لبرلزم الحاد کی ایک خاص حد کو پہنچے بغیر ادھورا ہے۔ دونوں کے مابین سہولت کاری mutual facilitation معلوم واقعہ ہے۔ کبھی نہ ہو گا کہ ان میں سے ایک معاشرے میں آگے بڑھے تو دوسرا پیچھے رہ جائے۔ ایک ہی کشتی کے دو سوار؛ یہ پار لگیں گے (خدانخواستہ) تو دونوں، اور ڈوبیں گے تو (ان شاء اللہ) اکٹھے۔ لبرلزم کا حتمی نتیجہ یا غایت final destination الحاد ہی ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں، لبرلزم الحاد کا ہراول ہے۔ ایک ایمانی معاشرے پر حملہ آور ہوتے وقت یہ دونوں بڑے طریقے سے آگے پیچھے آتے ہیں۔ ایک کچھ راستہ صاف کرتا ہے تو دوسرے کی پیش قدمی طوفانی رفتار سے ممکن ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسرا جیسے جیسے صورتحال پر حاوی ہوتا ہے پہلے کی پہنچ آگے تک بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک بوتا ہے دوسرا کاٹتا ہے۔ دونوں کے مابین اِس ربط یا اِس ہم آہنگی کی نشاندہی دورِحاضر کے علمائے عقیدہ کے زبان و بیان میں کثرت سے ہوئی ہے۔
لبرلزم کی چھوڑی ہوئی کچھ ’خالی جگہیں‘ ایک معاشرے میں لازماً الحاد کو پُر کرنا ہوتی ہیں۔ یہ کام ایک الگ محور پر ماحول میں خودبخود ہو رہا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ ہو رہا ہے، اگر آپ نظر اٹھا کر صرف دیکھ لیں۔ ایک سیلاب جو آپ کا بہت کچھ بہا لے جانے کو ہے خصوصاً تعلیمی اداروں میں، جو آپ کے مستقبل کا ایک ’سافٹ ویئر‘ یا ایک نقشہ نما ہونا چاہئے۔ کمال تو یہ ہے کہ ہمارے بہت سے فُضَلاء پھر بھی انجان دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصاً وہ اصحاب جن کا اِن تعلیم گاہوں میں روز آنا جانا ہے اور جہاں یہ ایک بھیانک تصویر بچشم سر ملاحظہ فرماتے ہیں۔ پھر بھی یہ اس جوڑ connection کو جو لبرلزم اور الحاد کے بیچ ہے، ابھی تک کچھ لوگوں کا واہمہ سمجھتے ہیں! ادنیٰ تامل سے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ دونوں پراجیکٹس ایک ہی ذہن کی پیداوار ہیں۔ یا ایک ہی پروگرام کی دو مختلف سطحیں۔ حتیٰ کہ ایک جگہ پر جا کر اِن دونوں میں فرق کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ (لبرلزم کی اگر کئی قسمیں ہیں تو الحاد کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ آپ جانتے ہیں ’خدا کے وجود کا انکار‘ الحاد کی کوئی واحد صورت نہیں)۔
لبرلزم اور الحاد کو الگ الگ پیش کرنے کی غیرمعمولی کوششیں ہمارے معاشرے میں بےشک ہیں؛ اور اس کے پیچھے کچھ وسیع و عریض مصلحتیں! آج جو شخص یہاں ’الحاد سے پاک لبرلزم‘ بیچ رہا ہے وہ یا تو مارکیٹنگ کا گھاگ ہے جو مذہبی دنیا میں لبرلزم کے گاہک پیدا کرنے میں لگا ہے (عالم اسلام کی مشکل ترین مہم)۔ یا وہ ایک سادہ لوح شخص جو لبرلزم کی اس گھاگ مارکیٹنگ کے متاثرین victims میں آتا ہے۔ ہاں ان سادہ لوحوں میں ہمارے بہت سے بھائی ہو سکتے ہیں۔ اِن سے ہماری محبت اور اخوت ان شاء اللہ برقرار ہے جب تک یہ روئےزمین کے جملہ انسانوں کو نبی آخر الزمانﷺ کی اطاعت میں آنے کا ’’پابند‘‘ مانتے رہیں۔ جب تک یہ اس ’’پابندی‘‘ کو ’’لازم‘‘ ٹھہرائیں تب تک یہ صحیح لبرلسٹ تو ان شاء اللہ کبھی نہیں ہو سکتے بلکہ اسلام کا یہ معلوم عقیدہ مان کر تو یہ لبرل عقیدہ کے اصل الاصول ہی کے منکر ہوئے(تبھی ہمارا رشتۂ اخوت اِن کے ساتھ برقرار ہے)۔ ہاں اس کے بعد یہ ’لبرلزم‘ کی کیا توجیہ کرتے ہیں جس کی یہ وقتاًفوقتاً تحسین فرماتے ہیں، ہماری باٹم لائن (خدا کی عبادت اور محمدﷺ کی اطاعت کا روئےزمین کے جملہ انسانوں پر ’’فرض‘‘ اور binding یعنی ’’پابندی‘‘ کا موجب ہونا) جب تک اس سے متاثر نہیں ہوتی تب تک وہ ہماری نظر سے ثانوی اہمیت کی بات ہے اگرچہ اِن کی وہ لبرلزم کی توجیہ یا تفہیم کتنی ہی غلط اور لبرلزم کی حقیقت سے کتنی ہی ہٹی ہوئی ہو۔ اس کےلیے ہمارے اصولِ اہل سنت میں ایک بہت رحمدل قاعدہ پایا جاتا ہے: “لَازِمُ الۡقَوۡلِ لَيۡسَ بِقَوۡلٍ”۔ یعنی ایک شخص کی بات سے محض لازم آجانے والی بات کو اس کی اپنی بات قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ اُس (لازم آنے والی) بات کا از خود قائل نہ ہو۔ (اِس رحمدل و مبنی بر عدل قاعدہ کی وضاحت ان شاء اللہ کسی اور موقع پر)۔ بہرحال اِس قاعدہ کی رُو سے ہم اپنے ان لاتعداد بھائیوں کےلیے ایک عذر رکھتے ہیں جو لبرلزم کی کسی دامِ ہمرنگِ زمیں تفسیر Trickery سے متاثر ہو بیٹھے تاہم اپنے اسلامی عقیدے (روئےزمین کے جملہ انسانوں پر محمدﷺ کی ’’اطاعت‘‘ میں آنے اور آپﷺ کی ایک ایک بات کا اعتقادی، عملی، سماجی، قانونی، دستوری،سیاسی ہر ہر سطح پر ’’پابند‘‘ ہونے کو فرض ماننا) سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اِنہوں نے لبرلسٹ کی کسی چکنی چپڑی عبارت پر یقین کر کے اُسے اسلامی عقیدہ کے منافی نہ ہونے کی سند دے ڈالی یا حتیٰ کہ لبرلزم کےلیے کلمۂ خیر بول دیا، جبکہ نبی آخرالزمانﷺ کی رسالت اور آپﷺ کی شریعت کی ایک ایک بات کا یہ بائنڈنگ سٹیٹس ہمارے اِن بھائیوں کے ہاں بحث اور اختلاف سے بالاتر رہا۔ جب تک اِن کا یہ عقیدہ برقرار، یہ ہم سے اور ہم اِن سے، کیونکہ اسلام محمدﷺ کی اطاعت کو واجب جاننے کا نام ہے۔
البتہ خود اس لبرلزم اور لبرلسٹ کےلیے کوئی نرمی رکھنا، جبکہ وہ روئےزمین کے ہر ذی نفس کو محمدﷺ کی اطاعت میں آنے کا پابند نہ مانے اور محمدﷺ کے ٹھہرائے ہوئے حلال کو جملہ انسانوں کے حق میں حلال، حرام کو حرام اور فرض کو فرض نہ ٹھہرائے، نیز اس لبرلزم کے پیچھے چلے آنے والے الحاد سے آنکھیں بند رکھنا جوکہ درحقیقت اس لبرلزم کا تتمہ addendum ہے، ایک باخبر شخص کے حق میں ظلم عظیم ہے۔ شرک کی اس برہنہ دعوت کے آڑے آنا وقت کا ایک فریضہ اور امت کی خیرخواہی کا ایک لازمی تقاضا۔
جیسا کہ ہم دیکھ آئے، لبرل کو دراصل اِس دعوت ہی کے ساتھ پرخاش ہے کہ انسانوں پر اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت اور اطاعت فرض ٹھہرائی جائے، خصوصاً یہ کہ اِس عبادت اور اطاعت کی مفصل صورت جاننے کےلیے اُس کے بھیجے ہوئے رسولوں کا دامن تھامنا لازم اور ان کی ایک ایک بات ماننا اور اس کو دستور ٹھہرانا واجب binding کر رکھا جائے۔ غرض نہ توحید کا لزوم اور نہ رسالت کا۔ بلکہ توحید اور رسالت کے (کرۂ ارض کے ہر شخص کے حق میں) اِس بائنڈنگ سٹیٹس کو منوانے کی دعوت کے ساتھ قدم قدم پر لبرل کا الجھنا۔ خدا کا وہ مرتبہ اور مقام ہی جو آسمانی صحیفوں میں درج اور انسانی فطرت میں کندہ کر رکھا گیا ہے، یعنی اُس کا مطلق لائقِ عبادت اور واجبِ اطاعت ہونا اور اُس کے بھیجے ہوؤں کی ایک ایک بات کو binding (’’پابندی‘‘ کا موجب) ماننا، اس (لبرل) کے ہاں ردّ ہے اور اس کے خلاف تحریک اٹھانا واجب۔
لبرلزم کے متعلق یہ درست نہیں کہ یہ تو صرف مذہب کا بزور نفاذ کرنے کے خلاف ہے، تاہم اگر مذہب کی کوئی بات’’اکثریتی منشا‘‘ majority will کی راہ سے ’’ریاستی قوانین‘‘ میں ڈھلی ہو تو یہاں لبرلزم کو کوئی پرابلم نہیں۔ ایسی بات ہوتی تو لبرلرسٹوں کو پاکستان کے ان قوانین کے ساتھ بھلا کیا مسئلہ ہونا چاہئے تھا جو مذہب سے ماخوذ ہیں اور اکثریت سے پاس ہونے کی تمام شروط اور پروسیجر ’کامیابی‘ سے پاس کر آئے ہیں؟ مگر کسے نظر نہیں آ رہا کہ لبرلسٹ ایجنڈا کی ساری جنگ ہی اُن قوانین کے ساتھ ہے جن کا حوالہ یہاں پر دین اسلام ہے؟ اور کیا لبرلزم کی باتوں میں آیا ہوا ہمارا کوئی اسلامی بھائی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ لبرلزم یا لبرلسٹوں کو یہاں کے اسلامی قوانین کے ساتھ ہرگز کوئی مسئلہ نہیں؟ ساری جنگ تو اِسی ایک نقطے پر ہے! ریاستی قوانین میں پائی جانے والی ایک واضح معلوم ’’اسلامی بات‘‘ کو یہاں جیسے ہی کسی عدالتی یا انتظامی راہ سے ’عملدرآمد‘ کی ہوا تک لگتی ہے، لبرلسٹ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ جیسےہی ریاست کا کوئی نیک اہلکار یہاں ’’دستور‘‘ یا ’’قانون‘‘ میں موجود کسی اسلامی بات کو لاگو کرنے کا عندیہ دیتا ہے یہاں کا لبرل ابلاغ اور دانشور حرکت میں آ جاتا اور ایسے کسی ’’ممکنہ‘‘ عدالتی یا انتظامی اقدام کے خلاف ایک مزاحمتی فضا بنانے لگتا ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے میں ہمارے اِن اسلامی بھائیوں کو آخر کیا مسئلہ ہے جو یہاں کے عام آدمی تک پر عیاں ہے؟ ’’مذہب‘‘ کو یہاں کی قومی اجتماعی سرگرمی سے باہر کرنا، لبرلزم کی یہ واضح انسپی ریشن inspiration آخر کس پر مخفی ہے؟ اور اگر لبرلزم یہ ہے تو ’’اللہ اور رسول کے خلاف محاذآرا‘‘ ہونا آخر کس انسانی رویے کا نام ہے؟
’’اکثریتی منشا‘‘ majority will اور ’’ریاستی قوانین‘‘ state laws کی اطاعت کا حوالہ جو ایک لبرل بیانیہ میں ملتا ہے، مذہب کےلیے وہاں سے کچھ ’گنجائش‘ پانا اور لبرلزم کے ساتھ ایک مشترکہ روٹ پر جا چڑھنا ہمارے ان مذہبی حضرات کی خام خیالی ہے جو لبرلزم کےلیے نیک جذبات کے متمنی ہیں۔ ’’اکثریتی منشا‘‘ majority will اور ’’ریاستی قوانین‘‘ state laws کی اطاعت کا جو حوالہ ایک حقیقی لبرل دیتا ہے، اس کا سیاق اصل میں بالکل اور ہے۔ بےشک اس لبرل بیانیہ میں ایک گونہ تلبیس deception ہے، جسے ’حالیہ مرحلہ‘ میں اس کی مجبوری سمجھیے، اور جوکہ بہت دیر تک شاید اسے لاحق نہ رہے، تاہم اس کی اِن پھسلن سے پُر عبارتوں کے باوجود اگر غور کر لیا جائے تو وہ اِن میں کچھ بہت متناقض inconsistent نہیں ہے۔ لبرلزم کے متعلق ہمارے یہ خوش گمان بھائی جس بات کو نظرانداز کرتے ہیں وہ یہ کہ لبرلسٹ کے ہاں پہلے ریاست کا ایک ’’تصور‘‘ ہے اور وہ ہے دین سے کلی آزاد ریاست۔ اس کے بعد ریاست کا وہ ’’سٹیٹس‘‘ ہے جس کی رُو سے ریاست کے صادر کردہ ’’قوانین‘‘ وہ واحد چیز ہو سکتے ہیں جسے مخلوقِ خدا پر واجب الاتباع ٹھہرایا جائے۔ پس ایک لبرلسٹ جس وقت ریاست کے صادر کردہ قوانین کا اصولی ’’سٹیٹس‘‘ بیان کرتا ہے اس وقت ریاست کا لبرلسٹ ’’تصور‘‘ اس کے ہاں پوری طرح implied ہوتا ہے، جسے وہ ایک دوسرے مقام پر کھل کر express کرنے میں بھی ہرگز تردُّد نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ جب وہ اس دوسری سطح پر بات کرتا ہے تو وہ ان قوانین کو جن کا سرچشمہ اسلام ہے، غلط ٹھہرانے میں کوئی ابہام نہیں چھوڑتا اور ایسے ’اسلامی‘ قوانین کوختم کرنے کی آواز اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ مگر ان میں سے ہر چیز کا اس کے ہاں اپنا اپنا محل ہے۔ لبرلزم کے یہ دو محور کچھ ایسے متناقض contradictory نہیں۔ دراصل ہمیں چاہئے تھا کہ ایک نظریے کو ہم اس کی کلیت totality میں لیں اور اس کے تمام سرے ملا کر اس کا ایک مجموعی مفہوم اخذ کریں اور پھر اس کی ہر جزوی یا ضمنی عبارت کو اس کے کلی عقیدے کے تحت لا کر تفسیر کریں۔
چنانچہ لبرلسٹ ان دو الگ الگ محوروں پر بیک وقت سرگرم ہے: وہ ریاست کی اس ’’حقیقت‘‘ کو بھی بیان کرنے میں کسر نہیں چھوڑتا جس کے تحت وہ ریاست کو مذہب سے آزاد کرانے اور اس میں پائے جانے والے ’’اسلامی قوانین‘‘ کو ختم کروانے کے دوٹوک مشن پر ہے۔ جبکہ ایک دوسری سطح پر وہ ریاست کا یہ ایک اصولی سٹیٹس بھی واضح کر جاتا ہے کہ اگر کسی چیز کی اطاعت کا قلادہ وہ خدا کی مخلوق کے گلے میں چھوڑنے کا روادار ہو سکتا ہےتو وہ ریاست ہے (جو انسان دیوتا کے اکثریتی منشا Human’s majority will کے ظہور کا محل ہے)۔ لبرلسٹوں کا پورا بیانیہ دیکھیں تو کوئی شک نہیں رہتا کہ ایک صحیح معنیٰ میں واجبِ اطاعت ریاست وہی ہے اور صرف اُسی کا ایک ایک قانون سر آنکھوں پر رکھنے کا، جو ’’دین‘‘ کی پابندی اور ’’خدا‘‘ کی عبادت سے آزاد ہو۔ غرض یہ دو محور لبرل کے ہاں الگ الگ سطح پرجاری رہتے ہیں:
انسانوں کا اپنی اجتماعی دستوری زندگی میں صرف اور صرف ریاست اور اس کے قوانین کا ’’پابند‘‘ ہونا۔
مگر خود اس ریاست کا مذہب ایسی ہر قید سے ’’آزاد‘‘ ہونا۔
بلکہ لبرل عقیدہ کی سپرٹ اگر سامنے رکھی جائے تو ریاست اور اس کے قوانین کی قید تو وہ بامرِ مجبوری قبول کرتا ہے ورنہ اصل تو اس کے ہاں ’’فرد‘‘ کی آزادی ہے۔ البتہ اس ریاست کا ’’مذہب‘‘ سمیت ہر قید سے زیادہ سے زیادہ maximum آزاد ہونا اس کے عقیدہ کا اصل الاصول ہے اور اس کے ہاں پائی جانے والی مطلق قدر absolute value ۔ یعنی دوسری بات اُس کے ہاں پہلی سے اہم تر ہے۔ یوں لبرل عقیدہ کا زور انسان کو ریاست کی اطاعت میں ’’لانے‘‘ پر اتنا نہیں جتنا کہ اس انسان اور اس کی ریاست کو خدا کی اطاعت سے ’’نکالنے‘‘ پر۔ جبکہ ہمارے بھائیوں کا یہ خیال کہ پہلی چیز میں یہ لبرل کے ساتھ ہوں گے تو دوسری چیز میں لبرل (اپنا اصل الاصول چھوڑ کر) شاید اِن کے ساتھ ہو گا! حالانکہ وہ دونوں چیزیں ایک خاص ترتیب اور ساخت construction سے ہی لبرلزم کی تشکیل کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پہلی چیز کے بغیر تو لبرلزم کی بعض نادر اقسام some rare species of Liberalism پائی جا سکتی ہیں مانند انارکسٹ لبرلزم anarchist liberalism جو ویسے معاشروں میں کم ہی پنپ سکا ہے اور خود لبرلز کی اکثریت اس کو رد کرتی ہے، تاہم دوسری چیز کے بغیر تو لبرلزم کا پایا جانا غیرمتصور ہے۔ ’’خدا‘‘ اور ’’ریاست‘‘ کے راستے الگ الگ ہونا.. بلکہ ’’خدا‘‘ اور انسان کی ’’اجتماعی ہیئت‘‘ ہی کے راستے الگ الگ ہونا.. لبرلزم کی مرکزی ترین حقیقت ہے۔ داد دینی چاہئے جو اس کو اسلام سے ہم آہنگ کر دکھائیں!
حامد کمال الدین