جب ہمارا لبرل طبقہ انگریزی اخبارات سے ٹی وی چینلز تک جہاں جہاں انہیں قوت حاصل ہے رائٹ ونگ کا علانیہ بلیک آؤٹ کرکے یکطرفہ بیانیے کی ترویج کرے، جب سرکردہ چینلز پر جاب انٹرویوز کے دوران اسکریننگ ہو اور حتی الامکان کوشش کی جائے کہ دائیں بازو کے لوگ اندر داخل نہ ہوسکیں، جب تعلیمی اداروں میں داخلے کے دوران طلبہ کو ان کی داڑھی، حجاب اور مذہبی سوچ کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑے، جب ملٹی نیشنل کمپنی میں حلیے اور لباس کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنادیا جائے، جب علامہ اقبال، مولانا مودودی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب اور شورش کاشمیری ایسے بڑے لوگوں کی کردار کشی کو فیشن کا درجہ دے دیا جائے، جب ان بچوں کو ‘برین واشڈ’ پکارا جائے جو اچانک خدا کی طرف رجوع کرکے نماز شروع کردیں، جب ایسے دوستوں کو سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے جو کہیں ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کے حق میں وکالت کرتے پائے جائیں، جب اسلامی جماعتوں کو شیخ حسینہ واجد اور عبد الفتح سیسی سے ڈرایا جائے، جب تحریکوں پر پابندی کا شور اٹھے، جب مدارس پر تالے ڈالنے کی تجویز دی جائے، جب اذان کو شور کہا جائے اور جب بار بار چڑھا کر ایسے کام کیے جو اہل مذہب کی دل آزاری کا سبب بنتا ہو تو پھر کیا اس دوسری انتہاپسندی پر بات بھی نہ کی جائے؟
کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ ایک مشہور پنج ستارہ ہوٹل میں منعقدہ مزاکرے کا موضوع اس خیال کے گرد گھوم رہا تھا کہ کس طرح انگریزی اخبارات اور سوشل میڈیا کو اسلام پسندوں کی دسترس سے دور رکھا جائے۔ وہاں بھرے مجمع میں ایک خاتون پر صرف اس لیے “ہیٹ اسپیچ کی دلال” ایسی آوازیں کسی گئیں کیونکہ انہوں اپنا نکتہ اعتراض ارباب دانش کے گوش گزار کرنے کی جسارت کردی تھی۔ اہل مذہب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مقدسات پر کمپرومائز نہیں کرتے جبکہ دوسری طرف اسی قسم کا رویہ “ہیٹ اسپیچ” کے عنوان سے لبرل طبقے نے برابر روا رکھا ہوا ہے۔ فلاں مولوی نے فلاں دھماکے کی مذمت نہیں کی، اس لیے اس کی زبان پر تالا ڈال دو، فلاں اسکالر کو اٹھا کر جیل میں پھینک دو اور فلاں لیڈر “وار آن ٹیرر” کو کیونکہ امریکی جنگ سمجھتا ہے، اس لیے اسے سیاست کا حق نہیں۔
ایک مذہب پرست معاشرہ جس کا متفقہ آئین الہامی ہدایت کو بالادست قرار دیتا ہو، جس میں عوام کی غالب اکثریت مذہبی قوانین کی حامی ہو، جہاں دین کی قدیم تفہیم ہی مجموعی طور پر قبول کی جاتی ہو اور جہاں نجی جہاد کو تین دہائی تک ریاست کی مکمل سرپرستی حاصل رہی ہو، وہاں اعتدال اس بات کی متقاضی ہے کہ 180 ڈگری متصادم بات پیش کرتے ہوئے بے ساختگی اور بے باکی کے بجائے حکمت، دانائی اور دعوتی اسلوب اختیار کیا جائے مگر اس کے برعکس دیکھنے کو کیا ملتا ہے؟ بات ہی قربانی، نماز، روزے، ختم نبوت، جنت و جہنم اور یہاں تک کہ خدا کے وجود سے شروع ہوتی ہے۔ آپ کے لوگ خدا کو ماننے والوں کے روبرو کبھی خدا پر طنز مارتے ہیں تو کبھی ان کی عبادات کو فضول خرچی ثابت کرتے ہیں۔
مذہبی طبقے کے اندر پنپنے والی انتہاپسندی کو اہل مذہب کے سنجیدہ طبقے نے ہمیشہ للکارا ہے مگر ہمارے دوست “لبرل انتہاپسندی” کے وجود کو ہی سرے سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، گویا تم کرو تو رقص، ہم کریں تو مجرا؟ جب ان کے سامنے دلائل اور واقعاتی شہادت کا انبار لگادو تو وہ فوراً “تشدد” کا عنوان کھینچ کر چشم پوشی کرجاتے ہیں۔ جناب! مذہبی طبقہ فی الحال اکثریت میں ہے اور اس بابت ان کے اندر موجود جنونی لوگ تشدد افورڈ کرسکتے ہیں جبکہ موجودہ حالات میں لبرل طبقہ چاہتے ہوئے بھی اس طرف رخ نہیں کرسکتا۔ ان کے متشدد لوگ اپنی اس مردم خور جبلّت کو تسکین پہنچانے کے لیے قوم پرست جماعتوں کا رخ کرتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ گو تشدد انتہاپسندی سے آگے کا مرحلہ ہے مگر ہمارے یہاں محدود تشدد سے کہیں بڑا مسئلہ دوطرفہ انتہاپسندی ہے جس کا دائرہ کار لامحدود ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لبرل طبقے میں انتہاپسندی کا شکار اکثر لوگ اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بااثر واقع ہوئے ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ آج اکثریت کو یوں روندتے پھرتے ہیں، کل کلاں اگر انہیں اقلیت کا سامنا کرنا پڑا اور دستور کی چھڑی بھی ان کے ہاتھ میں ہوئی تو وہ کیونکر ماضی کے ترکی و ایران اور حال کے تاجکستان کی تاریخ کو نہیں دہرائیں گے؟
کاشف نصیر