کچھ عرصہ پہلے ایک فیس بک مفکر قاری حنیف ڈار صاحب نے اپنی ایک پوسٹ میں یہ دعوی کیا کہ داعش وغیرہ جیسی دہشت گرد جماعتوں پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے گہرے فکری اثرات ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اپنی فکر میں خوارجی تھے اور یہ جماعتیں بھی خوارجی فکر کی حامل ہیں۔
اس پرڈاکٹر محمد زبیر ، پروفیسر کامسیٹ یونیورسٹی لاہور کا تبصرہ پیش ہے، ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
میرے پاس ایک نوجوان آیا، کوئی سترہ سال اس کی عمر ہو گی، آتے ہی کہنے لگا کہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں، مجھے بتائیں کیسے کروں؟ اور اس کا جذبہ ایسا تھا کہ جیسے اب گھر جانے کی بجائے میدان جہاد میں ہی جائے گا۔ میں اس وقت قاری حنیف ڈار صاحب کے لیول کا مفکر تھا، فورا ہی اس کا ذہن پڑھ لیا کہ یہ کہیں سے طالبان کا لٹریچر پڑھ کر آیا ہے۔ میں نے کہا: بھئی، کن چکروں میں پڑ گئے ہو، یہ ٹی ٹی پی کے لوگ غلط ہیں۔ وہ نوجوان سنجیدگی سے پوچھنے لگا کہ یہ ٹی ٹی پی کون ہے؟ میں نے کہا: طالبان، اس نے پوچھا: طالبان کون ہیں؟میں نے سوچا کہ یہ کسی کشمیری جہادی تحریک کے لٹریچر سے متاثر ہوا ہے لہذا جہادی تحریکوں کے نام لینا شروع کر دیے۔ لیکن حیران کن بات تھی کہ وہ نوجوان کسی جہادی تحریک سے واقف نہ تھا۔ میں نے تنگ آ کر کہا: بھئی، کہاں سے جہاد کے لیے اتنے موٹیویٹ ہو گئے ہو؟ نوجوان نے کہا کہ میرے گھر میں حدیث کی ایک کتاب تھی، جس میں جہاد کے فضائل پر حدیثیں تھیں، میں نے وہ پڑھی ہیں اور آپ کے پاس آ گیا ہوں، میں اللہ کے رستے میں شہید ہونا چاہتا ہوں لیکن مجھے کچھ پتہ نہیں ہے کہ میں نے کیسے شہید ہونا ہے؟
اسی طرح ایک اور نوجوان بہت ہی جذبہ تھا اس میں، میں نے پوچھا کہ اتنا جذبہ کہاں سے ملا آپ کو؟ کہنے لگے کہ نسیم حجازی کے ناولوں سے۔ میں شک میں ہی رہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ لیکن جس نے نسیم حجازی کے ناول پڑھے ہو تو اسے معلوم ہے کہ یہ ممکن ہے۔ ہمارے ایک دوست کو پولیس والے اٹھا کر لے گئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو کیوں لے گئے تھے۔ انہوں نے بتلایا کہ میں دار السلام کی کتابیں بیچتا ہوں۔ میں نے کہا: دار السلام کی کتابوں میں ایسا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بعض دہشت گرد پکڑے گئے ہیں، ان کے پاس سے دار السلام کی کتابیں برآمد ہوئی ہیں۔ میں نے سوچا کہ دہشت گردوں کے پاس تو قرآن مجید بھی برآمد ہوتا ہے تو یہ لوگ خدا کو کیوں نہیں پکڑتے؟ یہاں ان کی ساری سمجھداری ختم ہو جاتی ہے۔
اب ہم آپ کو نکتے کی بات بتلانا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص 1949ء میں نسیم حجازی کے لکھے گئے ناول کو پڑھ کر دہشت گرد بن جاتا ہے تو اس میں کمال نسیم حجازی کا نہیں، دہشت گرد کا ہے۔ یہ بات لسانیات میں معاصر دنیا کا ذہین ترین فرنچ فلسفی کہہ رہا ہے کہ جسے لوگ دریدہ Derrida کے نام سے جانتے ہیں کہ جس نے ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری دی جو پوسٹ ماڈرن ازم کی بنیادی بنی۔اس تھیوری کے مطابق آج کے دور میں مصنف مر چکا ہے۔ تحریر مرتب کرنے کے بعد مصنف کا رشتہ تحریر سے ختم ہو جاتا ہے اور اب قاری اور ریڈر کے اوپر ہے کہ وہ اس تحریر سے کیا نتائج اخذ کرتا ہے۔ اور قاری اور ریڈر اس تحریر سے جو بھی نتائج اخذ کرے گا تو وہ درست ہوں گے۔ ہر تحریر کا ایک بنیادی اسٹرکچر ہوتا ہے، اس اسٹرکچر کی روشنی میں اس تحریر سے جو نکلے، نکال لو، چاہے وہ مصنف کی منشا ہو یا نہ ہو۔ پہلے یہ کام شاعروں کے ساتھ ہوتا تھا کہ ان کے شارحین ان کے کھاتے میں وہ باتیں بھی ڈال دیتے جو ان کی مراد نہ ہوتی تھیں اور اب سب سے زیادہ یہ کام مذہبی لٹریچر کے ساتھ ہو رہا ہے۔
دریدہ کی تھیوری استعمال کی جائے، اور اگر آپ ذہین ہوں تو آپ قاری صاحب کی تحریر سے ابو بکر بغدادی کی فکر نکال سکتے ہیں۔ ان بے وقوفوں کو کیا پتہ کہ لفظ ایک سمندر ہے کہ جس سے جو چاہیں نکال سکتے ہیں، لیکن بندہ ذہین ہونا چاہیے۔ پس آتھر، اتھارٹی ہے، میں زندہ ہوں، مر نہیں گیا۔ میری تحریر سے اگر کوئی ایسا مطلب نکالتا ہے جو کہ میری مراد نہیں تھی، تو میں ہر گز یہ حق نہیں دوں گا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی زندہ ہیں، اپنے شاگردوں کی صورت میں، ان کی تحریر کا وہ مطلب جو کبار علماء کو سمجھ آیا ہے، ان علماء کو سمجھ آیا جو اپنی سند ابن تیمیہ رحمہ اللہ تک پہچانتے ہیں، وہی ان کی تحریر کا مطلب ہے، نہ کہ وہ جو قاری حنیف ڈار کو سمجھ آیا ہو یا دہشت گرد کو۔ہمارے استاذ مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب نے اپنے استاذ شیخ محمد بن عطیہ السالم، انہوں نے اپنے استاذ شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل باز، انہوں نے اپنے استاذ شیخ عبد الحق ہاشمی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ احمد بن عبد اللہ بن سالم بغدادی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوھاب، انہوں نے اپنے استاذ اور دادا شیخ محمد بن عبد الوھاب، انہوں نے اپنے استاذ شیخ عبد اللہ بن ابراہیم مدنی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ عبد القادر التغلبی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ المحدث عبد الباقی، انہوں نے اپنے استاذ احمد بن مفلح الوفائی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ احمد بن موسی الحجاوی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ احمد بن محمد المقدسی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ احمد بن عبد اللہ عسکری سے، انہوں نے اپنے استاذ شیخ علاؤ الدین مرداوی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ ابراہیم بن قندس البعلی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ ابن اللحام، انہوں نے اپنے استاذ شیخ ابن رجب الحنبلی، انہوں نے اپنے استاذ شیخ ابن قیم الجوزیہ، اور انہوں نے اپنے استاذ شیخ امام ابن تیمیہ سے علم حاصل کیا۔ ایسی سینکڑوں اسناد کے بعد بھی کوئی بے وقوف یہ کہہ سکتا ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو کوئی جانتا ہی نہیں تھا؟
قاری حنیف ڈار صاحب کی اس پوسٹ پر جناب مولانا عمارخان ناصر صاحب جو جاوید احمد غامدی کےسکول آف تھاٹ سےبھی نسبت رکھتے ہیں’نے بھی تبصرہ کیا ۔عمار خان ناصر لکھتے ہیں:
“میرے خیال میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی فکر پر اس طرح کے sweeping تبصرے علمی طور پر درست نہیں۔ ابن تیمیہ اور اسی طرح کسی بھی صاحب فکر کی دینی فکر کو براہ راست اور خود ان کے اپنے پورے فکری تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ مجھے کبھی اس تاثر سے اتفاق نہیں ہو سکا کہ موجودہ تشدد پسندی کو فکری بنیادیں فراہم کرنے کی ذمہ داری ابن تیمیہ رحمہ اللہ یا ماضی قریب میں مولانا مودودی علیہ الرحمہ پر عائد ہوتی ہے۔ بارہا عرض کر چکا ہوں کہ تشدد پسند ذہن کسی بھی حلقہ فکر سے تعلق رکھتا ہو، وہ اپنی پسند کے فکری اجزا اسی فکر میں سے چھانٹ کر حسب منشا اانہیں اپنے ذہنی سانچے میں ڈھال سکتا ہے۔
حالت جنگ میں آدمی اپنے کافر والد کو، جو دشمن کی صف میں کھڑا ہو، قتل کر سکتا ہے یا نہیں؟ یہ سوال نہ تو پہلی مرتبہ ابن تیمیہ نے اٹھایا اور نہ اس کے اثبات میں جواب پہلی مرتبہ انھوں نے دیا۔ یہ تو قدیم ترین فقہی سوالات میں سے ہے جس کے جواب میں ایک فقہی رائے کو ابن تیمیہ نے بھی ترجیح دی ہے۔ اب گھر بیٹھے بغیر کسی وجہ کے کوئی شخص اپنے کافر باپ کو قتل کر دے تو اس کا فکری شجرہ نسب ابن تیمیہ سے جوڑنا بہت ہی عجیب طرز استدلال ہے”۔