سیکولر و جدت پسند طبقہ مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دیتا ہے یعنی مذہب کا تعلق ایک فرد کی صرف ذاتی یا نجی زندگی (Private Life) سے ہے، اس دعوے کا تجزیہ کرنے سے پہلے ہم اس کے مطلب کی وضاحت کرتے ہیں۔اس دعوی کا مطلب یہ ہے کہ؛
(الف) مذہب کا افراد کے معاشرتی تعلقات کی تشکیل اور ترتیب متعین کرنے میں کوئی حصہ نہیں ہونا چاہئے۔
(ب) معاشرتی صف بندی میں افراد کا مقام اور درجہ بندی طے کرنے میں مذہبی اقدار کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔
قبل اس کے کہ ہم اس دعوے کا بودا پن ظاہر کریں، یہ بات نوٹ کرلیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر سیکولر عمل ہی کو ریاستی صف بندی کا اصل اصول مان لیا جائے تو مذہب کی زیادہ سے زیادہ حیثیت نجی معاملے کے اور کچھ نہیں رہ جاتی ۔ سیکولر سٹیٹ کا جواز فرد کی آزادی (یعنی عبدیت کا انکار) کے تصور پر مبنی ہے اور آزادی کا تصور فرد کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے؛ (1) نجی زندگی) Private Life (، (2) اجتماعی زندگی (Public Life) ۔
پرائیویٹ لائف سے مراد کسی شخص کی زندگی کا وہ گوشہ ہے جس میں کوئی فرد کسی دوسرے کی مداخلت کے بغیر جو کرنا چاہے کرسکے، دوسرے لفظوں میں اپنے لئے خیر و شر اور خواہشات کی ترجیحات کا جو پیمانہ طے کرنا چاہے، جمناسٹک کلب جانا چاہے تو جاسکے، بندروں کی زندگی کے حالات جمع کرنے پر پوری زندگی صرف کرنا چاہے تو کر لے،شراب خانہ جانا چاہے تو چلا جائے اور اگر مسجد یا گرجا وغیرہ کی سیر کرنا چاہے تو کرلے۔ الغرض اپنی ذاتی زندگی کو جیسے چاہے مرتب کرلے چونکہ زندگی گزارنے کے تمام طریقے برابر حیثیت رکھتے ہیں ( یعنی لایعنی ہیں)۔ اس کے مقابلے میں پبلک زندگی سے مراد افراد کی زندگی کا وہ حصہ ہے جو وہ دوسرے افراد کے ساتھ تعلقات قائم کرکے گزارتا ہے اور ان تعلقات کے نتیجے میں ایک معاشرہ اور ریاست وجود میں آتی ہے۔
سیکولر ریاست میں ان تعلقات کی بنیاد افراد کی اغراض اور خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے نیز اجتماعی فیصلے اس بنیاد پر طے ہوتے ہیں کہ عوام زیادہ سے زیادہ آزادی یعنی سرمائے کا حصول چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس مذہب خصوصاََ اسلام اس بات کا مدعی ہے کہ فرد کی ذاتی زندگی ہو یا اجتماعی، فیصلے اس بنیاد پر ہونے چاہئیں کہ خدا کیا چاہتا ہے اور یہ بات جمہوریت کی روح کی عیں نفی اور ضد ہے (کیونکہ عبدیت اور آزادی بالکل اسی طرح ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے جیسے ایمان اور کفر)۔ لہٰذا اگر مذہب ایک فرد کی نجی زندگی سے باہر نکل کر افراد کی معاشرتی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو وہ لازماََ جمہوریت کو نیست و نابود کردے گا۔ پس ایک جمہوری ریاست کے لئے لازم ہے کہ وہ مذہب کو فرد کی ذاتی زندگی کے دائرے میں محصور کرکے رکھے اور اس کے دائرہ عمل کو جس قدر کم ہوسکے کم کرنے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی شخص چاہتا ہے تو اپنی مذہبیت کا اظہار اپنی زندگی میں جس قدر چاہے کرے، لیکن وہ اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ اپنی مذہبیت کو اپنی اولاد پر نافذ کرنے کی کوشش کرے، چہ جائیکہ مذہب کو اسمبلی کے ایوانوں میں لے آئے۔
سیکولرازم کا سب سے بہترین اصولی رد مولانا مودودی مرحوم نے آج سے کئی برس پہلے ان الفاظ میں بیان فرمایا تھا؛
“سیکولرازم کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور اس کی ہدایت اور اس کی عبادت کے معاملے کو ایک ایک شخص کی ذاتی حد تک محدود کردیا جائے،اور انفرادی زندگی کے اس چھوٹے دائرے کے سوا دنیا کے باقی تمام معاملات کو ہم خالص دنیاوی نقطہء نظر سے اپنی صوابدید کے مطابق خود جس طرح چاہیں طے کریں۔ ان معاملات میں یہ سوال خارج از بحث ہونا چاہئے کہ خدا کیا کہتا ہے اور اس کی ہدایت کیا ہے اور اس کی کتابوں میں کیا لکھا ہے۔
یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف انسان کی انفرادی زندگی سے ہے،سراسر ایک مہمل نظریہ ہے جسے عقل وخرد سے کوئی سروکار نہیں۔ ظاہر بات ہے خدا اور بندے کا تعلق دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا، یا تو خدا انسان کا اور اس ساری کائنات کا جس میں انسان رہتا ہے خالق، مالک اور حاکم ہے، یا نہیں ہے۔اگر وہ نہ خالق ہے، نہ مالک ہے اور نہ حاکم ہے، تو اس کے ساتھ پرائیویٹ تعلق رکھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے، نہایت لغو بات ہے کہ ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کی جائے جس کا ہم سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ اور اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس جہان ہست و بود کا خالق، مالک اور حاکم ہے تو اس کے کوئی معنیٰ نہیں ہے کہ اس کی عمل داری (Jurisdiction) محض ایک شخص کی پرائیویٹ زندگی تک محدود ہو، اور جہاں سے ایک اور ایک دو آدمیوں کا اجتماعی تعلق شروع ہوتاہے وہیں سے اس کے اختیارات ختم ہوجائیں۔ یہ حد بندی اگر خدا نے خود کہ ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہئے۔اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خدا سے بے نیاز ہوکے خود ہی خودمختیاری اختیار کی ہے تو یہ اپنے خالق و مالک اور حاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔
اس سے لغو بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداََ فرداََ تو خدا کا بندہ ہو مگر یہ الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تو بندے نہ رہیں۔ اجزاء میں سے ہر ایک بندہ مگر اجزاء کا مجموعہ غیر بندہ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تصور صرف پاگل ہی کرسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی راہنمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے، نہ محلے اور شہر میں، نہ مدرسے اور کالج میں، نہ منڈی اور بازار میں، نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہاؤس میں، نہ ہائی کورٹ اور نہ سول سیکٹریٹ میں، نہ چھاؤنی اور پولیس لائن میں اور نی میدانِ جنگ اور صلح کانفرنس میں تو آخر اس کی ضرورت کہاں ہے؟ کیوں ایسے خدا کو مانا جائ اور خواہ مخواہ اس کی پوجا پاٹ کی جائے کہ جو تو اتنا بے کار ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری رہنمائی نہیں کرتا، یا معاذ اللہ ایسا نادان ہے کہ کسی معاملے میں اس کی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آتی۔” (بحوالہ ماہنامہ ترجمان القرآن،جنوری 2008ء)
پرائیوٹ اور پبلک لائف کے تصور کی حقیقت:
یہ دعویٰ کہ مذہب (اسلام) انسان کا ذاتی مسئلہ ہے کی صحت اس تصور پر قائم ہے کہ انسانی زندگی کی دو حیثیتیں یعنی پرائیوٹ اور پبلک لائف ہوتی ہیں، جبکہ اسلام کے نزدیک تو ذاتی اورپبلک لائف میں تفریق ہی ایک بے معنیٰ تفریق ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ پرائیوٹ اور پبلک لائف کی تفریق تصورِ آزادی سے نکلتی ہے، یعنی ایک ایسا شخص جو خود کو آزاد اور قائم بالذات تصور کرتا ہے اور جس کا مقصدِ زندگی خواہشات کی تکمیل ہو، وہ اپنی زندگی کو دو حصوں میں بٹا ہوا دیکھتا ہے، ایک وہ گوشہ جہاں وہ اپنی ترجیحات کی جو ترتیب متعین کرنا چاہے کرسکتا ہے اور دوسرا گوشہ جہاں اسے دوسرے افراد کے ساتھ تعلقات قائم کرکے اپنی خواہشات کی وہی ترتیب متعین کرنے کی اجازت ہوتی ہے جس سے دوسروں کی خواہشات متعین کرنے کا حق مجروح نہ ہوتا ہو۔ اس بات کو آسان طریقے سے یوں سمجھئے کہ تصورِآزادی جس سوال کی بناء پر پرائیوٹ اور پبلک لائف کی تقسیم پیدا کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں پرائیوٹ اور پبلک لائف کی تقسیم کے پیچھے جو سوال کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ ‘فرد اپنے اعمال کے لئے کس کے سامنے جواب دہ ہے؟’ (To Whom he is accountable?)، چنانچہ اس کی زندگی کا وہ گوشہ جہاں وہ اپنے اعمال کے لئے سوائے اپنے نفس کے اور کسی کے آگے جواب دہ نہیں ہوتا وہ اس کی پرائیوٹ لائف ہوتی ہے، اور وہ اعمال جن کے لئے وہ اپنے نفس کے علاوہ بھی کسی کے آگے جوابدہ ہوتا ہے ( مثلاََ معاشرے کے دوسرے افراد یا ریاست) وہ پبلک لائف کہلاتی ہے۔ انہی معنوں میں مذہب ایک شخص کا ذاتی مسئلہ ہے کیونکہ جمہوری تصورِ فرد کے مطابق وہ اپنے مذہب کے لئے سوائے اپنے نفس کے کسی اور کے آگے جوابدہ نہیں۔ اسلام میں ایسے کسی تصور کی کوئی گنجائش ہی نہیں، کیونکہ ایک شخص جو خود کو مسلمان کہتا ہو وہ اس بات کا تصور نہیں کرسکتا کہ اس کی زندگی کا کوئی گوشہ اور عمل ایسا بھی ہے جس کے لئے وہ اپنے رب کے آگے جوابدہ نہیں۔
اسلام کے مطابق انسان اپنے ہر عمل کے لئے اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہے ( نہ کہ نفس یا ریاست وغیرہ)، لہٰذا یہ سمجھنا کہ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا بھی ہے جہاں میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکتا ہوں، ایک کافرانہ خیال ہے جس سے واضح ہوا کہ پرائیوٹ اور پبلک لائف کا تصور ہی ایک بے معنیٰ تصور ہے۔ مجھے تو ہر حال میں اپنے رب کا حکم ماننا ہے، چاہے اس حکم کا تعلق میری تنہائیوں، خلوتوں، خیالوں اور حالاتِ قلب سے ہو یا میری جلوتوں اور دنیاوی تعلقات سے۔ اپنے رب کے حکم کی بجاآوری بندے پر ہر حال میں لازم ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے حکم گھر میں تسبیح پڑھنے کا دیا گیا ہے یا اللہ کی حدود قائم کرنے کا۔ یہاں تو پرائیوٹ اور پبلک لائف کا تصور ہی بے معنیٰ ہے کیونکہ بندہ ہر حال میں اور ہر عمل کے لئے صرف اسی کے سامنے جوابدہ ہے، لہٰذا وہ بنیادی تصور ( کہ میں کس کے آگے جواب دہ ہوں) جس کی بنیاد پر پرائیوٹ اور پبلک لائف کی تفریق کا فلسفہ گھڑا گیا ہے وہ تصور ہی اسلام کے نزدیک سرتاپا باطل ہے۔ مذہب کے ذاتی مسئلہ ہونے کا مطلب تو یہ ہوا گویا میں اپنی خلوتوں میں اپنے رب کا بندہ ہوں اور اسی کے سامنے جوابدہ ہوں،مگر اپنی جلوتوں میں کسی اور کا؟ دوسرے لفظوں میں میرا رب مجھے یبیتون لربھم سجداََ و قیاما کی تصٰحت کرے گا تو میں مانوں گا، اور اگر اقیموا الدین یا چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے گا تو اس کے حکم کے بجائے کسی اور کی بات سنوں گا۔ اب سیکولر حضرات ہمیں بتائیں کہ جس ریت کی بنیاد پر انہوں نے پوری عماری تعمیر کی تھی، جب وہ بنیاد ہی گر جائے تو عمارت کا کیا ہوگا؟
ڈاکٹر زاہد مغل