’’گلوبلائزیشن‘‘ کا اپنے اِس تیز ترین مرحلہ میں داخل ہونا، جہاں وہ ایک منہ زور ثقافتی ریلے کی صورت دھار لے اور ’’تھرڈ ورلڈ‘‘ کے رہے سہے سب اثاثے بہا لے جائے اور جس کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ یہاں کا ہر ’’نقش کہن‘‘ جو سر اٹھا کر کھڑا ہو، یہاں کی مقامی لیبر کی مدد سے مٹا کر رکھ دیا جائے۔
اِس جہان کو ایک ہی ’’عالمی بستی‘‘ بنانے کےلیے ضروری ہے کہ معاشی طور پر خواہ یہاں کتنی بھی تفریق باقی ہو (اور یہ ’’معاشی‘‘ تفریق باقی رکھنا ضروری بھی ہے، ورنہ دنیا ’چودھریوں‘ اور ’کمیوں‘ میں تقسیم نہیں رکھی جا سکتی!)، البتہ ’’ثقافتی‘‘ طور پر اِس کے سارے ہی محلے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو اِس دنیا کا ایک ہونا اُن کے حق میں فائدہ مند ہونے سے بڑھ کر نقصان دہ ہو سکتا ہے؛ یہ ہمیشہ ضروری رہا ہے کہ ’’کمّی‘‘ ’’چودھریوں‘‘ کے ہی دین پر پائے جائیں۔ اور اگر اُن کو ’’چودھریوں‘‘ کی نسبت کوئی برتر دین حاصل ہو تو خواہ وہ کتنی بھی پسماندہ اور ناگفتہ بہ حالت میں کیوں نہ رکھے گئے ہوں، کسی بھی وقت کوئی بھی ’’موسیٰ‘‘ اِن مستضعفین فی الأرض کو صف آرا کر کے اِس فرعونی نظام کا قائم کردہ ’’توازن‘‘ خراب کر سکتا ہے جس کو بچاتے بچاتے فرعون اپنے پندار سمیت غرق ہو جاتا ہے تو ’’مستضعفین‘‘ زمین کے وارث ہو جاتے ہیں اور ’’تہذیب‘‘ کو ایک بار پھر دین فطرت کی آغوش میں پرورش پانے کا موقعہ ملتا ہے!
پس اِس ’’گلوبل ولیج‘‘ کے ماسٹر پلان کی رو سے یہاں پر ’ڈویلپمنٹ‘‘ کا پہلا کام ہی یہ ہونا تھا کہ یہاں کے ’مذہبی تجاوزات‘ ہٹا دیے جائیں اور ’تہذیبی‘ سطح پر زمین بالکل ’ہموار‘ کر کے رکھ دی جائے؛ باقی ’تعمیرات‘ جتنی ہوں اس کے بعد ہوں! (اور ویسے ان ’تعمیرات‘ کا تو جو اس سے ’’اگلے مرحلے‘‘ کےلیے یہاں پر زیر غور ہیں آپ ذرا تصور ہی کر لیں تو آپ کو ہول آنے لگے)۔ چنانچہ اب ہر طرف یہاں آپ کو ’’بلڈوزر‘‘ مستعدی کے ساتھ کام کرتے ہوئے دکھائی دیں گے! آپ سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں؛ یہاں کا ہر شعبہ اور ہر ڈیپارٹمنٹ سویا پڑا ہے سوائے ایک شعبے کے؛ یعنی: یہاں کا ابلاغیاتی شعبہ! اِس ملک کا واحد چاک چوبند شعبہ جس نے ’’پروفیشنلزم‘‘ کی انتہا کر دی ہے! یہاں کا واحد شعبہ جس کی پھرتیاں یہاں ہر باشعور دردمند کے کان کھڑے کر دینے کو کافی ہیں کہ خدایا کیا یہ یہیں کا ایک فنامنا ہے؛ وہ دیگر سب شعبے بھی تو اِسی ملک کے ہیں جن کے خراٹے یہاں کے ہر حساس شخص کو جگا رہے ہیں، ان سب شعبوں کو چھوڑ کر اسی ایک شعبے میں یہ حیرت انگیر مستعدی اور یہ ’فرض شناسی‘، آخر ماجرا کیا ہے اور یہ کن ‘steroids’ کا کمال ہے؟! ’ضمیر‘ کی یہ سب بیداری یہاں کے سارے شعبوں کو چھوڑ کر صرف ایک شعبے کے حصے میں کیوں آ گئی ہے؟ اِس ’شہد‘ میں کیا کوئی ’’زہر‘‘ تو نہیں گھول دیا گیا (اور ویسے ذرا اسلامی نظر حاصل ہو تو ’’زہر‘‘ کے پھن بھرے ہوئے یہ ناگ آخر کس کو نظر نہیں آتے؟)۔
بات دراصل وہی ہے؛ یعنی سب ’تعمیراتی‘ کام فی الحال یہاں معطل رکھے جانے ہیں جب تک یہ ’’بلڈوزر‘‘ اپنے ابتدائی کام سے فارغ نہ ہو لیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں ہر طرف آپ کو اِن ہی کی اڑائی ہوئی گرد دکھائی دے گی اور اس کے علاوہ کوئی ’پیشرفت‘ نظر نہیں آئے گی۔ حضرات! ایک ’نئی طرز‘ کی بستی بھی یہاں پوری طرح زیر غور ہے مگر ذرا یہ ‘levelling’ ہو جانے کے بعد؛ ایک ایسے ملک میں جو ’مذہبی تجاوزات‘ سے اٹا پڑا ہے اور جس کے اندر چودہ سو سال پرانے نقشے کی باقیات جگہ جگہ اس کا راستہ روک کر کھڑی ہیں!
سب جانتے ہیں ’مذہب‘ اِس مجوزہ نئی بستی کے نقشے سے خارج نہیں ہے، بشرطیکہ یہ ’روحانیات‘ کی دنیا میں رہے اور ’اخلاقیات‘ میں محصور ہو کر اپنے کام سے کام رکھے اور طاغوتوں کا کام طاغوتوں پر چھوڑ دے، عالمی سطح پر بھی اور مقامی سطح پر بھی۔
چنانچہ اِسی ایک مقصد کےلیے یہاں ہر طرف ہم پر ’دانش وروں‘ کے غول چھوڑ دیے گئے ہیں جو ہمارے اِس بچے کھچے نظریاتی وجود کو بڑی بے رحمی کے ساتھ بھنبھوڑ رہے ہیں۔ دینی طور پر کمزور طبقوں کی تو بات ہی چھوڑ دیں، ’نماز روزہ‘ کرنے والا ایک اچھا خاصا طبقہ بھی یہاں پر ’’توحید‘‘ کے بنیادی مسلمات سے اِس قدر ناواقف ہے، کہ ہمارا دشمن جانتا ہے کہ یہ سارا طبقہ اِس سیلاب کے آگے زیادہ دیر نہیں ٹک سکے گا اور تھوڑی دیر میں یہ اُس کے دوش پر بہنے لگے گا اور اُسی رفتار سے بہے گا جس رفتار سے وہ اِس کو بہا لے جانا چاہتا ہے۔ حق یہ ہے کہ میڈیا اور این جی اوز کی چند سالوں کی محنت سے یہ ہدف اچھی خاصی کامیابی کے ساتھ حاصل کر بھی لیا گیا ہے۔ وہ جانتا ہے، اِسی فریق سے وہ خوبصورت بلا بھی تشکیل پاتی ہے جس کو ’’رائے عامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی ظالم چیز ہے کہ کسی بڑی سطح پر تو خیر بات ہی چھوڑ دیں، کبھی آپ یہی ملاحظہ فرما لیجئے گا، کہ کسی پڑھی لکھی سوسائٹی میں (جہاں ’’رائے عامہ‘‘ نام کی یہ مخلوق فی الحال زیادہ بستی ہے) ایک مولوی صاحب کو خطیب مسجد رہنے کےلیے کس قدر ’سمجھدار‘ ہو کر دکھانا پڑتا ہے اور کیسے ’’سافٹ‘‘ قسم کے موضوعات چلا کر رکھنا ہوتا ہے! چنانچہ اِس پہلے فیز میں یہاں کے عام نماز روزہ کرنے والے بابو ہی زیادہ ہدف ہیں۔ ’’رائے عامہ‘‘ کی اِس زمین پر جیسے جیسے قبضہ ہوتا جائے گا ویسے ویسے اور اُن اُن علاقوں کے اندر اُس کا خیال ہے ’’مساجد‘‘ خود بخو اس کے زیر آب آتی چلی جائیں گی۔ چنانچہ اگلے فیز میں خدانخواستہ آپ دیکھیں گے یہ آواز سکرینوں سے محرابوں کی جانب منتقل ہونے لگی ہے یا کم از کم اِس کے دیے ہوئے لہجے تو ضرور ہی منتقل ہونے لگے ہیں۔
چنانچہ محض ایک ’احترامِ مذہب‘ کی قید رکھ کر، جو کہ ’’سیکولرزم‘‘ کا اپنا ہی ایک شعار ہے اور جوکہ خاص ہمارا لحاظ کر کے اُس کی جانب سے کوئی ’سپیشل چھوٹ‘ نہیں ہے، کفر پوری طرح دندناتا ہوا ایک نئی ’عالمی بستی‘ کے ابلیسی نقشے بغل میں دبائے ہمارے شہروں اور محلوں میں وارد ہو رہا ہے اور اپنی اِن تعمیراتی سکیموں پر فی الفور عملدرآمد کےلیے یہاں کا سب کچھ اکھاڑنے گرانے اور تہ و بالا کرنے میں لگا ہے۔ البتہ اِس بار اُس کو یہاں اِس قدر ’کلمہ گو‘ لیبر حاصل ہے کہ الامان والحفیظ۔
حامد کمال الدین