ایک بھائی نے کہا ہے کہ مغرب میں عورت کے استحصال سے متعلق کوئی تحریر لکھنی چاہیے تاکہ ان لوگوں کو جواب دیا جاسکے جو ہمارے یہاں ”ڈیٹ مارنے“ کے کلچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں، نیز جن کے خیال میں اصل مسئلہ ہمارے یہاں مردوں کی ”خراب نظر و ذہنیت“ کا ہے، عورت کے کم یا زیادہ لباس میں بھلا کیا رکھا ہے۔ یہاں مسئلے کے اصل پہلو کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ یہ اختلاف اعداد و شمار کا نہیں اقدار کا ہے۔
اہل منطق کا کام خیالات کی ساخت و صحت کا مطالعہ کرنا ہے۔ چنانچہ اہل منطق بتاتے ہیں کہ اختلاف متنوع اقسام کے ہوتے ہیں۔ ان میں بعض اختلاف حقیقی جبکہ بعض لفظی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ”حقیقی اختلاف“ دو اقسام کا ہوسکتا ہے:
1) حقائق پر مبنی اختلاف (Disagreement in belief): یعنی دو لوگوں میں اس امر پر اختلاف ہو کہ نفس امری اور حقیقت واقعہ کیا ہے اور کیا نہیں۔ فرض کریں کہ زید کہتا ہے کہ شعیب قائداعظم یونیورسٹی میں پروفیسر ہے، اور راشد کہتا ہے کہ نہیں شعیب لیکچرر ہے۔ ان دونوں میں اختلاف ”واقعہ کیا ہے“ کی بنا پر ہے۔ یا فرض کریں مائیکل کہتا ہے کہ ہٹلر نے کئی لاکھ یہودیوں کو قتل کیا جبکہ کلارک کہتا ہے کہ نہیں کیا۔ یا میں کہتا ہوں کہ 1992 میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا مگر مدن کہتا ہے کہ نہیں انگلینڈ نے جیتا۔ یہاں بھی اختلاف ”حقیقت کیا ہے“ (what is fact) پر ہے۔
اس قسم کا اختلاف اگر بدنیتی پر مبنی نہیں بلکہ ”حقیقی“ (جینوئن) ہو تو یہاں درست معلومات و حقائق فراہم کردیا جانا فصل نزاع میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثلا مصدقہ دستاویزات کے ذریعے بتا دیا جائے کہ شعیب لیکچرر ہے یا پروفیسر وغیرہ۔
2) اقدار کا اختلاف (Disagreement in attitude): یہاں دو لوگوں کے مابین اختلاف کی بنیاد یہ نہیں ہوتی کہ ”متعلقہ حقیقت کیا ہے“ بلکہ ”متعلقہ واقعے کے متعلق اقداری رویہ“ ہوتا ہے۔ یعنی ایک شخص اسے اچھا یا ضروری جانتا ہے جبکہ دوسرا برا یا غیر اہم۔ اس قسم کا اختلاف متعلقہ یا مزید حقائق فراہم کردینے سے ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہاں فریقین کے مابین ”حقیقت کیا ہے“ پر اختلاف ہوتا ہی نہیں۔ ان کا اختلاف تو ”متعلقہ حقیقت کی اقداری حیثیت“ پر ہوتا ہے۔
اہل مذہب و لبرل حضرات کے مابین فی الوقت جاری موضوع ایک حقیقی اختلاف تو ہے مگر یہ دوسری نوعیت کا ہے نہ کہ پہلی اور یہ اختلاف حقائق فراہم کردینے سے ختم ہونے کا نہیں۔ مثلا اگر آپ یورپ و امریکہ کے مصدقہ اعداد و شمار بھی پیش کردیں کہ تمام تر آزادی ہونے کے باوجود وہاں کی خواتین بے پناہ جنسی تشدد کا شکار ہیں یا وہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں غیر نکاح شدہ جوڑوں کے بچے پیدا ہوتے ہیں یا وہاں 18 سال کی عمر تک پہنچنے والی بچیوں کی کثیر تعداد جنسی تعلقات رکھ چکتی ہیں تو انہیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اگر انہیں یہ معلوم ہو کہ ”کسی مرد نے کسی عورت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا جس سے خاتون ہراساں ہوگئی“ تو یہ انہیں بہت ہی برا محسوس ہوگا اور اس کی روک تھام کے لیے وہ قوانین بنائیں گے، لیکن اگر آپ انہیں یہ بتائیں کہ ”ایک مرد و عورت کے درمیان غلط نوعیت کے تعلقات ہیں“ تو ان کے بال پر جوں بھی نہ رینگے گی۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کے نزدیک شخصی آزادی کے مقابلے میں عصمت و حیا (مرد و عورت دونوں کے لیے) وغیرہ بے معنی چیزیں ہیں۔
تو جناب یہ اختلاف اقدار کا ہے اور اقداری اختلاف کبھی حقائق فراہم کرنے سے ختم نہیں ہوسکتا۔ آپ جتنے بھی حقائق پیش کردیں، سامنے والا فریق اسے اپنے نظریے کے مطابق اچھے یا قابل قبول معنی فراہم کردے گا۔ چنانچہ مسئلہ اقدار، بلکہ زیادہ بنیادی سطح پر اس علمیت کا ہے جس کی بنیاد پر اقدار متعین کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل