Deism / مظاہر پرستی
ہم سترہویں صدی کے اواخر میں ، مظاہر پرستی کی ابتداء کا سراغ لگاسکتے ہیں۔ کچھ مظاہر پرست اس کے مقابلے میں کہتے ہیں کہ حقیقت میں مظاہر پرستی دنیا کا سب سے قدیم مذہب ہے (cf. Voltaire, 1972, p. 386)۔ اس کا اتنا قدیم ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے کہ یہاں تک کہ جو پہلا آدمی بھی وجود میں تھا، اس کو بھی کہا جاتا ہے کہ وہ “مظاہر پرست پیدا کیا گیا” تھا (Paine, 1892, p. 68)۔ اگرچہ خدا کا مظاہر پرستانہ تصور پلاٹو اور ارسطو کے خدائی تصورات سے قریب قریب مشابہت رکھتا ہے، بہ نسبت خدا پرستوں کے (Davis, 1983, p. 148) ، اور قرون وسطی کے اسلامی علما نے مظاہر پرستوں کے عام نظریات کا رد کیا تھا (Zouggar, 2012) ، لیکن مظاہر پرستی کی اصل منظم ترقی و ترویج سترہویں صدی کے آخر میں برطانیہ میں ہوئی:
اولاً، اس کا ظہور انگریزی روشن خیالی کا ایک اہم واقعہ تھا (Beiser, 1996, p. 220) Westphal نے مظاہر پرستی کو “روشن خیالی کا مذہب” قرار دیا تھا (2010, p.134)۔
دوئم، انگریزی چرچ کی سختی ، بدعنوانی ، اور عدم رواداری کے ساتھ ساتھ ، نوجوان افراد کے غیر ملکی اسفار اور مختلف مذاہب (غیر عیسائی افراد) کے ساتھ باہم میل جول مظاہر پرستی کی نشوونما کا سبب بنا (Wigelsworth, 2009, p. 27)۔ وقت گزرنے کے ساتھ ، مظاہر پرست اپنی وکالت میں شدید کرخت ہوگئے اور اٹھارہویں صدی کے آخر تک کافی مشہور ہوگئے، خاص طور پر پڑھے لکھے طبقے میں ان کے بہت سارے ہمدرد پیدا ہو گئے۔ یہ خاص طور پر عیسائیت کے ایک مضبوط حریف کی حیثیت سے سامنے آئے ، اور عمومی طور پر مذہب کے متبادل کے طور پر وسیع پیمانے پر توجہ حاصل کی (Morais, 1932, pp. 436 & 452-453; Gorham, 2013, p. 126; Herrick, 2014, p. 2)۔
تو مظاہر پرستی ہے کیا؟ یہ زندگی کے مقصد ، حیات بعد الموت اور خدائی انصاف کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے؟ خدا کی صفات کیا ہیں؟ خدا اپنی تخلیق سے کیا توقع رکھتا ہے ، کیا وہ ان سے توقعات رکھتا ہے؟ کیا خدا کی طرف سے وحی پر یقین رکھنا قابل قدر ہے؟ کیا معجزات ممکن العمل ہیں؟ میں اب ان معاملات پر مظاہر پرستوں کے تصورات کا احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ ان کے سب سے اہم مشترک نظریات کو نمایاں کیا جا سکے اور ایک کم سے کم تعریف پر پہنچوں جو میری تنقید وتبصرہ کی بنیاد بن سکے۔
1۔خدا کی قدرت (کائنات میں خدا کی فعالیت) پر مظاہر پرستی کا موقف:
بہت سارے مظاہر پرستوں کا ماننا ہے کہ خدا نے “دنیا کی تخلیق کے وقت اسے خود کو برقرار رکھنے اور خود سے کام کرنے والی طاقتوں سے مالا مال کیا اور پھر اس کو ثانوی اسباب کے تحت ان قوتوں کے حوالے کردیا ” (Orr, 1934, p. 13)۔ خدا کی سببیت کائنات کی تشکیل تک محدود ہے، جس کے تحت وہ فطرت کے قوانین کو قائم کرتا ہے اور کائنات کو گھڑیوں کی طرح خود بخود چلنے کی اجازت دیتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسے “سب سے عظیم گھڑی ساز” کا خطاب ملا (Miller, 1996, p. 128; Gould, 2005, p. 463 )۔
مزید یہ کہ ، خدا اپنی تخلیق کے ”دنیاوی” معاملات سے اس طرح الگ ہے کہ اسے کائنات میں مداخلت کرنے کی کبھی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لہذا اس طرح اس کو ایک ایسے خدا کی حیثیت سے پیش کیا جائے جو “کہیں دور دراز ہے اور مذہبی لحاظ سے دستیاب نہیں ہے” ، اور جو کہ صرف “سوچا جا سکے لیکن محسوس نہ کیا جا سکے” (Viney, 2010, pp. 100-102)۔
باروچ اسپینوزا (Baruch Spinoza۔متوفی 1677) نے زور دے کر کہا کہ خدا کا فطرت کے قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ (یعنی معجزے کرنا یا آسمانی وحی بھیجنا) اس کے عدم کمال کو ظاہر کرے گا: “لہذا اگر فطرت میں اس کے قدرتی قوانین کے برخلاف کچھ بھی ہوا تو یہ لازمی طور پر خدا کی قدرت ، عقل اور حکم کے منافی بھی ہوگا۔ “(2002, p. 445) ۔
لیکن ، مظاہر پرستوں کا ہمیشہ سے خدا کی قدرت کا یہ تصور نہیں رہا، خاص طور پر مظاہر پرستوں کے ابتدائی ارتقاء کے دوران (cf. Attfield, 2004, p. 430; Pailin & Manuel, 2015, para. 3)۔ موسنر نے تاریخی مظاہر پرستوں (جن کے بارے میں Mossner کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر سترہویں اور اٹھارویں صدی میں موجود تھے۔)اور فلسفیانہ مظاہر پرستوں کے درمیان فرق کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ مظاہر پرست خدا کی پروردگاری کو قبول کرتے ہیں(2006, p. 681)۔ وین رائٹ کی تحقیق ہے کہ اٹھارہویں صدی کے آخری حصے سے پہلے ، مظاہر پرستوں نے ایک “غیر حاضر” خدا کے نظریے کو نہیں اپنایا تھا، جس نے دنیا کو پیدا کیا اور پھر اس سے لاتعلق ہو گیا(2013, p. 54)۔
خلاصہ یہ کہ مظاہر پرستی کی ترقی کی پہلی صدی میں، مظاہر پرست خدا کی قدرت کی توثیق کرتے تھے، پھر خدا کا کہیں دور اور غیر فعال ہونے کا نظریہ طاقت پاتا گیا، حتی کہ مظاہر پرستوں میں یہ نظریہ غالب نظریہ بن گیا۔
2۔وحی پر مبنی/آسمانی مذاہب کے متعلق مظاہر پرستی کا موقف:
خدا کی قدرت رزاقی سے انکار کرنے کے نتیجے میں ، زیادہ تر مظاہر پرست وحی پر مبنی مذہب کے ان تصورات کو رد کرتے ہیں، جو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خدا وحی کے ذریعہ اپنی مخلوق سے کلام کرتا ہے۔ مظاہر پرست وحی پر مبنی مذاہب کی ہر بات کی مذمت نہیں کرتے ، بلکہ وہ صرف ان عناصر سے انحراف کرتے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ انسانوں کی تکالیف کا باعث بنے ہیں۔ تھامس پین (Thomas Paine۔ متوفی 1809) دنیا کے بدترین سانحات میں سے کچھ کو مذہب سے جوڑتا ہے:”سب سے گھناؤنی شرارت ، انتہائی ہولناک مظالم اور سب سے بڑی مصیبتیں، جو انسانیت پر آئی ہیں ، ان کا ماخذ اور سرچشمہ وحی ، یا مذہب کے انکشاف نامی چیز سے ہوئی ہے۔ یہ الہیت کے خلاف سب سے زیادہ قابلِ شرم عقیدہ رہا ہے جس کی اشاعت کی گئی ہو ، اخلاقیات، انسانی سکون اور خوشی کے لئے سب سے زیادہ تباہ کن ، جب سے انسان کا وجود شروع ہوا (1892, p. 176)۔”(Penelhum, 2005, p. 22) ۔ مظاہر پرست ایک ایسے مذہب کی بات کرتے ہیں جو انسانی معاشروں کے مابین اتحاد کو فروغ دیتا ہو اور ان کا یقین ہے کہ اس مذہب کی بنیاد “آفاقی عقل” کی بنیاد پر ہونی چاہئے نہ کہ چرچ جیسے ارباب اختیار کے پاس(Westphal, 2010, p. 134)۔
مظاہر پرست مذہب کے ان پہلوؤں سے بھی انکار کرتے ہیں، جنھیں وہ عقلی پیمانہ کے مطابق “توہم پرست” ، “مافوق الفطرت ،” اور “بے بنیاد” سمجھتے ہیں (Gould, 2005, p. 463; Love, 2008, p. 182; Westphal, 2010, p. 134)۔ تھامس مورگن (Thomas Morgan۔وفات: 1743) ، ایک انگریز مظاہر پرست مفکر ، کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے بھیجی گئی ہر وحی انسانی عقل کے لئے قابلِ فہم ہونی ضروری ہے (cited in Lucci & Wigelsworth, 2015, p. 180)۔ اسی وجہ سے ، مظاہر پرست، تثلیث اور مسیح کی الوہیت جیسے ’’ مضحکہ خیز ‘‘ عقائد کو مسترد کرتے ہیں (Dupré, 1999, p. 2; Wainwright, 2013, p. 54; Bristow, 2017, para. 57)۔
اس کے برعکس ، کچھ مظاہر پرست وحی کو ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ان کے کچھ پسندیدہ عقائد کو جواز بخشا جا سکے۔ مثال کے طور پر ، ان کا کہنا ہے کہ آخرت کی زندگی یا مذہب کی دی ہوئی اخلاقیات ، خدا کے اخلاقی حکم پر یقین رکھنے کے لئے خدائی وحی کی ضرورت ہوتی ہے۔، جبکہ اس کے برعکس ، دوسرے مظاہر پرستوں کا اصرار ہے کہ اس طرح کے عقائد کو صرف اور صرف عقل سے ہی سمجھا جاسکتا ہے(cf. Morais, 1932, p. 435; Penelhum, 2005, p. 22; Wainwright, 2013, p. 54; Lucci & Wigelsworth, 2015, p. 171)۔ انگلینڈ میں بہت سے ابتدائی مظاہر پرست اپنے آپ کو مظاہر پرست کہلانے کے باوجود ، عیسائیت کو خدا کی طرف سے فقید المثال الہی وحی تسلیم کرنے کی طرف مائل تھے اور دنیا میں الہی معجزاتی مداخلت پر یقین رکھتے تھے۔ see Lucci & Wigelsworth (2015, p. 168) and Pailin & Manuel (2015, para. 8)۔
وحی کے غیر اہم ہونے پر زور دیتے ہوئے ، وولٹئیر (Voltaire۔وفات 1778) نے کہا کہ “فطرت کی عظیم کتاب وہ واحد انجیل ہے جسے پڑھنا چاہیے ، خدا کے ہاتھ سے لکھی گئی اور اس کی مہر سے مہر لگی ہوئی” (cited in Love, 2008, p. 64)۔ اور پاین(Paine) ، نے بھی الہٰی وحی کو مسترد کیا ، اس بات پر زور دیتا ہے کہ صرف اور صرف مظاہر پرستی میں ہی عقلی اور اعتقادی کامل ہم آہنگی پائی جاتی ہے:”جب صحیح طور پر سمجھ لیا جائے تو مظاہر پرستی میں خوشی ہے ، یہ کسی اور مذہبی نظام میں نہیں پائی جاتی۔ دوسرے تمام نظاموں میں ایسی کچھ چیزیں موجود ہیں جو یا تو ہماری عقل کو صدمہ پہنچاتی ہیں ، یا اس کی مخالف ہوتی ہیں ، اور انسان ، اگر وہ ذرا سا بھی سوچتا ہے تو اس کو اپنی عقل کو گھونٹ کر مارنا پڑتا ہے تاکہ ان نظاموں پر یقین لا سکے۔ لیکن مظاہر پرستی میں ہماری عقل اور ہمارا عقیدہ خوشی سے متحد ہوجاتے ہیں۔ کائنات کا حیرت انگیز ڈھانچہ ،اور ہر وہ چیز جو ہم تخلیق کے نظام میں دیکھتے ہیں ، کتابوں سے کہیں زیادہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک خدا کا وجود ہے ، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کی صفات کا اعلان بھی کرتی ہیں (1892, p. 398 ).”
خلاصہ یہ کہ ، الہٰی وحی کے متعلق مظاہر پرستوں کا غالب نظریہ یہ ہے کہ مذہبی عقائد صرف اور صرف عقل کے ذریعہ حاصل کیے جاسکتے ہیں ، لہذا اس کی ضرورت نہیں ہے کہ خدا ہم سے وحی کے ذریعہ کلام کرے اور جو مذہبی عقائد عقل کے ذریعہ حاصل نہیں کیے جاسکتے ہیں، انہیں مسترد کر دینا چاہئے۔ الہی مذہب کے بارے میں ایک مظاہر پرست جو مؤقف اختیار کرتا ہے، وہ خدا کی قدرت سے متعلق اس کے نقطہ نظر سے براہ راست مطابقت رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، ایک مظاہر پرست جو دنیا میں خدا کی دخل اندازی کی نفی کرتا ہے وہ خود بخود خدائی وحی کی بھی نفی کرتا ہے۔
3۔خدا کے اخلاقی کردار پر مظاہر پرستی کا موقف:
بہت سارے مظاہر پرستوں کا ماننا ہے کہ خدا نے انسانی معاملات میں اپنی عدم مداخلت کے باوجود ایک اخلاقی نقطہ نظر دیا ہے اور انسانوں کو عقل بھی دے دی، تاکہ وہ اس کے اخلاقی احکام کو دریافت کرسکیں۔ مظاہر پرست کسی بھی ما بعد اخلاقی تصور کے لئے یہ ضروری قرار دیتے ہے کہ وہ انسان اور خدا اور خدا کی تخلیق کے بارے میں خدا کے ارادے کے درمیان تعلقات کو سامنے رکھے۔ ان کا ماننا ہے کہ انسانی فطرت کے مشاہدے کے ذریعہ ، انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ برائی کی روک تھام اور ذاتی خوشی کا حصول دونوں ہی فطرت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں جو خدا نے انسان کے لئے تخلیق کی(Lucci & Wigelsworth, 2015, p. 173)۔ ان کا خیال ہے کہ انفرادی ذاتی خوشی، دوسروں کی عمومی خوشی کے ساتھ مطابقت کی پابند کی جانی چاہیے۔
ایسے مظاہر پرستوں کے لئے ، اخلاقیات انسان کے اولین مقصد یعنی اس کی خوشی کے ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ انسان اچھا پیدا ہوتا ہے مگر پھر بھی اپنی مرضی سے برائی کا ارتکاب کرتا ہے۔ خوشی کے حصول کے لئے، انسان کو خدا کی تقلید میں انصاف ڈھونڈنا چاہئے ، کیونکہ خدا “لامحدود طاقت ور ، لا محدود نیک اور سب سے اعلی و برتر منصف ہے” (Mossner, 2006, p. 688)۔
میتھیو ٹنڈل (Matthew Tindal۔وفات 1733) ایک ایسے خدا کو بیان کرتا ہے جو “اپنے آپ میں لا محدود خوش رہتا ہے ، انسان کو پیدا کرنے کا اس کا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہوسکتا تھا سوائے اس کے کہ وہ اس زندگی میں خوش و خرم رکھ سکے، اور ساتھ ہی ساتھ اس میں بھی جو آنے والی ہے”۔ (Tindall cited in Viney, 2010, p. 174)۔ اور اسپینوزا نے خدا کی محبت کو اچھائی کی چوٹی اور انسانی زندگی کا حتمی مقصد قرار دیا ہے (2002, p. 428)۔ پاین کے مطابق ، “سچے” مظاہر پرست کا مذہب خدا کی اخلاقی خصوصیات میں اس کی تقلید کرنا ہے: “سچے مظاہر پرست کا صرف ایک ہی خدا ہے ، اور اس کا مذہب اس ہستی کے کاموں میں اس کی طاقت ، حکمت اور شَفقَت پر غور کرنا ، اور ہر اخلاقی ، سائنسی اور مشینی چیز میں اس کی تقلید کرنے کی کوشش پر مشتمل ہے (1892, p. 49) ۔”
بہر حال ، سبھی مظاہر پرست یہ نہیں مانتے کہ خدا اچھا ہے۔ مثال کے طور پر ، والٹییر نے مشورہ دیا کہ اگر خدا کی فضیلت کی تصدیق کی جاتی ہے تو مظاہر پرستی کے خلاف وہی تنقید ہو گی جو مذاہب کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ برائی والی دلیل کسی بھی ایسے نظریے کے لئے مشکلات پیدا کرے گی جو خدا کی لامحدود طاقت اور نیکی کو بیک وقت برقرار رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں والٹییر نے خدا کی جُودو سخا کی تردید کی اور کہا کہ وہ ایک غیر جانبدار مگر انتہائی ذہین ہستی ہے اگرچہ انسانوں کی سمجھ سے باہر ہے (Mori, 2018, pp. 328-329) ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ والٹیئر نے ہمیشہ یہ مؤقف نہیں رکھا۔ اپنی ابتدائی تحاریر میں ، وہ خدا کی بھلائی کی واضح طور پر تصدیق کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ، دیکھیں (1972, p. 386 Voltaire)۔
مختصراً یہ کہ خدا کے اخلاقی کردار کے بارے میں مظاہر پرست شدید اختلاف رائے میں مبتلا ہیں۔ کچھ خدا کو کامل اچھائی سمجھ کر تمام انسانوں کو اس کی تقلید کی خواہش کی دعوت دیتے ہیں ، اور دوسرے خدا کی کسی بھی قابل تقلید اخلاقی اچھائی کا انکار کرتے ہیں۔
4۔عبادات کے متعلق مظاہر پرستی کا موقف:
کچھ لوگ عبادات کے تصور سے غیر متفق ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ خدا کو اس کی کوئی خواہش نہیں ہے (Love, 2008, p. 64; Viney, 2010, p. 102)۔ تاہم دوسرے مظاہر پرست جوش وخروش کے ساتھ خدا سے دعا کرتے ہیں (cf. Lucci & Wigelsworth, 2015, p. 168)۔ لارڈ ہربرٹ آف چربری (Lord Herbert of Cherbury۔متوفی 1648) ، جسے “برطانوی مظاہر پرستی کا جد امجد” کہا جاتا ہے ، دعویٰ کرتا ہے کہ انسان کا فطری میلان یہ کہتا ہے کہ وہ پہچانے کہ خدا ہی عبادت کے لائق ہے اور ایک پاکیزہ زندگی گزارنا اس عبادت کا ایک اہم پہلو ہے (Pailin & Manuel, 2015, para. 4)۔ کچھ مظاہر پرست یہ کہتے ہیں کہ قدرت پر غور و فکر کرنا خدا کی عبادت کرنے کی خواہش کو پیدا کرتا ہے، جو اس کے اس احسان سے پیدا ہوتی ہے جو وہ اپنی تخلیق پر اپنی عنایات سے ظاہر کرتا ہے۔ Richard Swinburne ایک ایسے بچے کی مثال دے کر، جو اپنے والدین کا احترام کرنے کا پابند ہے، اس نکتے پر زور دیتا ہے کہ انسان خدا کی بندگی اور عبادت کرنے کے پابند ہیں (1993, pp. 212-213)۔ دوسری طرف ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر خدا موجود ہے بھی تو ، اسے عبادت کے لائق سمجھنے کی کوئی عقلی وجہ موجود نہیں ہے۔see Bayne & Nagasawa (2006 & 2007)۔ عمانوئل کانٹ ( Immanuel Kant۔متوفی 1804) دعا کے تصور کو کلی طور پر مسترد کرتا ہےکیونکہ “خدا ہم سے کچھ حاصل نہیں کرسکتا” (Kant cited in Westphal, 2010, p. 135)۔
مختصر یہ کہ ، تمام مظاہر پرست خدا کی عبادت کرنے پر یقین نہیں کرتے ۔
5۔خدا کے انصاف پر مظاہر پرستی کا موقف:
بہت سارے مظاہر پرست موت کے بعد انسانوں کے خدائی حساب کتاب کے تصور کو مسترد کرتے ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک خدا ایک “خوف اور ہیبت، عذاب اور سزا کا خدا ” نہیں ہے (Manuel, 1983, p. 34) ۔اس کے باوجود ، جرمنی کے فلسفی گوٹ فریڈ ولہیلم لیبنیز (Gottfried Wilhelm Leibniz۔وفات 1716) جیسے کچھ مظاہر پرستوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا کہ سخت سزا دینے سے خدا کی اچھائی پر حرف آتا ہے (cf. Pailin & Manuel, 2015, para. 13)۔
اس کے برعکس ، بنجمن فرینکلن( Benjamin Franklin۔متوفی 1790) جیسے مظاہر پرست ایک ایسی زندگی بعد از موت پر یقین رکھتے تھے، جہاں لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ اور سزا دی جائے گی۔ (cf. Viney, 2010, p. 86)۔ کچھ مظاہر پرست نجات کے نظریے کی پیروی کرتے ہیں ، جبکہ دوسروں نے نہ صرف اس کو مسترد کیا بلکہ لافانی انسان کے تصور کو بھی مسترد کردیا (Viney, 2010, p. 94; Herrick, 2014, p. 20)۔ پاین زندگی بعد از موت کے بارے میں متشکک ہے اور اس نے “ان تمام معاملات کو خدا پر چھوڑ” دیا ہے (1892, p. 261)۔
مختصراً. ، مظاہر پرست انکار کرتے ہیں کہ آیا موت کے بعد الہی فیصلہ ہوگا کہ نہیں۔ اس بات کا اندازہ کرنا ایک مشکل کام ہے کہ مظاہر پرستوں کے مابین غالب نظریہ کیا ہے ، کیوں کہ مظاہر پرستوں کے دوسرے عقائد کو جاننے کے باوجود، زندگی بعد الموت کے بارے میں انکے مؤقف کو اخذ نہیں کیا جا سکتا۔مثال کے طور پر ، یہ قیاس نہیں لگایا جا سکتا کہ ایک مظاہر پرست جو خدا کی قدرت کا انکار کرتا ہے، ضدا انصاف کا بھی کرتا ہے کہ نہیں۔
مظاہر پرستی کی ایک کم سے کم تعریف تک پہنچنا:
مظاہر پرستوں کے مختلف خیالات کی تشریح سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مظاہر پرست اپنے نظریات میں مماثلت، یکجہتی سے بہت دور ہیں۔ برطانوی اور انگريزی کَليسا کے فلسفی سیموئل کلارک (Samuel Clarke۔ وفات 1729) مظاہر پرستوں کی چار قسموں کے درمیان تمیز کرتے ہیں:
1) وہ جو خدا کے وجود کو دائمی ، لامحدود ، آزاد اور ذہین سمجھتے ہیں ، پھر بھی یہ خدا اپنے آپ کو دنیا کے معاملات سے علیحدہ رکھتا ہے۔
2) وہ لوگ جو خدا کی قدرت کی توثیق کرتے ہیں ، پھر بھی اسے انسان کے اخلاقی عمل سے بے پرواہ رہنے والے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔
3) وہ جو خدا کی قدرت اور اخلاقی کردار کی توثیق کرتے ہیں ، پھر بھی اس کی ابدیت کی تردید کرتے ہیں۔
4) وہ لوگ جو خدا کی قدرت، اخلاقی کردار ، اور آخرت کی زندگی کی توثیق کرتے ہیں، جس میں کسی کے اعمال کا فیصلہ ہوتا ہے، مگر پھر بھی خدا کی طرف سے وحی کی تردید کرتے ہیں (Yenter, 2018, para. 55)۔
محققین مظاہر پرستی کے اندر مختلف گروہوں کے درمیان فرق کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں ، چاہے وہ سترہویں صدی کی انتہا پسند “غیر مسیحی” مظاہر پرستی بمقابلہ اٹھارہویں صدی کے زیادہ “دھیمے مزاج کے” انگریزی مظاہر پرستی ہوں، یا برطانوی مظاہر پرستی بمقابلہ “بنیاد پرست” “فرانسیسی مظاہر پرستی یا دوسری ” یورپی مظاہر پرستی “وغیرہ ہوں (Wigelsworth, 2009, p. 12; Herrick, 2014, pp. 1 & 21)۔
مظاہر پرستی کی تعریف نے ایک عرصے سے محققین کو پریشان کر رکھا ہے اور اس کا ایک خاکہ بناتے ہوئے آپ کے “ذہنی انتشار اور پراگندگی” میں مبتلا ہونے کے کافی امکانات ہیں (Hefelbower, 1920, p. 217)۔اس کی وجہ یہ ہے کہ متعدد مشہور مظاہر پرستوں نے مظاہر پرستی کے یکسر اختلافی تصورات پیش کیے (Byrne, 1989, p. xiii)۔ اس لئے یہ جاننے کے لئے بڑی احتیاط کرنی ہوگی کہ ہر خود اعترافی مظاہر پرست کا انفرادی سطح پر کیا یقین ہے ۔ (Hefelbower, 1920, p. 217; Herrick, 2014, p. 19)۔
کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کے مختلف نقطہ نظر کا سامنا کرنا ایک عام بات ہے۔ بہر حال ، ایسے مشترکہ عقائد کا وجود ضروری ہے جو ایک مذہب کے پیروکاروں کو ایک مذہبی فکر کے تحت متحد کرتے ہیں۔ لیکن مظاہر پرستی کے معاملے میں ان عقائد کی نشاندہی کرنا ،جن پر مظاہر پرستی کے آغاز سے لے کر اب تک مستقل طور پر مظاہر پرستوں میں اِتفاق راۓہو، ایک آسان کام نہیں ہے، کیونکہ مظاہر پرستوں کے درمیان ہر بنیادی نظریے پر اختلاف موجود ہے۔ تاہم مظاہر پرستوں کے گروہوں کے مختلف نظریات کے فرق کے باوجود یہ ضروری ہے کہ مظاہر پرستی کی ایک کارآمد تعریف کو ترتیب دیا جائے۔
میں مظاہر پرستی کی تعریف ایسے عقیدے کے طور پر کروں گا کہ انسان کو اس خدا پر یقین کرنا چاہئے جس نے کائنات تخلیق کی، مگر وہ اس میں غیر فعال ہے ، اور یہ کہ انسان کو صرف اور صرف اس دینی اور اخلاقی علم کو قبول کرنا چاہئے، جس کو اس نے اپنے شدید عقلی استعمال کے ذریعے حاصل کیا ہو۔ اس تعریف کا تقاضا ہے کہ ایک مظاہر پرست:
1) ایک دور دراز غیر فعال خدا پر یقین رکھتا ہے ، اور اس کے نتیجے میں معجزات کی موجودگی کو مسترد کرتا ہے اور
2) خدا کی طرف سے وحی کے ذریعے آنے والے کسی بھی مذہبی علم کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔
میں نے اس تعریف کا انتخاب اس لئے کیا ہے کیونکہ اس سے ان دو اصولی دعووں کی نشاندہی ہوتی ہے جن پر مظاہر پرستوں کی اکثریت کا ان کی شروعات سے اتفاق ہے۔ ویسٹ فال نے روشن خیالی کے تین بنیادی نقوش کی نشاندہی کی ہے جنھوں نے مظاہر پرستی متحرک کیا: 1) انسانی عقل کی خود مختاری۔ 2) مذہبی رواداری کے لئے تشویش؛ اور 3) مذہبیت مخالف (2010, p. 134)۔
مظاہر پرستوں کی معتد بہ تعداد مذہب کے کسی بھی پہلو کو رد کرنے میں تقریباً متفق ہیں ، چاہے وہ عقائد ہوں یا رسوم۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی عقل کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ نیز ، مذہب جتنا زیادہ ’منظم‘ ہو گا اورعلماء کے محکمہ کی موجودگی ، محترم مذہبی شخصیات ، اور خدائی احکامات و رسومات پر عمل ہوتا ہو گا ، مظاہر پرست اتنا ہی زیادہ ان کی مخالفت کریں گے۔ زیادہ تر مظاہر پرست معجزات کی خبروں کو مسترد کرتے ہیں ، اور یہ ان لوگوں کے بارے میں بھی ہے جو ان کے وقوع کے تصوراتی امکان کو قبول کرتے ہیں۔
میری تعریف دوسرے متنازع فیہ عقائد کے بارے میں غیر جانبدار ہے (مثلاً خدا کا اخلاقی کردار، لافانیت وغیرہ) جن کا “مرکزی” موقف قائم کرنا مشکل ہے یا وہ عقائد جو مظاہر پرستی کے لئے لازمی نہیں ہیں (مثال کے طور پر خدا کی حکمت کی تصدیق)۔ اس تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے ، میں اگلے حصے کی طرف جاتا ہوں جہاں میں مظاہر پرستی پر تفصیلی بحث پیش کروں گا۔
تحریر بسام زوادی، ترجمہ سید علی ایمن رضوی