ہندو مت کے متعلق عام طور پر مشہور کیا گیا ہے کہ اس کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے، بس جو خود کو ہندو کہے وہ ہندو ہے، اس کے کوئی متعین صحیفے نہیں، جو مرضی صحیفے مانو یا نہ مانو، اس کے کوئی متعین عقائد نہیں، چاہو تو ایک خدا مانو، یا تینتیس کروڑ مانو یا سرے سے نہ مانو، وغیرہ وغیرہ۔نامور کانگرسی سیاست دان ششی تھرورنے، جس کی انگریزوں کے استحصالی دور کے متعلق کتابیں کافی مشہور ہیں، کچھ عرصہ قبل کتاب لکھی: Why I am A Hindu۔ اس میں بھی اس نے اس قسم کے دعوے کیے اور اسی کو اپنے ہندو ہونے کا بنیادی سبب گردانا کہ یہ “لبرل” ہے، کسی پر عقیدہ مسلط نہیں کرتا، اور ہر کسی کو اپنا اپنا عقیدہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے اور بنیادی جوہری اختلاف کے باوجود ان سب کو ہندو مانتا ہے جو خود کو ہندو کہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ اسی وجہ سے ہندومت نے ہندوستان میں تمام مذاہب کو، سواے دو مذاہب کے، خود میں سمو لیا۔ یہ دو مذاہب جن کو ہندومت سمو نہیں سکا وہ اسلام اور مسیحیت ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر اسلام اور مسیحیت کو ہندو مت کیوں ہڑپ نہیں کرسکا؟ نیز اگر کسی بھی قسم کا عقیدہ رکھنے والا ہندو کہلا سکتا ہے تو پھر مسلمان یا مسیحی کو ہندو کیوں نہیں کہا جاسکتا؟ اگر حق کی تلاش کے سبھی راستے یکساں طور پر درست/غلط/لغو ہیں تو پھر یہی کچھ اسلام اور مسیحیت کے متعلق کیوں نہیں مانا جاسکتا؟
ششی تھرور اس طرح کے سوالات سے کنی کترا کر نکل جاتا ہے کیونکہ ان پر بحث سے یہ بات کھل کر سامنے آسکتی تھی کہ “جو خود کو ہندو کہے وہ ہندو ہے” پورا سچ نہیں ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ “خود کو ہندو کہلوانے کےلیے کچھ کم از کم عقیدہ اور تصور ہے جسے مانے بغیر کوئی شخص ہندو نہیں ہوسکتا اور اسی طرح ہندو ہونے کےلیے کچھ عقیدوں اور تصورات کا رد لازمی ہے کیونکہ ان کے رد کے بغیر کوئی شخص ہندو نہیں ہوسکتا!” تاہم یہ پورا سچ بیان کیا جائے تو ہندو مت کا “لبرل” بت پاش پاش ہوجاتا ہے۔
یہاں یہودیت کا بھی ذکر کیا جاسکتا تھا لیکن چونکہ یہودیت میں بنی اسرائیل سے باہر کسی کو یہودی بنانے کی روایت موجود نہیں ہے، اس لیے اس کا عدم ذکر قابلِ فہم ہے اور یہیں سے اسلام اور مسیحیت کی دور اور مشترک خصوصیات بھی سامنے آجاتی ہے، جن کا ذکر ششی تھرور نے کیا بھی ہے۔ وہ یہ کہ یہ دونوں مذاہب اس کے دعویدار ہیں کہ حق ہمارے پاس ہی ہے (ان الدین عند اللہ الاسلام۔۔۔ و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔۔۔ و آمنوا بما نزل علی محمد ھو الحق من ربھم) اور یہ کہ ہم یہ حق دوسروں تک پہنچائیں گے تاکہ وہ بھی یہ حق قبول کرلیں (قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا)۔ان دو خصوصیات پر غور کریں تو اوپر مذکورہ سوالات کے جواب کا راستہ کھل سکتا ہے۔
کیرن آرمسٹرانگ مذاہب پر لکھنے والی ایک مشہور عوامی (populist) مصنفہ ہیں اور عوامی مصنفین کی تحریرات میں پائی جانے والی تین خصوصیات – سطحیت، مبالغہ آرائی اور سادہ فکری – ان کی کتب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ (آپ جانتے ہیں کہ یہ تینوں خصوصیات جناب غامدی صاحب کے ڈسکورس میں بھی بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔ یہی خصوصیات سائنس پر لکھنے والے عوامی مصنف یووال نوح حراری یا عوامی ملحد چارلس ڈکنز کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں۔)
سطحیت، مبالغہ اور سادہ فکری کی ایک مثال آرمسٹرانگ کا یہ دعوی ہے کہ توحیدی مذاہب (یہودیت، مسیحیت اور اسلام) میں برداشت کا عنصر کم پایا جاتا ہے جبکہ مشرکانہ مذاہب میں ان کی بہ نسبت برداشت کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ مشرکین عرب کی جانب سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کو ماضی کی داستان اور اس وقت کے سماجی حالات کا جبر قرار دینے والے ہندوستان کے ہندووں کی جانب سے روا رکھی جانے والی وحشت و بربریت کو کیا کہیں گے؟
جیسا کہ اوپر عرض کیا تھا، لبرلزم اور ہندو مت کے متعلق برداشت اور وسعت قلبی کی نسبت محض پروپیگنڈا ہے اور بس۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مشرکانہ مذہب میں اگر دس، بیس، پچیس دیوتا پہلے ہی سے موجود ہیں تو چند ایک مزید دیوتاؤں کے اضافے سے انھیں کیا فرق پڑتا ہے اور پھر ہندومت میں تو کروڑوں دیوتا ہیں (اور ایک خدا کو ماننے والے بھی، خدا کو نہ ماننے والے بھی اور خدا کے متعلق خاموش رہنے والے بھی)! یہ اگر دھوکا نہیں تو سادہ فکری ضرور ہے۔
مشرکانہ مذاہب مزید دیوتاؤں کو بھی مان سکتے ہیں، ایک خدا کو بھی اور خدا سے انکار کو بھی۔ بس وہ صرف ایک شرط رکھتے ہیں: اور وہ یہ کہ آپ ہمیں غلط نہ کہیں۔ جیسے ہی آپ نے انھیں غلط قرار دیا، آپ کا وجود ان کےلیے ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، مشرکانہ مذہب نئے خداؤں کو بھی مان سکتا ہے، توحیدی مذاہب کو بھی برداشت کرسکتا ہے ، خدا کے متعلق خاموشی پر بھی خوش ہوتا ہے اور الحاد پر بھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا، اگر یہ نئے خداؤں کو ماننے والے، یا ایک خدا کو ماننے والے، یا خدا کے متعلق خاموش رہنے والے، یا خدا کا انکار کرنے والے اس مشرکانہ مذہب کی بالادستی قبول کرلیں۔
یہی کچھ جدید و مابعد جدید مشرکانہ/ملحدانہ مذہب، یعنی لبرلزم، کی برداشت کے حدود کے متعلق بھی سو فی صد درست ہے۔
ڈاکٹر مشتاق