ہماری نوجوان نسل (خصوصا جامعات میں پڑھنے والے بچوں و بچیوں) کو نجانے کس ”دانشور“ نے یہ غلط اصول سکھا دیا ہے کہ لباس تمھارا ذاتی مسئلہ ہے، نیز کسی کو اسے کسی بنیاد پر ریگولیٹ کرنے کی اتھارٹی (اخلاقی و قانونی حق) حاصل نہیں۔ اس دانشوری پر بس سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کیونکہ خود لبرل اصولوں کے تحت بھی اس عمومی بیان کا دفاع کرنا ممکن نہیں۔ہمارے دیسی لبرل و سیکولر حضرات کو ہر اس ریاستی حکم پر تکلیف ہوتی ہے جس کی بنیاد و حوالہ مذہب ہو (مثلا لباس پر تحدید)۔ اس کی بنیاد وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ مداخلتیں لبرل (انفرادی آزادی کے) اصولوں کے خلاف ہیں۔
آئیے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ خود لبرل اصولوں کی رو سے ریاست کے لیے کیا کچھ جائز ہے۔ دھیان رہے، یہاں ہر اصول کی وضاحت کا موقع نہیں۔
لبرل مفکرین کے لیے فرد اور اجتماع کا تعلق اہم ترین سوال رہا ہے۔ اس سوال کے جواب کا تعلق براہ راست اس امر سے ہے کہ ریاست ایک لبرل فرد و معاشرے (جسے مارکیٹ کہتے ہیں) کے کن معاملات و گوشوں میں مداخلت کا حق رکھتی ہے اور کن میں نہیں۔ اس جواب کی تفصیل میں لبرل مفکرین کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ریاست کے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ اختیار کی تفصیلات سے علی الرغم لبرل مفکرین کے یہاں ریاست کا یہ کردار درج ذیل اصولوں و امور پر مبنی ہے۔
1) لبرل لاء اینڈ آرڈر کے نظام کو وضع و نافذ کرنا۔ اس ضمن میں بعض مفکرین مثلا مینگرو ہائیک وغیرہ کا خیال ہے کہ مارکیٹ (یعنی لبرل معاشرہ) بدون ریاست خود بخود فطری طور پر قائم ہوجاتی ہے اور ریاست کا کام اس فطری معاشرت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ البتہ new institutional economics اس مفروضے کی سادگی و غلطی کو واضح کرتی ہے، اور ان لبرل اداروں کو قانونی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرتی ہے جو مارکیٹ کے قیام کے لیے لازم ہیں
2) جہاں مارکیٹ ایفیشنٹ نتائج دینے میں ناکام ہوجائے، وہاں ریاست مداخلت کرے۔ اس ایک اصول کے تحت بہت سے ذیلی اصول آجاتے ہیں۔ مثلا:
– پبلک گڈز (public goods)
– کسی عمل کے بیرونی اثرات (externalities)
– مارکیٹ پاور (concentration of market power)
– بائع و مشتری کے مابین غیر متوازن معلومات سے متعلقہ مسائل
– نامکمل مارکیٹس (incomplete markets)
3) میکرو اکنامک stability اس میں مالیاتی نظام کی ریگولیشن بھی شامل ہے.
4) دولت یا ویلفئیر کی منصفانہ تقسیم.
5) پدرانہ کردار (paternalistic rolee)
اس آخری اصول پر کچھ کہنا مقصود ہے۔ اس اصول کے تحت ریاست یہ طے کرنے کا حق رکھتی ہے کہ فرد کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا؟ لہذا جو اس کے لیے اچھا نہیں، فرد کو اس پر عمل کرنے سے روکا جائے، اور جو اس کے لیے اچھا ہے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کی ادائیگی کے مواقع پیدا کیے جائیں (ریاست اس بنیاد پر جو اشیاء و سہولیات فراہم کرے انہیں merit goods کہتے ہیں، مثال کے طور پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے سیٹ بیلٹ باندھنے کا قانون)۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فرد بوجوہ اپنے خیر کو پہچان نہیں پاتا یا وہ فوری (short run) ترجیحات کا تعین اس طرح کرتا ہے جو اس کی بعد کی زندگی (long run) میں اس کے حق میں نہیں ہوتیں وغیرہ۔ اس مسئلے کو internality کہتے ہیں (یعنی فرد کی ترجیح سے خود فرد کو نقصان ہو رہا ہے)۔ یا یہ کہ فرد کی بعض ترجیحات لبرل معاشرے کے حساب سے ”غیر مہذب و غیر معاشرتی“ (anti social) ہوتی ہیں (ایسی ”غیر لبرل ترجیحات“ رکھنے والے افراد کو dangerous subjectivity کہا جاتا ہے۔
عام طور پر لبرل مفکرین اس مفروضے کو مانتے ہیں کہ فرد اپنے خیر کو سب سے بہتر خود جانتا و سمجھتا ہے، لہذا کسی دوسرے کو اس پر اپنی ترجیحات مسلط کرنے کا حق نہیں (کیونکہ انفرادی آزادی کا معنی ہی ان کے نزدیک ذاتی خیر کو ڈیفائن کرنے کا حق ہے اور کسی دوسرے کی ترجیحات ماننے کا مطلب انفرادی آزادی کی نفی ہے)۔ مگر کیا یہ اصول ہر ہر فرد کے لیے اور ہر ہر معاملے میں درست مانا جاسکتا ہے؟ اس کی تفصیل میں لبرل مفکرین میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ ان کے درمیان اس بات کو ماننے میں کوئی اختلاف ہے کہ فرد اپنے لیے غلط انتخاب نہیں کرسکتا یا ریاست کو غلط انتخاب ریگولیٹ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ یہ ہے کہ آخر اس کا تعین کیسے ہوگا؟ ذرا غور کیا جائے تو یہ سوال درحقیقت علمیاتی ہے، یعنی یہ کہ ریاست کے پاس یہ حکم لگانے کا ماخذ کیا ہے کہ فرد فلاں معاملے میں جو انتخاب کرتا ہے، وہ غلط ہے؟ جدید اکنامکس میں ایسے کچھ اصولوں کی تشخیص پر کام کیا جارہا ہے جن کی روشنی میں خود لبرل اصولوں کے تحت بھی افراد کی بہت سی آزادیوں کی تحدید کا جواز نکلتا ہے۔
ان تفصیلات کو پیش کرنے کا مقصد یہ سوال اٹھانا ہے کہ جب خود لبرل ازم کی رو سے ریاست کے پاس فرد کی آزادیوں میں تحدید کرنے کا اس قدر وسیع میدان موجود ہے تو ہمارے یہاں کے لبرلز و سیکولرز کو شرع کے نام پر روا رکھی جانے والی ریاستی مداخلت و تحدیدات پر مسئلہ کیوں ہوتا ہے؟ آخر ایک اسلامی ریاست قرآن و سنت کی روشنی میں یہ طے کرنے کا حق کیونکر نہیں رکھتی کہ فلاں فلاں انتخاب و ترجیح فرد اور معاشرے کے حق میں نہیں، خصوصا اس صورت میں کہ جب پالیسی کو جواز دینے والی مفروضہ انفرادیت کے تعین و مقاصد میں بنیادی نوعیت کا اختلاف ہو (یعنی جب ”مقاصد شرع“ اور ”مقاصد لبرل ازم“ میں اختلاف ہو)؟ یہ آخری نکتہ بذات خود کچھ تفصیل کا متقاضی ہے مگر یہاں ہم اس سے سہو نظر کیے لیتے ہیں۔
پس یاد رکھنا چاہیے کہ لبرل اصول کے تحت فرد کا ہر وہ عمل و قول اصولا پبلک ریگولیشن کے زمرے میں آسکتا ہے جسے دوسرے دیکھ اور سن سکتے ہیں یا جس سے دوسروں پر یا خود فرد پر ہی کوئی منفی اثر پڑتا ہو، بحث صرف اس میں ہوسکتی ہے کہ آیا اس اصول کے تحت کس فعل کو ریگولیٹ کرنا ہے اور کسے نہیں، اور (یہ بحث بھی محض اس بنا پر ہے کہ اس اصول کے تحت قابل ریگولیٹ اعمال کا تعین کیسے ہوسکتا ہے)۔ مثلا ایک کالج یا جامعہ کے دو طلبہ اگر آپس میں لڑائی جھگڑا کریں یا کسی پبلک مقام پر آپس میں گالم گلوچ کریں یا باآواز بلند فحش گفتگو کریں یا ایک اکیلا ہی فرد پبلک مقام پر کھڑا ہوکر فحش گوئی یا گالم گلوچ کرے تو ان کا یا اس اکیلے فرد کا یہ عمل اس بنا پر ریگولیشن سے ماوراء نہیں ٹھہرتا کہ یہ ان کا یا اس کا ذاتی فعل ہے جس سے کسی دوسرے کو نقصان نہیں ہورہا۔ ن لیگ کے ایک بندے نے پی ٹی آئی کے ایک بندے کو گالی دی تو اول الذکر کا عمل محض اس بنا پر جائز نہیں ٹھہرا کہ گالی دینا اس کا ذاتی عمل ہے (بلکہ نہ صرف یہ کہ اسے تھپڑ رسید ہوا بلکہ اس نے معافی بھی مانگی)۔
کاش کہ ہمارے لبرل سیکولر حضرات ہماری نوجوان نسلوں کو گمراہ کرنے سے قبل خود اپنی شریعت کے اصول و قواعد کو ہی صحیح سے سیکھ لیں۔ باقی ایک مسلمان کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ ”کس عمل کو ریگولیٹ کرنا ہے اور کسے نہیں“ لبرل اصولوں کی پابندی کی کوئی ضرورت نہیں، وہ شرع کا پابند ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ان حلقوں پر ہوتا ہے جو غلط سلط لبرل نتائج کو جواز دینے کے لیے مذہب کی زبان استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل