ابن القیم الجوزیہ (متوفی 1350) نے خدائی حکمت و دانائی کی وضاحت ایسے کی ہے کہ، “خدا کی اپنی تخلیق اور احکام کا مطلوبہ انجام اور مقصد جس کے لئے اس نے بنایا اور قانون سازی کی ہے” (2003, vol. 2, p. 451)۔ عبد الروف المناوی (متوفی 1621) حکمت کی تعریف ایسے کرتے ہیں کہ “علم اور عمل سے حقیقت کو متاثر کرنا۔ خدا کی طرف سے حکمت، چیزوں کو جاننا اور انہیں انتہائی مہارت کے ساتھ تَصَوَر پَذيری بخشنا ہے۔”(1990, p. 145)۔ اور ابن الوزیر (متوفی 1436) خدا کی حکمت کے بارے میں کہتے ہیں کہ “خدا کے پاس نا معلوم فوائد(نامعلوم فوائد” سے ابن الوزیر کا مطلب ہے کہ انسان اس سے ناواقف ہے ، کیونکہ ہمارے محدود معلومات کی وجہ سے ہم ہمیشہ نہیں جانتے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے)، اچھی قوت استدلال اور ترجیحی مفادات کے بارے میں ایک خاص قسم کا علم ہے۔یہ خدا کے افعال میں ممکنات سے(بدل کر) حقیقت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے (1987, p. 181)”۔ خلاصہ یہ ہے کہ خدا کی حکمت کو اس کے علم کے اس پہلو کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے جو کسی بھی چیز کو بنانے کے مقاصد اور اہداف متعین کرتا ہے۔ ابن قیم کہتے ہیں کہ خدا کی دانائی کو عقلی اور فطری انداز سے سمجھا جاسکتا ہے (1994, vol. 2, p. 113) .۔ ابن تیمیہ نشاندہی کرتے ہیں کہ “مسلمانوں اور غیر مسلموں” کی اکثریت یکساں طور پر مانتی ہے کہ خدا کی حکمت بتاتی ہے کہ اس کے احکام اور ہدایات بامقصد ہیں (1989, p. 921; 2000, p. 199)۔ برطانوی فلسفی اور عالم دین ولیم پیلے (William Paley۔متوفی 1805) کا کہنا ہے کہ خدا کی دانائی اور حکمت اس کی تخلیق میں پیچیدہ ترتیب کے مشاہدہ کے ذریعے قابِل اِستنباط ہے: “حکمت، اگر موجود ہو ، تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہر اس چیز کو ثابت کر دے جسے ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری چیزوں کے علاوہ یہ خدا کی ہستی کو بھی ثابت کرتی ہے … یہ صلاحیتیں شخصیت کی شکل ترتیب دیتی ہیں ، کیونکہ وہ شعور اور فکر کی دلالت کرتی ہیں۔ ان کا تقاضا ہے کہ انجام یا مقصد کو سمجھا جائے، نیز ذرائع فراہم کرنے اور ان کو اپنے انجام تک پہنچانے کی طاقت میسر ہو ۔ انھیں ایک ایسے مرکز کی ضرورت ہوتی ہے جس میں خیالات متحد ہوجائیں ، اور جہاں سے قوت ارادی کی وضاحت ہو، جو کہ ذہن ہے۔ ذہنی افعال ذہن کے وجود کو ثابت کرتے ہیں: اور جس میں دماغ رہتا ہے وہ ایک فرد ہے۔ عقل کی نشست گاہ ایک شخص ہے … جہاں کہیں بھی ہم حکمت کے نشانات دیکھتے ہیں ، وہ ہمیں اس کے سبب، یعنی ایک ذہین مصنف کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور تفہیم کی اس منتقلی کی بنیاد نہ بدلنے والے تجربے کے اوپر قائم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ذہانت مستقل طور پر اختراعی ہے ، یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ ذہانت مستقل طور پر اثرات مرتب کرتی ہے ، کچھ خصوصیات نشان زدہ اور ممتاز ہیں، کچھ خاص موثر خصوصیات نہیں ہیں ، بلکہ ایک اور قسم کی خصوصیات کے طبقات موجود ہیں، جیسے کسی انجام سے تعلق ، حصوں کا ایک دوسرے سے اور مشترکہ مقصد سے رشتہ۔ (2006, pp. 213-215)۔” لہذا، ایک ذہین وجود کی موجودگی جو اس قدر صاحب علم ، طاقت ور ، اور دانا ہے کہ طبیعیاتی کائنات کو اسکی تمام پیچیدگیوں کے ساتھ تخلیق کر سکے اور برقرار رکھ سکے،کا لازمی کم از کم منطقی تقاضا ہے کہ اس تخلیق کار کی طاقت ، علم ، اور حکمت حد سے زیادہ عظیم ہو ۔ میرا یہ ارادہ نہیں ہے کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کائنات کے ڈیزائن آرگومنٹ سے خدا کی موجودگی کو ثابت کیا جائے، بلکہ صر ف خدا کی حکمت کو ان لوگوں کے سامنے واضح کرنے کے لئے استعمال کیا ہے جو اللہ کے وجود کو مانتے ہیں مگر اس کی صفات کے ممکنہ منکر ہیں۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ خدا کی تخلیق میں درستگی اور مہارت صرف خدا کی حکمت کی ہی نظیرنہیں پیش کرتی بلکہ اس بات کو لازمی قرار دیتا ہے کہ اس کے ہر تخلیقی عمل کے پیچھے ایک مقصد ہے (1989, p. 924)۔ دوسرے لفظوں میں ، یہ ناکافی ہے کہ اس کے ہر فعل کے پیچھے ایک مقصد کا اعتراف کے بغیر پرزور دعوی کر دیا جائے کہ خدا دانا ہے، خاص طور پر کائنات کی تخلیق جتنے اہم فعل کے بارے میں۔ ابن تیمیہ کی “درستگی” اور “مہارت” کے بارے میں تفہیم کچھ یوں ہے کہ: “مطلوبہ مقصد کو عملی شکل دینے کے لئے ہر چیز کو اس کی مناسب جگہ پر مختص کرنا” (Ibid., p. 921)۔ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ خدا کے خود مختار ارادہ اور حکمت کے مالک ہونے کی تصدیق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو بھی قبول کیا جائے کہ کوئی لازمی مقصد ہو گا کہ خدا کیوں ایک خاص فعل الف کرنے کا فیصلہ کرتا ہے (مثلا کائنات کی تخلیق)۔(Ibid., pp. 925-926)۔ اگر ایک عقلمند شخص جو آزادانہ طور پر کسی مقصد کے تحت الف کو تخلیق کرتا ہے، تو پھر کامل یا حد سے زیادہ عقلمند خدا کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ لہذا ، خدا کی یہ پچیدہ ، حسین تخلیق پھر زمین پر انسانوں کو اتارنا کسی مقصد کے لئے ہی ہو گا۔ خدا کی ذہانت کی توثیق کرنے کے لئے پیلے (Paley)ایک منطقی دلیل دیتے ہیں کہ:”اس ہستی کی صفات اس کے افعال کی وسعت ، پہنچ اور کثرت کے مطابق کافی ہونی چاہئے ہیں: جو نہ صرف کسی اور طاقت کے افعال کے مقابلہ میں نا قابل موازنہ ہوں ، بلکہ ہمارے تصور سے بھی ذیادہ ، کیونکہ وہ ہر طرف سے لامحدود ہیں” (2006, p. 230)۔ سموئیل کلارک (Samuel Clarke۔ وفات 1729) پوری دلیل کے ساتھ یہ استدلال کرتے ہیں کہ اگر کوئی خدا کی قادر مطلقیت اور علم کل کی توثیق کرتا ہے تو پھر وہ شخص خود بخود اسکی حکمت کو ایک کامل وصف کی حیثیت سے تصدیق کرتا ہے (1998, pp. 79-80)۔ اس طرح ، خدا کی حکمت کی وسعت کو گھٹانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ساتھ ہی ساتھ اس کی طاقت یا علم کے ساتھ بھی یہی کر رہے ہیں۔ اس حیرت انگیز کمال درستگی کا مشاہدہ کرکے، جس کی نظیر تخلیقی ترتیب میں ملتی ہے ہم خدا کی حکمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گو کہ یہ اندازہ محدود ہو گا مگر یہ اندازہ بھی کم از کم بے حد و حساب غیر معمولی طور پر اعلٰی وارفع ہو گا۔ خدائی حکمت کے قدرتی نتائج کو واضح کرکے اور یہ ظاہر کرنے کے بعد کہ عقلی طور پر یہ نتیجہ کیسے نکالا جاسکتا ہے کہ خدا کامل اور بے حد و حساب حکمت والا ہے’ اب میں اپنی دلیل اس طرح مرتب کرتا ہوں: مقدمہ 1: لازم ہے کہ حکمت معنی خیز مقاصد پر مبنی ہو۔ مقدمہ 2: خدا کامل اور بے حد حکمت والا ہے۔ مقدمہ 3: مظاہر پرستی دنیا میں خدا کی مداخلت کی تصدیق نہیں کرتی۔ مقدمہ 4: خدا کی حکمت دنیا میں اس کی عدم مداخلت سے متصادم ہے۔ نتیجہ: مظاہر پرستی غیر منطقی ہے۔ پہلا مقدمہ واضح ہے ، کیوں کہ ہم دانا اور حکمت والا اسے کہتے ہیں جو دانائی سے کام لیتا ہے ، اور دانشمندانہ اعمال وہ ہیں جو پہلے سے طے شدہ مقاصد کی تکمیل کے لیے کیے جاتے ہیں۔ جہاں تک دوسرے مقدمہ کی بات ہے ، تو میں نے پہلے لکھا تھا کہ خدا کی دانائی کو عقلی طور پر کیسے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ مزید برآں ، بہت سارے مظاہر پرست کائنات کی ترتیب کی دلیل)ڈیزائن آرگومنٹ ) کو والہانہ قبول کرتے ہیں اور اس طرح اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خدا کم از کم حد سے زیادہ حکمت والا ہے۔ خدا کتنا زیادہ دانا ہے، پر یقین کرنے کی وجہ سے مظاہر پرستوں کو خدا کے ساتھ کسی بے معنی ، بے مقصد (تخلیق)اور درحقیقت غیر محتاط افعال منسوب کرنے سے جھجھکنا چاہیے۔ تاہم ، کچھ جدید مظاہر پرست خدا کے وجود پر یقین کائناتی ترتیب کی دلیل کے بجائے دوسری وجوہات کی بنیاد پر سکتے ہیں ۔ اس مضمون کا موضوع دلیل افادیت (argument from design) پر تفصیلی بحث کی اجازت نہیں دیتا ، تاہم بالفرض مظاہر پرستوں کی طرف سے اگر خدا کی حکمت کو گھٹانے کی کوشش کی جائے اور اسے ایک ایسے درجے تک لے جائیں کہ جہاں یہ حکمت دنیا میں خدا کی دنیا عدم مداخلت (مظاہر پرست نظریہ) سے متصادم بھی نہ ہو، کے جواب میں مظاہر پرستوں سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خدا کی صفات قدرت ، علم اور حکمت کے مابین تعلق پر غور کریں۔ کیا خدا جو کہ بے حد طاقت ور اور حد سے زیادہ علم رکھنے والا ہے، غیر دانشمند ہوسکتا ہے؟ یقینا اگر اس بارے میں خدا علم رکھتا ہے کہ دانا حکمت عملی کی تشکیل کیا ہے ، تو کیا پھر اس طرح ارادتاً بے احتیاطی اور بلاوجہ کے کام کرنا خدا کو غیر دانشمند قرار نہیں دے گا ۔ ؟ دوسری طرف اگر کہا جائے کہ خدا ناچاہتے ہوئے بھی محض اپنی جہالت کی وجہ سے دانائی کے کام نہیں کرپایا تو یہ تو خدا کے علم کی عظمت کو نقصان پہچانا ہے۔ پھر ایک نادان اور/یا بے خبر خدا کیسے بے حد و طاقت ور ہوسکتا ہے؟ حقیقی طاقت کے لئے ایک درست تفہیم درکار ہوتی ہے کہ کیسے منظم رغبت اور مؤثر طریقے سے افعال سرزد کیے جا ئیں، اس کے لئے ذہانت درکار ہوتی ہے۔ ذہانت کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے علم اور صلاحیت کو موثر طریقے سے لاگو کرسکے۔ ہم غیر دانشمند افراد سے ذہانت و عقل سے چلنے کی توقع نہیں کرتے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مظاہر پرست خدا کی طاقت اور علم کو نقصان پہنچائے بغیر اس کی حکمت سے انکار نہیں کر سکتے۔ لہذا خدا کی حکمت کو مجروح کرنا مذہبی اثرات رکھتا ہے ,جن سے مظاہر پرست صریحاً بچنا چاہیں گے۔ شاید اسی وجہ سے مجھے ابھی تک کوئی ایسا مظاہر پرست نہیں ملا جو خدا کی حکمت کو واضح طور پر گھٹاتا ہو۔ مقدمہ 3 کے بارے میں ، میں نے ڈی ازم کی تعریف میں یہ واضح کیا تھا کہ ڈی ایسٹ کی مرکزی دلیل یہی ہے کہ خدا اپنی تخلیق کردہ دنیا سے بے پرواہ اور غیرمتعلق ہے۔ مقدمہ 4 میری دلیل کا بُنیادی نُکتہ ہے اور اس کا سب سے زیادہ امکان ہے کہ مظاہر پرستوں کی طرف سے اس دعوی کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے ، کیونکہ یہ ان کے مذہبی موقف کی اہم ترین بنیاد کی جڑ کاٹتا ہے۔ میں یہ دلیل پیش کرتا ہوں کہ خدا کی حکمت و دانائی دنیا میں اس کی عدم مداخلت سے متصادم ہے۔ خدا ایک آزاد محرک کی حیثیت سے کس وجہ سے کائنات کو وجود میں لایا؟ اگر بغیر کسی وجہ کے ہے ، تو یہ فعل بے مقصد اور بے معنی ہے لہذا غیر دانشمندانہ ہے۔ یہاں تک کہ اگر مظاہر پرست یہ بیان کرسکتے ہیں کہ خدا نے بلا وجہ کائنات کیوں تخلیق کی ، یہ بتانا ان کے لئے بہت مشکل ہو گا کہ پھر خدا کیوں مستقل طور پر اس کی پرواہ کیے بغیر اسے وجود میں رہنے کی اجازت دے رہا ہے۔ خدا کائنات کے مستقل وجود کی اجازت دے کر کون سے نتائج اور مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یقینا خدا، جس کے پاس کامل یا بے حد و حساب اور وسیع علم ہے، کائنات کے امور سے واقف بھی ہے اور یقیناً اس نے اس کائنات کو فراموش نہیں کیا ہے۔ پھر ، خدا کی اس حکمت میں کیا راز ہے کہ وہ “تخلیق کو مسلسل نظر انداز” کر رہا ہے؟ کچھ لوگ میرے نقطہ نظر کو حد سے زیادہ تجسیمی تشبیہ دینے کا الزام لگاسکتے ہیں اور الزام لگا سکتے ہیں کہ خدا کو ہمارے ’’ حکمت کے محدود تصورات ‘‘ سے مشروط کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ لوگ تن دہی سے کام کرتے ہیں تاکہ ان کو بدلے میں کچھ مل سکے ، جبکہ خدا کو کسی شے کے حاصل کرنے کی یا کسی فعل میں کھپنے کی ضرورت نہیں ہے حتی کہ کائنات کی تخلیق جیسے انتہائی حیرت انگیز عمل میں بھی۔ تاہم ، میری دلیل اس طرح کی تجسیمی تشبیہی مفروضے نہیں قائم کرتی۔ میری دلیل یہ نہیں ہے کہ خدا اپنے افعال کے بدلے میں کسی چیز کی احتیاج رکھتا ہے ، بلکہ میری دلیل یہ ہے کہ خدا ایک کامل یا حد سے زیادہ دانا آزاد ہستی کی حیثیت سے ایسے افعال انجام دیتا ہے، جن کا بنیادی مقصد ہونا ضروری ہے (جیسے انسان کے صبر کا امتحان لینا یا اپنی قُوَّت اور شان کبریائی کا اظہار کرنا)۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ایک زبردست دانا خدا، جو اپنی حکمت کی خدائی صفت کے ساتھ ایک پیچیدہ کمال درستگی اور ترتیب کے ساتھ کائنات کو تخلیق کرتا ہے جس کا کوئی مقصد نہیں ہے، یہ بے مقصدیت اس خدا کی حکمت کی الہی صفت کے ساتھ متصادم ہے ۔(( گییوٹ (Geivett) کہتے ہیں کہ کائنات کی ترتیب و درستگی سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کو انسانوں کی فلاح و بہبود سے بہت دلچسپی ہے ” (2005, p. 323)) یقینا ، مظاہر پرست اس ہستی میں عقل کی کمی کو پہچان سکتے ہیں جو یا تو بے مقصد کام کرتا ہے یا ایسے افعال انجام دیتا ہے جن کے نتائج میں وہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ لہذا ، یہاں تک کہ ان کے دلپسند علمی طریقہ (یعنی خدا کی قدرت کا استدلال کرنے کے لئے عقل کے گہرے استعمال) کے مطابق بھی ، مظاہر پرستوں کو خدا کی حکمت تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پروردگاری کے انکار کی پریشان کُن صورتحال کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ ایک اور ممکنہ اعتراض یہ دعویٰ ہے کہ خدا نے شاید کائنات کو ایک بامقصد مقصد کے لئے پیدا کیا ، مگر وہ ساتھ ہی ساتھ اس سے لاتَعلُّقی کا انتخاب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ، ایک مظاہر پرست یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا نے اپنی عظمت اور اخلاقی احکام پر غور کرنے کے مقصد کے تحت آزاد محرکات پر مبنی کائنات بنائی ہے ، مگر خدا اسکے معاملات میں خود کو شامل نہیں کرتا ۔ تاہم ، یہ امکانی ردعمل میرے اعتراض کا مناسب جواب نہیں دے سکتا کہ خدا کی حکمت اس کی دنیاوی عدم مداخلت سے متصادم ہے.( اس ردعمل پر بھی اخلاقی بنیادوں پر تنقید کی جاسکتی ہے ، جیسا کہ میں بعد میں کروں گا۔) خدا کے تخلیقی فعل کے لئے کسی بھی ممکنہ مقصد کو محض فرض کر لینا کافی نہیں ہے۔ اگر ایسی بات ہوسکتی ہے تو پھر کوئی بھی وجہ پیش کی جاسکتی ہے ، جیسے خدا نے کائنات اکتاہٹ دور کرنے کے لئے اپنی تفریح کے لئے پیدا کی ۔( ۔( اس طرح کے خدا کو بدنام کرنے والے مفروضے کی ایک مثال فطری مذہب سے متعلق ہیوم کے ڈائیلاگ میں مل سکتی ہے، جہاں کردار فیلو کلینتھیس کو بتاتا ہے کہ کائنات کسی نوزائیدہ دیوتا، جس نے بعد میں اپنی ناقص کارکردگی پر شرمندہ ہو کر اس سے لاتعلقی اختیار کر لی کی ضمنی پیداوار ہو سکتی ہے۔”(Hume, 2007, p. 45)) نعوذ باللہ من ذلک۔”(Hume, 2007, p. 45)) نعوذ باللہ من ذلک۔ بلکہ، یہ ضروری ہے کہ بنیادی مقصد خدا کے کامل یا حد سے زیادہ حکیم ہونے کی حیثیت سے متصادم نہ ہو۔ مزید یہ کہ اگر خدا نے انسان کو مقصد الف کے لئے پیدا کیا ، تو اس سے توقع ہونی ہے کہ وہ اس سے اپنا سروکار رکھے گا اور اس مقصد کی تکمیل میں دلچسپی بھی لے گا۔ خدا اپنی عظمت اور اخلاقی احکام پر غور کرنے کے لئے انسانوں کو کیوں پیدا کرے گا اگر وہ اس کے نتیجے میں دلچسپی نہیں رکھتا ؟ اگر کوئی انسان ذمہ داری سے غور و فکر نہیں کرتا اور اخلاقی بدکاریوں میں ملوث ہو کر خدا کے امتحان میں ناکام ہوجاتا ہے، تو کیا خدا کو اتنی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ وہ مداخلت کر کے یا کم از کم ایسے لوگوں پر جلد یا بدیر اپنی ناراضگی ہی ظاہر کرے۔ ؟ خدا کا کسی خاص مقصد کے لئے تخلیقی عمل کرنا لیکن اس مقصد کی تکمیل میں عدم دلچسپی دکھانا خدا میں کمی کا ثبوت ہے۔ اس کے جواب میں ، مظاہر پرست اس بات پر زور دے سکتا ہے کہ “عدم مداخلت” اور “لاتَعلُّقی ” مترادف نہیں ہیں اور یہ استدلال کرسکتا ہے کہ ایسے کسی متعلقہ خدا کا تصور ممکن ہے جو دور دراز سے انسان کا مشاہدہ کر رہا ہے کہ وہ کس طرح نیک زندگی گزارتا ہے ،لیکن مداخلت بالکل نہیں کرتا۔ بہر حال ، یہ نظر ثانی شدہ دعوی مظاہر پرستی کے موقف میں ایک بنیادی وقتی تبدیلی ہوگی۔ کیونکہ جس چیز پر خدا کی عدم مداخلت کے مفروضے بنیاد رکھی گئی ہے وہ حقیقت میں اس کائنات سے خدا کی لاتعلقی اور بے اعتنائی ہی ہے جسے اس نے تخلیق کیا ۔ یہ دعویٰ کرنا کہ خدا درحقیقت دنیا کے معاملات سے دلچسپی رکھتا ہے لیکن یقینی طور پر یا غالبا اس میں مداخلت نہ کرنے کا انتخاب کرتا ہے، ایک بڑا دعوی ہے اور اس کی حمایت کے لئے ثبوت کی ضرورت ہے۔ کس بنیاد پر مظاہر پرست اس بات کا یقین کر سکتا ہے کہ خدا اس دنیا کے معاملات سے تعلق رکھنے کے باوجودد دنیا میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا ؟ میری دلیل سے بچنے کا ایک ممکنہ راستہ موجود ہے: مظاہر پرست یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ خدا ایک ” بے حد دانا باشعور ” ہے یا ایک برا اور بدذوق ہے جو اپنی با شعور تخلیق کو چھوڑ دینے میں لذت لیتا ہے۔ اس طریقے سے مظاہر پرست خدا کی کائنات سے لاتعلقی اور اس کی کی کامل یا بے حد و حساب حکمت کو ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔ تاہم ، یہ دلیل ایک بھاری مذہبی قیمت پر آتی ہے، یعنی خدا کی جُودو سخا، فضیلت اور اچھائی پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ میری اگلی دلیل مظاہر پرستی کے اس راستے کو روکتی ہے۔ 2) ۔ 3) ۔