1.1. خدا کے اخلاقی کردار کے لحاظ سے مظاہر پرستی کا تضاد۔
اس حصے میں ، میں وضاحت کروں گا کہ خدائی بھلائی، فضل و احسان کیا ہے اور کیا عقلی طور پر اس کو خدا کی صفت کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے؟ اس کے بعد میں یہ بحث کروں گا کہ وہ مظاہر پرست ، جو خدا کی بھلائی کی توثیق کرتے ہیں یا اس کی نفی کرتے ہیں ، دونوں کو اپنے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے کتنے سنگین مذہبی اعترضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
1.1.1. خدا کو اچھا کہنے کا کیا مطلب ہے؟
خدا “اچھا” ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر بھلائی اس کے ساتھ ہی منسوب کرتے ہیں ، جیسے کہ کامل یا حد سے زیادہ سخاوت پسند ، شفقت پسند ، انصاف پسند وغیرہ اور یہ کہ وہ کبھی برائی کا ارتکاب نہیں کرتا ہے (Davis, 1983, p. 86)
1.1.2. کیا خدا کی اچھائی کا عقلی طور پر ادراک کیا جا سکتا ہے؟
ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خدا قادر مطلق بھی ہے اور خود مختار بھی (جس کو بہت سے مظاہر پرست مانتے ہیں، گو کہ تمام نہیں)، تو ہم منطقی طور پر خدا کے فضل و احسان کو پہچان سکتے ہیں: “انسان اپنی کم علمی کی وجہ سے برائی کی خواہش کرتا ہے۔ وہ جاہلیت کی وجہ سے یا کسی ذاتی خواہش کو پورا کرنے کے لئے برائی کا انتخاب کرسکتا ہے۔ اس سے غلطی بھی ہوسکتی ہے کہ وہ سمجھے کہ وہ عمل اچھا ہے جبکہ ایسا نہ ہو۔ چنانچہ وہ اپنی سادہ لوحی یا جہل مرکب کی وجہ سے برے کاموں کا ارتکاب کرتا ہے۔ اور خدا اس سے بالکل پاک ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ کبھی برائی کا مرتکب ہو۔ (1989, p. 925)”
سیموئیل کلارک ابن تیمیہ کی اس معقول دلیل کو مزید کھول کر بیان کرتے ہیں۔ وہ “فٹنس/اہلیت” کا تصور پیش کرتے ہیں۔ جس میں مختلف چیزیں اپنی داخلی فطرت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لازمی اور نا تبدیل ہونے والا تعلق رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، اخلاقیات کے دائرے میں انسانوں کے لئے ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا ، ایک دوسرے کو غیر ضروری طور پر نقصان پہنچانے سے بچنا، سب سے زیادہ “فٹ” اور “موزوں” ہے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپنے “لامحدود علم” اور “کامل حکمت” کی موجودگی میں خدا کبھی بھی ان ” موزوں” تعلقات سے لا علم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ غلطی سے ان تعلقات کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔
مزید برآں ، کیونکہ خدا “خود کفیل” ، “کامل خود مختار” اور “قادرِمُطلق” ہے ، اسے کسی چیز کے حصول کے لئے چیزوں کی “فٹنس/اہلیت” کی خلاف ورزی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، اور نہ ہی کوئی غیر معقول جذبات اس پر اس طرح کی خلاف ورزی کرنے سے منفی طور پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس قیاس کی بنیاد پر ، کلارک نے استدلال کیا کہ خدا لازماً “بے حد و حساب اچھا” ، “بے حد و حساب انصاف پسند ،” اور “سچا اور قابل اعتبار” ہونا چاہئے (1728, pp. 111-114)۔
یہ قابل فہم ہے کہ تمام مذہبی ماہرین اور اخلاقی فلسفی کلارک کی دلیل سے متفق نہیں ہونگے ۔ وہ الہی احکامات کے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خدا کا حکم ہی عمل کی اخلاقی حیثیت کا تعین کرتا ہے ، وہ ممکنہ طور پر کلارک کی دلیل پر اعتراض کریں گے۔ کیونکہ یہ دلیل تجویز دیتی ہے کہ خدا “اہلیت” کے ابدی غَیر مُتغَیَّر اور لازمی قواعد پر عمل کرتا ہے ، جبکہ خدا وہ ہستی ہے جس کے تابع سب کو ہونا چاہئے۔ بہر حال یہ الگ اور مذہب کی اندرونی بحث ہے ، میں الہی احکامات کے نظریے کی حقیقت کو واضح کرنے میں فی الحال نہیں پڑنا چاہتا ۔ میں کلارک کی دلیل مظاہر پرستوں کے لیے پیش کررہا ہوں ، وہ اس کے مفروضات کو قبول کرتے ہیں اسکے علاوہ وہ وحی پر مبنی مذہب کو مسترد کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ عقل اور قدرت پر ” غور و فکر ” کے ذریعے ہی خدا کے اخلاقی احکامات کو پہچانا جا سکتا ہے۔ چونکہ کلارک اشیاء کے مابین اخلاقی تعلقات کی “موزونیت” پر مبنی عقلی معرفت کی دعوت دیتا ہے، اس لئے اس کے دلائل مظاہر پرستوں کے اخلاقی علم کے طریقہ کار سے ہم آہنگ ہیں۔
1.1.3. ان مظاہر پرستوں کے لئے مسئلہ جو خدا کی اچھائی کا اقرار کرتے ہیں۔
اس کی وضاحت کرنے کے بعد کہ الہی فضل و احسان و بھلائی کیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کے بعد کہ کس طرح عقلی طور پر یہ پہچانا جا سکتا ہے کہ خدا یا تو کامل اچھا یا بے حد و حساب اچھا ہے ، اب میں اپنی دلیل کو حسب ذیل مرتب کرتا ہوں:
مقدمہ 1: اچھائی کے لیے احسان اور انصاف کی ضرورت ہے۔
مقدمہ 2: مظاہر پرست خدا کی اچھائی کی توثیق کرتے ہیں مگر پھر بھی اس کی دنیا میں مداخلت کی نفی کرتے ہیں۔
مقدمہ 3: خُدا کی بھلائی اُس کی دنیاوی عدم شمولیت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔
نتیجہ: مظاہر پرستی متضاد ہے۔
پہلا مقدمہ واضح ہے کیونکہ اس سے تو کسی بھی اختلاف نہیں کہ انصاف اور احسان اخلاقی خصلتیں ہیں ۔
جہاں تک مقدمہ 2 کی بات ہے ، دنیا میں خدا کی عدم مداخلت پر مظاہر پرست متفق ہیں ۔ میں نے مظاہر پرستی کی تعریف کے باب میں خدا کی اچھائی اور اس کی پروردگاری کے متعلق مظاہر پرستوں کے متعدد مواقف پر روشنی ڈالی ہے۔ آگے میں مظاہر پرستوں کے اس گروہ کو بھی زیر بحث لاؤں گا جو خدا کی اچھائی کو جھٹلاتے ہیں۔ چنانچہ مقدمہ 2 کے غیر مشروط الفاظ کے باوجود ، میں مظاہر پرستوں کے خلاف عمومی بات نہیں کر رہا ہوں۔
مقدمہ 3 دلیل کی جڑ ہے۔ میں یہ استدلال کرتا ہوں کہ خدا کا فضل و احسان اس کی دنیا میں عدم مداخلت سے مناسبت نہیں رکھتا ۔ کیا وہ شخص جو کسی جائز عذر کے بغیر اپنے گھر والوں سے لاتعلق ہوجائے ، ایک وفادار باپ اور شوہر ہوسکتا ہے؟
کیا کوئی چرواہا جو اپنی بھیڑ بکریاں چرانے کے لئے اپنے ریوڑ کو ایسی جگہ لے جاتا ہے ، جہاں وہ جانتا ہے کہ بھیڑیے موجود ہیں اور پھر بھی انہیں وہاں چھوڑ دیتا ہے، کیا وہ ایک اچھا چرواہا ہے؟
کیا ایک بَچوں کی نِگہداشت کَرنے والی جو ایک چھوٹے بچے کو تالاب کے قریب رینگنے کے لئے چھوڑ دے، کیا وہ ایک ذمہ دار نگران ہے؟
کیا ایک پولیس افسر جو کسی بوڑھی عورت کو لٹتے اور پٹتے ہوئے دیکھے اور کچھ نہ کرے،ایک مخلص پولیس افسر ہے؟
کیا کوئی ایسا استاد جو بغیر کسی تیاری کے سبق پڑھائے اور امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے ضروری مواد فراہم نہ کرے، کیا وہ ایک ہمدرد استاد ہے؟
کیا کوئی ایسا مالک جو کسی ملازم کو کسی ایسے اصول کی خلاف ورزی کرنے پر برطرف کرتا ہے ، جس کے بارے میں اس ملازم کو کبھی بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا، ایک منصف مالک ہے؟
معقول افراد، ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان سوالات کا جواب نہیں میں دیں گے۔ اگر انسانوں کے اس طرح کے رویوں کے بارے میں سمجھدار افراد اتنی کراہت کا اظہار کرتے ہیں تو پھر اس خدا کے بارے میں کیا کہیں گے، جو اپنی تخلیق کردہ با شعور مخلوق کے معاملات سے دور اور بے پرواہ رہتا ہے؟ کیا ایسا خدا ہمارے کامل یا حد سے زیادہ اچھے خدا کے تصور کے مطابق ہے؟ بالکل بھی نہیں۔
میں نے جو تشبیہات پیش کی ہیں وہ ظاہر کرتی ہیں کہ ذمہ داریوں سے دستبردار ہوجانا، اذیت ناک مصائب سے جذباتی لاتعلقی اور دوسروں سے غیر منصفانہ توقعات اور سلوک منفی اخلاقی خصائص ہیں۔ یہ بالکل وہی خصلتیں ہیں جو ایک ایسے خدا سے منسوب کی جانی چاہئیں جو اپنی تخلیق کردہ دنیا میں بے حسی سے لاپرواہ اور لاتعلق ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ مظاہر پرستوں کا خدا نہ صرف لوگوں کی دعاؤں اور التجاوں کو نظر انداز کرتا ہے، بلکہ دنیا میں بے قابو شر کی موجودگی کی وجوہات یا اس شر کے مقابلے میں کسی قسم کی امید کی روشنی فراہم کرنے سے بھی انکار کرتا ہے۔ مظاہر پرستوں کے خدا نے انسانیت کو تخلیق کیا اور کسی قسم کی اخلاقی رہنمائی، مدد، حوصلہ افزائی ، امید ، ہمدردی اور محبت کے کسی تعلق کی گنجائش چھوڑے بغیر انہیں زندگی کی مشکلات سے گزرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا۔(میں آگے خدائی وحی کی اہمیت اور مظاہر پرستی کے اس دعوے ‘صرف عقل کی بنا پر ہم خدا کے اخلاقی قوانین کو قابل اعتماد طور پر جان سکتے ہیں’ کی حقیقت واضح کرونگا)۔ مگر پھر بھی ، ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم خدا کے اخلاقی کردار کی تقلید کریں (کیونکہ یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ “اچھا” ہے)، تاکہ ہم ایک سُکھ کی زندگی گزار سکیں۔ یقینا یہ ایک بے ہودہ خیال ہے۔
مظاہر پرست الہی وحی کو رد کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ الہی مدد سے محروم عقل کے ذریعے فطرت پر محض ’’ غور و فکر ‘‘ کرنے سے انسان خدا کی اخلاقی خصوصیات کو پہچان سکتا ہے۔ اس مظاہر پرستانہ موقف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر مظاہر پرستوں کا خدا اس باپ ، چرواہا ، یا دوسرے افراد (جن کی میں نے تماثیل دی ہیں) کی ان امتیازی خصوصیات (جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے) کی طرح عمل کرتا ہے ، تو ہم خدا کو کس طرح مکمل طور پر یا بہت اچھا تصور کر سکتے ہیں اور جبکہ ہم سب اتفاق کرتے ہیں کہ یہ خصلتیں بری ہیں؟ اب میں مقدمہ 3 (خُدا کی بھلائی اُس کی دنیاوی عدم شمولیت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے)کے حق میں اپنی دلیل پیش کرتا ہوں:
مقدمہ 1: مظاہر پرست دعوی کرتے ہیں کہ ہم اخلاقیات کو اپنی عقل سے پہچان سکتے ہیں۔
مقدمہ 2: مظاہر پرست کہتے ہیں کہ خدا اپنی تخلیق کردہ دنیا سے بے پروا ہے۔
مقدمہ 3: ہماری عقل ہمیں بتاتی ہے کہ ایک پرواہ اور بے حس خدا بے حد برا ہے۔
مقدمہ 4: خدا بیک وقت بہت اچھا اور برا نہیں ہوسکتا۔
نتیجہ: بے حس وبے پروا لیکن ساتھ ہی ساتھ بے حد اچھے خدا کا تصور متضاد ہے۔
مظاہر پرست مقدمہ 2 پر اعتراض اس مقدمے سے انکار کر کے کر سکتے ہیں کہ دنیا سے خدا کی عدم تعلقی کے تقاضا کا مطلب ہے کہ وہ اس سے بے پرواہ ہے۔ مظاہر پرست کہہ سکتے ہیں کہ خدا اپنی تخلیق کے امور کی بہت زیادہ پرواہ کرتا ہے: جب انسان نیک اعمال کرتا ہے تو وہ بہت خوش ہوتا ہے اور غصہ ہوتا ہے جب وہ نہیں کرتے، لیکن وہ دنیاوی معاملات میں غیر ملوث رہنے کا انتخاب کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی خواہش ہے کہ وہ انسان کو عقل کی طاقت دے کر ان کا امتحان لے کہ آیا انسان اس طاقت کے استعمال سے صحیح اخلاقی انتخاب کرتا ہے کہ نہیں۔ مظاہر پرست مزید یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ خدا آخرت میں ہر ایک کے ساتھ انصاف کرے گا اور ہر ایک کے لئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔ تاہم ، یہ ایک انتہائی عارضی وضاحت ہے۔ اس طرح کا جواب کو عقائد میں سے من مانے انتخاب کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا اور اس وقت تک یہ انتخاب جاری رہتا ہے جب تک کہ اپنی مرضی کا ایک مذہبی مجموعہ ترتیب نہ پا جائے۔
مزید براں صرف عقل کے انتہائی استعمال کے ذریعے کوئی ایسے دعوؤں کو ہی کس طرح اصل وضاحت مان سکتا ہے؟ خدا کی دنیا میں عدم مداخلت کی ایک سے زیادہ وضاحتیں ہوسکتی ہیں ، جیسے: آسان الفاظ میں اسے دنیا کی پرواہ نہیں ہے۔ یا وہ مکمل طور پر ” بھول” گیا ہے۔ یا وہ دوسرے دنیاوں کے معاملات کی دیکھ بھال میں مصروف ہے۔ یا شاید وہ مستقبل میں مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے اور صرف “وقت گزار رہا ہے”! الہی وحی یعنی خود خدا کے بتائے بغیر ہم یہ سب کچھ حتمی طور پر کیسے جان سکتے ہیں؟ یقینا ، مذکورہ بالا وضاحتیں مذہبی و علمی طور پر قابل قبول نہیں ہیں۔ لیکن نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم اس طرح اپنے عقائد گھڑنے کے لئے خالصتاً ذاتی عقل پر انحصار کرتے ہیں تو ہم ہر فضول نظریے وضاحت کے لئے دروازہ کھول دیتے ہیں۔ دوم ، اگر محض فرض کرتے ہوئے ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ خدا کی عدم توجہی کا مطلب بے پرواہی نہیں ہے اور یہ کہ خدا واقعی انسانوں کی پرواہ کرتا ہے ، پھر ہمیں یہ سوال کرنا چاہئے کہ کسی ایسے خدا سے جو مکمل طور پر یا حد سے زیادہ مہربان ہو اس سے دیکھ بھال کی کس سطح کی توقع کرنا مناسب ہے۔؟ میری عرض یہ ہے کہ دیکھ بھال کی وہ سطح جس میں کافی اخلاقی رہنمائی، امید، ہمدردی اور محبت فراہم کرنے میں جان بوجھ کر نظر انداز کرنا شامل ہے، خدا کی قدرت اور علم کے لحاظ سے نہ صرف یہ کہ غفلت کا مظہر ہے، بلکہ ایک کامل یا حد سے زیادہ احسان کرنے والے خدا کے لیے بھی غیر موزوں ہے۔
مظاہر پرست مقدمہ 2 میں خدا کی قدرت یا علم کو مجروح کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا اپنی مخلوق سے کلام کرنا چاہتا ہے لیکن اس سے قاصر ہے ، یا اگر وہ اپنی مخلوق کے معاملات سے واقف ہوتا تو وہ بات چیت کرسکتا تھا۔ لہذا خدا جو دنیا سے بے حس دکھائی دیتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ کامل طاقت یا کامل علم نہیں رکھتا۔۔ تاہم ، یہاں تک کہ خدا کی قادر مطلقیت اور علمِ کُل پر سمجھوتہ کرنے کے باوجود ، یہ بتانا ابھی بھی عقلی طور پر نا ممکن ہے کہ خدا کیسے اس حد تک طاقت ور اور اتنا علم والا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک انتہائی پچیدہ مخلوق اور نظام بنانے کے تو قابل ہو لیکن اس میں اتنی طاقت نا ہو کہ ان سے تعلق رکھ سکے یا ان کے معاملات سے واقف ہوسکے ۔ خدا کی قدرت اور علم پر اس طرح کا سمجھوتہ کسی بھی پہلو سے اس مسئلے کا مناسب حل نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ بیک وقت ایک ایسے خدا کا تصور کرنا، جو کامل یا بہت اچھا ہے لیکن اپنی مرضی سے دنیا کے امور میں مداخلت نہ کرنے کا انتخاب کرتا ہے، ایسے تصور کو برقرار رکھنے کے لیے سنگین منطقی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کچھ مظاہر پرست ان مشکلات کو پہچانتے ہیں اور اس کے نتیجے میں خدا کی صفت احسان، اچھائی (goodness) کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ میں آگے اس پر بحث کروں گا کہ خدائی احسان کو نظرانداز کرنے سے، مظاہر پرستی کو تضاد کے الزام سے بچنے میں مدد نہیں ملتی ہے۔
1.1.4. ان مظاہر پرستوں کے لئے مسئلہ، جو خدا کی صفت احسان بھلائی کا انکار کرتے ہیں:
مظاہر پرستوں ایک گروہ ایسا بھی ہے جس میں خدا کا تصور یا تو شر پر مبنی ہے یا انکے نزدیک خدا خير و شَر سے بالکل بے تَعلُق ہے۔ مظاہر پرست، جو خدا کی اچھائی کی تصدیق کرتے ہیں،وہ اس اچھائی کو زندگی کے مقصد سے جوڑتے ہیں۔ یعنی خدا کی تقلید میں نیک زندگی گزار کر خوشی کا حصول کیا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ، وہ کم از کم نظریاتی طور پر اخلاقیات کی ایک علمی بنیاد پیش کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں ، جو کہ خدا ہے( باوجود اسکے کہ مذکورہ مشکلات ان کے موقف کے لیے بھی پَريشان کُن ہیں۔) اس کے برعکس ، وہ مظاہر پرست جوخدا سے بھلائی کو منسوب نہیں کرتے، ان کا یہ انکار معروضی اخلاقی اقدار (objective moral values)کی بُنیاد خدا سے حاصل نہیں کر سکتا۔ اس تفصیل کے ساتھ ، میں اپنی دلیل پیش کرتا ہوں:
مقدمہ 1: معروضی اخلاقیات (Objective morality) وجود رکھتی ہیں۔
مقدمہ 2: اگر خدا برا ہے یا خير و شَر سے بے تَعلُق ہے تو معروضی اخلاقیات کا وجود نہیں ہوسکتا۔
مقدمہ 3: مظاہر پرست اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خدا یا توشر پر مبنی ہے یا خير و شَر سے لا تعلق (Immoral)ہے۔
نتیجہ: مظاہر پرستی تضاد کا شکار ہے۔
مقدمہ 1 ان مظاہر پرستوں کے لیے ہے جو یا تو صرِيحًا معروضی اخلاقی اقدار کی تصدیق کرتے ہیں یا ان ڈائریکٹی اس طرح کہ جب وہ پوری طرح سے الہی مذاہب پر تنقید کرتے اور دنیا میں ہونے والی برائیوں کی ذمہ داری ان پر عائد کرتے ہیں، جیسے جنگ ، ظلم، مذہبی عدم رواداری وغیرہ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مظاہر پرستوں کو بھی یقین ہے کہ ایسے اعمال حقیقت میں برے ہیں۔ لہذا ، مقدمہ 1 کو مظاہر پرستوں کی اکثریت کی منظوری حاصل ہے۔
مقدمہ 2 دلیل کی جڑ ہے۔ کیا خدا کی بھلائی کا انکار کرنے والے مظاہر پرستوں کو معروضی اخلاقیات کی کوئی خود مختار بنیاد مل سکتی ہے؟ بہت سے ملحد خوشی خوشی کچھ خیالات فراہم کر کے مظاہر پرستوں کی مدد کریں گے۔ تاہم ، ایک خود مختار معروضی اخلاقی بنیاد پیش کرنے کی جدوجہد ملحد اور خدائی خیر خواہی کی نفی کرنے والے مظاہر پرست، دونوں کے لئے برابر نہیں ہے۔ کیونکہ ملحد کے مطابق ، خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بنیادی ذات وجود نہیں، جس نے دنیا اور اس کی فطری خصوصیات کو پیدا کیا۔ دوسری طرف ، مظاہر پرستی، ایک ایسی ہستی کے وجود کا دعویٰ کرتا ہے جو تمام چیزوں کا ماخذ ہے اوردعوی کرتے ہیں کہ خدا نے اسے تخلیق کیا اور وہ اپنی تخلیق سے ماورا اور لاتعلق ہے۔ اگر مظاہر پرستی یہ سکھاتی ہے کہ خدا یا تو شریر ہے یا خير و شَر سے بے تَعلُق ہے ، تو پھر معروضی اخلاقیات کے لئے آنٹولوجیکل بنیاد(مابعد الطبیعیات کی شاخ جو وجود کی نوعیت سے متعلق ہے) تیار کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ خدا سے ہٹ کے ایک اخلاقی بنیاد کی نشاندہی کریں ۔ لیکلیکن ملحد ایسا بوجھ نہیں اٹھاتا، کیونکہ اسے صرف کرنا ہوگا کہ وہ معروضی اخلاقیات کے لیے مناسب بنیاد تلاش کرے۔( یہ مضمون اس بحث پر نہیں ہے کہ ملحدین کی اس طرح کی کوششیں کامیاب رہی ہیں یا ہو سکتی ہیں۔)
اگر خدا تعالٰی خير و شَر سے بے تَعلُق (Immoral)ہے ، تو پھر اس نے فطری اخلاقی خصوصیات(inherent moral properties) کے ساتھ چیزیں پیدا نہیں کیں۔ کیوں کہ ایک خير و شَر سے بے تَعلُق محرک اچھے اور برے کی بنیاد کس طرح رکھ سکتا ہے؟ اور اگر تمام چیزوں کے بنیادی ماخذ نے اخلاقی قدر پیدا نہیں کی ، تو معروضی اخلاقی قدریں کس طرح وجود رکھ سکتی ہیں؟ مزید برآں ، اگر خدا برا ہے تو وہ یہ بھی فیصلہ کرسکتا ہے کہ قتل اور عصمت دری جیسی چیزوں کو قابل تعریف سمجھا جائے۔( یہ جاننا مشکل ہے کہ آیا ایک شر والا خدا مُضر اخلاقی احکامات نافذ کرنے میں دلچسپی رکھے گا یا لوگوں کو برے کام کرنے پر انعام دے گا۔ تاہم ، جس کا یقین ہے کہ خدا شرکا پیکر ہے، اس کے مطابق اس امکان کو یقین کے ساتھ مسترد نہیں کیا جاسکتا۔)
یہاں تک کہ اگر ہم خدا کے علاوہ کوئی آزاد اور خود مختار معروضی اخلاقی اقدار کا وسیلہ ڈھونڈ بھی لیتے (جو کہ موجود نہیں )، ہمیں تب ایک اور مسئلہ درپیش ہوتا — یعنی خدا کا کائناتی اِقتَدار ۔ اگر خدا بد ہے، تو وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ ہم اخلاقیات کے اس آزاد ذریعہ سے کسی اخلاقی حکم کی پابندی کرتے ہیں یا اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو وہ ہم سے ناراض بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ برا خُدا ہی واحد کائناتی محرک ہے جس کے پاس ہمارا فیصلہ کرنے کی طاقت ہے، ہمارے پاس معروضی اخلاقی اقدار کی ایک غیر شخصی بنیاد کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونے کی کوئی بڑی وجہ نہیں ہے۔( یہاں تک کہ اگر معروضی اخلاقیات کا یہ آزاد ذریعہ موجود ہے تب بھی یہ ذریعہ لازم نہیں کرتا کہ ہم اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں، خاص طور پر اگر وہ ہمیں کسی بھی غلطی کا اخلاقی طور پر جوابدہ نہیں ٹھہرائے گا۔ لہذا ، وہ مظاہر پرست جو خدا کو برا سمجھتے ہیں، اس آزاد اخلاقی بنیاد کے اختیار کو بھی تسلیم کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔)
مظاہر پرست “خیر و شر سے الہی بے تعلقی” والی دلیل کا انتخاب کرسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ انسان اپنے مفادات کی خاطر معروضی اخلاقیات کے لئے ایک خود مختار بنیاد کو دریافت کرنے اور اس سے وابستہ رہنے کی کوشش کر سکتے ہیں ، جبکہ خدا کہیں دور بیٹھا بے فکری سے “اپنے آپ میں مگن ہے”۔ اگر خدا تعالٰی علم کل ہے یا بہت زیادہ علم والا ہے ، تب لازمی طور پر خدا جانتا ہو گا کہ آیا حقیقی صحیح اور غلط جیسی کوئی چیز ہے یا نہیں۔ اور ایسی معروضی اخلاقی اقدار کا علم ہونا اور پھر ان کے بارے میں جان بوجھ کر لا پرواہ ہونا بذات خود ایک اخلاقی طور پر قابل مذموم موقف ہے، جس سے خدا برا ٹھہرتا ہے! میں خیر و شر سے بے تعلق خدا کے خلاف اپنی دلیل کو ایسے مرتب کرتا ہوں۔
مقدمہ 1: معروضی اخلاقی اقدار سے جان بوجھ کر بے پرواہ ہونا ایک اخلاقی نقص ہے۔
مقدمہ 2: خیر و شر سے بے تعلق خدا اخلاقی قدروں کو جانتا ہے اور ان سے بے پرواہ ہے۔
نتیجہ: خیر و شر سے بے تعلق خدا اخلاقی طور پر ناقص ہے۔
مقدمہ نمبر 1 کے حوالے سے، میں پہلے ہی یہ ظاہر کر چکا ہوں کہ خدا کی دنیاوی عدم لا تعلقی اخلاقی طور پر ایک نقص والا عمل ہے۔ اگر خدا جانتا ہے کہ اس کی تخلیق سے بے نیازی معروضی طور پر غلط ہے (معروضی اخلاقیات کے آزاد معیار کے مطابق جو مبینہ طور پر موجود ہے!) ، تو اس بے حسی پر اس کاجان بوجھ کر اصرار اس کو برا بنا دے گا!۔
انسان جس خود مختار بامقصد معروضی اخلاقی معیارکو دریافت کرتا ہے، اس سے خدا کی ناواقفیت کا الزام لگا کر مقدمہ 2 سے کنی کترائی جاسکتی ہے۔ تاہم ، یہ دلیل اتنی پرکشش نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی دلیل کی خاطر یہ دعویٰ کرتا بھی ہے کہ انسان اس آزاد معروضی اخلاقی معیار کو خدا کے ‘آگاہی’ ہونے سے پہلے ہی دریافت کرلیتا ہے ، تب بھی کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ انسانوں کے دریافت کرنے، اس کے بارے میں لاتعداد بار بات کرنے اور ایک دوسرے کو اس کے احکامات کے مطابق عمل کرنے کی ہدایت کے باوجود بھی خدا کیسے اس سے لاعلم رہ سکتا ہے؟( اس ردعمل کا اطلاق اس پر بھی ہوتا ہے جو یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ خیر و شر سے لا تعلق خدا اخلاقیات کے نظریہ سے ہی لاعلم ہے۔ ایک علام الغیوب اور حد سے زیادہ علم رکھنے والا خدا اخلاقیات کے تصور کو “سمجھنے” اور “سیکھنے کے قابل ہو جائے گا، جب وہ انسانوں کو اس کے بارے میں تفصیلی کلام کرتے ہوئے سن لے گا۔)
دلیل کا نتیجہ مظاہر پرست کے لئے مسائل کھڑا کر دیتا ہےیعنی وہ مسائل جو خدا کے برا ہونے کی تصدیق کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ، اس طرح کہ خدا کے کائناتی اختیار کے ہوتے ہوئے لوگوں کے اخلاقی انتخاب سے لا تعلقی، لوگوں کے غیر اخلاقی رویوں کو جائز بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ خدا کی اچھائی کی نفی کرنے والے کو تین ناپسندیدہ انتخابات کا سامنا کرنا پڑتا ہے:
پہلا وہ کسی معروضی اخلاقیات کے آزاد معیار پر یقین کیے بغیر تصدیق کریں کہ یا تو خدا برا ہے یا یہ کہ وہ خیر و شر سے بے تعلق ہے۔ تاہم اس تصدیق کی قیمت معروضی اخلاقی اقدار کے وجود کی نفی ہوگی ۔
دوئم ، مظاہر پرست اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ خدا برا ہے ، ساتھ معروضی اخلاقیات (objective morality)کے خود مختار منبع پر بھی یقین رکھیں۔( یہ ناممکن ہے۔ تاہم ، دلیل کی خاطر میں نے اس کے امکان کا ذکر کیا ہے۔) تاہم ، اس کے بعد مظاہر پرستوں کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ لوگوں کو اس آزاد اخلاقی بنیاد کے اختیار کے تابع کیوں ہونا چاہئے؟ وہ کیوں سچ بولیں ، دھوکہ نا دیں، ظلم نا کریں جب کہ خدا نے نہیں کہا ؟
سوئم ، مظاہر پرست اس بات کا اعتراف کرسکتے ہیں کہ خدا خیر و شر سے بے تعلق ہے، جبکہ ساتھ ہی ساتھ معروضی اخلاقیات کے آزاد ذرائع پر بھی یقین رکھیں۔ تاہم ، اس طرح مظاہر پرستوں کوخدا کی خیر و شر سے بے تعلقی کے فِطری تضاد کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور انہی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا جن کا سامنا ان مظاہر پرستوں کو کرنا پڑتا ہے جو کہتے ہیں کہ خدا برا ہے۔