آزادی کا معنی لامحدود خواہشات کی کثرت اور انکی جستجو ہے۔ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سرمایہ ہے، علم معاشیات اس حقیقت کا اظہار بالکل کھلے ہوئے الفاظ میں کرتی ہے کہ خواہشات کی تسکین اسی قدر ممکن ہے جس قدر سرمائے کا حصول ممکن ہے۔ آزادی (خواہشات کی تسکین) میں اضافے کے لئے سرمائے میں اضافہ کرنا لازم ہے۔ آزادی کا رسیا فرد و معاشرہ کیا چاہتا ہے؟ “سرمایہ”، کہ سرمایہ ہی آزادی کی مجسم صورت ہے، تین سو سال کی مغربی تاریخ اسی حقیقت کا اظہار کرتی ہے۔
آزادی (بطور قدر) کا معنی خواہشات کی کثرت اس لئے ہے کیونکہ آزادی کا معنی کچھ بھی کرسکنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ یعنی آزادی کا معنی یہ نہیں کہ میں صرف نماز چاہوں یا موسیقی اور یا بندر کا کھیل تماشا، بلکہ آزادی کا معنی یہ ہے کہ میں جو چاہنا چاہوں وہ چاہ سکوں اور اسے حاصل کرسکوں۔ اس صلاحیت سے میں کس مخصوص شے کی چاھت کرتا ہوں یہ ثانوی چیز ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ میں “کچھ بھی چاہنے کی صلاحیت” حاصل کر سکوں۔ اس “کچھ بھی چاہنے کی صلاحیت” کا نام سرمایہ ہے کہ سرمایہ “کچھ بھی چاہنے کی صلاحیت” کو ممکن بناتا ہے۔ سرمایہ آزادی کی عملی تجسیم ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ علم معاشیات کسی معاشرے کی کامیابی (کچھ بھی چاھنے کی صلاحیت) کو اسکی مجموعی پیداوار (Gross Domestic Product) سے ماپتی ہے۔
“سیلف انٹرسٹ” (self-interest) :
آزادی کی لبرل تشریح کی رو سے ہر شخص فطرتا اس امر کا مکلف ہے کہ اپنے سیلف انٹرسٹ (ذاتی اغراض) کی تکمیل کی جدوجہد کرے۔ مگر لبرل مفکرین و معاشیات دان جب سیلف انٹرسٹ کی بات کرتے ہیں تو اس سے سیلف انٹرسٹ کی “کوئی بھی تشریح یا تصور” مراد نہیں لیتے بلکہ اسکی ایک معین تعریف و تشریح ہی کے درست ہونے کا اقرار واصرار کرتے ہیں۔ سیلف انٹرسٹ کے اس مخصوص تصور کی رو سے فرد کا سیلف انٹرسٹ یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی/سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی جدوجہد کرے کہ اپنی آزادی/صمدیت کا قیام و اظہار ہی فرد کی اصل ذمہ داری و فرض ہے۔
پس اگر کوئی سیلف انٹرسٹ کا معنی یہ سمجھے کہ میرے نزدیک میرا سیلف انٹرسٹ یہ ہے کہ میں جنت میں جاؤں تو سیلف انٹرسٹ کے لبرل نظرئیے کی رو سے ایسا شخص گمراہ و زندیق ہے کہ وہ سیلف انٹرسٹ کے نام پر ایسی بات کو فروغ دے رہا ہے جو سیلف انٹرسٹ کی نفی و ضد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشیات دانوں کے نزدیک سیلف انٹرسٹڈ عقل مند ایجنٹ کا اصل مسئلہ عمل صرف (consumption) میں مہمیز اضافہ ہوتا اور ہونا چاہئے (جسے میکرو اکنامکس میں maximization of life time consumption سے تعبیر کیا جاتا ہے)۔ چنانچہ لبرل ماہرین معاشیات کے نزدیک سیلف انٹرسٹ کی معتبر تشریح صرف یہ ہے کہ فرد سرمائے میں اضافے کی جدوجہد کرے، اسکے سواء سیلف انٹرسٹ کے تمام تصورات انکے نزدیک غیر معتبر ہیں۔ فرد کو چاھیے کہ وہ اپنی ترجیحات و اعمال کو اس طرح ترتیب دے جس کے نتیجے میں سرمائے میں اضافے کے امکانات زیادہ سے زیادہ ہوتے چلے جائیں۔ اگر فرد یہ نہیں کررہا تو وہ ایک نامعقول انسان ہے جو اپنے “اصل سیلف انٹرسٹ” کو نہیں پہچان پایا۔
ایک صاحب علم نے توجہ دلائی کہ امریکہ میں ایک گروہ آزادی مذہب و رائے کے نام پر شیطان کی عبادت کی تبلیغ کرتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ آزادی (بطور قدر) کا اصلی معنی شیطان ہی کی عبادت کرنا ہے، اسکے سواء آزادی کا دوسرا کوئی معنی نہیں۔ آزادی کا رسیا اگر شیطان کی عبادت نہ کرے تو وہ اصولا اپنی آزادی کو غلط استعمال کرتا ہے، آزادی کے فریم ورک میں ایسا شخص اسی طرح “زندیق” ہے جس طرح مذہب کا نام لیکر کفر کرنے والا زندیق کہلاتا ہے۔آزادی کا معنی خدا کی بندگی سے آزادی حاصل (یعنی اس سے بغاوت) کرکے نفس کی خواہشات کی پیروی کے حق ہونے کا دعوے کرنا ہے۔ ایسا نفس بجز شیطان کسی اور کے تابع نہیں ہوتا۔ آزادی “بغی” (خدا کے مقابلے میں سرکشی) کا نام ہے۔
آزادی کا معنی تنہائی ہے کیونکہ آزادی کا معنی ذات کے ذات کے ساتھ تعلق کی نفی ہے۔ یہاں دوسرے کی ذات کے ساتھ تعلق کی واحد بنیاد ذاتی غرض ہے کہ تعلق اور دوسرے کی ذات کا وجود اس لئے گوارہ ہے کہ وہ ذاتی اغراض کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ اغراض کی عقلیت پر مبنی یہ تعلق “محبت” (قیام ھستی) سے انکار و بغاوت ہے۔ تنہائی اضطرار (frustration) کو جنم دیتی ہے کیونکہ ذات فرد نہیں ھستی میں پنہاں ہے۔ مغربی دھریت اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ اضطرار کا احساس مقدم، دائمی و فطری ہے نیز اس سے چھٹکارا ممکن نہیں کہ مغربی دھریت فرد کو آزاد (قائم بالذات) بن جانے کی تلقین کرتی ہے۔ پس جوں جوں آزادی بڑھتی ہے تنہائی اور نتیجتا اضطرار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اس اضطرار سے چھٹکارا بجز ذکر ممکن نہیں کہ وہ قلوب کا سکون ہے۔ ذکر دائمی تعلق )ھستی) کے قیام و بقا کا ذریعہ ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل