ہالی ووڈ اداکارہ لنڈسے لوہن Lindsay Lohan نے حال ہی میں ترکی کے شہر ”عینتاب“ میں شامی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کا دورہ کیا۔ وہاں انہوں نے ”غلطی سے“ ایک ترک خاتون کے سکارف کے خوبصورت رنگوں کی تعریف کر دی۔ اس مہمان نواز ترک خاتون نے فوراً سر سے سکارف اتارا اور اپنی مہمان کے سر پر تحفتاً پہنا دیا۔ لنڈسے اس ادا سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ سکارف سر سے اتار کر میزبان خاتون کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہناچائیں گی۔ یہ ان کی دوسری ”بڑی غلطی“ ثابت ہوئی۔ بس کیمروں کے سامنے آنا تھا کہ میڈیا کے خونخوار بھیڑیے سب کچھ بھول کر ان کے سکارف کے پیچھے پڑ گئے۔
بھاڑ میں گیا لبرل ازم اور تیل لینے گئی شخصی آزادی۔
ایک سلیبرٹی کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ ”دہشت گردوں“ کا ”امتیازی نشان“ اپنے سر پر سجائے؟اسے تو ہم نے پیروں تلے روندنا تھا۔
اس پر مستزاد یہ کہ لندن میں انہیں ان کے کسی سعودی دوست نے مطالعے کی غرض سے قرآن کا ایک نسخہ ہدیہ کر دیا۔ وہ اس سے اتنی متاثر ہوئیں کہ ہر جگہ اسے ساتھ لے جاتیں اور جب موقع ملتا اس کا مطالعہ کرتیں۔اسی عادت سے مجبور ہو کر وہ اسے اپنے ساتھ امریکہ بھی لے گئیں۔ وہاں کسی ”اینٹی لبرل“ پاپارازی نے انھیں راہ چلتے قرآن کے ساتھ دیکھ لیا۔
بس پھر کیا تھا؟وہ اگر شراب کے نشے میں دھت، نیم برہنہ حالت میں کسی اجنبی لوفر کے ساتھ دیکھی جاتیں تو شاید اتنا شور نہ مچتا۔مگر یہ کیا؟!”دہشت گردی کا منشور“ ہاتھ میں لے کر سرعام پھرنا؟
یہ تو ناقابل معافی جرم ہے۔ان کے اپنے الفاظ میں انھیں فوراً شیطان کا درجہ دے دیا گیا اور میڈیا میں وہ شور مچا کہ انہیں ”اپنی جان بچا کر“ واپس لندن بھاگنا پڑا۔ اور پھر اپنے انٹرویو میں وہ پھٹ ہی تو پڑیں۔
”کسی ایرے غیرے کو کیا حق پہنچتا ہے، ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کا؟“
”وہ کیا پہنتی ہیں، کیا پڑھتی ہیں، کسی کو کیا تکلیف ہے؟“۔ (ویڈیو لنک کمنٹ میں دیکھیے)
جی یہ بالکل وہی بنیادی انسانی اور بالخصوص خواتین کے حقوق ہیں جو انھیں دلانے کے لیے امریکہ کسی ملک پر ہزاروں بم گرانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ پر اپنے سلیبرٹیز کو اصحاب الاخدود والے مثالی موحد لڑکے کے نقش قدم پر چلتے دیکھ کر وہ اسی ظالم بادشاہ اور جادوگر کا روپ دھار لیتا ہے جنھوں نے آگ کی خندقیں کھدوائیں اور اہل ایمان کو ان میں پھینکوا کر کنارے بیٹھ کر ان کا تماشہ دیکھا۔
اور پھر منافقت بھی دہری۔
جولیا رابرٹس ہندو دھرم قبول کر لے،ڈریو بیری مور، ازلا فشر، جیک بلیک اور انتہا تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی بیٹی یہودی مذہب قبول کر لیں تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔تکلیف ہوتی ہے کسی سٹار کے اذان کی تعریف کرنے سے، نماز کو پسند کرنے سے، قرآن پکڑنے سے، سکارف پہننے سے۔
ہم تو اپنے یہاں والوں کو دہرے معیار کی وجہ سے ”دیسی لبرل“ اور ”کالے انگریز“ کہتے تھے،
یہ تو اصلی انگریز بھی لنڈے کے نکلے ۔۔۔۔ دو نمبر۔۔۔!!!
ڈاکٹر رضوان اسد خان