آج کل جدت پسندی کی ایک نئی رو چلی ہے… کہ مولویوں پر الزام لگایا جائے کہ وہ خواہ مخواہ تکفیر کرتے پھرتے ہیں۔ گو یا ہر طرف تکفیر کا گھناؤنا چہر ہ سراُٹھائے کھڑا ہے۔ ان جدت پسند دانشوروں کی تحریر سے ایسا محسوس ہوتا کہ جدھر دیکھو کوئی مولوی کسی کی تکفیر کے لئےبے تاب۔ آپ ذرا سا اختلاف کریں کوئی آپ کو کافر قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔دنیا کا ہر مولوی دوسرے مولوی کو کافر قرار دیتا ہے۔ مسلمان کا ہر فرقہ گویا کہ دوسرے فرقے کے نزدیک کافر ہے۔ حنفی اپنے علاوہ تمام مسلکوں کا کافر مانتا ہے۔ اہل حدیث تمام مقلدوں کو کافر قرار دیتا ہے۔ طالبان اپنے علاوہ باقی سب کے کفر کا فتوی دیتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔
گویا کہ پورے معاشرے کو تکفیریوں نے ہائی جیک کیا ہوا ہے۔
لیکن کیا واقعی میں یہ حقیقت ہے…؟ کیا پچھلے کچھ سالوں میں پاکستانی معاشرے آپ نے ایک بھی قابل ذکرکفر کا فتوی سنا ہے…؟ کم از کم ہمارے علم میں ایسا کوئی فتوی سرے سے پایا نہیں جاتا۔ اور اگر کہیں پر کسی کونے کھدرے سے ایسا فتوی دیا بھی گیا ہو تو وہ پاکستان کے معاشرتی دھارے میں نہ نافذ ہوا، نہ معلوم ہوا اور نہ ہی مقبول ہوا بلکہ وہ پاکستان کے کٹر سے کٹر دینی طبقے میں پایا ہی نہیں گیا۔
تو جناب پھر یہ کونسےتکفیری فتوے ہیں جو ہے تو نہیں لیکن ان کا شور اتنا زیادہ ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی؟ اس تکفیر کے نقار خانے میں کیوں جدت پسند سیکولرز حضرات ممیاتے پھر رہے ہیں کہ “دیکھو مجھے کافر کہتاہے………!!!” اصل مسئلہ کیا ہے؟؟
مسئلہ کچھ یوں معلوم پڑتا ہے کہ مولوی اب ذرا چالاک ہوگیا ہے… سیکولر جدت پسندوں کو اپنے مکالمے کے لئے کوئی بنیادیں نہیں مل رہی ہیں۔ تکفیر تو دور کی بات مولوی نے اب فتوے کی زبان میں بات کرنا ہی بند کردیا ہے۔ فکری مکالمے سیکولر جدت پسندوں کے دانت کھٹے کر رہے ہیں۔ ان سیکولر جدت پسندوں کے لئے فکری اور عقلی بحث میں اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے مظلومیت کا تڑکا بہت ضروری تھا۔ اب یہ ہتھیار ان کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔اب یہ سیکولر جان بوجھ کر بہت کچھ کہہ دیتے ہیں کہ ایک آدھ مولوی ہی ان کے خلاف فتوی ڈال لے تا کہ مظلومیت کا ناٹک کھیلا جاسکتے۔ بڑی بڑی اور حساس باتوں پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ کسی ایک مولوی کوہی جلال آجائے اور ایک آدھ فتوی ہی جاری ہوجائے۔ لیکن مولوی ہے کہ فتوی دینے میں نہیں آرہا ہے!
ویسے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ تکفیر جیسے نازک مسئلہ کو عموم دیا جائے اور اس پر ہمارے دینی حلقے کو بہت زیادہ فکر مند بھی ہونا چاہئے۔ لیکن جو لوگ دین کو اجتماعی زندگی سے ہی باہر نکالنے پر تلے ہوئے ہیں انہیں تکفیر سے پریشانی ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔ بلکہ اب باقاعدہ اعلان شدہ ملحدین جو خدا کےوجود پر ہی پھبتیاں کستے ہیں اور رسول کی رسالت کے بارے میں عجیب و غریب شکوک و شبہات پھلانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اس ’فتنہ تکفیر‘ سے بہت زیادہ تکلیف ہورہی ہے۔ اور وہ بھی تکفیر کا ایسا فتنہ جو معاشرے میں سرے سے پایا ہی نہیں جاتا…؟ حالانکہ انکی سیکولر اخلاقیات کا تقاضا تو یہ تھا کہ کوئی تکفیر کرے نہ کرے ان کو تو اپنی امانت داری ثابت کرنے کے لئے خود سے اعلان کرنا چاہئے تھا کہ “میں کافر ہوں”۔ لیکن یہ خود سے کفریہ باتیں، ملحدانہ نکات بلکہ توہین رسالت تک کر کر کے یہ چاہ رہے ہیں کہ دینی حلقے ان کے کفر کا فتوی دیں اور پھر یہ اس پر اپنی مظلومیت کا رونا رونے لگیں کہ دیکھو “مولوی مجھے کافر کہتا ہے” یا ” دیکھو میرے خلاف فتوی دیا جاتا ہے” اور اب مولوی فتوی دینے سے بھی رہ جاتا ہے تو اپنی مظلومیت کا جھوٹا ڈرامہ کیا جارہا ہے۔ یہ تکفیر کی مظلومیت گویا کہ پروپیگنڈے کی دھند ہے جس میں کچھ بھی صاف دکھائی نہ دے ۔ ایک ملحد دین کے خلاف کچھ بھی بکے اور اس دھندلاہٹ سے پھر بھی سرخ رو ہوکر نکلے۔ یا ایک پیش بندی ہے کہ آئندہ کوئی کچھ بھی بدزبانی کرے اور کسی کو ہمت نہ ہو کہ کسی کو کافر قرار دے۔تکفیر کے نظریے کو معاشرے سے نکالنے کی پوری تیاری ہے۔ ظاہر ہے کفر ہی نہ ہوگا تو اسلام اور کفر کو خلط ملط کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔ اس پورے ڈسکورس کے اصل ڈانڈے اس سیکولر ہیومنزم کی سازش سے جاملتے ہیں جہاں انسانیت کے نام پر ملتوں کا فرق کو ہی مٹادیا جائے۔
جب ایک جمہوریت کا دعوے دار جمہوریت کے خلاف بات کرے تو آپ اس پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ بندہ غیر جمہوری ہے۔ جب ایک سیکولرزم کا دعوےدار سیکولر اصولوں کے خلاف جائے تو آپ اس پر اس کی گرفت کرتے ہیں کہ تم حقیقت میں سیکولر نہیں ہو اور تمہارے سیکولرزم کا دعوی جھوٹا ہے۔ ایک انسان پرست انسان پرستی کے خلاف بات کرے تو اسے بھی ہیومنزم کے دائرے سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ ایک سائنس پرست انٹلی جنٹ ڈیزائن کی بات کرے تو فوراً اسے سائنس کے دائرے سے نکال باہر کیا جائے گا قطع نظراس سے کہ وہ اپنے دعوے کے لئے جو بھی”سائنسی ” دلیل دے۔ لیکن ان ملحدوں کا مطالبہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف کچھ بھی کہیں وہ اپنے نام کے ساتھ معاشرے میں مسلم ہی رہیں گے بلکہ اسلام کے نام پر اپنے الحادی عقائد کی تبلیغ بھی کرتے رہیں گے بلکہ اگر کوشش کے باوجود ان پر کفر فتوی نہیں داغا گیا تو بھی اپنے جھوٹی مظلومیت کا ڈرامہ کر کے نمبر حاصل کرتے رہیں گے۔
اسلام کی اپنی تعلیمات ہیں اور ان میں کچھ ضروریات دین ہیں جن کے دائرے سے نکلنے سے ایک فرد سچ مچ کافر ہوجاتا ہے۔ تو جناب تکفیر کے اس عموم سے ہم کراہت ضرور رکھتے ہیں لیکن سچ مچ کی تکفیر ہوتی بھی ہے اور تکفیر کی یہ تلوارضرور ملحدوں کے سروں پر لٹکتی رہے گے۔ اور جب کسی کے سر پر پڑی ہے تو جناب وہاں بھٹو جیسا سیکولر بھی کچھ کرنے کے بجائے مسلمانوں کی حمایت کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
ذیشان وڑائچ، سہ ماہی ایقاظ