پیچھے بیان ہو چکا، لبرلزم کی تعریفات میں جانا ایک نصابی عمل academic work ہے اور کچھ فلسفیانہ بحثوں کے اندر کھو جاتا ہے۔ عوام تو کیا خواص بھی محض تعریفات سے اِس مسئلہ میں کسی عملی نتیجے tangible result پر پہنچنا آسان نہیں پاتے۔ یہ وجہ ہے کہ ’لبرلزم‘ کے راگ خوب الاپے جا رہے ہیں لیکن یہ ہے کیا بلا، یہ نہ یہاں کا کوئی سیاستدان آپ کو بیان کر کے دے رہا ہے اور نہ تقریباً کوئی دانشور۔ اس کی وضاحت میں جو کچھ باتیں بیان کر کے دی جا رہی ہیں، افکار کی دنیا سے واقف ہر شخص جانتا ہے وہ کوئی لبرلزم کی حقیقت کا بیان نہیں بلکہ نری ایک سیلزمین شپ ہے۔ یعنی گاہک بنانے کا عمل۔
ایک ابہام نہایت واضح ہے۔ اِس کے پیش رَو آنجہانی کمیونزم یا سوشل ازم وغیرہ کے برعکس، لبرلزم کے حمایتی یہاں دو اور دو چار کی طرح اپنا مطالبہ قوم کے سامنے نہیں رکھ سکتے۔ یا پھر ایسا کرنے سے کنی کتراتے ہیں۔ ہرگز واضح نہیں ہوتا کہ یہ لوگ اِس قوم سے ایگزیکٹ لی exactly کیا چاہتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ وہی ہے جو ہم نے بارہا بیان کی۔ اِس کا پھن اپنے وقت پر باہر آتا ہے اور اس کےلیے ماحولیاتی نرغہ environment control بےحد ضروری ہے۔ ہے البتہ یہ پھن۔ یعنی صاف کفر۔ ارتداد کی کھلی دعوت۔ بلکہ ایسی کھلی دعوت کہ ایک جدت پسند سے جدت پسند بھی، جو اسلام کےلیے ذرہ غیرت رکھتا ہے، اسے سن کر آگ بگولہ ہو جائے۔ ایسی مبہم دعوت کے مقابلہ پر، جو حالیہ مرحلہ میں صرف گراؤنڈ تیار کر رہی ہے، آپ کو پیش بند pre-emptive ہو کر ہی عمل کرنا ہوتا ہے۔ یعنی قبل اس کے کہ وہ اپنا ڈنگ ہی باہر لے آئے اور تب اس کے سدِّباب پر بہت دیر ہو چکی ہو، آپ کو بلاتاخیر اس کی سری کی نشاندہی کرنا ہوتی ہے۔ قوم کی اصل خدمت اور اصل تحفظ یہ ہے۔ لبرلزم کے اصل مفہوم کی بابت یہ ابہام، خواہ کسی بھی سبب سے ہو، حالیہ مرحلہ میں اُس کے حق میں نہایت مفید جا رہا ہے اور ہمارے حق میں شدید نقصان دہ۔ اِس ترتیب کو اُس پر الٹ دیا جائے تو ابھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمارا بہت کچھ اللہ کے فضل سے ابھی سلامت ہے۔
بآسانی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ اس فکر کے داعی بھی اور اس کے مخالف بھی، اس کی حقیقت کا کوئی واضح بیان کیے بغیر ہی، فی الوقت اس کی حمایت یا اس کی مخالفت کی کارروائی انجام دے رہے ہیں۔ یہ بلاوجہ نہیں۔ اس کی تعریفات واقعتاً ایک فلسفیانہ گورکھ دھندا ہے اور اس میں کوئی جس قدر طویل بات کرنا چاہے اور جس قدر معاملے کو الجھانا چاہے، اس کی گنجائش ہے۔ گو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی تعریفات میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ہم بھی آئندہ کسی نشست میں اس پر کچھ روشنی ڈالیں گے اور اس پر اہل علم کا کچھ کلام نقل کریں گے، ان شاءاللہ۔ تاہم جو ایک فوری اور اہم تر کام ہے وہ یہ کہ اِس دعوت (لبرلزم) کے وہ جوانب چھانٹ دیے جائیں جو سیدھا سیدھا ہمارے پروردگار، ہمارے نبیؐ اور ہمارے دین کے خلاف اعلانِ جنگ ہیں۔ اس کی جانب ہم یہاں کچھ اشارے کر دیتے ہیں:
لبرلزم کی فروخت کنندہ (salesmanship) بھی چونکہ اپنا زیادہ کام مثالوں سے چلاتی ہے، لہٰذا ہم بھی فی الحال مثالوں سے ہی لبرلزم کا مطلب واضح کریں گے۔
لبرلزم کا جو عمومی مفہوم بتایا جاتا ہے وہ ہے آزادی پسندی۔ مگر کس بات سے آزادی؟ اصل چیز جاننے کی یہ ہے۔ کم از کم اپنے سیاستدانوں سے ضرور پوچھئے گا کہ کس چیز سے آزادی؟؟؟ افکار کی تاریخ میں، اور خاص مغربی دنیا کے اندر، لبرلزم کوئی بہت نیا لفظ نہیں ہے۔ جس وقت استعمار colonialism نے آدھی دنیا کو غلام بنا رکھا تھا، ایشیا تا افریقہ گورے نے قوموں کو زنجیروں میں جکڑ اور ان کے وسائل کو ایک غیر اختتام پزیر کَش لگا رکھا تھا اُس وقت بھی یہ لفظ مغربی دنیا میں خوب جپا جاتا تھا۔ تو کیا اُس وقت جب آدھی دنیا سرکاری طور پر officially مغرب کی غلام تھی، کسی نے لبرلزم کا یہ مطلب بھی لیا تھا کہ یہ تیسری دنیا کو استعمار سے آزادی دلوانے کی کوئی سرگرم تحریک ہے؟ یا کم از کم، تیسری دنیا میں استعمار سے آزادی کےلیے چلنے والی تحریکوں کی حمایت ہی ہے؟ نہیں۔ نہ اُس وقت نہ اب۔ آج بھی؛ کشمیر میں بھارتی مظالم سے آزادی کےلیے جو تحریک چل رہی ہے، یا فلسطین میں صیہونی درندوں سے، یا چیچنیا میں روسی وحشیوں سے آزادی کےلیے جو تحریک چل رہی ہے، لبرلزم کا مطلب کیا ایسے کسی عمل کی تائید کرنا ہے؟ نہیں۔ اِس ’آزادی پسندی‘ کا یہ حوالہ ہی نہیں۔ (ہمیں خوشی ہوگی اگر ہمارے لبرلسٹ ان پسی ہوئی قوموں کے حقِ خوداختیاری کےلیے کبھی وہ سچا درد ظاہر کریں جو وہ ہمیں آزاد کرانے کےلیے صبح شام ظاہر فرماتے ہیں! مگر ہم جانتے ہیں، پسی ہوئی قوموں کا درد ’’لبرلزم‘‘ کا کوئی حوالہ ہی نہیں)۔
پس یہ ’’آزادی پسندی‘‘ مطلق نہیں۔ اس کا تعلق دراصل طرزِزندگی اور بود و باش سے ہے۔ سیاست میں بھی لبرلزم اپنے باقاعدہ مباحث اور ابواب رکھتا ہے؛ اس کے باوجود غلام قوموں کو کسی عالمی یا علاقائی استعمار سے ’’آزادی‘‘ دلوانا لبرلزم کا موضوع نہیں! اِس ’آزادی‘ کی دراصل کوئی اور ہی جہت ہے اور وہ کسی قدر مبہم ہے!
گو ایک مسلمان کےلیے وہ مبہم نہیں ہے۔ اس کی تفصیل ذرا آگے آئے گی۔
آخر کس چیز سے آزادی؟
بادشاہوں سے؟ چرچ سے؟ وہ آزادی تو صدیوں پہلے لی جا چکی۔ کم از کم یورپ میں تو یہ مسئلہ سرے لگ چکا۔ صدیوں سے دُوردُور تک کہیں بادشاہوں کا راج یا چرچ کی حکمرانی نہیں پائی جاتی۔ اس کے باوجود ’’لبرلزم‘‘ کا عمل جاری ہے! خود مغرب میں لبرلزم کےلیے مسلسل تگ و دو ہوئی ہے اور آج تک جاری ہے۔ بلکہ دست بدست جنگ ہو رہی ہے۔ ابھی آگے چل کر ہم مغرب میں لبرلزم کی کچھ تازہ ترین کامیابیوں کی طرف اشارہ بھی کریں گے؛ جس سے آپ کو اِس مخلوق کا کچھ سر پیر نظر آئے گا کہ اس ’آزادی پسندی‘ کا اصل ریفرنس ہے کیا۔ حق یہ ہے کہ لبرلزم کا اِبہام مثالوں سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔
غرض یہ آزادی پسندی اس معنیٰ میں کہ یہ بادشاہت یا چرچ کی حکمرانی سے جان چھڑانے کی کوئی تحریک ہو، یورپ میں صدیوں پہلے کبھی ہو گی، مگر اب نہیں ہے۔ بادشاہت یا چرچ کی حکمرانی کا عرصۂ دراز سے وہاں نام و نشان نہیں۔ مگر لبرلزم کی تحریک ہے کہ مغرب میں اب بھی ’جدوجہد‘ struggle کیے جاتی ہے؛ مسلسل عازمِ سفر! ایک کشمکش tussle ہے کہ ختم نہیں ہوتی۔ ہے یہ آج بھی ’آزادی پانے‘ کی تحریک! ’لبرٹی حاصل کرنے‘ کی کوشش! سوال یہ کہ کس سے؟ جہاں ہر طرف جمہوریت کا دور دورہ ہے اور خود اس جمہوریت کی حفاظت لبرلزم کی سب سے بڑی ترجیح ہے، وہاں کس سے آزادی پانے کی ایسی ہوش رُبا تگ و دو ہو رہی ہے؟ اندازہ تو کیجئے، ہر شخص کو ’لبرل‘ ہو جانے کی ترغیب۔ اور ’لبرل‘ نہ ہونے کا طعنہ۔ یہاں تک کہ لبرل ہوتے ہوئے ’زیادہ لبرل‘ نہ ہونے کا طعنہ! آخر کہاں تک جانا چاہتے ہیں!؟ کیا یہ غورطلب نہیں: جہاں بادشاہت یا چرچ کی حکمرانی دُوردُور تک نہیں، اور نہ وہاں پر کوئی بادشاہت یا چرچ کا راج واپس لانے کی تحریک چلائے ہوئے ہے، اُس مغرب میں پائے جانے والے انسان آج بھی ’لبرل‘ اور ’غیرلبرل‘ میں تقسیم ہوتے ہیں! ماجرا کیا ہے؟ لبرلزم کا مطلب اگر آزادی پسندی ہے تو اِس ’آزادی‘ کا ایگزیکٹ exact حوالہ آخر ہے کیا؟
جہاں تک بادشاہت سے آزادی کی بات ہے تو عقیدۂ لبرلزم اِس باب میں ’جمہوریت‘ سے آگے کچھ نہیں دیکھتا (جمہوریت سے بڑھ کر اس کی کچھ طلب نہیں ہے)۔ اور وہ جمہوریت ظاہر ہے اسے پوری طرح حاصل ہے۔ جمہوریت سے واپسی کی کوئی تحریک بھی مغرب میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ نہ ہی بادشاہت کے کوئی آثار یا باقیات ایسے ہیں جو لبرلزم کےلیے کسی ادنیٰ پریشانی کا باعث ہوں۔ جمہوریت کو وہاں کوئی مزاحمت درپیش نہیں۔ ]سوائے ایک مزاحمت کے؛ جسے جمہوریت کے خلاف مزاحمت نہیں بلکہ جمہوریت پر قبضہکہنا چاہئے؛ یعنی عالمی سرمایہ داری (کارپوریٹ سیکٹر) کے ہاتھوں جمہوریت کا یرغمال ہونا؛ اس حد تک کہ دو پارٹی سسٹم والے ممالک میں وہ پوری پوری پارٹی پر لانگ ٹرم سرمایہ کاری کرتی اور پیسے کی زبان سے اسے اپنی رمزیں سمجھنے کی کھلی ترغیب دلاتی ہے۔ مگر آپ جانتے ہیں یہ (جمہوریت کا سرمایہ داری کے ہاتھوں یرغمال ہونا، جوکہ جہانِ حاضر کی برہنہ ترین حقیقت ہے) ہرگز ہرگز لبرلزم کی پریشانی نہیں۔ نہ ہی یہ (جمہوریت کا سرمایہ داری کی کنیز بن کر رہنا) لبرلزم کا نعرہ لگانے والوں کےہاں مقصود ’آزادی پسندی‘ کا دُوردُور تک کوئی ریفرنس ہے۔ بلکہ جمہوریت کو کارپوریٹ سیکٹر کی باندی بنا کر رکھنا بجائےخود لبرلزم کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد ہے؛ اور وہ مقصد بدرجۂ اتم پورا ہو بھی رہا ہے۔ بہرحال کسی بھی لبرلسٹ کا اشارہ مغرب میں ’’لبرلزم‘‘ کا شور الاپتے وقت اِس (کارپوریٹ سیکٹر کی جمہوریت میں دخل اندازی اور اس کے حَرَم کی پامالی) کی جانب کبھی نہیں ہوتا۔ اِس پر کوئی بھی ہمارے ساتھ اختلاف نہیں کر سکتا[۔ پس جمہوری حوالہ سے تو یورپی انسان کو ’لبرل‘ اور ’غیر لبرل‘ میں تقسیم کرنا لایعنی ہے۔ لہٰذا بادشاہت بمقابلہ جمہوریت کا ریفرنس تو سرے سے غیرمتعلقہ ہوا۔مگر آپ جانتے ہیں یورپ کا انسان ’لبرل‘ اور ’غیر لبرل‘ میں بہرحال تقسیم ہوتا ہے۔ لامحالہ اس کا ریفرنس کوئی اور ہے۔ اور یہاں سے؛ معاملہ دلچسپ ہو جاتا ہے!
پس بادشاہت یا حتیٰ کہ اس کے باقیات تو سو فیصد غیرمتعلقہ ہوئے۔ ’جمہوریت‘ کے حوالے سے اگر فکرمندی وہاں ہے بھی تو اس کے سرے کسی ’اور‘ طرف کو جاتے ہیں۔ یعنی ’جمہوریت‘ نہیں بلکہ ’’جمہور‘‘ جنہیں ایک خاص ڈھب پر چلانا اور سدھانا لبرلزم کی ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ ’جمہوریت‘ بھی ہو تو وہ اپنے اصل ثمرات درحقیقت یہاں سے دے گی۔ (ایک بہت پتے کی بات؛ ہمارے لیے بھی اور اُن کےلیے بھی!)۔ یہاں سے؛ ’جمہوریت‘ کا اصل حوالہ بھی ردِّ بادشاہت نہیں رہا۔ کسی زمانے میں ایسا ہو تو ہو، اب دُوردُور تک ایسا نہیں۔ ’جمہوریت‘ کا اصل حوالہ بھی اب عرصۂ دراز سے کچھ اور ہے۔ اِس جانب ہم ذرا آگے چل کر آتے ہیں۔
رہ جاتا ہے چرچ۔ جس سے آزادی لیے زمانے گزر چکے۔ اور وہ واقعہ تو چند سال میں رونما ہو گیا تھا۔ مگر چرچ کے باقیات سے آزادی قیامت تک لی جاتی رہے گی۔ ہاں وہ باقیات اتنی آسانی سے انسانی نفس یا انسانی سماج کی جان چھوڑنے والے نہیں۔ یہاں ہے اصل کہانی۔ اس کےلیے مسلسل ’جدوجہد‘ struggle اور تگ و دَو fight ہو گی! ’’لبرلزم‘‘ کا واحد ممکنہ حوالہ یہی رہ جاتا ہے!
وہ بہت کچھ جس کا تعلق بظاہر ’’چرچ کے باقیات‘‘ سے نظر نہیں آتا، غور کرنے پر اسی کے ساتھ ملحق ہو جاتا ہے۔ ’’فرد‘‘ کو نمایاں کرنا اور ریاست کا کردار اس کی زندگی میں کم سے کم کرنا بظاہر ’’چرچ کی باقیات‘‘ والے مسئلہ سے متعلقہ نہیں؛ اور جوکہ لبرلزم کا ایک نمایاں پوائنٹ ہے۔ لیکن غور کیجئے تو ’فرد کی مرکزیت‘ ہیومن ازم کی پکار ہے، یعنی انسان کی خدائی؛ جس کا ظہور چرچ کے خدا کو سماج بدر کروانے کے بعد ہی ہو سکا ہے۔
اصل پوائنٹ آ چکا۔ اِس کی وضاحت میں اب ہم آگے چلتے ہیں۔
یورپ کی تاریخ میں چرچ کی حکمرانی، ایک درجہ میں جا کر محض ایک تعبیر رہ جاتی ہے۔ پوپ اور پادریوں کا اختیار کتنا بھی کڑا ہو، چرچ کی سیادت supremacy of the Church کے ساتھ یورپ کی تاریخ میں ایک طرزِبودوباش بھی بہرحال جڑا ہوا ہے۔ اِس (طرزِبودوباش) میں چرچ کا اپنا بھی کچھ حصہ ہو گا مگر دیگر بہت سے تاریخی عوامل بھی اس کے پیچھے کارفرما رہے ہیں۔ شرم، حیاء، اخلاق، قدریں بہرحال ان سب روایتی معاشروں کی گھٹی میں پڑی رہی ہیں جوکہ ہمارے نبیﷺ کی ایک حدیث کی رُو سے فی الحقیقت انبیاء کی باقیات ہیں۔ اِن اشیاء کو بظاہر آپ مغرب میں ’چرچ کی باقیات‘ کے نام سے جانتے ہوں یا گنگا و جمنا کی وادی میں ’ہندو سماج کی باقیات‘ کے تحت یا کسی اور خطے میں کسی اور نام سے۔ مگر یہ وہ چیز ہے جو ایک جانب انسان کی فطرت میں کچھ خاص طور پر بٹھا رکھی گئی تھی اور دوسری جانب وحی کی موسلادھار بارش سے ہر ہر خطے میں اس کو سیراب کر کےایسی گھنی کھیتی بنا دیا گیا کہ ہزاروں سال تک یہ بنی نوعِ انسان کےلیے ایک آفاقی حوالہ universal truth بنی رہی۔ شرم، حیاء، اخلاق، قدریں خدائی منصوبے میں کوئی ایسی چیز رہی ہیں کہ زمانے گزرنے کے ساتھ ان بستیوں کی ہر ہر چیز ہلی، ان کی ہر ہر دیوار گری، یہاں تک کہ ان قوموں کی توحید درہم برہم ہوئی، مگر ’’فطرت‘‘ کا یہ جزء اور ’’انبیاء کی یہ باقیات‘‘ خاصی حد تک سلامت رہیں اور برس ہا برس گزر جانے کے باوجود یہ بنی نوعِ انسان پر حاکم رہیں۔ شرم، حیاء، اخلاق، قدریں مشرق تا مغرب اِن معاشروں پر برابر راج کرتی رہی ہیں؛ یہاں تک کہ یہ انسان کا جزوِلاینفک باور کر لیا گیا تھا۔ ہزارہا سال معاملہ جوں کا توں رہا؛ کسی ’انقلاب‘ نے کبھی اِس کو چھیڑنے کی جرأت نہ کی۔ یہ روسیاہی قربِ قیامت خدا نے ایک خاص تہذیب کے نام لکھ رکھی تھی کہ ’’فطرت‘‘ کا وہ دائمی و ابدی جزء اور ’’انبیاء کی وہ باقیات‘‘ جنہیں نظریاتی و شعوری سطح پر چیلنج کرنے کی ہمت (سوائے ایک محدود سے دائرے میں قومِ لوط کے) دنیا کی کسی قوم اور کسی تہذیب کو پوری تاریخِ انسانی میں نہ ہوئی، اُسے اِس قوم نے پورے دھڑلے کے ساتھ اور خم ٹھونک کر چیلنج کیا۔ ادب، کلام اور فن art کی ہر صنف میں اس کا ٹھٹھہ کیا۔ اور ہر حد پار کی۔
اِس ’’فطرت‘‘ اور ’’باقیاتِ انبیاء‘‘ کو یہ بالعموم اپنے ’چرچ‘ اور ’ڈارک ایجز‘ سے جوڑتے ہیں؛ ورنہ اس کی اصل حقیقت ہم ذکر کر چکے۔ اس کی جڑیں بلاشبہ آسمانی رسالتوں تک جاتی ہیں۔ چرچ وغیرہ نے اس میں کچھ افراط و تفریط کیا ہو تو الگ بات ہے؛ اور اگر ایسا کچھ کیا ہو تو اس پر چرچ کا دفاع ہرگز ہمارا مقصود نہیں۔ چرچ کی لٹھ ماری ویسے اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ بلاشبہ ایک قوم کو کسی فتنہ اور آزمائش تک پہنچانے کےلیے خدائی تدبیر میں ہزاروں صورتیں ہوتی ہیں۔ اور خدا کی خدا ہی جانے۔ قصہ کوتاہ، یورپ کا اُن آسمانی قدروں کے خلاف، جنہیں کوئی بدترین سے بدترین جاہلیت چیلنج نہ کر سکی تھی، ایک منظم ترین شعوری بغاوت کرنا… ’آزادی پسندی‘ کا سب سے واضح حوالہ دراصل یہ ہے۔ خدا کو، اور اُس سے وابستہ ایسی قدروں کو جنہیں تاریخِ انسانی کی کوئی بھی جاہلیت نہ مٹا سکی، بلکہ اُس کے آگے حیاء سے کبھی آنکھ نہ اٹھا سکی… اُس خدا کو اور اُس سے وابستہ قدروں کو انسانی سماج سے اِس جرأت اور دیدہ دلیری کے ساتھ دیس بدر کرنا کہ اچھےاچھے ایمان والے اس پر ہل کر رہ جائیں کہ خدایا ایسا ہو جانے پر آسمان کیوں نہ گر پڑا اور زمین کیوں نہ شق ہو گئی! یہ ہے ’آزادی پسندی‘ کا اصل حوالہ۔ اِس کو آپ الحاد کہیں تو وہ چھوٹا لفظ ہے۔ الحاد انسان کے ہاں اس سے پہلے بھی پایا جاتا رہا ہے؛ مگر یہ جرأت جو خدا کے آگے اب ہوئی اور اِس بڑی سطح پر ہوئی، اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ اِس کو زندقہ کہیں تو وہ ناکافی ہے۔ کفر کہیں تو وہ کم ہے۔ ایسا درندہ زمین پر اس سے پہلے کبھی چھوڑا ہی نہیں گیا تھا۔ جو چیز اس سے پہلے کبھی زمین پر پائی نہیں گئی، لغتِ انسانی سے آخر اس کو کیا لفظ دیا جائے؟! انسانی زبان یہاں گنگ ہے۔ الفاظ یہاں جواب دے جاتے ہیں۔ بس یہ ایسا کفر ہےجس کی مثال لانے سے تمام روئےزمین اور پوری تاریخِ انسانی قاصر ہے… اور جس کے اندر نبیﷺ کی جانب سے بتلائی گئی قربِ قیامت کی اَن گنت علامات بیک وقت بولتی ہیں۔
اِس حقیقت کا نام ہے لبرلزم۔
حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ