کلاس میں طلباء کے ساتھ نیوکلاسیکل اکنامکس کے اس پہلو پر بات کی کہ اس کے پس پشت جو فکری فریم ورک ہے وہ لبرل ازم سے ماخوذ ہے جس کا اظہار صرف معاشی علم میں ہی نہیں بلکہ سماجی، سیاسی و قانونی علوم کے اندر بھی ہوا ہے۔ موجودہ قانونی فریم ورک کے اندر یہ “ھیومن رائٹس” کے نام پر جانا جاتا ہے۔ لبرل ازم کا یہ فریم ورک کس طرح جدید دور میں غیر شعوری طور پر پالیسی میکنگ اور بحث میں مقدمات وضع کرنے کے طریقہ کار پر اثر انداز ہوتا ہے اس کے لئے “لباس پر پابندی” کے مسئلے کا بطور مثال انتخاب کیا جو آج کل ذرا “برننگ اشو” ہے۔ بچوں کو سمجھایا کہ اس موضوع پر ہمارے یہاں کس طرح بیک وقت لبرل ازم اور اسلام کے نام پر گفتگو کرکے خلط مبحث پیدا کیا جاتا ہے کہ دلیل کے جو مقدمات لبرل ازم سے ماخوذ ہیں انہیں سوچے سمجھے بغیر اسلام کے اصول فرض کرکے گفتگو کی جاتی ہے اور لبرل اصولوں سے کوئی مقدمہ ثابت کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے گویا مسئلے کا اسلامی حکم بھی معلوم ہوگیا۔ یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ “اصولی دلیل” اور اس کے لئے پیش کئے جانے والے “واقعاتی پہلووں” (empirical evidence) میں فرق کرنا کیوں ضروری ہوتا ہے۔ انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی اگر اس مسئلے کو خود لبرل اصولوں کی رو سے دیکھا جائے تو بھی لباس کے مسئلے پر مداخلت کی گجائش لبرل اصولوں کے اندر موجود ہے اور اگر اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو پھر بھی یہ معاملہ بالکل واضح ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طلباء کے ذھنوں میں پائے جانے والے اکثر و بیشتر خیالات وہی ہیں جن کی وجہ سے عام پڑھے لکھے لوگ غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ طلباء کے سوالات و دلائل کچھ اس قسم کے تھے:
– لباس ذاتی مسئلہ ہے
– جو بچیاں مناسب لباس پہنتی ہیں لوگ ان کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں
– جب قرآن نے کہا کہ دین میں کوئی جبر نہیں تو پھر کسی پر لباس کے معاملے میں جبر کیسے کیا جاسکتا ہے؟
– میں کیسا لباس پہنتا/پہنتی ہوں اس کا جواب میں نے خدا کو دینا ہے، کوئی مجھے کسی قسم کا لباس پہننے کا کیوں کہہ سکتا ہے؟
– ایک شخص بیک وقت مسلمان، عیسائی و ھندو نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ سب متضاد پویشنز ہیں لیکن ان میں سے ہر کوئی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے مسلمان ہوسکتا ہے تو لبرل ازم کو کیوں نہ اپنایا جائے؟
– سر “شریعت کیا ہے” اس بارے میں اختلاف ہے اور یہ انسانوں کا فہم ہے لہذا کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میری تشریح کے مطابق عمل کرو؟
لباس کے مسئلے پر شریعت کی رو سے بات کرتے ہوئے طالب علم نے سوال کیا کہ “شریعت کیا ہے اس میں تو اختلاف ہے نیز یہ کہ یہ تو انسانوں کی بات ہے”۔ طالب علم کو سمجھایا کہ احکامات کے درجات ہیں، یہ بات درست ہے کہ خدا کی شریعت کو انسان ہی سمجھتے ہیں لیکن یہ کسی طرح نہیں مانا جاسکتا کہ ایک بات جسے امت میں صحابہ کے دور سے پورے تسلسل کے ساتھ خدا و رسول کا حکم سمجھا گیا ہو وہ سرے سے خدا کا حکم ہی نہ ہو، اگر ایسا ہی ہے تو پھر خدا کا اپنا رسولﷺ بھیجنے اور کتاب نازل کرنے کا کیا فائدہ؟ کیا خدا آسمان سے بولے گا کہ یہ میرا حکم ہے؟ ظاہر ہے یہ انسانوں ہی نے سمجھنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اولا تو ہر معاملے میں اختلاف نہیں اور ثانیا یہ کہ اختلاف ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب اس معاملے پر شرع کی روشنی میں عمل ممکن نہیں۔
اس سوال و جواب کے کچھ دیر بعد بات یورپ و امریکہ میں ایسی مثالوں کی طرف چل نکلی جہاں ریاستیں کسی ایک یا دوسری بنیاد پر افراد کے “ذاتی سمجھنے جانے والے معاملات” میں مداخلت کرتی ہیں جن کی مثالیں حجاب پر پابندی ہے۔ اس پر وہی طالب علم معترض ہوا کہ سر یہ لبرل ازم کے خلاف ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ عمل لبرل ازم کے خلاف ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ طالب علم کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے امریکہ کی مثال دی جہاں نائن الیون کے بعد امریکی ریاست نے لوگوں کے ٹیلی فون ریکارڈ کرنا شروع کردئیے یہاں تک کہ کون شخص لائبریری سے کونسی کتاب اشو کرواتا ہے یہ معلومات بھی نوٹ کرنا شروع کردیں۔ طالب علم نے پھر کہا کہ سر یہ لبرل ازم کے خلاف ہے۔ میں پھر پوچھا کہ لبرل ازم کیا ہے اور کیا نہیں، اس کا فیصلہ آپ کریں گے، فرانس کی ریاست کرے گی یا امریکہ کی ریاست؟ کیا لبرل ازم کا قرآن و سنت جیسا کوئی ایسا “مستند ٹیکسٹ” موجود ہے جسے اصولا سب لبرل اپنے لئے بائنڈنگ سمجھتے ہوں کہ یہ ٹیکسٹ لبرل ازم کو جانچنے کے لئے معیار ہے؟ دیکھئے اسلام کا تو بہرحال ایک ایسا ٹیکسٹ ہے، کیا لبرل ازم کا بھی کوئی ایسا ٹیکسٹ ہے؟ اگر یہاں ایسا کوئی ٹیکسٹ بھی نہیں ہے تو پھر یہ فیصلہ کیسے کریں گے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں وہی لبرل ازم ہے؟ اور آپ یا کوئی دوسرا شخص جو بھی کہے گا کیا وہ ایک انسان کی رائے نہیں ہوگی؟ تو جس کا کوئی معیاری ٹیکسٹ تک نہیں اسے آپ کس بنیاد پر متعین و معلوم مان رہے ہیں؟
طالب علم سوال کے مسائل سے بچنے کے لئے بولا کہ “دیکھیں سر چیزوں کو سادہ رکھنا چاہئے، عملی دنیا میں ایسی پیچیدگیاں مسائل پیدا کرتی ہیں”۔ میں نے عرض کی کہ یہ خوب رہی کہ جب بات اسلام کی ہو تو “اختلاف ہے” اور “معیار کیا ہے” کے نظری پیمانے خوب اچھی طرح کس لئے جائیں لیکن جب یہی باتیں لبرل ازم کے آگے آجائیں تو اپنے ہی پیمانوں کو ڈھیل دے کر “عملیت” اور “سادگی” کا سبق سنانا شروع کردیا جائے۔ اگر اصولوں کے فہم میں اختلاف شریعت کو ناقابل عمل بنا دیتا ہے تو لبرل ازم کو کیوں نہیں؟ آخر لبرل ازم کے پاس وہ کونسا پیمانہ جس کی رو سے یہ طے کیا جاسکے کہ لبرل ازم کی “اصلی والی تشریح” کونسی ہے؟
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ شاید لبرل ازم کسی بہت “پکے” اور “واضح” قسم کے ایسے اصولوں کا نام ہے جن میں اختلاف گویا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ لبرل اصول آزادی و مساوات اور انکی باہمی نسبتوں کے اندر اس قدر علمی گنجائشیں (gaps) ہیں کہ ان کے نام پر کسی بھی عمل کو جائز و ناجائز بتایا جاسکتا ہے۔ بطور مثال یورپ کے بعض ملکوں میں حجاب پر پابندی کی مثال لے لیجئے۔
لبرل اصولوں کی رو سے ریاست کو یہ حق ہے وہ ان معاملات میں مداخلت کرے جن سے ایک فرد کے کسی عمل سے دوسرے شخص پر کوئی منفی (یا مثبت) اثرات مرتب ہوتے ہوں، اس اصول کو externality کہتے ہیں (اس کی ایک مثال پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی ہے کہ اس سے دوسرے کی صحت متاثر ہوتی ہے)۔ لیکن “منفی” (و مثبت) سے مراد کیا ہے اور کیا نہیں (یعنی ان کے تحت کونسے امور و مفادات کو روا رکھنا ہے اور کونسے نہیں) اس ضمن میں تشریحات و اختلاف کی بڑی گنجائش موجود ہے۔ حجاب (یا بالکل ننگے گھومنے پر پابندی) کا مسئلہ اس تعبیری اختلاف کی ایک مثال ہے۔ جن لوگوں کے خیال میں اس پر پابندی ہونی چاہئے ان کی دلیل یہی ہے کہ اس عمل سے ان کے معاشرے کی مجموعی روایت پر برے اثرات پڑتے ہیں لہذا فرد کے اس حق انتخاب پر پابندی لگانا جائز ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں کی رائے میں یہ پابندی غلط ہے ان کی رائے میں “معاشرے کی مجموعی روایت” کوئی ایسی چیز نہیں جس کی بنیاد پر فرد کی آزادی سلب کرلی جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حجاپ پر پابندی کو غلط کہنے والوں کی ایک اکثریت “بالکل ننگا گھومنے” کو اسی بنا پر ناجائز کہتی ہے جس بنا پر حجاب پہننے کو ناجائز کہنے والے اپنی دلیل دیتے ہیں (یعنی دوسروں/معاشرے پر غلط اثرات)۔ چنانچہ وہ لوگ جو ھمارے یہاں بھی لباس کے معاملے پر اس بنا پر ریاستی مداخلت کو غلط کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ “یہ فرد کی آزادی میں مداخلت ہے” ان کی عظیم ترین اکثریت اگلی ہی سطر میں “ڈیسنٹ لباس” کا جواز پیش کرتی نظر آئے گی (لیکن ڈیسنٹ کا معیار کیا ہے اور کیا نہیں یہ خود انہیں بھی پتہ نہیں ہوتا اور درحقیقت اس کے نام پر وہ اپنی اپنی ترجیحات کو منوانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، اسی طرح کیا لبرل ازم “ڈیسنسی” کا کوئی واضح معیار بتاتا ہے؟)
لبرل اصولوں کی رو سے فرد کی آزادی کو سلب کرنے کی ایک اور بنیاد internality بھی ہے، یعنی فرد بسا اوقات اپنے مفاد کو پہچان نہ پانے کی وجہ سے غلط انتخاب کرتا ہے جس کا نقصان خود اسی کی ذات کو ہوتا ہے، لہذا ایسی صورت میں ریاست کے لئے جائز ہوتا ہے کہ وہ فرد کو ایسے اعمال کرنے سے روک دے یا کسی خاص “اچھے عمل” پر مجبور کردے (یہ مقام غامدی صاحب کے لئے بھی قابل غور ہے جو لبرل سیکولر اصولوں سے متاثر ہوکر کہتے ہیں ‘لوگوں کو نیک بنانا ریاست کا مقصد نہیں ہوتا’ جبکہ خود لبرل اصولوں کی رو سے بھی ریاست لوگوں کو کسی نیک کام پر مجبور کرسکتی ہے)۔ اس کی مثال گاڑی چلاتے ہوئے سیٹ بیلٹ باندھنے یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ھیلمٹ پہننے کا اصول ہے (اسی کی ایک مثال “جبری تعلیم” کا نفاذ بھی ہے جسےexternality کے تحت بھی دیکھا جاسکتا ہے)۔ چنانچہ وہ امور جن کے لئے ریاست فرد کی آزادی میں خود فرد کی بھلائی کے نام پر مداخلت کرے انہیں “میرٹ گڈز” (Merit Goods) مہیا کرنا کہتے ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لباس بھی میرٹ گڈز میں شامل ہے یا نہیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ فرد اس معاملے میں بھی “خود اس کے لئے کیا اچھا ہے” پہچاننے میں ناکام ہوجائے؟ تو اسی تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ حجاب پہننا یورپی خاتون کے اپنے حق میں ہی نہ ہو کہ وہ “انجانے میں” خود کو ایک ایسی شناخت کا مظہر بنارہی ہے جو عورت پر “استبداد” کی علامت ہے؟ آخر وہ کونسا قطعی لبرل اصول ہے جس کی رو سے اس بنا پر حجاب پہننے پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی؟
ان گزارشات کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ “حجاب پر پابندی لبرل اصولوں کے خلاف ہے” یہ ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ ہے، لبرل ازم کے اندر اتنی گنجائش موجود ہے کہ اس پالیسی کے لئے جواز خود اس کے اندر سے وضع کرلیا جائے۔ ہمارے یہاں کے دیسی لبرلز لبرل ازم کے بارے میں خود لبرل تھیورسٹس سے زیادہ “خوش گمانیاں” رکھتے ہیں۔
تو اب سوال یہ ہے کہ حجاب پر پابندی لگانے اور نہ لگانے دونوں میں سے کونسی بات لبرل ازم ہے؟ اس سوال کا جو بھی جواب ہے وہ درست کیوں کر ہے؟ یہ کون طے کرے گا کہ اس معاملے میں “حقیقی لبرل ازم” کیا ہے؟
ڈاکٹر زاہد مغل