انسان کا مقصد حیات کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو انسانی فطرت نے ہمیشہ اٹھایا ہے، اور جب بھی اٹھایا ہے، خود انسانی جبلت اس سے پریشان ہوئی ہے۔ یہ اتنا بنیادی سوال ہے کہ انسانی شعوری عمر کے ہر زمانے میں موجود رہا ہے۔ انسان نے جتنی بھی علمی ترقی کی، یہ سوال اتنا ہی مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اس سوال کی اپنے ہی عہد میں کارفرمائی دیکھیے کہ اسلام سب سے تیز رفتار ی سے سب سے ترقی یافتہ معاشروں میں پھیل رہا ہے۔ اس کے وہاں پھیلنے میں نہ تو مولوی کا کوئی کردار ہے اور نہ ہی تبلیغی جماعت کا۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کا کردار تب آتا ہے جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرنے اور اس کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ داعی کون ہے جو ان نو مسلموں کو اسلام کی جانب لے کر آتا ہے؟ 90 فیصد کیسز میں وہ داعی دل میں اٹھتا یہ سوال خود ہے کہ “میرا مقصد حیات کیا ہے؟ میں اس دنیا میں کیوں ہوں؟” آپ ایک پورا دن، پورا ہفتہ، پورا مہینہ یا پورا سال لگاکر مغرب کے نو مسلموں کی وہ ویڈیوز دیکھ لیجیے جو ہزاروں کی تعداد میں انہوں نے خود “سیلفی ویڈیو” کے طور پر بناکر یوٹیوب پر اپلوڈ کی ہیں۔ 90 فیصد نو مسلم یہی بتاتے ہیں کہ یہ سوال تنگ کرتا تھا، ہم جواب کی تلاش میں نکلے تو در در کی ٹھوکریں کھاکر جس منزل تک پہنچے وہ اسلام ہی تھا۔ ہمیں قرآن مجید کے مطالعے سے پتا چلا کہ ہم اس دنیا میں کیوں ہیں اور ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟
آپ ایک لمحے کے لیے مذہب کو ایک طرف رکھ دیجیے اور خالص عقلی بنیاد پر انسان کے سامنے یہ سوال رکھ دیجیے اور اس سے کہیے کہ خدا اور مذہب کے سوا کوئی مقصد حیات اپنا متعین کرکے دکھائیے تو سوائے تین عیاشیوں کے کوئی بھی مقصد حیات وہ نہیں بتا سکتا۔ ایک پینا، دوسرا کھانا اور تیسرا سیکس کرنا۔ آپ ایک لبرل کی زندگی کا بغور جائزہ لیجیے، اس کی پوری جدوجہد ان تین چیزوں کو بہتر سے بہتر شکل میں پانے کی جدوجہد ہے۔ کہنے کو وہ آپ سے کہے گا کہ میرا مقصد شعور پھیلانا ہے، آپ سوال داغ دیجیے”شعور پھیلنے کا حاصل کیا ہوگا ؟”وہ کہے گا”ایک بہتر سماج قائم ہوگا”وہ کہے گا”لائف اسٹائل بہتر ہوگا”آپ پوچھیے”بہتر لائف اسٹائل سے کیا مراد ہے ؟”تو اس کے پاس مغرب کے ان عشرت کدوں کی جانب اشارے کے سوا کوئی آپشن ہی نہ ہوگی جہاں کل حتمی اور آخری مقصد “پینا، کھانا اور سیکس کرنا” ہے اور یہ تو ہر جاندار کی جبلت ہے آپ کا بکرا بکری، سنڈا اور بھینس، گائے اور بیل بھی یہی کر رہے ہیں اور انسان سے زیادہ سہولت کے ساتھ کر رہے ہیں۔ انہیں کھانے، پینے اور سیکس کی سہولیات حاصل کرنے کے لیے کسی کی بارہ گھنٹے کی نوکری کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی کوئی اوؤر ٹائم لگانا پڑتا ہے۔ اپنی ان تین جبلی ضروریات کی تکمیل میں دنیا کا ہر جانور انسان پر بدرجہا فوقیت رکھتا ہے۔ سو سوال اب بھی یہی رہ جاتا ہے کہ لبرلز کے تین آخری مقاصد انسانی میں تو انسان بکرے بکری سے بھی کئی گنا نالائق ہے اور اسے عقل بھی میسر ہے تو پھر مقصد حیات کیا ہے؟ ظاہر ہے مقصد حیات وہی چیز ہوسکتی ہے جو اسے قلبی اطمینان اور سکون مہیا کرے، اس کی بے چینیاں ختم کردے اور اس کی زندگی میں ٹھیراؤ لے آئے۔ یہ سب خدا کے آگے سرنڈر کرنے سے ہی میسر ہوتا ہے۔
خدا سب سے پہلا ڈسپلن لاتا ہی کھانے، پینے اور سیکس میں ہے۔ وہ کہتا ہے تمہیں کھانے، پینے اور سیکس میں بکرا بکری سے بھی نکما اسی لیے رکھا ہے کہ یہ تمہارا مقصد حیات نہیں۔ بکرا بکری کو یہ سب اس لیے سہولت سے دیا ہے تاکہ وہ جلد جلد افزائش حاصل کرکے تمہارا رزق بنے اور تم وہ کرسکو جو تمہارا مقصد حیات ہے۔ لھذا تمہارا سب سے بڑا چیلنج “حلال و حرام” کی تمیز ہے۔ اور یہ تمیز تمہیں سب سے زیادہ کھانے، پینے اور سیکس میں ہی رکھنی ہے۔ تم یہ تمیز رکھوگے تو “بندے کے پتر” کہلاؤگے۔ اب رہا یہ سوال کہ مقصد حیات کیا ہے ؟ تو میری مان کر چلنا ہی تمہارا مقصد حیات ہے۔ اور دیکھو جو میں منوانا چاہتا ہوں اس کا سب سے بڑا امتیاز ہی یہ ہے کہ مجھے تو اس کا دو ٹکے کا بھی فائدہ نہیں لیکن تمہارے لیے ہی نہیں بلکہ پوری بنی نوع انسان کے لیے اس میں خیر ہی خیر ہوگی۔ میری تعمیل تمہیں شر کبھی نہ دے گی۔ بس شرط یہ ہے کہ طاعت کامل ہونی چاہئے۔ جتنی اطاعت ناقص ہوگی اتنا ہی تم شر کا شکار ہوتے جاؤگے !
اب غور کیجیے کہ لبرل کا تو پہلا مطالبہ ہی یہ ہے کہ مذہب کو بیچ سے نکالیے، کوئی کہتا ہے نجی و اجتماعی دونوں شعبوں سے نکالیے، تو کوئی کہتا ہے اجتماعی زندگی سے نکالیے، لیکن مطالبہ ہے دونوں کا یہی کہ مذہب کو نکال باہر کیجیے۔ جب مذہب کو نکال باہر کیا جائے تو پیچھے تین ہی چیزیں رہ جاتی ہیں۔ کھانا، پینا اور سیکس۔ اور یہی ان کا کل مقصد ہے۔ مذہب کے ساتھ ان کے جھگڑے کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ ان تین چیزوں میں ڈسپلن لانے کی بات کرتا ہے، وہ ڈسپلن جو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا سب سے موزوں نظام مہیا کرتا ہے۔ سو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لبرلز کا اسلام سے بنیادی جھگڑا ہی گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ میں مداخلت کا ہے۔ یہ کہتے ہیں، ہمیں پنکی کو پھنسانے کی اجازت ہونی چاہیے، اگر پنکی راضی ہے تو خدا کون ہوتا ہے اعتراض کرنے والا؟
رعایت اللہ فاروقی