1.1. معجزات کا ناممکن ہونا
معجزات کے تصور پر متعدد مذہبی سوالات ہیں ،جن پر مظاہر پرست اور خدا پرست گرمجوشی سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ معجزہ کیا ہے؟کیا خدا کے لیے معجزے کرنا ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو کیا یہ صفات ِ الہی کے کمال پر سمجھوتہ ہو گا؟ کیا ہم اس کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اس کی شناخت کر سکتے ہیں؟ معجزات کیوں اہم ہیں؟ یہ وہ تنقیدی سوالات ہیں جن پر میں ذیل میں بحث کرونگا۔
1.1.1. معجزہ کیا ہے؟
والٹیئر معجزہ کی تعریف ایسے کرتا ہے، “ریاضی ، خدائی، ناقابل تغیر ، آفاقی قوانین کی خلاف ورزی “۔ اسی طرح ، ڈیوڈ ہیوم ایک معجزہ کو “فطرت کے قوانین کی خلاف ورزی” کہتے ہیں۔ (citations taken from McGrew
معجزات کے تصور پر متعدد مذہبی سوالات ہیں ،جن پر مظاہر پرست اور خدا پرست گرمجوشی سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ معجزہ کیا ہے؟کیا خدا کے لیے معجزے کرنا ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو کیا یہ صفات ِ الہی کے کمال پر سمجھوتہ ہو گا؟ کیا ہم اس کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اس کی شناخت کر سکتے ہیں؟ معجزات کیوں اہم ہیں؟ یہ وہ تنقیدی سوالات ہیں جن پر میں ذیل میں بحث کرونگا۔
کیا معجزات کو فطرت (نیچر) کی خلاف ورزی کا نام دینا چاہئے؟
وہ اہم سوال جس پر یہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ: ’’ فطرت ‘‘ سے ہماری کیا مراد ہے؟ کیا فطرت کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں عام طور پر کیسے کام کرتی ہیں یا اس کا تعلق ان افعال سے ہے جو مکمل طور پر قدرتی قوانین کے مطابق ہوں اور جن میں ما فوق الفطرت دخل اندازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ رچرڈ پرٹل(Richard Purtill) اس سوال کو ایک دلچسپ تشبیہ کے ساتھ حل کرتے ہیں، جس کو شلسنگر (Schlesinger ) نے ایسے بیان کیا ہے:
“پرٹل کہتے ہیں کہ امریکہ میں انسانی رویوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے قوانین کا ایک بہت بڑا مجموعہ موجود ہے ، لیکن کبھی کبھار غیر معمولی طریقے کار بھی متعارف کروائے جاتے ہیں، جیسے صدارتی معافی۔ معجزے کا موازنہ صدارتی معافی سے کیا جاسکتا ہے ، اس لئے کہ اس معافی کا سرچشمہ عام قانونی طریق کار سے باہر ہے۔ یہ غیر متوقع چیز ہے اور عدالت میں کسی وکیل کی تدبیر ان کو بدلنے کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوسکتی ، کیونکہ اسے دستیاب ذرائع سے زیر بحث لایا ہی نہیں جاسکتا جو اسکو کورٹ کی کاروائی میں میسر ہوتے ہیں ۔ اسی طرح معجزات کی تخلیق بھی سائنسدان کی سرگرمیوں سے باہر کی چیز ہے ۔جس طرح ‘صدارتی معافی’ قانونی نظام کی خلاف ورزی نہیں کرتی : اسکو غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا ، بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ یہ قانونی نظام سے باہر کی چیز ہے ہے۔ اسی طرح کوئی معجزہ بھی فطرت کی خلاف ورزی نہیں کرتا بلکہ نظام فطرت سے باہر(سپر نیچرل) ہوتا ہے۔ (2010, p. 398)۔”
پرٹل کی دی گئی مثال بہت دلچسپ ہے، کیونکہ اس کا مقصد یہ اظہار کرنا ہے کہ معجزات فطری قوانین سے باہر کیسے کام کرسکتے ہیں، جبکہ وہ براہ راست ان کی خلاف ورزی بھی نہیں کرتے جب ان کا ظہور ہو رہا ہوتا ہے۔ جس طرح قانونی نظام استثنائی صدارتی معافی کی گنجائش نکالتا ہے، اسی طرح قدرت بھی معجزات کے لئے “جگہ بناتی” ہے۔ چنانچہ معجزات وہ غیر معمولی واقعات ہیں جو فطرت کے خلاف نہیں بلکہ ، فطرت میں واقع ہوتے ہیں۔
غور کرنے کے لئے ایک اور نظریہ سینٹ اگسٹین (Saint Augustine۔متوفی 430) نے پیش کیا تھا جو یہ سمجھتے ہیں کہ معجزات قدرت کے اندر ہی “چھپی ہوئی صلاحیتیں” ہیں، جو ہمارے لئے عام طور پر قابل مشاہدہ نہیں ہوتیں۔ فطرت میں ان کے مشاہدے کی نایابی اور نادر پن ہی ان کے وقوع کو “معجزاتی” بناتی ہے(Corner, 2019, para. 5)۔ لہذا ، آگسٹین کے نظریہ کے مطابق ، معجزات کسی بھی طور پر فطرت کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، کیونکہ وہ خود ہی فطرت کے تانے بانے کا حصہ ہیں۔
معجزات اور فطرت کے مابین تعلقات کے ان متبادل تصورات پر غور و فکر کرتے ہوئے ، یہ مظاہر پرستوں پر لازم ہے کہ وہ معجزات کو فطرت کی خلاف ورزی ثابت کریں۔ مزید پڑھنے کے لئے، دیکھیں Craig۔(2008, pp. 261-263)، جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ آج بھی قدرتی قانون کے تین غالب نظریات : 1) باضابطگی کا نظریہ۔regularity theory؛ 2) روایتی ضرورت کا نظریہ ۔ nomic necessity theory؛ اور)) سببی ترتیب کا نظریہ ۔ causal dispositions theory، کی بنیاد پر ہمیں معجزات کو قدرت کی خلاف ورزی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
خدا قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی کر سکتا ہے؟
اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ معجزات فطرت کی خلاف ورزی ہیں، اگر خدا قادر مطلق ہے، تو یقیناً وہ اپنے قائم کردہ فطری قوانین میں کمی پیشی کرنے یا معطل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ قدرتی قوانین ناقابل تغیر ہیں،۔ خدا کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تبدیل شدہ قوانین کو عملی شکل دے سکے۔ نہ ہی قدرتی عالمی نظام کی خلاف ورزی کرنا اس کی دانشمندی اور علم کی کامل صفات سے سمجھوتہ ٹھہرے گی ، کیونکہ خدا پہلے سے ہی جانتا اور چاہتا تھا کہ وہ انسانی تاریخ کے مخصوص اوقات میں کچھ ضرورتوں کے تحت اپنے نبیوں کو معجزے پیش کرنے کے قابل بنائے گا۔
اسپینوزا جو فطری قوانین کے غیر مُتغیر ہونے پر اصرار کرتا ہے’ کے جواب میں گریگ کہتے ہیں کہ فطری قوانین لازماً خدا کے علم اور اس کی مرضی سے جڑے ہوئے ہیں:
” اسپینوزا کے برعکس ، قدیم الہیات نے یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ خدا کا علم ضرورت سے متصف ہے۔ مثال کے طور پر ، خدا اس حقیقت کو جانتا ہے کہ “کائنات کا وجود ہے۔” لیکن خدا کائنات کو تخلیق کرنے کا پابند نہیں تھا۔ چونکہ تخلیق ایک خود مختارانہ فعل ہے ، لہذا وہ کسی بھی چیز کو تخلیق کرنے سے احتراز کرسکتا تھا۔ اگر خدا نے دنیا کو پیدا نہ کیا ہوتا تو پھر وہ اس کی بجائے اس حقیقت کو جانتا کہ “کوئی کائنات موجود نہیں ہے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ خدا جانتا ہے وہ لازماً سچ ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا کے علم کا مواد(Content) بھی وہی ہو۔ اگر اس نے کوئی الگ دنیا بنائی ہوتی یا کوئی بھی دنیا نہ بنائی ہوتی ، تو اس کے علم کا مواد مختلف ہوتا۔ لہذا ، جس طرح خدا اپنے فعل سے مختلف چاہنے میں آزاد ہے ، اسی طرح وہ اپنے فعل سے مختلف علم رکھنے کے بھی قابل ہے (2008, p. 264)۔”
خلاصہ یہ کہ ، یہ خیال کرنے کی کوئی مستند وجوہات نہیں ہیں کہ خدا قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا ، یا ایسا کرنے سے اس کی کمال صفات میں سے کسی ایک پر حرف آتا ہے۔