ڈی ازم اور خدا کے پوشیدہ ہونے کی  دلیل

2۔خدا کے پوشیدہ رہنے کی دلیل [The Argument from Divine Hiddenness

اسلام اور عیسائیت جیسے خدا پرست مذاہب کے خلاف اٹھائے جانے والےمظاہر پرستوں کے دلائل میں سے ایک دلیل کافروں کو جہنم میں سزا دیئے جانے کے تصور میں مبینہ فطری ناانصافی ہے (Morais, 1932, p. 435)۔ وہ اس کو غیر منصفانہ سمجھتے ہیں کہ خدا دنیا کی آبادی کے صرف ایک چنیدہ ’’ پسندیدہ طبقہ ‘‘ کے سامنے حقائق کا انکشاف کرے جب کہ باقی لوگوں سے سچائی کو موثر طریقے سے پہنچنے نا پائے ۔ اس پر وہ یہ دعوی کرتے ہے کہ ہر ایک کو نجات حاصل کرنے کے لئے یکساں موقع نہیں دیا جاتا (Byrne, 1989, p. 55)۔ جبکہ  مظاہرہ پرستوں کے ہاں ایسا نہیں ہےہمارا نظریہ   ہے کہ خدا نے انسانیت کو عقل کی قوت دے کر اپنا آپ ان کے سامنے ظاہر کردیا ہے تاکہ وہ خدا کے اخلاقی کردار اور احکامات کو دریافت کرنے اور “فطرت پر غور” کرنے کے لئے اسے استعمال کر سکیں (Paine, 1892, p. 39)۔

تاہم  جیسا  کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ  اس تصور، یعنی مدد سے محروم انسانی عقل بحیثیت علمیاتی وسیلہ، کو قبول کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ ہر کسی کو اپنی دقیق عقلی استعداد کو بروئے کار لانے کے لئے تعلیم تک یکساں رسائی حاصل نہیں ہے تاکہ مطلوبہ مذہبی نتائج پر پہنچ سکیں۔ ادراک و بصیرت کے لحاظ سے بھی انسانوں میں انفرادی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ  انسانی عقل آسانی سے تعصب کا شکار ہو جاتی ہے ور ایک مخصوص ماحول میں تربیت کسی ایک شخص پر بہت اثر انداز ہوتی ہے اور وہ کسی مختلف ثقافتی پس منظر کے لوگوں سے یکسر مختلف نتیجہ اخذ کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔  مطلب یہ  کہ لوگوں نے مرکزی مذہبی اور اخلاقی امور پر اختلاف رائے کرنا ہی ہے۔ لہذا ، مظاہر پرستوں کو بھی اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ خدا اصل میں “یکساں” طور پر ہر ایک کے سامنے خود کو ظاہر نہیں کرتا کیونکہ لوگوں کو یکساں وسائل اور وقت تحفے میں نہیں ملتے تاکہ وہ اپنی عقلی مہارت کو ترقی دے سکیں۔ چنانچہ اس طرح مظاہر پرستی کے مطابق بھی خدا بہت سارے لوگوں کو “پوشیدہ” معلوم ہوتا ہے۔

بہر حال ، مظاہر پرست ایک اور دلیل پیش کرسکتے ہیں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت میں خدا پوشیدہ ہے اور یہ کہ اس کی پوشیدگی کا مفہوم خدا پرستوں کی بجائے مظاہر پرستانہ نقطہ نظر میں زیادہ صحیح لگتا ہے اس کے لیے وہ جان شیلن برگ کی خدائی پوشیدگی کی دلیل کے مشہور موقف سے کام لے سکتے ہیں۔ نیچے ، میں شیلن برگ کی الہی پوشیدگی کی دلیل پیش کرتا ہوں، جس کی وضاحت انہوں نے خود کی ہے۔ اگرچہ یہ دلیل اصل میں الحاد کے ثبوت کے طور پر وضع کی گئی ہے ، لیکن میں اس کی وضاحت کروں گا کہ اس کو کس طرح مظاہر پرستی کے حق میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آخر میں ، میں اس دلیل کا رد کروں گا ۔ (خدائی پوشیدگی کی دلیل کی مختلف شکلیں ہیں۔ تاہم ، شیلن برگ کا موقف اب تک سب سے زیادہ مقبول اور زیادہ زیر بحث ہے۔ اس کی تشکیل کو “سب سے مضبوط” کہا جاتا ہے (Dumsday, 2015, p. 2) اور پوشیدگی کی دلیل کے مختلف مواقف “جے۔ ایل شیلن برگ کی مرکزی دلیل کی شاخیں” ہیں (Anderson, 2017, p. 120)۔ مزید یہ کہ ، شیلن برگ کی دلیل کا میرا رد دوسرے مواقف پر بھی ہوگا ، لہذا میں نے دلیل کے مختلف تغیرات پر یہاں گفتگو کرنا غیر ضروری سمجھا۔)

  1. شیلن برگ کی خدا کی پوشیدہ رہنے کی دلیل۔

شیلن برگ کی دلیل کی تشکیل ایسے ہے۔

  1. اگر ایک کامل محبت کرنے والا خدا موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا خدا موجود ہے جو کسی فانی انسان کے ساتھ ذاتی تعلقات قائم کر سکتا ہے۔
  2.    II.            اگر کوئی ایسا خدا موجود ہے جو کسی بھی فانی انسان کے ساتھ ذاتی تعلقات کے لئے ہمیشہ تیار ہے تو پھر کوئی بھی فانی انسان غیر مزاحمتی بے یقینی کی حالت ٭(non-resistantly in a state of nonbelief )  میں نا رہے کہ خدا موجود ہے۔

٭غیر مزاحمتی کفار : کچھ لوگ خدائی حقیقت     واضح ہونے کے باوجود خودفریبی یا ذاتی مزاحمت  کی بنیاد پر پر خدا پر ایمان نہیں لاتے ۔    شیلن برگ کہتا ہے کہ تمام منکرین خدا ایسے نہیں ہوتے ، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ذاتی طور پر مزاحمت نہیں کرتے لیکن پھر بھی کسی وجہ سے ایمان لانے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔

  1.  III.            اگر کامل طور پر محبت کرنے والا خدا موجود ہے تو پھر کوئی بھی فانی انسان غیر مزاحمتی حالت میں اس بارے میں کبھی بھی بے یقینی کی حالت میں نا رہے کہ خدا موجود ہے۔ (قضیہ 1 اور 2 سے)۔
  2.  IV.            کچھ محدود افراد ہیں اور رہے ہیں جو غیر مزاحمتی حالت میں خدا کی موجودگی کے  بارے میں بے یقینی کی حالت میں رہے۔
  3.   V.            کامل محبت کرنے والا خدا موجود نہیں ہے (3 اور 4 سے)۔
  4.  VI.            اگر کامل محبت کرنے والا خدا موجود نہیں ہے تو خدا موجود نہیں ہے۔
  5. خدا موجود نہیں (5 اور 6 سے) (2017a, p. 1)۔

پہلے مقدمہ میں ، شیلن برگ کے لیے ” کامل محبت کرنے ” والے خدا کا مطلب یہ ہے کہ وہ ” محبت کرنے اور دیکھ بھال کرنے میں اس پر کوئی سبقت نہیں لے جا سکتا” (Schellenberg, 2004a, p. 33)۔ بالکل ایک ایسی ماں کی طرح جو اپنے بچے سے پیار کرتی ہے ، اپنی مخلوق کے لیے خدا کی محبت کا مطلب یہ ہے کہ: 1) ان کی درخواستوں پر ان کو فوری جوابات فراہم کرنا؛ 2) انھیں کسی بھی “بِلا ضرورت” صدمے سے بچانا اور ان کی جسمانی اور روحانی صحت کی پرورش کرنا؛ 3) خدا کے ساتھ انکے تعلقات کے بارے میں گمراہ کن خیالات رکھنے کی حوصلہ افزائی نہ کرنا؛ 4) جب بھی ممکن ہو ان کے ساتھ ذاتی تعامل کی خواہش رکھنا؛ اور 5) ان کے ساتھ ذاتی تعلق کی خواہش کرنا اگر وہ ذاتی تعلق اگر موجود نہ ہو (Ibid.)۔

مقدمہ 2 میں ، جب شیلن برگ “ذاتی تعلقات” کی بات کرتا ہے تو وہ “ایک باشعور ، باہمی، اور مثبت معنی خیز تعلقات” کا حوالہ دے رہا ہوتا ہے (2015, p. 38)۔ ایک کامل محبت کرنے والی ہستی کی حیثیت سے خدا سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ “اپنے مفاد کے لئے تعلقات” کی قدر کرے گا (Ibid., p. 43) اور ایسے تعلق کے لئے انسانوں کو پیدا کیا ہو گا (1996, p. 462)۔ نیز ، شیلن برگ کے لئے ” عدم مزاحمت ” کا یہ مطلب ہے کہ خدا پر عدم یقین خدا کی  کسی جذباتی یا نفسیاتی مخالفت کی وجہ سے نہیں ہے (2008b, para. 2)۔ اس نے چار قسم کے لوگوں کا تذکرہ کیا، جو اس کے خیال میں عدم مزاحمت کی درجہ بندی کے تحت آنے کے اہل ہیں: 1) سابقہ مومنین۔ 2) ہمیشہ سے حق کے متلاشی؛ 3) غیر خدائی مذاہب قبول کرنے والے؛ اور 4) انفرادی غیر مذہبی لوگ(2007, pp. 228-242)۔

مقدمہ 3 میں ، شیلن برگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایسا کوئی لمحہ نہیں ہو سکتا جب غیر مزاحمتی لوگ خدا پر یقین نہ رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ ذاتی تعلق بھی رکھتے ہوں۔ (2005b, p. 206; 2015, p. 106)۔ شیلن برگ نے یہ جواز پیش کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کر تا ہے کہ خدا کیوں ذاتی طور پر غیر مزاحم لوگوں کی فوراً رہنمائی نہیں کرے گا۔ وہ استدلال کرتا ہے کہ خدا کے “لامحدود وسائل” کو مد نظر رکھتے ہوئے، کسی قسم کی بھی دوسری “چیزیں” جن کے حصول میں خدا دلچسپی رکھتا ہو (مثلاً اپنی مخلوقات کی اخلاقی آزادی وغیرہ)، غیر مزاحمتی لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات رکھنے پر سمجھوتہ کیے بغیر حاصل کی جا سکتی ہیں (2007, pp. 215-216)۔ شیلن برگ زور دیتا ہے کہ یہاں تک کہ اگر ایسی چیزیں بھی موجود ہیں جو منطقی طور پر اس وقت تک حاصل نہ کی جا سکتی ہوں جب تک کہ خدا عارضی طور پر غیر مزاحمتی لوگوں کے ساتھ تعلقات میں نا رہے ، یہ چیزیں کسی بھی طرح اہمیت میں خدا کے ساتھ تعلقات سے ذیادہ اہم نہیں ہوسکتی ہیں (2004a, p. 37)۔ اس طرح، شیلنبرگ کہتا ہے کہ خُدا کو، اپنی کامل محبت کے پیشِ نظر، صرف اُن چیزوں کی تلاش کرنی چاہیے جو “تعلقات سے ہم آہنگ” ہوں (2015، صفحہ 109)۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ ایک کامل محبت کرنے والے خدا نے اس بات کو یقینی بناتے ہوئے اس دنیا کو تخلیق کیا ہو گا کہ ایسی کسی چیز کی ضرورت نہ ہو جو تعلق کے ساتھ ناسازگار ہو(Ibid., pp. 45-46)۔

مقدمہ 4 میں ، شیلن برگ نے استدلال کیا کہ ایسے ذاتی طور پر غیر مزاحم  منکرین خدا لازمی موجود ہوتے ہیں۔ اگر مقدمہ 3 اور 4 درست ہیں ، تو مقدمہ 5 مکمل ہوتا ہے۔ مقدمہ 6 اس انداز میں بیان کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کا واحد ممکنہ تصور وہ ہے جو کامل پیار کرنے والا ہے۔ تاہم ، شیلن برگ اس قضیے کو کسی اور مقام پر قائم کرتا ہے جیسا کہ میں اگلے حصے میں دکھاؤں گا۔ آخر میں ، مقدمہ 5 اور 6 میں نتیجہ نکالتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ، شیلن برگ کا ماننا ہے کہ وہ جس کامل محبت رکھنے والے خدا کی کردار نگاری کرتا ہے ، وہ اس کے بارے میں توقع کرتا ہے کہ وہ ایک کامل خدا کی اعلی اور زیادہ “فکری طور پر پرکشش تصویر” ہے (Schellenberg, 2005c, p. 300)، اور لہذا اگر خدا بحیثیت کامل ہستی واقعی وجود رکھتا ہے ، تو اسے شیلن برگ کے  بنائے ہوئے خدائی کاملیت کے مفروضوں پر پورا اترنا چاہیے۔

  1.   شیلن برگ کی خدا کی پوشیدہ رہنے کی دلیل  مظاہر پرستی سے متعلق کیسے ہے؟

شیلن برگ کی خدا کی پوشیدہ رہنے کی دلیل کو اس انداز میں مرتب کیا گیا ہے کہ الحاد کو صحیح ثابت کیا جا سکے ۔ تو پھر یہ دلیل مظاہر پرستی سے متعلق کیسے ہوگئی ہے؟ یہ شاید اس لئے متعلقہ ہے کیونکہ یہ  مظاہر پرستوں کے خدا کے بجائے مذہبی تصور خدا پر اعتراض کرتی ہے (Howard-Snyder, 2016, para. 43; Ventureyra, 2018, p. 910)۔ گو کہ شیلن برگ خود خدا کے ایک مظاہر پرستانہ تصور کو اتنی اہمیت نہیں دیتے (2005a, p. 340; 2015, pp. 108-109)، پھر بھی وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی یہ دلیل زیادہ تر “روایتی مذہب پرستی” کے خلاف ہے (2004a, p. 41)۔ لہذا ، ایک مظاہر پرست شیلن برگ کی دلیل کا اپنے فائدے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو  شیلن برگ کی دلیل سے ایک مظاہر پرست خدا کے احسان اور اس کے نتیجے میں اس کی محبت  کا یکسر انکار کرکے ہی بچ سکتا تھا(کیونکہ اس دلیل کے مطابق خدا کامل محبت کرنے والا نہیں ہے)۔ یا اگر مظاہر پرست خدا کی محبت کا اعتراف بھی کرتا ہے تو وہ اسے خدا کی کامل خصوصیت   قرار نہ دے کر ایسا کر سکتا ہے اس طرح  کہ خدا بے انتہا محبت کرسکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ کامل محبت کرنے والا ہو۔ اس طرح نہ صرف شیلن برگ کی دلیل مظاہر پرستی کے خلاف اپنی طاقت سے محروم ہوجائے گی بلکہ مظاہر پرست شیلن برگ کی دلیل کو اپنے حق میں استعمال بھی کر سکتے ہیں تاکہ ان کے خدائی تصور کو مزید اعتبار حاصل ہو جائے۔

  1. شیلن برگ کی خدا کی پوشیدہ رہنے کی دلیل کا  تنقيدی جائزہ:

شیلن برگ کی کامل محبت کی خصوصیات پر اختلاف کے باوجود ، میں اپنی تنقید شیلن برگ کے اس دعوے پر مرکوز کروں گا کہ خدا کی کامل محبت کی صفت کا تقاضا ہے کہ کوئی ایسی ممکنہ وجہ ہوہی نہیں ہوسکتی کہ خدا کیوں ذاتی طور پر    غیر مزاحم افراد کے ساتھ تعلقات کی تشکیل کو وقتی طور پر ملتوی  کرے ۔

شیلن برگ کہتے ہیں کہ فلسفی میری اس بات سے اختلاف نہیں کریں گے کہ کامل محبت خدا کی ایک لازمی صفت ہے (2005b, p. 201) تاہم اس بات پر اختلاف نا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس خدائی صفت کے متعلق شیلن برگ کی سمجھ نا قابل اعتراض نہیں ہوسکتی ۔ کچھ فلسفیوں کا خیال ہے کہ اس کامل محبت کا مطلب صرف آزاد تعلق کی خواہش  ہے نہ کہ  یہ حقیقی تلاش کے لیے ہے  ” (Dumsday, 2015, p. 11)۔ دوسروں نے خدا کی صفات پر کمپرومائز کر تے ہوئے ایک مذہبی  دفاعی موقف اپنایا ، جس کے تحت وہ لفظی طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کرتے  کہ خدا کسی سے بھی محبت کرتا ہے (Howard-Snyder, 2016, para. 43)۔ کچھ تجویز کرتے ہیں کہ شیلن برگ کامل عشق کی ایک مخصوص مسیحی تفہیم پر انحصار کررہا ہے اور اس تفہیم کو تمام روایتی مذہب کی  نمائندگی کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے کہ خدا  اگر وقتی طور پر کسی   ہدایت کے طالب کی ڈائریکٹ مدد نہیں کرتا تو اسکی سوائے اسکے کہ وہ مخلوق سے محبت نہیں کرتا   کے کوئی اور وجہ ہوہی نہیں سکتی  ۔ (Dole, 2018, p. 301)۔ شیلن برگ ان اعتراضات کو قبول کرتے ہیں (2015, p. 89; 2017b, p. 7) لیکن ان کا اصرار ہے کہ کامل محبت کی یہ خصوصیت کامل خدا کے لئے زیادہ موزوں ہے۔

شیلن برگ دو بنیادی مفروضوں پر اپنی دلیل کی بنیاد رکھتے ہیں:

 1) خدا کے ساتھ محبت کا رشتہ سب سے بڑی اچھائی ہے۔ لہذا دوسری شر ط بھلائی ممکنہ طور پر اس کے ثمَر آوَر ہونے کی تاخیر کا سبب نہیں بن سکتی ، اور

 2) حالت عدم مزاحمت مطلب یہ خدا کے لئے نہ صرف ایک مثالی بلکہ مطلوبہ وقت ہے کہ وہ اپنے نا ماننے والوں کے ساتھ ایک محبت والا تعلق قائم کر کے ان کی رہنمائی کرے۔ میں نیچے دونوں مفروضوں پر بحث کروں گا۔

٭پہلے مفروضے کا ایک جائزہ اور تبصرہ

اس حوالے سے وضاحتوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے کہ خدا کیوں عارضی طور پر کسی غیر مزاحم شخص کو اپنے ساتھ “لاتعلق” رہنے کو برداشت کرتا ہے۔ مثلاً 1) خدا کا اس شخص کا انتظار کرنا کہ وہ خدا پر یقین کرنے کے لئے صحیح ارادہ رکھتا ہو۔ 2) اس شخص کا آزادانہ طور پر خدا پر یقین کرنے کا انتظار کرکے اسکی اخلاقی خودمختاری کا احترام کرنا ۔ 3) اس شخص کی خدا کی خواہش کی شدت کو مزید فروغ دینے کی کوشش؛ 4) اس شخص کو خدا کے بارے میں سمجھنے کی اجازت دینا تاکہ وہ زیادہ درست تفہیم حاصل کر لے ہو۔ 5) اس شخص کا کچھ شرائط پورے کرنے کا انتظار کرنا جیسے پہلے کیے گئے گناہوں کی توبہ۔ 6) اس شخص کی خدا کے لئے محبت کے زیادہ خالص ہونے کا انتظار کرنا؛ 7) غیر مزاحم لوگوں کو خدا کی تلاش کے موقع دے کر نیکی کی جستجو کی حوصلہ افزائی کرنا۔ (Azadegan, 2014, p. 109; Howard-Snyder, 2016, para. 36; McFall, 2016, p. 9; Paytas, 2017)۔ شیلن برگ نے ان وضاحتوں کو اسے لیے مسترد کردیا کہ یا تو کمتر اچھائی سمجھتا یا  اس کے مطابق انکو خدا کے ساتھ تعلقات کو ملتوی کیے بغیر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

میں اس کی ایک نایاب ممکن وجہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ    کیوں خدا نے  غیر مزاحم لوگوں کو   پیدا کیا کہ وہ اس کے ساتھ وقتی طور پر تعلق قائم نہ ہونے کو برداشت کریں:اسلامی الہیات  ایک نظریہ اہل الفطرۃ کے متعلق ہے ۔ اہل الفطرۃ ان غیر مسلموں کو کہتے ہیں جن کو  موثر انداز میں اسلام کا پیغام نہیں ملا ہے۔ اس حالت میں مرنے والوں کو آخرت میں خدا کی طرف سے ایک خاص امتحان دیا جائے گا تاکہ انکی دائمی تقدیر کا تعین کیا جا سکے۔ وہ لوگ جو خلوص نیت سے سچائی کے متلاشی تھے، جنہوں نے خدا کی تلاش کی اور اپنی جسمانی اور فکری صلاحیتوں کے پیش نظر خدا کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ، وہ اس خصوصی امتحان میں کامیاب ہوجائیں گے اور اس کے بعد خدا کے ساتھ لازوال و سکون کے تعلق سے لطف اندوز ہونے کے لئے جنت میں داخل ہوجائیں گے (Al-Jawzīyyah, 2008, pp. 899-903) ۔ یہ اسلامی نظریہ عیسائی الہیات کے  بر خلاف ہے عیسائی الہیات ایسے کفر کے وجو د سے ہی انکار ی ہے جس میں بندے کا قصور نا ہو  (Parker, 2014, pp)۔

لیکن خدا نے اہل الفطرۃ ( جن تک خدا کا تعارف ٹھیک سے نہیں پہنچ سکا)کو  تخلیق ہی کیوں کیا ہوگا ؟ شاید ان کی تخلیق کا ایک ممکنہ مقصد ان مومنین کے لیے امتحان بننا تھا جو اجتماعی طور پر ان  تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے پابند تھے۔ دنیا میں تما م لوگ اس آزمائش کے لیے ہیں کہ وہ خد ا کی کس قدر اطاعت کرتے ہیں ۔ اسلام کے مطابق ، خدا کا ایک اخلاقی حکم یہ ہے کہ اس  الہی پیغام کو زمین کے کونے کونے تک پہنچایا جائے۔ لہذا ، اہل الفطرۃ کا وجود مومنین کے لئے ایک اشارہ اور یاد دہانی ہے کہ ایسے مخلص غیر مسلم لوگ موجود ہیں جومؤثر انداز سے کی گئی تبلیغ کو قبول کر سکتے ہیں۔ اہل الفطرت کا وجود مومنین کو   اسلام کی تبلیغ میں اپنی کوتاہیوں کا ایسا جواز پیش کرنے کے کسی بھی موقع سے محروم کر دیتا ہے  کہ موثر طریقے سے کی گئی تبلیغ بھی بے فائدہ ہوتی  کیوں کہ  کافر ہر حال میں حق  کی مزاحمت کرتے ہیں ۔ اہل الفطرۃ کا وجود ان مومنین پر آخرت میں فرد جرم عائد کرسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے دین حق کو آگے پہنچانے میں کیوں سستی سے کام لیا ۔ چنانچہ اہل الفطرۃ مسلمانوں کے لئے خدا کے امتحان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ، کیوں کہ انہیں بعد کی زندگی میں ایک خاص الہی امتحان سے گزارا جائے گا اور ان کی تقدیر کا فیصلہ انصاب پر مبنی فیصلہ ہوگا۔جس شخص تک اسلام کی دعوت نہ پہنچی یا اسے کسی وجہ سے اس پر غور و فکر کا موقع نہ مل سکا یا وہ اسے کسی سبب سے سمجھ ہی نہ آئی ، ذھنی صلاحیت کے اعتبار سے کند ذھن تھا یا اسلام کی درست تصویر سمجھانے والا میسر نہ تھا وغیرہ تو ایسے شخص کو اللہ تعالی اپنے لامحدود علم کی بنیاد پر خود جانچ کر اس کا فیصلہ کردے گا ۔اجمالی عقیدہ یہ ہے کہ ہر شخص کا مواخذہ اس کی تبلیغ کی نوعیت کے ساتھ وابستہ ہے. جسے جس حد تک   تبلیغ ہوئی ہے، اس تک حق کی بہت پہنچی ، اسی حد تک اس سے مواخذہ بھی ہو گا.  جیسا کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دور دراز علاقوں جیسے افریقہ ، ایمازون کے جنگلوں میں  رہتے ہیں اور انھیں اسلام سے متعلق کوئی خبر ہی نہیں تو انھیں دوزخ کا ایندھن کیوں کر بنایا جائے گا ؟ اسی طرح اہل فترت یعنی وہ جو دو پیغمبروں کے درمیانی عرصے میں پیدا ہوئے کہ جب پچھلے پیغمبر کی دعوت قریب قریب معدوم ہو چکی تھی ۔ غرض انفرادی طور پر یہ دیکھنا کہ تبلیغ کسے کس درجے کی ہوئی ہے حق سبحانہ و تعالی ہی اسے جانتے ہیں اور مواخذہ بھی وہی اپنے علم کے مطابق کریں گے کہ آیا اس کے پاس اسے نہ ماننے کا کوئی قابل قبول عذر موجود تھا یا نہیں ۔اللہ دلوں کے حال جانتا ہے ،   تفصیلی علم اسی کے پاس ہے پس جس کے پاس کوئی ویلڈ عذر ہوگا اللہ  اسی حساب سے اس کا فیصلہ کردے گا.

شیلن برگ اس بات کا جواب ایسے دے سکتے ہیں کہ خدا کی طرف سے اہل الفطرۃ کے وجود کی اجازت کی حتمی وجہ، ان کے ساتھ تعلقات کی عارضی معطلی کا جواز پیش نہیں کرتی ہے ، کیوں کہ خدا کے ساتھ رشتہ قائم رکھنے سے بڑھ کر کوئی اور بہتر بات نہیں ہے۔ لیکن اس دلیل کے ساتھ دو مسائل ہیں۔ سب سے پہلے ، یہ فرض کیا گیا ہے کہ ہم اللہ کے کسی حکم / عمل  کی تمام حکمتوں ، اخلاقی اچھائیوں کو جان سکتے ہیں ۔جبکہ  حقیقت یہ ہے کہ ہمارا  علم اور عقل محدود ہے ہم اللہ کے متعلق اتنا ہی جانتے ہیں جتنا اس نے خود ہمیں اپنے نبیوں اور کتابوں کے ذریعے بتایا، ہم اپنے اس قسم کے انتہا ء کے اعتماد کا جواز نہیں پیش  کرسکتے  (Solokoski, 2012, p. 111)۔ دوسری بات ، شیلن برگ نے اخلاقی اچھائیوں کی “قدر” کا تعین کرنے کے لئے کوئی ایسا معرضی طریقہ پیش نہیں کیا، جس کی پیروی کرنے کے ہم سب پابند ہوں۔ کچھ اخلاقی اچھائیوں کا کوئی تقابلی پیمانہ نہیں ہوتا اور ان کا معروضی اور ایک ہی معیار سے انکی قدر موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔

اس نکتے کو واضح کرنے کے لئے ، پارکر(Parker) مندرجہ ذیل مثال پیش کرتے ہیں:

“ایک مثال پر غور کریں۔ میرا چار سالہ بیٹا یعقوب ایک پہیلی کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کو حل کرنا اس کے لئے مشکل ہے۔ میں اس پہیلی کو مکمل کرنے میں اسکی مدد کرسکتا ہوں یا میں اسے خود ہی اسے حل کرنے کی کوشش کرنے دیتا ہوں۔ اگر میں مدد کرتا ہوں تو یعقوب کو میرا اسکے ساتھ تعلق ٹھوس حسی انداز میں محسوس ہوتا ہے اور ہم  ایک ساتھ مل کر کام کرنے کے فائدے کو محسوس کرسکتے ہیں ، اور اُس کے ناکام ہونے کے امکان سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف یعقوب کا میری مدد کے بغیر اس پہیلی کو مکمل کرنا اس کے لیے ایک قیمتی تجربہ ہوگا    (جیسے  اس کا اعتماد بڑھنا ، کسی مشکل کام کو خود مکمل کرنا وغیرہ)۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس صورتحال میں مخالف اچھائیاں ایسی ہیں کہ ایک کی دوسرے پر فوقیت کا تعین ممکن نہیں اور میرے پاس اخلاقی طور پر کوئی بھی انتخاب کرنے کا جواز موجود ہے کہ آیا اس کی مدد کروں یا مدد کرنے سے احتراز کروں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، اگرچہ یہ   بڑے پیمانے پر ہے ۔  خدا کے لیے یہ فیصلہ کرتے وقت کہ اپنے وجود کے ثبوت فراہم کرنے کے سلسلے میں کیا عمومی حکمت عملی اختیار کی جائےیا جب الہی پوشیدگی کے کسی مخصوص معاملے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرنا ہو (2014, pp. 152-153)۔”

پارکر مندرجہ ذیل اخلاقی اچھائیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو کہ اگر اللہ مسلمانوں کو تبلیغ کی آزادی دیتا ہے، انہیں مجبور نہیں کرتا  تو  سب انسانوں کے لیے یہ باتیں قابل حصول ہو جاتی ہیں،  ، برخلاف اس بات کے کہ وہ ان اہل الفطرہ یا غیر مزاحم کفار کی فوراً رہنمائی کرنے کے لئے مداخلت کرے:

 1) اخلاقی آزادی (moral freedom)

 2) دانش کا امتحان (intellectual probation)

؛ 3) معاشرتی انحصار (social dependency)

؛ 4) خود سے سیکھنا کہ خدا موجود ہے۔ (learning for oneself that God exists)

5) خدا کو جاننے کی خواہش(desiring to know God) (2014, pp. 180-191)۔

 اس آزمائش کے جہاں میں خدا کے ساتھ تعلقات کی عارضی طور پر معطلی کے سبب پیدا ہونے والے کسی بھی “نقصان” کو دو چیزوں سے پورا کیا جاسکتا ہے: 1) اس نقصان کا خاتمہ اور 2) اس نقصان کا منصفانہ معاوضہ۔ اہل الفطرۃ میں سے سچائی کے مخلص متلاشیوں کے معاملے میں ان دونوںصورتوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ جو لوگ جنت پا لیں گے ، وہ اپنی زندگی میں آنے والی تمام مشکلات کو بھول جائیں گے۔ اس میں خدا کے ساتھ تعلقات کی عدم موجودگی کے سبب پیدا ہونے والے تمام جذباتی زخموں کو مندمل کرنا شامل ہے۔ مزید برآں ، خدا کے خصوصی امتحان میں کامیاب ہونے والے اہل الفطرۃ کو معاوضہ میں ہمیشہ کی جنت دی جائے گی ، جو کہ برداشت کی گئی وقتی مشقت کے مقابلے میں  لا محدود وقت کے لیے ہوگی  ۔ اس تکلیف کے خاتمے کے ساتھ اور اس شخص کو اس کے منصفانہ معقول معاوضے سے کہیں زیادہ ملنے کے علاوہ ، انہیں خدا کا قرب میسر ہوگا اور خدا کی پوشیدگی سے پیدا ہونے والی کسی بھی تکلیف کو دور کر دیا جائے گا۔

 کوئی یہاں  کانٹ کا اٹھایا ہوا ایک اعتراض لا کر یہ استدلال کرسکتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا اہل الفطرۃ کو اپنے ماننے والوں کی ایک آزمائش کے طور پر استعمال کررہا ہے ۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ خدائی احکامات کے نظریے (اخلاقیات مکمل طور پر خدا کے احکامات پر  مبنی ہیں ، اخلاقی طور پر  درست/ غلط وہی ہے جسے خدا کہے ) کے مطابق یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، تاہم اسکو اس سے ہٹ کر بھی دیکھیں تو واضح ہوگا کہ خدا یہاں ناجائز طور پر اہل الفطرۃ کا استحصال نہیں کررہا ہے (انسان سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور انہی رشتوں میں آزمائے جارہے ہیں )۔ کانٹ کا انسانیت کا ضابطہ لوگوں کو بطور وسیلہ استعمال کرنے کی ممانعت نہیں کرتا بلکہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ہمیں محض اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انسانوں کا استحصال نہیں کرنا چاہیے۔ Johnson, 2016, para. 45)۔

دوسرے مفروضے کا ایک جائزہ اور تبصرہ

اس بات پر اصرار کرنا کہ خدا کی اکملیت فوری داد رسی کے عمل کا تقاضا کرتی ہے تاکہ معاملات کو ایک مثالی حالت میں لایا جا سکے ، ایک بہت بڑا دعوی ہے۔ جب اسے خدا کی تمام صفات پر مستقل طور پر لاگو  کیا جائے تو  یہ خدا کو اس کے ارادہ کے مطابق عمل کرنے سے محروم کر دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر کیا ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ خدا کا “بالکل منصف ہونا” اس بات کو لازم کرتا ہے کہ خدا گناہ کرنے والے کو فورا پکڑلے ؟ شاید ہی کوئی عالم دین اس بات سے اتفاق کرے۔ تو جب خدائی محبت کی بات ہو تو ایسے مطالبات کیوں کیے جاتے ہیں؟

محبت کی خدائی صفت کے متعلق شیلن برگ کا نقطہ نظر ، خدا کی محبت کو دوسری صفات (جیسے قدرت کاملہ، حکمت وغیرہ) پر حاوی کرتا اور انہیں محدود کردیتا ہے۔ سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ خدا اتنا طاقت ور اور عقلمند کیوں نہیں ہوسکتا کہ کسی ایسی دنیا کو وجود بخشے، جس میں کچھ لوگوں کو امتحان سے آزمایا جائے، اور اسی ٹیسٹ میں کچھ لوگ عارضی طور پر بغیر رہنمائی کے بھی رہ جائیں ؟ یہ کیسے ناممکن ہے کہ خدا کی طرف سے رہنمائی میں عارضی معطلی کی اجازت، خدا کا اپنی مخلوق کے امتحان کے کامل منصوبے کی ترتیب کا ایک حصہ ہو؟  ؟ شیلن برگ کا مفروضہ اولین یہ ہے کہ ایک بار جب کافر غیر مزاحم قرار پاتا ہے ، تو اس کا لازم مطلب یہ ہونا چاہئے کہ یہ خدا کے لئے ایک مثالی اور مطلوبہ وقت ہے کہ وہ اس کافر کے ساتھ تعلق قائم کر کے اس کی رہنمائی کرے۔ لیکن یہ کس کے لئے مثالی ہے؟ خدا کے لئے تو یہ مناسب نہیں ہو گا جس نے تمام انسانوں کو اخلاقی خودمختاری دے کر   آزمانا ہو ۔مثالی تو وہ ہوگی جو اسی انداز میں رونما ہو جس طرح ہونا اسکے لیے پہلے سے طے شدہ تھا۔      لیکن کیا ہوگا اگر انسانوں کی تخلیق کا مقصد ان کو معقول اخلاقی آزادی فراہم کرکے امتحان لینا ہو جس کے نتیجے میں ایسے لوگ بھی وجود میں آئیں جن تک اسباب کی دنیا میں خدا کی رہنمائی انسانوں کے ذریعے ٹھیک سے نا پہنچ سکے ؟ شیلنبرگ نے کامل محبت کے مضمرات میں مبالغہ آرائی کے ذریعے خدا کے کمال کو بلند دکھانے کے لیے      خدا کی قدرت کاملہ اور کام کرنے کی صلاحیت کو مجروح کیا ہے جبکہ   یہ قدرت اور صلاحیت  نہ تو منطقی طور پر ناممکن ہے اور نہ ہی ظاہری طور پر اس کی الہی قدرت کے منافی ہیں۔

 شیلن برگ کا خیال ہے کہ اس کا کامل محبت کرنے والے خدا کا تصور دوسروں سے “اعلی” ہے۔ جبکہ کوئی یہ استدلال کرسکتا ہے کہ شیلن برگ کے خدا کے تصور سے خدا کا ایک کمتر خیال تصور میں آتا ہے جس کی قدرت کاملہ کو گھٹایا جا رہا ہے۔

خلاصتاً،شیلن برگ کی دلیل کی عمارت کی مضبوطی میں کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے : کہ کسی غیر مزاحم شخص کا خدا کے ساتھ رشتہ سب سے بڑی اچھائی ہے، جو دوسری تمام اخلاقی اچھائیوں سے برتر ہے ، اور یہ کہ خدائی کمال لازم کرتا ہے کہ ایک “مثالی” حالت کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے فوری عمل کیا جائے۔

.

خلاصہ :

ڈی ازم /مظاہر پرستی خدا کی قدرت کی نفی کرتی ہے اور نتیجتاً، خدا کی طرف سے وحی کے تصور کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ میں نے مظاہر پرستی پر تین تنقیدیں کیں۔ پہلی میں ، میں نے یہ ظاہر کیا کہ خدا کی حکمت کی صفت کے پیش نظر مظاہر پرستی کا موقف نا معقول ہے ، کیونکہ خدائی حکمت کا تقاضا ہے کہ  کوئی بھی   کسی مخصوص مقصد کے تحت ہو اور یہ خدائی قدرت کی مظاہر پرستانہ نفی سے موافقت نہیں رکھتا ہے۔ میری دوسری تنقید میں ، میں نے یہ استدلال کیا کہ خدا کی دنیاوی عدم مداخلت اس کی صفت احسان کی تصدیق کرنے سے متصادم ہے۔ میں نے ان مظاہر پرستوں پر بھی تنقید کی جو یہ دلیل دے کر خدا کی بھلائی کی توثیق نہیں کرتے ہیں کہ اس سے ان کو اپنے ناپسندیدہ مذہبی انتخاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی تیسری تنقید میں ، میں نے خدائی وحی کی اہمیت پر روشنی ڈالی تاکہ مظاہر پرستوں کے اس دعوی کی حقیقت واضح کی جاسکے کہ وحی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے بعد ، میں نے مظاہر پرستی کے حق میں دو دلائل کی تردید کی۔ پہلی دلیل اس سے متعلق ہے کہ آیا معجزات ممکن ہیں ، اور میں نے یہ ثابت کیا کہ معجزات نہ صرف منطقی طور پر ممکن ہیں بلکہ قابلِ وقوع ہیں۔ دوسری دلیل خدائی پوشیدگی کی دلیل ہے ، اور میں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے اہم بنیادی مفروضے انتہائی متنازعہ اور لایعنی ہیں۔

مقالہ : بسام زوادی، اردو ترجمہ : علی ایمن رضوی