی عقل مارکس کی بتائی ہوئی ایمانیات کو قبول کرچکی ہوتی ہے۔ اس ایمانیات کو زمین بوس کردیں، وہ تمام استقراء بھی خود بخود زمین بوس ہوجاتا ہے جو اس کا “منطقی لازمہ” محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں “عقل عقل عقل” کی گردان کرنے والے بہت ہیں لیکن اس گردان سے بھلا عقل کا مفہوم تھوڑی سمجھ آجاتا ہے۔
Ahmad Hashmi
“وحی جن حقائق سے پردہ اٹهاتی هے .”وحی کن حقائق سے پردہ اٹهاتی هے ؟
Aamir Muneer
مقصد حیات سے، اچهائی اور برائی کی اقدار سے، منتظم کائنات اور کائنات کے باہم تعلق سے۔
Sajid Mateen
آپکی بات سے جزوی اتفاق ہے کے یہ کائنات ایک معمہ ہے اس کے بہت سے سربستہ راز ایسے ہیں جو ہمارے سینسز کی اپروچ سے باہر ہیں وچ از وائی وہ اسباب وعلل کے قوانین کی ڈومین میں بھی نہیں آتے اسی لئے قرآن حکیم ہمیں اپنی عقل کی insufficiency تسلیم کر کے ایمان بالغیب کی تلقین کرتا ہے۔
ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين الذين يؤمنون بالغیب.
Imran Shahid Bhinder
مفروضوں پر مبنی ’’حقیقت‘‘
پہلا مفروضہ یہ کہ خدا موجود ہے۔ دوسرا مفروضہ یہ کہ کائنات اس نے تخلیق کی۔ تیسرا مفروضہ یہ کہ اس نے انسان کو پیدا کیا۔ چوتھا مفروضہ یہ کہ اس نے جنت و جہنم بنائے۔ پانچواں مفروضہ یہ کہ اس نے انسان کو غلط اور درست کے بارے میں حتمی آگاہی دی۔ چھٹا مفروضہ یہ کہ اس آگہی سے اقرار و انکار کی بنیاد پر جنت و جہنم کا فیصلہ ہوگا۔ ساتواں مفروضہ یہ کہ جنت و جہنم بھی خدا نے کسی جگہ پر تعمیر کر رکھے ہیں۔ آٹھواں مفروضہ یہ کہ قیامت کے دن ہی سارا فیصلہ ہو جائے گا۔ نواں مفروضہ یہ کہ یہ دنیا عارضی ہے، اور اگلے جہان کی فکر کرو۔ اس کے بعد مفروضوں پر مبنی ایک پوری دنیا موجود ہے۔ یعنی مفروضاتی دنیا!
یہ ہے ایک مذہب پرست کی کل کائنات۔ جس کے لیے مفروضوں کی آماجگاہ ’’حقیقت‘‘ کا روپ دھار لے، اس کے لیے ’’حقیقت‘‘ کو مفروضہ سمجھنا عین فطری ہے۔ ظاہر ہے جو اس دنیا کو حقیر سمجھے گا، اسے مصنوعی گردانے گا، اس کی قدر نہیں کرے گا، اسے مفروضہ سمجھے گا، تو پھر اس شخص کے لیے ذلت و رسوائی ہی متعین ہوگی۔ اور اس ذلت و رسوائی کی شہادت یہی دنیا فراہم کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ جو اس دنیا کی قدر نہیں کرے گا، یہ دنیا اس کی بھی قدر نہیں کرے گی۔
Mohammad Farooq
لیکن یہ بھی تو عقل انسانی کے لیے کوئ کم المیہ نہیں کہ :
” اتفاق” سے جب کروڑوں گلیکسیاں وجود میں آ گئیں ۔۔۔ ہر ایک کے مختلف خصوصیات تھیں ، اور ہیں ۔۔۔ تو ان میں ایک گیلکسی میں ” اتفاق” سے ہمارا شمسی نظام بھی موجود تھا ۔
” اتفاق” سے اس نظام میں سورج یعنی سٹار اور پلینٹ کے درمیان فاصلہ اتنا موزون تھا کہ سٹار کی درجہ حرارت پلینٹ ( زمین ) پر زندگی کے لیے مناسب تھا ۔
” اتفاق” سے سورج کی آپنی گردش اور زمین کی گردش بھی اس زمین پر موجود زندگی اور بقا کے لیے ناموزون نہیں تھی ۔
” اتفاق” سے زمین کی مٹی میں ایسے عناصر موجود تھے ۔۔۔ جن میں اس زمین کے سارے جانداروں کے لیے خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت تھی ۔۔
“اتفاق” سے زمین کے اندر پانی اور خشکی کا تناسب بھی حیاتِ حیوانی کے لیے موزون ہی تھا ۔۔
پھر ” اتفاقات” پر اتفاقات” کا یہ سلسلہ چلتا رہا ۔۔۔ اور نباتات سے حیوانات ۔۔۔ اور لا شعوری سے شعور بلکہ شعور نے حیرت انگیز اتفاق سے جمپ مار کر ” خود شعوری ” تک کی منزل حاصل کر لی ۔۔۔!
اب بحیثیت انسان ۔۔ میں ” اتفاقات” کا یہ ڈرامہ دیکھ رہا ہوں کہ عین ” محمد اقبال ” کے ماحول میں رہنے والے اور اس سے بہتر اردو بولنے والوں کے اندر یہ صلاحیت نہیں کہ پورا زور لگا کر اس محمد اقبال کے اشعار کی طرح صرف ایک شعر کہہ دیں ۔۔ وہ شعر جو ” اتفاق” سے فلسفے اور علم میں نالائق محمد اقبال کہنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ بلکہ اگر میں اردو زبان کی آج تک کی ساری کتابوں کو ایک باکس میں ڈال کر کرڑوں مرتبہ مکس کر تا رہوں ، تو ” محمد اقبال” کا ایک شعر بھی ” اتفاق” سے برآمد نہیں ہوتا ۔
اور ” اتفاقات” کا یہ سلسلہ بھی ۔۔۔ کہ بحیثیت انسان کسی ذاتی ، خاندانی یا دوستوں میں سے کسی پر مسلّط ۔۔ یا آنی والی یقینی مصیبت کو آپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ۔۔۔ اور تمام اسبابِ انسانی یا دنیاوی سے اس مصیبت یا خطرے کے ٹل جانے کا کوئ ” امکان “بھی نظر نہیں آتا ۔۔۔
مگر ” اتفاق” سے وہ مصیبت ٹل جاتی ہے ۔۔۔ اور ٹلنے کے بعد بھی اس کا کوئ ” مادی سبب” کسی صورت نہ آنکھوں کے سامنے موجود ہوتا ہے نہ غور و فکر سے سمجھ میں آتا ہے
ہم پرانی بسوں میں ایک جملہ لکھا ہوا دیکھتے تھے ۔” نصیب آپنا آپنا ، پسند آپنی آپنی ”
میری ” نصیب” میں ۔۔ معلوم نہیں ۔۔ “اتفاقات” کے اس سلسلے پر زیادہ حیرت و استعجاب کیوں لکھی گئ ہے ؟
بمقابلہ : ” مفروضات ” پر حیران ہونے کے ۔۔؟
جواب شاید یہ ہے کہ ” مفروضات ” کی “نادانیوں” پر حیران ہونے کے مقابلے میں انسان کے لیے ” اتفاقات”
کی ” بے وقو فیوں ” پر حیران ہونے کے مواقع بہت زیادہ ہیں ۔
Imran Shahid Bhinder
فطرت کے اندر “اتفاق” محض “اتفاق” ہی ہوتا ہے۔ اس کے اندر لزوم بھی ہے، جو کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں۔
Mohammad Farooq
شکریہ عمران بھای ۔۔سوالات کا سلسلہ دراز کرنے کا ارادہ یا فایدہ نہیں ۔۔ مگر حقیقت یہ ہے عمران بھای کہ پھر یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ :
” فطرت” میں اگر ” اتفاق” ۔۔ اور سارے اتفاقات آپنے لزوم کے ساتھ پوری طرح جلوگر ہیں ۔۔۔ تو اس میں اسی انسانی ذہن کے لیے ۔۔۔ جو ان اتفاقات کو قبول کرتا ہے ۔۔ یا ان پر چشم پوشی سے کام لیتا ہے ۔۔۔ ان ” مفروضات” کی گنجائش کیوں نہیں نکل سکتی ۔۔؟۔۔۔ جو بعینہ اسی انسانی ذہن ہی کا ایک تقاضا یا ایک ناگزیر ضرورت ہے ۔۔؟
Azizi Achakzai
اتفاقات کے اندر اگر لزوم بھی ہو تو پھر وہ اتفاق کہلایا نہیں جا سکتا-اور لزوم کی ثبوت کا ایک بنیادی اور بدیہی تقاضا یہ ہے کہ ماضی کی کسی واقعے کی توجیہہ کی جاسکے اور مستقبل کی واقعات کی پیشنگوئی۔
Mohammad Farooq
شکریہ عزیزی بھای ۔۔! سوالات کا سلسلہ اس معاملے میں چونکہ کبھی نہ ختم ہونے والا ہوتا ہے ۔۔۔ میں اس لیے اس سے اجتناب ہی کرتا ہوں ۔ مگر آپ غور فرمائیں ۔۔ تو سوال آپنی جگہ یہ بھی قائم ہے کہ:” اتفاقات ” میں یہ لزوم کہاں سے ۔۔؟ اور کیوں کر آئ ۔۔؟
عرض کیا تھا کہ ایک ہی ذہن انسانی ہے ۔۔۔ وہ جتنا کچھ ” مفروضات ” پر حیرت ذدہ ہے ۔۔۔ اس سے زیادہ ان اتفاقات پر حیران بلکہ پریشان ہے ۔
مجھے یہ علمی دیانت سے بہت دور و دراز نظر آتا ہے کہ انسان کو ” مفروضات ” ماننے پر تو معتوب اور شرمندہ کیا جاۓ ۔۔۔ مگر ان ” اتفاقات” پر چشم پوشی کا ” تحّکم ” اس لیے جاری کیا جاۓ کہ ان میں ” لزوم ” ہے ۔ کیا اس بات کا امکان بالکل ہی صفر کے درجے میں ہے کہ ان اتفاقات کے لزوم کا کوئ بھی تعلق ان ” مفروضات ” سے کسی بھی صورت نہیں ۔۔؟ ۔۔ کیا عجب ان اتفاقات میں یہ لزوم ان مفروضات ہی کی وجہ سے ہو ۔۔ !!
ہم اقرار کے لیے کسی سائینٹفک ثبوت کا اگر مطالبہ کریں ۔۔۔ تو حق یہ ہے ۔۔ اور سوال بھی یہ ہے کہ اس سے ” انکار ” کے لیے بھی اسی ثبوت کا مطالبہ کیوں نہ کریں ۔۔؟
Azizi Achakzai
میں بھی یہی عرض کرنا چاہتاتھا کہ اتفاق میں لزوم کیسے آتاہے،جو لازم ہو وہ اتفاق نہیں ہوتا اور جو اتفاق ہو اس میں لزوم نہیں ہوتا-امیدہے کہ بھنڈرصاحب خودہی اس گتھی کو سلجھائیں گے۔
Mohammad Farooq
جزاک اللہ ۔ آپ کا پوائینٹ بہت ویلڈ ۔۔۔ بلکہ آصل ریلیٹی ہی یہی ہے ۔
Murad Swat
سائنسی نکتہ نظر سے اتفاقیات کی بھی ایک حد ہوتی ہے … یعنی ریاضیاتی طور پر پرابیبلٹی کسی چیز کے واقع ہونے کی چانسز بھی (فیصد %) میں لیتے ہیں .. مثلا ٹاس اچھالتے وقت 50 فیصد چانس ہے کہ یا ہیڈ یا ٹیل آئیں… لیکن 6 طرفہ ڈائس میں کوئی ایک ہندسے (1،2،3،4،5،6) میں اچھالتے ہوئے ہر ایک عدد کی فیصدی کم ہو جائے گی یعنی 1/6×100 …. تو مختصرا یہ اتفاقیات کے اوپر اتفاقیات تو ریاضی کے پرابیبلٹی کے رو سے صفر فیصد چانسز ہوتے ہیں… کسی باترتیب کائنات کے یا پلانٹ زمین کے یا زندگی کے وجود کے لیے….
البتہ اس بات پر غوروفکر کرنا ہے کہ ہم اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ فلسفہ اور سائنس مظہر سے جوہر تک رسائی کرتا ہے …تو جس چیز کو ہم” مفروضے” کہتے ہیں انہیں استخراج و تجربیت دونوں سے کیسے پرکھے ؟کیونکہ صرف دعوے کرنا کہ یہ اشیاء مفروضے ہیں… علمی دنیا کا تسلی بخش جواب قرار نہیں دیا جا سکتا.
Haseeb Khan
یہاں دو بنیادی مقدمات ہیں
اول مفروضے کی اپنی اصل کیا ہے لازمی امر ہے کہ ہر نظریہ اپنی ابتدا میں صرف ایک مفروضہ ہی ہوا کرتا ہے بعد میں مشاہدہ اور تحقیق اس مفروضے کو درست یا نادرست ثابت کرتے ہیں۔ پھر فلاسفہ کے مفروضے الگ ہوا کرتے ہیں اور سائنس والوں کے الگ مگر ہر دو مفروضے ثبوت کے محتاج ہوتے ہیں۔ مذہب اگر اپنے مبادیات کے ساتھ مفروضہ ہے بھی تو اگر صاحبان عقل قطعیت کے ساتھ اسکا انکار نہیں کرتے خاص کر سائنس والے تو دوسری جانب فلاسفہ کی تائید یا تردید اصول نہیں بن سکتی کہ فلسفہ خود اپنی اصل میں مفروضے پر ہی پروان چڑھتا ہے.
دوسرا مقدمہ دنیا کی اہمیت کا ہے مذہب نے تو بنیاد ہی دنیا کو مانا ہے گو کہ آنے والی دنیا اپنی ہیت اور ساخت کے اعتبار سے کہیں اعلی و ارفع ہوگی لیکن منطقی اعتبار سے دارالعمل اور دار الامتحان ہونے کی حیثیت میں دنیا آخرت سے کہیں زیادہ اہم ہے اسی لیے اسلام کی اکثریتی تعلیمات دنیاوی مسائل سے ہی متعلق ہیں.
Waqas Murtaza
پہلا مفروضہ کائنات کو کسی نے تخلیق نہیں کیا اور یہ عدم سے وجود میں آگئی۔ یہ ماننا آسان ہے کہ کوئی شے عدم سے وجود میں آئی یا یہ ماننا کہ اس کا کائی خالق ہے۔ ہمارے حواس اور تجربہ دوسرے مفروضے کی ہی مثالیں دے سکتا ہے پہلے کہ نہیں۔
Noman Ali Khan
” پہلا مفروضہ یہ کہ خدا موجود ہے۔ دوسرا مفروضہ یہ کہ کائنات اس نے تخلیق کی۔ تیسرا مفروضہ یہ کہ اس نے انسان کو پیدا کیا” ۔ یہ مزہب کے مفروضے نہیں نہ ہی یہ عقائد محض علم کلام تک محدود ہیں۔ یہ فلسفیانہ مقدمات ہیں جن پر تب سے انسان فکر کررہا ہے جب سے انسان نے ذرعی معاشرہ تشکیل دیا ہے۔ میٹا فزکس کو آج کل لبرل تھنکرزغیر ضروری طور پر طنزاً مذہب کی ڈومین میں ڈال کر مزہب پسندوں کا کیس کمزور کرکے دکھاتے ہیں جب کہ یہ خود بھی بخوبی جانتے ہیں کہ میٹا فزکس ، فلسفے کا انتہائی اہم موضوع ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر میٹا فزکس اور علمیات کو فلسفے سے خارج کردیا جائے تو سوائے جمالیات، اخلاقیات اور فلسفہ سائنس وغیرہ، جیسے خالی برتنوں کے، بچتا ہی کچھ نہیں۔
Imran Shahid Bhinder
فلسفے میں خدا کا صرف نام استعمال ہوتا ہے۔ لیکن فلسفیانہ تفکر کے بعد جس خدا کی شکل بنتی ہے وہ واضح طور پر جنت، جہنم کے خدا سے مختلف ہے۔ وہ اختیارات سے محروم، معذور اور لاچار ہے۔
Noman Ali Khan
اسی بنا پر میں یہ چاہوں گا کہ آپ جنت جہنم کے خدا کو اپنے فلسفیانہ مباحث میں نہ گھسیٹیں۔ آپ کی پوسٹ کے فلسفیانہ مقدمات کو میں نے علیحدہ کرکے اسی لئیے اوپر لکھ دیا ہے، اس سے آگے جو مفروضے آپ نے لکھے ہیں وہ میٹا فزکس اور فلسفے کی ڈومین سے خارج ہیں۔ آپ کیوں ان پر اپنی توانائیاں ضائع کررہے ہیں۔ وہ تو مذہب اور غیر فلسفیانہ عقائد ہیں۔
“وہ <خدا>undefinedاختیارات سے محروم، معذور اور لاچار ہے”۔ یہ نتیجہ کسی ایک فلسفیانہ بحث میں تو نکالا جاسکتا ہے لیکن فلسفیانہ تفکر کا یہ آخری نتیجہ نہیں ہوتا۔
Imran Shahid Bhinder
تحریک روشن خیالی کے بعد سے اب تک یہی آخری نتیجہ ہے۔
Noman Ali Khan
بھنڈر صاحب۔ :] آپ یہ کہہ سکتے ہیں لیکن یہ آخری نتیجہ نہیں ۔ فلسفے میں سوائے حسن صداقت خیر کی قدروں کے کوئی بھی نتیجہ آخری نہیں ٹہرا۔ حتاکہ کانٹ کی کیٹگریز بھی۔
Imran Shahid Bhinder
خان صاحب، اگر میں نے اس آخری نتیجے کے بارے میں کسی فلسفی کا حوالہ مانگ لیا تو پھر آپ اعتراض کریں گے۔
آپ نے کانٹ کا نام لیا، عرض کرتا چلوں کہ کانٹ کا خدا اختیارات سے یکسر محروم، محض علامت ہے۔ ارادے کی آزادی اس کے لیے اخلاقی قدر کی تعیین کی شرط ہے۔ مابعد کانٹین فلسفے سے بیسویں صدی تک آئیں تو کسی ایک فلسفی کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا جو خدا کو با اختیار مانتا ہو۔ بیشتر بڑے فلسفی ملحد ہیں۔ سارتر سے دریدا تک۔
Noman Ali Khan
نہیں مجھے اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ میں نے آخری نتیجے کا دعوی نہیں کیا۔ یہ تو آپ کا دعویٰ ہے۔ مجھے اعتراض صرف اس وقت ہوگا جب آپ بین السطور یہ کہنے کی کوشش کریں گے کہ میں بغیر مطالعے کے آپ سے گفتگو کررہا ہوں۔ :]اور جب آپ مجھَے جاہل ثابت کرنے کیلئیے کسی کتاب میں سے اقتباس نکال کردکھائیں گے تو آپ دراصل یہ ثابت کریں گے کہ تفلسف محض رٹا لگانے کا نام ہے۔ :] ۔ میرے خیال میں ہم لوگ اتنے سنجیدہ یقیناً ہیں کہ ایک دوسرے کے مطالعے اور پڑھی ہوئی کتابوں کی تعداد گنواننے سے بحث میں پوائنٹ سکور کرنے سے خوشی محسوس نہ کریں۔ کیونکہ اس طرح کی بات کرنا مناسب طریقہ نہیں ہوتا۔
ابھی ہم یہ بات کر ہی نہیں رہے کہ کانٹ کا خدا اختیارات سے محروم ہے۔ میں نے صرف کانٹ کی کیٹگریز کی بات کی ہے۔
بیشتر بڑے فلسفی ملحد ہیں اس سے تو انکار نہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ڈیکارٹ کے بنیادی مقدمے، کہ جس پر اس نے اپنے فلسفے کی بنیاد کھڑی کی تھی اسے غلط ثابت نہیں کرسکے۔ اگر کوئی ہے تو مجھے اس کا حوالہ دیجئیے۔
دوسرے یہ کہ سارے بڑے فلسفی ملحد ہیں سو اس لئیے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلسفیانہ فکر میں یہ طے ہوگیا ہے کہ “وہ <خدا>undefinedاختیارات سے محروم، معذور اور لاچار ہے”۔ غیر فلسفیانہ دعویِ ہے۔ کیونکہ اگر وہ ملحد ہیں تو ایک معزور اور لاچارخدا کوبھی نہیں مان سکتے۔ اور اگر وہ واقعی ملحد ہیں اور ایسے والے یا کسی بھی خدا کو نہیں مانتےتو پھر آپ کےلاچار خدا کا یہ دعویٰ محض آپ کی اپنی “فکر” ہے جو آپ ان کے نام سے پیش کررہے ہیں۔یوں بھی آپ کو ان سارے ملحد/ غیر ملحد فلسفیوں کی کتابوں سے حوالہ دینا چاہئیے جو یہ کہتے ہیں کہ”وہ <خدا موجود تو ہے لیکن>undefined اختیارات سے محروم، معذور اور لاچار ہے”۔ اس ایک بلینکٹ سٹیٹمنٹ سے کام نہیں چلے گا کہ سارے بڑے مفکر ملحد ہیں۔
Imran Shahid Bhinder
یقین کریں کہ مجھے آپ کے اس تبصرے کی کوئی سمجھ نہیں آئی۔ چلیں ساری باتیں چھوڑیں، صرف یہ بتائیں کہ کس کس فلسفی کا خدا با اختیار ہے؟
بات کو پھیلانے سے اسے سمیٹنا بہتر ہے۔آپ کسی فلسفی کا نام بتائیں جس کا خدا بااختیار ہو۔ پھر اگلی بات کرتے ہیں۔
میں نے تو کہا کہ بے شمار ملحد فلسفی ہیں، لہذا ان کے لیے خدا کے بااختیار ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ سارتر، ہائیڈیگر، دریدا، التھیوسے، لوکاش سمیت کئی دوسرے۔ جو مذہبی رجحان رکھتے تھے ان کا خدا لاچار ہے۔ مثال کے طور پر کانٹ، فختے، شیلنھ، ہیگل وغیرہ۔فرانس کی طرف جائیں تو والٹیئر، روسو، دیدے رو وغیرہ۔برطانیہ آئیں تو بیکن، ہوبز، ہیوم وغیرہ۔ اب آپ بھی کسی کا نام بتا دیں۔
Noman Ali Khan
اوپر اپنا پیراگراف پڑھئیے۔ آپ نے بے شمار کا لفظ استعمال نہیں کیا آپ نے بیسویں صدی کے بڑے فلسفیوں کی بات کی ہے۔ دوسرے یہ کہ ملحدوں کے لئیے خدا کے با اختیار ہونے کا سوال اٹھنے کی بات ہی لایعنی ہے۔ ان کیلئیے تو خدا ہی کا سوال نہیں اٹھتا۔!
Yousuf Hassan
ہمارے مارکسی کامریڈ پبلک میڈیا پر اس بحث سے بچیں۔
Noman Ali Khan
یوسف حسن صاحب۔ اٹس ٹو لیٹ این ایڈوائس۔ دی ڈیمیج از ڈن آلریڈی۔ مارکسسٹ رشیا فنا ہوچکا۔ سائنٹیفک میٹریلزم کی لیبارٹری یعنی سوویت یونین اور باقی مارکسی یونیورس میں “حواسی تجربے” نے مارکسزم کی ساری “مادی سائنس” کو غلط ثابت کردیا۔ اب آپ کے یہ بے چارے مارکسسٹ کامریڈز اس فکری ناکامی کی فرسٹریشن کو کہیں تو نکالیں گے۔ اس فرسٹریشن کا سب سے آسان ھدف ملائیت اور اقبالیات ہی تو ہے۔
Murad Swat
سر جس طرح افلاطون کہتا ہے کہ “میں جانتا (known ) ہوں کہ میں نہیں جانتا( unknown ) ” تو ہم معلوم known سے تو نامعلوم unknown کی طرف تو جاسکتے ہیں …لیکن اگر یہ فقرہ میں یوں کہہ دو کہ “میں نہیں جانتا (unknown ) لیکن یہ میں جانتا (known ) ہوں ” مثلا میں نہیں جانتا ڈارک میٹر کو البتہ یہ بات ( ڈارک میٹر کی کہ ہے ) میں جانتا ہوں …تو منطقی طور پر ایسی سٹیٹمنٹ کو کیسے ہم معلوم کرنگے یعنی اس کی ایپسٹمالوجی ریاضیاتی سٹرکچر کیسے بنائیں جس سے ہم علم تک unknown سے known کی طرف پہنچ سکے ….کوئی بھی اہل علم رہنمائی کر سکتا ہNoman Ali Khan
مراد سوات صاحب بہت اہم نکتہ ہے۔ اسے ذرا مزید کھول کے بیان فرمائیں۔ خاص کر ڈارک میٹر والی مثال۔
Murad Swat
سر جب ٹیلی سکوپ سے مختلف کہکشاوں سے لی گئی تصاویر کو سکین کر کے بغور دیکھا گیا تو کسی مخصوص کہکشاں کے بعض سمتوں میں پلانٹس کی images ڈسٹورٹ (distort ) نظر آ رہے تھے…وجہ یہ تھی کہ گریوٹی لائٹ کو بینڈ کرتی ہیں… جس کی وجہ سے ایمیجز distort بن رہے تھے … ساتھ ہی یہ عجیب بات تھی کہ جہاں بہت کم مادی اجسام (پلانٹس ) تھے تو خیال یہ تھا کہ وہاں گریوٹی کی مقدار کم ہونی چاہیے اور لائٹ بھی کم سے کم بینڈ ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں تھا وہاں بہت دور دور پلانٹس کی موجودگی میں بھی لائٹ خاطر خواہ بینڈتھی اور دور دور پلانٹس بھی distorted تھے … فزکس ماہرین اس بات پر تشویشناک ہوئے کہ ضرور کوئی ایسا مادہ موجود ہے جو نظر نہیں اتا لیکن پھر بھی لائٹ کو کافی بینڈ کر کے پلانٹس کی images کو distort کررہی ہیں اور اسے ڈارک میٹر کہاں گیا …
سر ادریس ازاد کی تفصیلی پوسٹ ڈارک میٹر پر بھی ہیں…
Murad Swat
سر میں فلاسفی کی رو سے یہ کہتا ہوں کہ بالفرض میں کہوں کہ
1 ) i “know” that the earth is “round ”
تو i know کا مطلب ہے کہ میرے پاس دلائل ہیں جو کہ علم ہیں اور یہ بات مجھے معلوم known ہیں کہ دنیا گول (known ) ہیں. . . یہی اس کیس میں دونوں known ہو گئے “میں جانتا ہوں کہ زمیں گول ہے … میرا جاننا اور زمین کی گولائی دونوں known
اسی طرح اگر میں برعکس یوں سوچوں کہ مختلف unknown چیزوں کو میں realise کرتا ہوں یعنی مجھے یہ بات معلوم(known ) ہیں کہ میں اسے نہیں جانتا جیسا کہ یہ ڈارک میٹر جبکہ وہ( ڈارک میٹر یا اسی طرح کوئی اور اشیاء ) بھی ہو سکتی ہیں تو میں ابھی یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ unknown سے known کیسے معلوم کر سکتا ہوں ؟ یعنی ڈارک میٹر unknown ہے جبکہ یہ بات میں بخوبی جانتا بھی ہوں ۔
Noman Ali Khan
بہت اعلیٰ سر مراد۔ میں جو کچھ چاہ رہا تھا وہ یہی بات تھی کہ آپ اپنی اس مثال سے یہ حقیقت سامنے لے آئیں کہ ہم ہرمعروضی حقیقت کو براہ راست جانتے نہیں ہیں۔ بلکہ سائنس کے معاملے میں تو ہمیں مدعین کی انتہائی قلیل تعداد کے بیانات کو حقیقت ماننا پڑتا ہے۔ سائنس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تجربے کی ریپیٹیشن سے ہر بار درست ثابت ہوتی ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں سوائے ھائی سکول لیول کی سائنس کے ، باقی تجربات لیبارٹری صورتحال میں کئیے ہی نہیں جاسکتے خاص طور پر آسٹروفزکس، نینو فزکس، کوانٹم فزکس اور جینیٹکس انجینئیرنگ کے۔ اور پاکستان ہی کیا، ترقی یافتہ ممالک میں بھی انتہائی محدود تعداد کے سکالرز کو پارٹیکل ایکسلیریٹرز ھبل جیسی ٹیلیسکوپس سے ملنے والے تمام ڈیٹا تک رسائی ہے۔ ساری دنیا کے سکالرزکی ایک عظیم تعداد کو ان سائنسی دعووں کو کنفرم کرنے کے نہ مواقع میسر ہیں اور نہ ہی ان کو اس بات کی کوئی اجازت دینے کو تیار ہے کہ آئیں اور ہماری فیسیلیٹی میں آکر ہمارے دعوے کو ٹسٹ کرلیں۔ تو لے دے کے انسانیت کے پاس جو حل پچتا ہے وہ یہ کہ ان دعوے کرنے والوں کی بات مان لیں اور اسے سائنس تسلیم کرکے اس کائنات کے بارے میں اپنی فہم کی، بلا اپنی تجربی گواہی کے، تعمیر کریں اور اس کو اپنے سائنسی ایمان کا حصہ بنائیں۔ آج کی سائنس کے پاس کوئی طریقہ نہیں کہ انسانوں کی عظیم تعداد سے، سائنسی اصولوں کے مطابق، یہ منوالے کہ سائنس کے وہ سارے دعوے بھی درست ہیں جن کے حواسی تجربے تک عام انسان کی رسائی نہیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ دنیا کی عظیم آبادی اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ سائنسدان اس کائنات، اس میں موجود مادے اور طاقتوں اور اس کے ازل اور ابد کے بارے میں جو دعوے کررہے ہیں وہ درست ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بغیر تجربے کے بغیر کسی آبزرویشن کے، یہ تمام انسان، آخر کس منطق کی بنا پر سائنسدانوں کے دعووں کو سچا مانتے ہیں؟ اس کا جواب سیدھا سادہ ہے۔ سب انسان سائنسدانوں کے تمام دعووں کو بلا تجربہ، بغیر سوال اٹھائے اسی منطق کی بنا پر حق تسلیم کرتے ہیں جس منطق کے ذریعئیے وہ مذہبی دعووں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اگر فلاسفہ کے نزدیک ان کا مذہب کے دعاوی پر ایمان غیر منطقی ہے تو پھر سائنس کے دعاوی کی حقانیت پر ایمان کی بھی کوئی منطق نہیں رہ جاتی۔ لہٰزہ مزہب کی منطق پر سوال اٹھانا اور اس کا تمسخر اڑانا اورعام اعلیٰ علمی انسانی سطح پرسائنس کے تجرباتی طور پر غیر ثابت شدہ دعووں پر بلا چوں و چرا ایمان رکھنا، دانشوروں کے فکری بحران سے زیادہ کچھ نہیں۔
Murad Swat
سر بہت خوب لکھا… حقیقت تو یہ ہے کہ چاہیے بندہ سائنسی میدان کا ہو یا فلاسفی کا …جتنی باریک بینی کی طرف بندہ جاتا ہے اتنا ہی مظہر کا جوہر بھی مشکوک ہو جاتا ہے…اگر سائنس دانوں اور فلاسفہ کی انداز فکر اور عقلیت کے فریم ورک ایک دوسرے سے مختلف اور ملٹی جہات کا ہیں اور ہونا بھی چاہیے. ..تو ہم ان کی ہر اصول و قوانین کو حرف اخر کیسے مان سکتے ہیں… ہمیں تخلیقی سوچنا ہوگا…..
ان کے اصول باریک ہو سکتے ہیں لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ باریک بینی میں یونیورسل ہی نہ ہو ..جیسا Euclid کے جیومیٹریکل اصول تو پلین کے لیے درست ہیں لیکن کروی اجسام پر اپلائی ہی نہیں ہو سکتے…
کل الف الف ہی تھا اور ب ب ہی تھا …الف ب ہو ہی نہیں سکتا تھا… آجکل متخالف اور متماثل ہی مسلمہ اصول ہے … انے والے کل کے منطق کا پتہ نہیں …
لگتا یوں ہے کہ مادی سرگرمیوں کی مظہر کے پیچھے حقائق کو بار بار عقل (خیال) تشکیک سے دیکھتا ہیں .. جس انداز سے وہ مظہر اپنے اپ کو ظاہر کرتا ہیں… اور جیسے جیسے حقائق بے نقاب ہوتے ہیں اور ان سے باریک بینی کی طرف حقائق کا چھلکا اترتا ہیں … اسی طرح ہمارا عقل (خیال) قوانین و اصول کو بھی اسے کی مطابق ہم اہنگ کرتے ہیں..
Zahid Mughal
لوگ مذہب کی ایمانیات کو “فرضی” تو یوں کہتے ہیں گویا کسی دعوے کا “فرضی” (presumed) ہونا اس کے غلط ہونے کے ہم معنی ہوتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ کسی دعوے کا “فرضی” ہونا اس کے غلط ہونے کے ہم معنی نہیں ہوتا۔ ہر علم و نظریہ چند تصورات اور ان کے مابین تعلقات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان تصورات میں سے بعض دعووں کی حیثیت Axioms کی سی ہوتی ہے جو بدیہی (self evident) ہونے یا مانے جانے کی بنا پر اپنی دلیل از خود ہوتے ہیں۔ یہ ناگزیر مفروضہ دعوے ہر علمیت میں موجود ہوتے ہیں، ان کے بنا علم کی تشکیل ممکن نہیں۔ یہ جسے “منطق” کہتے ہیں وہ ایسے تصورات کے بنا اپنے سفر کا آغاز ہی نہیں کرسکتی۔ چنانچہ کسی دعوے کا مفروضہ (presumed) ہونا اس کے غلط ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ یہاں غور طلب امر یہ ہوتا ہے کہ وہ مفروضہ دعوی کس قدر قرین قیاس (plausible) و قابل قبول ہے، کیا اسے رد کرنے کے لئے کافی شواہد موجود ہیں؟ پھر اگر وہ مفروضہ دعوی ایک ایسے سوال سے متعلق ہے جس کا جواب ناگزیر ہو نیز اس کے اصولی جوابات دینے والے گروہ بھی محدود ہوں اور ہر کسی کا دعوی اپنی ھئیت میں ایک “مفروضہ” ہی ہو تو پھر دیکھنا یہ ہوگا کہ ان میں سے کس کا مفروضہ دعوی زیادہ قرین قیاس ہے۔ لہذا ایسے معاملے میں کسی جواب کو محض “فرضی” کہہ دینے سے بات مکمل نہیں ہوجاتی، بات یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
Zahid Mughal
مذہبی ایمانیات کا معنی و معنی خیزیت
ھواء پرستوں (خالص فلسفیانہ اپچ کو ہم “ھواء پرستی” کے ہم معنی سمجھتے ہیں، اس کے سواء اس کا کوئی دوسرا معنی نہیں) کا کہنا ہے کہ خدا نے دنیا کو پیدا کیا، مرنے کے بعد زندگی ہے جس میں حساب کتاب ہے، نبیوں پر وحی کے سلسلے میں حقیقت کا بیان ہے، جنت ہے جہنم ہے وغیرہ یہ سب “فرضی” بمعنی “غیر حقیقی” دعوے ہیں۔ آئیے اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ مذہب جن سوالات کے جواب میں اپنی یہ باتیں سامنے رکھتا ہے وہ سوالات کیا ہیں۔ وہ بنیادی طور پر چار سوالات ہیں (اصلا تین ہیں، پہلے کے دو حصے ہیں):
1) اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ یعنی کیا یہ از خود وجود میں آگئی یا اس کا کوئی بنانے والا ہے؟ کیا اسے ہمیشہ رہنا ہے یا یہ ختم ہونے والی ہے؟
2) انسان کی حقیقت کیا ہے؟ یعنی کیا انسان کا کوئی خالق ہے یا یہ کوئی حادثاتی مخلوق ہے؟ کیا انسان کی زندگی کا حاصل یہی محدود زندگی ہے یا مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی موجود ہے؟ اسی سے اخذ ہونے والا سوال یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟
3) حقیقت کا علم انسان کیسے جان سکتا ہے؟ کیا انسان کے پاس اس کا کوئی ماخذ ہے یا نہیں
4) اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے؟
یہ چار لازمی سوالات ہیں جن کا جواب بہرحال انسان کو دینا پڑتا ہے اور اگر وہ کسی ھواء پرست کی طرح یہ کہہ کر ان سے پہلو تہی کرے کہ “زندگی سے ماقبل و مابعد کے یہ سوالات غیر متعلق ہیں” تب بھی وہ ان کا کوئی نہ کوئی جواب لازما فرض کررہا ہوتا ہے۔ ان سوالات کا سامنا کرنا ناگزیر ہے، اس کائنات میں انہیں بائے پاس کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں، جو کوئی ایسا ہونا ممکن سمجھتا ہے تو یا وہ جھوٹ بولتا ہے اور یا خود کو دھوکہ دیتا ہے (جی صرف اور صرف “خود کو”)۔
مذہب انسان کے سامنے ان سوالات کا بالکل واضح اور دو ٹوک جواب رکھتا ہے۔ ہمارا دعوی ہے کہ ان جوابات کے سواء ھواء پرستوں کے پاس اگر ان سوالات کے ان سے بہتر و تسلی بخش جوابات موجود ہیں نیز انکی دلیل بھی ان کے مقابلے میں “زیادہ عقلی” ہے تو ہم کہتے ہیں کہ پھر لاؤ اپنی دلیل۔ مذہب کے ان جوابات کو ترک کردینے کے بعد یہ ھواء پرست ان سوالات کا جو جواب دیتے ہیں ان پر صرف وہی شخص ایمان لاسکتا ہے جس کی خواہشات اس کی عقل پر غالب آچکی ہوں۔ ھواء پرستوں کے وہ جوابات ہمیں بہت اچھی طرح معلوم ہیں مگر ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا کوئی “صاحب عقل” واقعی انہیں “حقیقت” (برخلاف فرضی) کے نام پر اس طور پیش کرنے کی ہمت کرسکتا ہے کہ وہ مذہب کے ان جوابات کے مقابلے میں زیادہ قرین قیاس ہیں؟ ذرا ہم بھی تو اس “حقیقت” کا نظارا کریں جو یہ ھواء پرست چھپائے بیٹھے ہیں!
ھواء پرستوں کا خیال ہے کہ چونکہ مذہب دنیا کو حقیقت نہیں سمجھتا لہذا مذھب کو ماننے والا دنیا کو اہمیت نہیں دیتا۔ یہ دعوی نہایت حیران کن ہے کیونکہ مذہب کو ماننے والے شخص کے لئے تو دنیا ہی اصل امتحان گاہ ہے، جو فصل یہاں اگانا ہے اسی کو تو آگے کاٹنا ہے۔ تو کیا کوئی ایسا کسان دیکھا ہے کہ فصل اگانے کے مقام سے ہی غفلت برتے؟ خدا اور آخرت پر ایمان تو ایک شخص سے تقاضا ہی یہ کرتا ہے کہ وہ دنیا اور اس میں ملنے والی زندگی کے بارے میں بالکل سنجیدہ و ہوشیار ہوجائے، یہ کھیل تماشے کی جا نہیں بلکہ امتحان گاہ ہے۔ ہاں، جو ھواء پرست اس حقیقت کے منکر ہیں، ان کے لئے دنیا محض کھیل تماشے سے زیادہ کچھ نہیں اور ایسا ہونا لازمی منطقی نتیجہ ہے اس فرضی حقیقت پر ایمان لانے کا کہ میں محض ایک حادثہ ہوں۔ “حادثاتی” طور پر جنم لینے والی زندگی میں “معنی تراشنے” اور پھر اس معنی پر اصرار کرنے سے زیادہ بے معنی و بے ربط بات بھی بھلا کوئی ہوسکتی ہے؟ ایسی متضاد باتوں پر صرف ایک فاتر العقل انسان ہی ایمان لاسکتا ہے۔ جب یہ زندگی و دنیا ہے ہی بے معنی اور اسے کسی بھی لمحے بس ختم ہوجانا ہے، تو میں کیوں کر اس میں کوئی معنی تراشوں؟ میں کیونکر اسے سنجیدگی سے گزاروں؟ معلوم ہوتا ہے کہ ھواء پرستوں نے جنوں کا نام ہی خرد رکھ چھوڑا ہے۔ ان ھواء پرستوں میں سے چند ایسے بھی گزرے جن کے خیال میں اس دنیا کو جنت بنانا ہی انسان کا وظیفہ و مقصد ہے! یعنی وہ دنیا جس کے بارے میں دو جمع دو کی طرح معلوم ہے کہ یہ جنت نہیں بن سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پھر یہ سب کے سب خود اپنی ہی جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوئے!
Imran Shahid Bhinder
مسیحی، اسلامی اور یہودی خدا
یہ اسلامی کلچر بھی بہت انوکھا ہے۔ اس میں ایسا ایسا خود ساختہ دانشور بیٹھا ہوا ہے ، جو اکثر و بیشتر اپنے نتائج کی وجہ سے باعثِ حیرت بنتا رہتا ہے۔ اگر کسی ’دانشور‘ کو کسی تحریر میں کوئی ’’پُراسراریت‘‘ نظر آجائے تو وہ ساتھ ہی ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کر اللہ کا ورد کرنے لگتا ہے۔ اگر کسی کو ’’پُراسراریت‘‘ کے برعکس کچھ منکشف ہوتا’’دکھائی‘‘ دے جائے جو ’’پُراسراریت‘‘ کی نفی کرتا ہو تو وہ بھی ’’سبحان اللہ‘‘ سے پہلے نہیں رکتا۔ وہ گروہ جو یہ سمجھتا ہے کہ عقل سے ’’حقیقت‘‘ کو جانا نہیں جاسکتا، اسے بھی جب کوئی نئی سائنسی دریافت دکھائی دیتی ہے تو ’’سبحان اللہ‘‘ کہے بغیر نہیں رہتا۔ دوسرا گروہ جس کو یہ دکھائی دیتا ہے کہ عقل سے’’ حقیقت‘‘ کو جانا جاسکتا ہے۔ جب اس پر کوئی ’’حقیقت‘‘ منکشف نہیں ہوتی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ ’’حقیقت‘‘ کو جاننا انسانی عقل کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اس وقت وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ انسانی عقل اسی کے ایمان کے مطابق خود انسان نے نہیں بنائی، بلکہ اسے اللہ نے دی ہے۔ اور اگر اللہ کائنات میں ’’نشانیاں‘‘ رکھ کر اسے اتنی عقل سے ہی نہیں نوازتا کہ وہ ان ’’نشانیوں‘‘ کو جان سکے تو اس میں قصور اس عقل دینے والے ہی کا نکلتا ہے۔ مجھے تو یہودی فلسفی ژاک دریدا کی وہ بات یاد آگئی کہ یہودیوں کا خدا ’’حاسد‘‘ ہے، وہ نہیں چاہتا کہ اسے کوئی دیکھے۔ حضرت موسیٰ کو شوق تھا، اسے دیکھنے کا، وہ بے ہوشی کی صورت میں پورا ہوا۔ اس کے برعکس مسیحی خدا خود کی نفی کرکے حضرت مسیح کی شکل میں انسانی شکل اختیار کر گیا۔ سپرٹ کنکریٹ شکل میں ظاہر ہوئی، وہ لوگوں میں کنکریٹ شکل میں رہا، اور پھر رخصت ہوگیا۔ مسلمانوں کا خدا شاید ان دونوں کا ملغوبہ ہے۔ منحصر اس بات پر ہے کہ کون سے فرقے کا دانشور خدا کا کیا مفہوم پیش کر رہا ہے۔ ایسے میں خدا کیا ہے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں، البتہ فرقہ وارانہ خدا کی تعریف فرقے کی حدود کے مطابق متعین ہوتی رہتی ہیں۔ جتنے مذاہب، جتنے فرقے، جتنے سیاسی گروہ، جتنے دانشور، جتنے فقہا، جتنے مولوی، اتنے ہی خدا!
Zahid Mughal
جتنے منہ اتنی “حقیقتیں”!
ھواء پرست مذہب پر یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ دیکھو ہر مذہب کا خدا الگ الگ ہے، لہذا اصل خدا کیا ہے یہ بالکل بھی معلوم نہیں۔ یہ ایک گھسا پٹا اور پرانا اعتراض ہے۔ دوسری طرف ان ھواء پرستوں کا خیال ہے کہ حتمی حقیقت کو “ہم” جانتے ہیں۔ چلیں پھر اسی سوال کو ذرا سا گھما کر ان کے سامنے رکھتے ہیں۔ بتائیے حقیقت کا کونسا تصور درست ہے، وہ جو ھواء پرستوں کا مثلا لبرل فرقہ بتاتا ہے یا پھر مارکسسٹ؟ یہ مارکسسٹ یا لبرل فرقے میں بھی بے شمار فرقے ہیں، پھر کوئی خود کو existentialist کہتا ہے، کوئی وجودی تو کوئی کچھ تو کوئی کچھ۔ تو ہمیں بتایا جائے کہ آخر ان میں سے وہ کونسی “حقیقت” ہے جسے آپ ہم سے حقیقت کے نام پر منوانا چاہتے ہیں؟ خود یہ اعتراض اٹھانے والے ھواء پرستوں سے ہی اگر حقیقت کا معنی پوچھ لیا جائے اور پھر اسے درجن بھر دوسرے “بڑے” ھواء پرستوں (وہ کہ جن کی ہمارے یہاں والے نقالی کرتے ہیں) کے سامنے پیش کردیا جائے تو ان میں سے ہر دوسرا اسے رد کردے گا۔ تو جب آپ کی حقیقت کا یہ حال ہے تو آپ کی منطق کی رو سے معلوم ہوا کہ حقیقت کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ تو پھر دعوی و غرور کس امر کا ہے؟
فیصل ریاض شاہد
یہ جو طعنہ اہل اسلام کو دیا کرتے ہیں “ہر مولوی نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے” یہی طعنہ تو خود ان نفسیاتی مریضوں پر صادق آتا ہے۔
فلاسفہ کو پڑھیں تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ حقیقت سے متعلق ہر فلسفی ایک مستقل فرقہ ہے۔ بعض کے مقلدین بھی ہیں اور بعض بعضوں کی تکفیر بھی کرتے ہیں
Imran Shahid Bhinder
جو “حکم” نہیں مانے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ جو اپنے یا دیگر انسانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرے گا اسے “اٹھا” کر دنیاوی جہنم واصل کیا جائے گا۔
جو اپنے مقصد کو چھوڑ کر معافی مانگ لے گا اسے معاف کر دیا جائے گا، کیونکہ وہ بہت “مہربان” اور نہایت “رحم” کرنے والا ہے۔ جو اچھا بچہ بن جائے گا وہ اثاثہ کہلائے گا، کیونکہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ یہ وہی “بادشاہت” ہے، جس کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ “اشرف المخلوقات” نے دنیا میں ہی اس کو عملی جامہ پہنا دیا۔ ان بظاہر دو مختلف باتوں کے پیچھے ایک ہی ظالم و جابر ذہن کار فرما ہے۔
Mohammad Farooq
کافی دلچسپ نکات ہیں ۔
بد قسمتی سے یہ تو ہم سب کے ساتھ اس دنیا میں بھی ہو رہا ہے کہ کسی بھی مہذب قوم ، ملک یا ریاست میں اگر کوئ شہری قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔۔۔ تو اسے قانون کے مطابق سزاء دی جاتی ہے ۔ چور کو چوری نہ کرنے کا ” حکم ” نہ ماننے کی سزاء مل جاتی ہے ۔۔۔ اور جب تک وہ چوری کرنے کا ” مقصد ” چھوڑ کر ” آچھا بچہ ” نہیں بن جاتا ۔۔۔ اس وقت تک اسے جیل کے ” جہنم ” ہی میں رکھا جاتا ہے ۔ ” اشرف المخلوقت ” ہوں یا ” مہذب انسان ” دونوں ” بد قسمتی” سے اس پر اتفاق رکھتے ہیں ۔
جس طرح یہ حقیقت ہے کہ :اگر کسی معاشرے میں قانونِ جزاء و سزاء سرے سے ہو ہی نہ ، تو حضرت انسان خود اسے ” غیر مہذب ” معاشرہ قرار دینے پر اصرار کرتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی کہ : اگر ” رحمن ” و ” رحیم ” کے وجود کو مانا جاۓ ۔۔ اور یہ تسلیم کیا جاۓ کہ اس نے انسان کو بھی اسی طرح ” بامقصد ” پیدا کیا ہے ۔۔۔ جس طرح کی مقصدیت اس دنیا اور کائینات کے وجود کے زرّے زرّے میں موجود ہے ۔۔۔۔ تو اس رحمن و رحیم کے ہاں انسان کے اعمال کا یہ احتسابی نظام تو ہونا چاہیے کہ کون کیا کر رہا ہے ۔۔؟ ۔۔ اور وہ اس کے مقصد تخلیق کے عین مطابق عمل کر رہا ہے ۔۔ یا نہیں ۔ ۔۔؟
ہاں یہ درست ہے کہ :اگر ایسے کسی “رحمن و رحیم ” کے وجود ہی کو نہیں مانا جاۓ ۔۔۔ تو
پھر کسی ” بادشاہت” یا اس کے پیچھے ” کارفرما ظالم و جابر ذہن ” کی شکایت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ۔ ۔۔ کیونکہ نہ کسی بادشاہ کا وجود ہے ، نہ کوی کارفرما ظالم ذہن ۔۔! بلکہ اس صورت میں تو یہ سنجیدہ سوال پیدا ہوگا کہ کوی انسان دوسرے انسان ، یا انسانوں کی اجتماعیت سے بننی والی ریاست و حکومت یہ اختیار کیوں کر رکھتی ہے کہ وہ “آپنے جیسے” دوسرے انسان کی زندگی کے لیے قانون وضع کرے ۔۔۔ اور انسان ، آپنے طرح کے دوسرے انسان کو آپنے ” مقصد” سے منع کرے ۔۔۔؟ ۔۔۔ خواہ وہ مقصد چوری ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔ کیوں کہ چوری بھی تو مال لٹنے والے مالک کے حق میں مال کا ضیاع اور چوری کرنے والے چور کے حق میں یہ اس کی ” ضرورت ” ہے ۔۔۔ جبکہ انسان ہونے کے ناطے ” انسان” دونوں ہیں ۔۔۔!
Abu Saad Iman
فلسفہ کے ابوجہل:
ہروہ شخص فلسفہ کا ابوجہل ہے جو فلسفہ سے محض حیرانی و پریشانی اور شک کی بجائے مذہب کے خلاف محض فرضی اعتراضات کو اٹل ترین حقیقت کے طور پر بیان کرے۔ چارہزار سال سے فلاسفہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ اللہ، آخرت اور رسول سے دور رہ کر محض اور محض اپنی عقل سے زندگی اور زندگی کے تمام مسائل کو حل کرلیں، دنیا میں امن، آزادی اور خوشحالی محض اپنی عقل کی زور پر بروئے کار لاسکیں۔ لیکن افسوس! اللہ، آخرت اور رسول کے ان منکروں کو جب جب بھی دنیا پر اپنی عقل اور فلسفہ غالب کرنے کا موقع ملا دنیا کا امن، آزادی اور خوشحالی بدترین خطرات سے دوچار ہوگئی۔ لیکن فلسفہ کے بعض ابوجہل بجائے اپنی عقل اور فلسفہ کی ناکامی کا اعلان کرنے کے گلے پھاڑ پھاڑ کر مذہب کی ناکامی کا اعلان کررہے ہیں۔ فلسفہ کے یہ ابوجہل اگر ہندو، مسیحی یا یہودی ہوتے تو ہمیں ان سے کوئی سروکار نہ ہوتا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں اور اسلام، قرآن اور سیرت رسول کو سمجھے بغیر، انسانی فکر و کردار پر ان کے لازوال اثرات کی تاریخ کا مطالعہ کیے بغیر محض اور محض جہالت میں (اپنے آپ کو علم کی بلندیوں پر فائز تصور کرتے ہوئے) مذہب، عبادت اور آخرت کے خلاف جہالت پر مبنی لینگویج استعمال کررہے ہیں۔
Sarosh Hassan Shigari
ابو سعد صاحب ¡ زرا مذہب اور مذہبی حکومتوں کی دزندگی اور وحشت پر بھی روشنی ڈالیں
Abu Saad Iman
سروش حسن صاحب! جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو بیسویں صدی کے سب سے بڑے فلسفی کی گواہی ذرا غور سے سنیے۔برٹرینڈ رسل اپنی کتاب History of Western Philosophy کے دسویں باب Muhammadan Culture and Philosophy میں یہ تسلیم کررہا ہے کہ: “شام کے عوام جن کی اکثریت نسطوری (عیسائیوں کی) تھی نے کیتھولک لوگوں کے ہاتھوں بہت اذیتیں برداشت کی تھیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے تمام مسیحی فرقوں کے ساتھ نہایت رواداری کا سلوک کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔محمد ﷺ نے کسی الوہیت کا دعویٰ نہ کیا ۔ ۔ ۔ایک مسلمان کا فرض تھا کہ وہ اسلام کی خاطر جس قدر زیادہ دنیا فتح کرسکتا ہے کرے لیکن یہ سخت ہدایت تھی کہ کسی مسیحی، یہودی یا زرتشتی پر جبر و اکراہ مسلط نہ کیا جائے۔ قرآن حکیم کی زبان میں کسی صاحب کتاب پر یعنی جو صحائف کے ماننے والے تھے ، ظلم و زیادتی نہ کی جائے۔”آگے چلیے آگے چل کر برٹرینڈ رسل لکھتا ہے: ” عربوں نے اپنے نئے مذہب کی بدولت ہی فتوحات حاصل کی۔ چونکہ وہ متعصب نہ تھے اس لیے مٹھی بھر جنگجو کسی زیادہ مشکل کے بغیر اعلیٰ تہذیب اور دوسرے مذہب کی وسیع آبادیی پر حکمرانی کرنے کے اہل تھے۔”
میرے خیال میں رسل کے یہ اعترافات اس جہالت اور تعصب کی نفی کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اسلامی نظریہ پر ایمان رکھنے والی کوئی اجتماعی طاقت دوسرے مذاہب کے پیروکاروں پر وحشت و بربریت یا ظلم کرسکتی ہے۔ اس کے برعکس رسل گواہی دے رہے ہیں کہ غیرمسلم اکثریت اور طاقتور تہذیب پر مسلمانوں نے محض عدم تعصب کی وجہ سے حکومت کی۔ اس اس تعصب اور ظلم سے پاک رویہ کا حکم مسلمانوں کا ان کا دین اور قرآن دے رہا ہے۔
Zahid Mughal
ہم منتظر ہیں کہ مذھب کی بیان کردہ حقیقت کو “فرضی” کہنے والے کب ان چار سوالات کا معین جواب تحریر کرتے ہیں، بجائے خود ساختہ فہم پر مبنی ادھر ادھر کے سوالات اٹھانے کے جو “اصل مدعا” ہے اس پر بات ہوجائے تو بہت اچھا ہے۔ بصورت دیگر پگڈنڈیوں میں الجھتے رہنے کا وقت کسی کے پاس نہیں۔ اگر آپ لوگوں کے پاس ان “فرضی جوابات” کے علاوہ کوئی “حقیقی، عقلی و حتمی جوابات” موجود ہیں تو سامنے لائیے۔ ہم جس پر ایمان لائے ہیں اس کا ہم کھل کا اظہار کرتے ہیں، تو جس پر آپ ایمان لائے ہیں اسے اسی طرح کھل کر بیان کردیجئے۔ دیکھتے ہیں کونسی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔
Mohsan Raza
جزئیات پر گفتگو سے پہلے بنیادی باتوں پر گفتگو ہونی چاہیے.حالیہ مباحثہ پر بھنڈر صاحب کا رویہ غیر علمی و سطحی نوعیت کا ہے.مذہب کے بنیادی مقدمات پر گفتگو کرنے کی بجائے,ان کا تمام تر زور غیر متعلق مباحث پر ہے.موصوف سے ان کی پوسٹ پر تقاضا بھی کیا تھا کہ مغل صاحب کے سوالات ,ہنوز ,جواب طلب ہیں لیکن جواب ندارد.