لبرلزم کے نزدیک انسان کون ہیں؟

اشراکیت اور قوم پرستی کی طرح لبرل ازم کا بنیادی عقیدہ بھی لاالٰہ الا الانسان ہے۔ لبرل ازم کا الٰہ ہر وہ فرد ہے جو اس کلمۂ خبیثہ پر ایمان لے آئے۔ لبرل نظریہ کے تحت جو فرد اس کلمۂ خبیثہ پر ایمان نہ لائے وہ انسان نہیں۔ امریکی براعظم پر قبضہ کرنے کے دوران تقریباً آٹھ کروڑ سرخ ہندیوں (جو ایک روایت کے مطابق حضرت یونس علیہ السلام کے امتی تھے) کو قتل کیا گیا اور ان کے املاک ان سے چھین لیے گئے۔ Locke نے اس قتلِ عام اور لوٹ مار کو اس بنیاد پر جائز قرار دیا ہے کہ سرخ ہندی انسان نہیں تھے۔ ان کو اپنے انسان ہونے کا شعور نہ تھا۔ وہ قدرتی وسائل پر محنت کرکے سرمایہ کو مستقل لامتناہی بڑھوتری کے لیے استعمال نہ کرتے تھے لہٰذا ان کو قتل کرنا جائز بھی اور ضروری بھی تھا کیوں کہ وہ آوارہ بھینسوں سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھے جن کو ختم کیے بغیر امریکی دولت کو فروغ دینا ناممکن تھا۔بیسیوں صدی کے اہم ترین لبرل سیاسی مفکر جان رالز کی بھی یہی رائے ہے وہ اپنی مشہور کتاب Political Libralismمیں لکھتا ہے جو افراد آزادی کو قدرِ مطلق کے طور پر قبول نہیں کرتے ان کو ختم کرنا ایسا ہی فرض ہے جیسا ایک متعدی وبا کا ختم کرنا۔ آزادی کے منکروں کو جواب دلیل سے نہیں گولی سے دیا جانا چاہیے۔


امریکی صدور بش اور اوباما نے گوانتاناموبے اور ابو غریب میں جاری ٹارچر کو اسی دلیل کی بنیاد پر جواز فراہم کیا ہے۔ اوباما کی نظر میں مجاہدینِ اسلام انسان نہیں کیوں کہ وہ آزادی پر نہیں بلکہ بندگی ٔرب پر ایمان لائے ہیں۔ مجاہدینِ اسلام کی کھال کھینچنا، ان کو زندہ جلادینا، ان کے معصوم بچوں کو قتل کرنا، ان کی عورتوں کی عصمت دری کرنا، ان کے گھروں کو مسمار کرنا اوباما اپنا فرض سمجھتا ہے۔لبرل ازم مجاہدین ِاسلام کے خلاف وحشت ناک درندگی کو فرض گردانتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو آزادی پر دلیل کے ذریعے نہیں گولی اور ٹارچر کے ذریعے ایمان لانے پر مجبور کرتا ہے۔ لبرل ازم وحشت ناک درندگی کو جواز فراہم کرنے و الا نظریہ اپنی پوری تاریخ میں رہا ہے۔


وہ آزادی کیا ہے جس پر لبرل ازم ہم کو ایمان لانے پر مجبور کرتا ہے؟ اس سوال کا سب سے واضح جواب Imanuel Kant نے اپنیCritiques میں دیا ہے۔ کانٹ کا بنیادی دعویٰ ہے کہ انسان قادرِ مطلق ہے۔ ہر فرد کے ذہن میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ان اطلاعات کو جو اس کے حواسِ خمسہ اس کو فراہم کرتے ہیں اس طرح سے مرتب کرے کہ وہ مربوط تصورات (Concepts) میں ڈھل جائیں۔ ان تصورات کی تعمیر اور ترتیب کے ذریعے انسان تسخیرِ کائنات کا مکلف ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی تمام خواہشات کے حصول کے لیے ایسا ذریعہ اختیار کرنے کے قابل ہوجاتا ہے جو کسی دوسرے انسان کو اپنی خواہشات کے حصول کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتا۔ اشیاء اور اعمال کی قدر اس بنیاد پر متعین ہوتی ہے کہ وہ عمل ہر انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل ممکن بنانے میں کتنا معاون ہے۔

کانٹ کے تصورات کے مطابق خرد نفس کی غلام بھی ہے اور معلم بھی۔ وہ نفس کی غلام ان معنوں میں ہے کہ وہ نفس کے احکام کی تعمیل کو رد نہیں کرسکتی اور معلم ان معنوں میں کہ خرد اس عمل کی نشاندہی کرتی ہے جس کے ذریعے نفس کے حکم کی تعمیل اس طرح ہو کہ کسی دوسرے انسان کے نفس کے حکم کی تکمیل میں مزاحمت نہ ہو۔ مثال کے طور پر اوباما زنا کرنا چاہتا ہے خرد اوباما کو بتائے گی کہ وہ زنا اس طرح کرے کہ ہیلری کلنٹن کی خواہشِ نفس کی تکمیل بھی ممکن ہوسکے۔ اگر ہیلری کلنٹن اوباما سے زنا کرنے راضی ہے تو اوباما ہیلری کلنٹن کے ساتھ زنا کرے اگر ہیلری کلنٹن اوباما کے ساتھ زنا کرنے سے راضی نہیں تو اوباما ہیلری کلنٹن کا احترام کرے اور زنا کسی دوسری عورت یامرد کے ساتھ کرے جو اوباما کے ساتھ زنا کرنے کو تیار ہو۔

Kant کے مطابق خرد (Reason) اوباما کو یہ سبق دیتی ہے کہ کسی عمل کو (مثلا زنا) کی کوئی مطلق قدر نہیں، قدر صرف طریقہ (Procedure) کی ہے اور یہ قدر صرف اس بات سے متعین ہوتی ہے کہ وہ طرائق بڑھوتریٔ آزادی یعنی بڑھوتریٔ سرمایہ میں کتنی معاون ہیں۔ ہر وہ عمل بے قدر ہے جو بڑھوتریٔ سرمایہ (یعنی بڑھوتریٔ آزادی) کو فروغ نہیں دیتا۔ ظاہر ہے کہ قدر کے تعین کا یہ نظام صرف اسی دائرے میں نافذالعمل ہے جہاں ہر فرد بڑھوتریٔ آزادی (یعنی بڑھوتریٔ سرمایہ) پر ایمان رکھتا ہو، لہٰذا دائرہ میں اگر ایسے افرا دموجود ہیں جو بڑھوتریٔ سرمایہ (یعنی بڑھوتریٔ آزادی) کو قدر مطلق کے طور پر قبول نہیں کرتے تو اوباما کا فرض ہے کہ ایسے افراد کو فی الفور قتل کردے۔ ایسے افراد کو دلیل دینے سے کچھ حاصل نہ ہوگا کیوں کہ بڑھوتریٔ آزادی (یعنی بڑھوتریٔ سرمایہ) کو قدرِ مطلق کے طور پر قبول کرنے پر لوگوں کو مجبور ہی کیا جاسکتا ہے قائل نہیں کیا جاسکتا۔

جو لوگ بڑھوتریٔ آزادی (یعنی الوہیتِ انسان) پر ایمان لے آئے ان کو کانٹ Human Being کہتاہے۔ بیسویں صدی میں پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں انسان Human being بن گئے۔ بقول Foucalt سترہویں صدی سے قبل Human being کا وجود سرے سے ناپید تھا۔ لاک Lockکے مطابق ہر Human being کے تین بنیادی ہیومن رائٹس ہوتے ہیں۔ یہ ہیومن رائٹس صرف ان افراد کے ہوتے ہیں جو الوہیتِ انسان پر ایمان لے آئے ہوں۔ ریڈ انڈین اور مجاہدینِ اسلام کے کوئی ہیومن رائٹس تسلیم نہیں کیے جاسکتے کیوں کہ وہ الوہیتِ انسان پر ایمان نہیں لائے۔ وہ Human being نہیں ہیں۔اقوام متحدہ کے منشور کے تحت بنیادی ہیومن رائٹس تین ہیں:

١… حقِ تحفظ زندگی:

ہر فرد کا یہ فرض/ حق ہے کہ وہ اپنی زندگی بڑھوتریٔ آزادی بڑھوتریٔ سرمایہ کے عمل میں جس طرح کھپانا چاہیے کھپائے۔ جب تک وہ زندگی اس فرض کی ادائیگی میں کھپائے رکھے گا اس کی زندگی محفوط رہے گی۔ اگر اس نے اپنی جان بڑھوتریٔ آزادی (بڑھوتریٔ سرمایہ) کے عمل میں مزاحمت ڈالنے کے لیے لگائی تو اوباما کا فرض ہے کہ اس کو قتل کردے۔ جیسے مجاہدینِ اسلام کو قتل کررہا ہے اور جیسا اوباما کے باپ داداؤں نے آٹھ کروڑ ریڈ انڈین (سرخ ہندیوں) کو قتل کیا تھا۔

٢… حقِ ملکیت:

ہر فرد کا فرض / حق ہے کہ وہ اپنی محنت اور اپنا مال سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل میں جس طرح چاہے لگائے رکھے، اگر اس نے اپنی محنت اور اپنا مال سرمایہ کی بڑھوتری میں رخنہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا تو اوباما اس کا مال چھین لے گا جیسا کہ وہ افغانستان میں قبضہ جمائے ہوئے ہے اور جیسا کہ اوباما کے باپ دادائو ں نے سرخ ہندیوں کا تمام مال و اسباب چھین لیا تھا۔

٣… حقِ آزادیٔ رائے:

ہر شخص کا فرض / حق ہے کہ وہ بڑھوتریٔ آزادی / بڑھوتریٔ سرمایہ کے فروغ کے لیے جو رائے دینا چاہے دے، مثلاً عریاں تصاویر کی اشاعت کا حق۔ انبیاء علیہم السلام کو گالیاں دینے کا حق / فرض وغیرہ ۔ چوں کہ لبرل معاشروں میں ذرائع ابلاغ پر سرمایہ کی اجارہ داری مسلط ہوجاتی ہے لہٰذا سرمایہ آزادی مخالف آراء کی تشہیر تقریباً معدوم ہوجاتی ہے اور اگر ایسی آراء سامنے آئیں تو اوباما اس کو ضبط کرلیتا ہے اور اپنے حلیف اداروں کے ذریعے ان ناقدینِ سرمایہ کاری اور لبرل اقدار کی زندگی حرام کردیتا ہے۔

لبرل ازم جس انفرادیت کو فروغ دیتی ہے وہ شہوت اور غضب سے مغلوب انفرادیت ہے جیسا کہ اٹھارہویں صدی کے ایک عیسائی راہبIII St.lglesias نے کیا۔ Human being انسانیت نہیں شیطانیت کا مظہر ہے۔ اوباما شیطانِ کامل ہے۔

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری