دین میں طعن کر لو، جیسے مرضی
دین کے ثوابت اور محکمات پر کیچڑ اچھال لو، جیسے چاہو
یہاں تک کہ ذاتِ خداوندی، انبیاءؑ، اصحابؓ…
بہت کم لوگ تم پر معترض ہوں گے۔ اور تھوڑا بہت بول، چپ بھی ہو ہی جائیں گے۔ ’’خبر‘‘ تو شاید ہی یہ بن پائے۔
ہاں کسی ملک کے قومی ثوابت یا شخصیات پر.. یا حتیٰ کہ معمولی سائز کی پارٹی کا کوئی لیڈر بھی ہو تو اس پر.. بولنے سے پہلے ہزار بار سوچنا! زمین اس پر ہل سکتی ہے اور آسمان اپنی جگہ سے ہٹتا محسوس ہو سکتا ہے!
قومی / سیاسی فتووں کا دور ہے؛ دینی فتووں کا نہیں! بات اتنی سی، مختصر سی ہے!
’قومی معاملات‘ میں لوگوں کے بولے پر تمہارا گرفت کرنا یا ان کے کیے کا نوٹس لینا آپ سے آپ بھلا لگتا ہے۔ ایسی سختی کرنا ’فتویٰ‘ تھوڑی ہے ’’قومی فریضہ‘‘ ہے! ’’قومی فریضہ‘‘ جس سے مقدس تر چیز کوئی نہیں۔ ’سیاسی مسائل‘ میں مخالف پر تنقید کرنا یا حتیٰ کہ کسی وقت آسمان سر پر اٹھا لینا آپ کے یہاں ’شعور‘ بلند ہونے اور ’قومی احساس‘ زندہ ہونے کی علامت ہے! ’شعور‘ اور ’احساس‘ بھائی… جو تمام تر تہذیب اور تعلیم کا ما حصل ہے!
ہاں صرف ’’دینی معاملات‘‘ میں کسی کی بیہودگی کا نوٹس لینا یا اس پر برہم ہو کر دکھانا ’فتوی بازی‘ کہلائے گا، یعنی ’اجڈ‘، ’گنوار‘ اور ’غیر مہذب‘ ہونے کا دوسرا نام!!! ایسا طعنہ بھلا سہنے کا ہے!؟ اب تو اچھے اچھے علماء اور داعیانِ دین ’’سِوِلائزڈ‘‘ ہو چکے؛ وہ ایسی کسی حرکت سے کوسوں دور بھاگتے ہیں؛ دین کی حفاظت اللہ خود ہی فرما لے گا؛ وہ کوئی ہمارا محتاج ہے! ’وقت‘ کی کاٹ بڑی ظالم چیز ہے! دیکھو باقی ہر چیز کےلیے جذباتی ہو جایا کرو، تمہارے ان ’انسانی جذبوں‘ کی قدر کرنے والے فوراً سے پہلے آ پہنچیں گے۔ تمہارے ’دکھ‘ کو سمجھنے والے تمہارے لہجے کی سچائی اور تمہارے کھرا پن کی داد دیے بغیر نہ رہیں گے۔ سوائے دین کے؛ اس کےلیے جذباتی ہونا اب چھوڑ دو۔ زمانہ اس چیز کا نہیں رہا!
تھوڑا غور کر لیں تو بات بخوبی سمجھ آتی ہے: ’’پاپ‘‘ وغیرہ کا سب تصور دراصل ’’انسان‘‘ دیوتا سے وابستہ ہو چکا ہے۔ ’’خدا‘‘ اب اس حیثیت سے فارغ کرایا جا چکا، العیاذ باللہ۔ ’’سماج‘‘ کا مرکز اب اُس العلي الکبیر کی ذات نہیں، معاذ اللہ۔ دوستو! ہیومن ازم وغیرہ ضلالتوں کی نری ’’تعریفات‘‘ میں مت الجھے رہا کرو (یہ دو سو سال پہلے کرنے کا کام تھا اگر کرنا تھا!)؛ معاملہ اب بہت آگے جا چکا۔ اب تو ذہنوں پر اس کی جکڑ دیکھو اور ’’پڑھے لکھوں‘‘ کی نفسیات پر اس کی باقاعدہ چھاپ محسوس کرو۔ ہیومن ازم اُس نقطے سے بہت آگے گزر، یہاں رویّوں میں سرایت کر چکا۔ گھٹی میں اتارا جا چکا۔ لوگوں کے ’طبعی و فوری ردِ عمل‘ abrupt reactions میں بولنے لگا۔ given مانا جانے لگا۔ یعنی سکۂ رائج الوقت۔
ہم اس سے پہلے اپنی کسی تحریر میں کہہ چکے، ’’نظام‘‘ سے تو شریعتِ خداوندی یہاں بہت پہلے فارغ کرائی جا چکی۔ اب تو وہ ’’ذہنوں‘‘ سے کھرچ دی جانے لگی ہے۔ ’’معاشرے‘‘ سے بےدخل ٹھہرائی جانے لگی ہے۔ ’’نظام‘‘ کی بحثیں اٹھانے والے خدا را معاملے کی صحیح پوزیشن کو سمجھیں۔ اس جنگ کا محاذ فی الوقت ’’سماج‘‘ ہے ’’نظام‘‘ نہیں۔ یعنی صحیح معنوں میں ایک غربتِ اسلام جو ہمیں درپیش ہے۔ مسئلہ ’’نظام‘‘ کی سطح کا ہوتا تو شاید کوئی ’’سیاسی موومنٹ‘‘ آپ کو کفایت کر جاتی۔ لیکن وہ جنگ جو آپ کو اِس وقت درپیش ہے، یہاں آپ کو ’’تعلیمِ عقیدہ‘‘ کی سطح پر آنا اور جاہلیت کے ساتھ ایک بہت گہرا اختلاف اٹھانا ہو گا۔ ایک ’’سماجی محاذ‘‘ اٹھانے تک جانا ہو گا۔ اسے ’’ملتوں‘‘ اور ’’تہذیبوں‘‘ کی آویزش بنانا ہو گا۔ مسئلے کو ’’شرک اور توحید‘‘ کی بنیاد پر لینا ہو گا؛ کیونکہ ہیومن ازم کے ساتھ فی الواقع ہمارا اسی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس سے کم سطح کا کوئی بھی علاج مرض کو اور بھی تقویت دے گا۔
معاملے کو کسی ایک عدد ’سیاسی اسکیم‘ میں محصور جاننا آپ کو اس سے بھی پیچھے دھکیل دینے والا ہے، کاش آپ اس کا اندازہ کر لیں۔ ابھی فی الحال ایک بہت اچھی پوزیشن آپ کو یہاں حاصل ہے، معاملے کو مزید مؤخر کر کے خدا را اس سے ہاتھ مت دھو بیٹھیں۔ یہ ہے معاشرے کا اسلام سے محبت کرنا۔ (اسلام جس کو ’’ہیومن ازم‘‘ سے ہم آہنگ کروانے کےلیے شاگردانِ استشراق کا زور لگا پڑا ہے؛ تا کہ مسلمان کے جاگنے سے پہلے یہ اسلام ہی کو یرغمال کر چکے اور اسی سے ہیومن ازم کا پانی بھروانے لگ گئے ہوں ) معاشرے کا اسلام کےلیے آج بھی حمیت رکھنا، اگر آپ اسلام اور کفر کا فرق اس پر واضح کرنے والی ایک بھاری بھر کم جمعیت میدان میں لا سکیں جو ’قومی وسیاسی‘ شعور کے مقابلے پر ’’ملت‘‘ اور ’’اعتقاد‘‘ کے مسئلے کو قوم پہ اجاگر کرنے پر پورا زور صرف کر دے اور جاہلیت سے اس بات پر بڑے بڑے بلیغ طعنے سن لینے کو غربتِ اسلام کے اِس موڑ پر اپنے مسلمان ہونے کا کم از کم حق جانے۔
ایسی ایک جمعیت معاملے کو اس کے اصل رخ پر ڈالنے کےلیے اس وقت ناگزیر ہے۔ ’’نظام‘‘ والے پوائنٹ پر زور لگانے کی بجائے، ایک قدم پیچھے آ کر، ’’اعتقاد‘‘ والے اس مسئلہ پر تحریک اٹھا دینا، جس کی ایک محبِ اسلام معاشرہ میں فی الوقت اللہ کے فضل سے پوری گنجائش ہے اور تھوڑی محنت ان شاء اللہ آپ کو واپس ’’نظام‘‘ والے پوائنٹ پر بھی پہنچا سکتی یہاں تک کہ اس سے بھی بہت بہت آگے لے جا سکتی ہے۔ لیکن اگر اس پوائنٹ سے، جہاں اس وقت ہم کھڑے ہیں، خدانخواستہ ہمیں پیچھے ہٹنا پڑ گیا، تو شاید پھر ’’کھڑے ہونے‘‘ کی جگہ بھی اس معاشرے میں ہمارے لیے باقی نہ رہے ’’آگے بڑھنا‘‘ تو دور کی بات۔ کاش ہمارے داعی اس کا اندازہ کر لیں اور اپنی ’روزمرہ مذہبی‘ مصروفیات سے وقت نکال کر، یہ ایک ناگزیر محاذ کھڑا کرنے اور ’’سماجی سیکولرزم‘‘ کے خلاف اھل السنۃ والجماعۃ کا ایک وسیع قاعدہ تشکیل دینے اور ’’ایمان بمقابلہ کفر‘‘ کا ایک عام سادہ فہم مومنٹم اٹھانے کا بیڑہ اٹھائیں… اور نہیں تو کچھ سنجیدہ لوگ اس کےلیے سر جوڑ کر ہی بیٹھ لیں۔ یہاں تو فی الوقت یہ بھی نہیں ہو رہا!
تاریخ اس امت کی ’’قوتِ مزاحمت‘‘ کا بار ہا نظارہ کر چکی ہے۔ وقت اپنے آپ کو دہرائے بغیر اب بھی ان شاء اللہ نہیں رہنے کا۔ پوٹینشلز سب کے سب موجود ہیں۔ گھٹائیں امڈ آنے کو بےچین ہیں۔ کمی ہے تو شاید کسی پہلے قطرے کی۔ ’اسلامی سیکٹر‘‘ امکانات کے لحاظ سے یہاں کا سب سے زیادہ باوسائل اور سب سے زیادہ اثرانداز ہو سکنے والا گروہ ہے، کاش اس کی اس اعلیٰ پوزیشن کا ہمیں اندازہ ہو سکے اور کچھ غیر مؤثر مشغلے اس کے یہاں کم کروا کر معاشرے کے کچھ حقیقی محاذوں کی جانب اسے رخ کروایا جا سکے۔
ولَیَنصُرَنَّ اللہُ من ینصرہ
شیخ حامد کمال الدین