مذہب کو ذاتی مسئلہ قرار دینے کے بعد درج ذیل لازمی نتائج قبول کرنا پڑتے ہیں۔
1) معاشرتی تعلقات کی بنیاد’ ایمان ‘اور معاشرتی معیار ‘تقویٰ ‘نہیں:
تمام مذہبی احکام بشمول فرائض و سنن اور مذہبی اقدار کی ادائیگی اور عدم ادائیگی کا ایک فرد کے معاشرتی مقام طے کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ مثلاََ ایک شخص نماز ادا کرتا ہے یا نہیں اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ اسلامی ریاست کا صدر یا وزیر وغیرہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص شراب پینے یا زنا کرنے کے باوجود معاشرتی صف بندی میں ہر مقام حاصل کرسکنے کا جواز رکھتا ہے، مثلاََ وہ سی ایس پی آفیسر بن سکتا ہے، فوج کا جنرل ہوسکتا ہے، کسی یونیورسٹی کا ڈین بن سکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس بات کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ ہم قرآن کے اس اصول کا انکار کردیں کہ (بےشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا ہو ہے جو اللہ کے احکامات کا زیادہ لحاظ کرنے والا ہے: الحجرات؛ 13)۔
دوسرے لفظوں میں افراد چاہے مومن اور متقی ہوں یا کافر، منافق، بدکار، فاسق اور فاجر، الغرض ہر لحاظ سے معاشرتی صف بندی اور تعلقات کی درجہ بندی میں یکساں اہمیت اور درجات کے حامل ہیں اور ان کی ان صفاتِ عالیہ یارزیلہ کا ان کے معاشرتی احترام و درجہ طے ہونے میں کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ اور ہم یہ محض کوئی نظریاتی بات نہیں کہ رہے بلکہ آپ ترقی یافتہ جمہوری ممالک کا حال دیکھ آئیے کہ وہاں تقویٰ، حیا، خوفِ خدا، عشقِ رسول، اور زہد جیسی مذہبی اقدار بالکلیہ مہمل اور لایعنی تصور کی جاتی ہیں۔ پس مذہب کو ذاتی مسئلہ قرار دینا درحقیقت خدائی اعلان ( کیا ہم فرمانبرداروں کا حال مجرموں کا سا کریں گے: القلم؛ 35) سے بغاوت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک بے نمازی شخص اسلامی ریاست میں صدر تو کجا صدر کا چپٹراسی بھی نہیں لگ سکتا کیونکہ دنیا کا ہر ادارہ اپنے چپڑاسی کی بھرتی کے لئے بھی چند کم از کم شرائط کا تعین کرتا ہے ایسے ہی ادائیگیء نماز ان چند کم از کم شرائط میں سے ایک ہے جو اسلامی ریاست کی مشینری کے ذمہ داران کے لئے لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔
مذہب ذاتی مسئلہ ہے،کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان تمام احادیث کا انکار کردین جن میں رسول اللہ ﷺ نے ایسے ارشادات فرمائے؛ خیرکم (تم میں سے بہتر وہ ہے)، مثلاََ خیرکم من تعلم القراءن وعلمہ ( تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں) وغیرہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ارشادات کو ماننے کا واضح مطلب یہ ماننا ہے کہ معاشرے میں افراد کی درج بندی میں مذہبی اقدار حتمی حیثیت کی حامل ہیں اور یہ وہ بات ہے جو جمہوری اقدار (آزادی اور مساوات) نیز اس دعوے کہ مذہب ذاتی مسئلہ ہے کے عین ضد ہے۔
اسی بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ معاشرہ افراد کے ان باہمی تعلقات کا نام ہے جو کسی مقصد کے حصول کی خاطر برضا و رغبت قائم کئے جاتے ہیں۔ مذہب کا ذاتی مسئلہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تعلقات کی تشکیل و تعمیر میں مذہبی شناخت و اقدار کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ آسان لفظوں میں اس کی تفصیل یوں سمجھئے کہ لوگ تعلقات قائم کرتے ہوئے مذہبی شناخت و اخلاقِ حمیدہ کی صفات وغیرہ کو پسِ پشت ڈال دیں اور اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ جس کے ساتھ ان کا تعلق ہے وہ مسلمان، متقی، عابد وغیرہ ہے یا مرتد، کافر، بدکار، فاسق و فاجر ہے (اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری معاشرہ درحقیقت ایک سول سوسائٹی ہوتی ہے جس میں تعلقات کی بنیاد خواہشات اور غرض ہوتی ہے جیسا کہ پچھلے مضمون میں تفصیلاََ اس پر روشنی ڈالی گئی تھی)۔ اب ذرا اس بات کو قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں پرکھیے جس میں ایک مومن کی شان یہ بتائی گئی ہے؛ (کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ کے لئےہے جو عالمین کا رب ہے (اور) جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے تو اسی بات کا حکم دیا گیا ہے (کہ میں اسی کی ذات کو ہر چیز کا مرکز و محور بنالوں)؛ سورہ انعام، 161-162)۔
ایسے ہی قرآن مجید میں کئی آیات میں یہ بات کہی گئی ہے کہ کفارومشرکین کو اپنا رازدار نہ بناؤ، نیز اگر تمہارے قریبی رشتہ دار بھی کفر اختیار کرکے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے دشمنی کی روش برقرار رکھیں تو ان کو محبوب نہ جانو (توبہ، 23،24)۔
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں اسی بات کو مختلف پیراؤں میں بیان کیا گیا ہے، جیسے ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کی حلاوت چکھ لی اس شخص نے جس نے اللہ ہی کے لئے دوستی اور دشمنی رکھی (بخاری)۔ ایسے ہی یہ بات زیادہ وضاحت کے ساتھ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے یہود کے خصائص بتاتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا؛ ترجمہ: بنی اسرائیل میں جو سب سے بڑا نقص پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ ان میں سے جب ایک شخص دوسرے شخص سے ملاقات کرتا تو یہ کہتا تھا اے فلاں، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جو تم کر رہے ہو اس کو چھوڑ دو اس لیے کہ یہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔ پھر اس کی جب اسی شخص سے اگلے روز دوبارہ ملاقات ہوتی اور وہ شخص اپنے سابق حال پر قائم ہوتا تھا ( یعنی اسی ناجائز کام کا ارتکاب کررہا ہو تھا)، لیکن یہ چیز ( یعنی دوسرے شخص کا اپنے سابق حال پر قائم ہونا) مانع نہ ہوتی اس (پہلے شخص) کے راستے میں کہ وہ اس کا ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہم نشین بنے۔ جب انہوں نے یہ روش اختیار کی، تو اللہ نے ان کے دلوں کو آپس میں مشابہ کردیا۔ پھر آپ ﷺ نے قرآن کی آیات تلاوت فرمائیں۔”
یہ ارشاد فرمانے کے بعد آپ ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے جبکہ اس سے پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور فرمایا؛ہر گز نہیں، خدا کی قسم تمہیں لازماََ نیکی کا حکم دینا ہوگا، اور لازماََ بدی سے روکنا ہوگا، اور تمہیں لازماََ ظالم کے ہاتھ کو قوت سے روک لینا ہوگا، اور اسے حق پر قائم رکھنا ہوگا، یا (دوسری صورت میں) اللہ تمہارے دل ایک دوسرے کے مشابہ کردے گا، پھر اللہ تم پر بھی لعنت فرمائے گا جیسے ان (یہود) پر فرمائی۔
اس سلسلے میں سب سے واضح بات یہ کہ ہمیں ہر روز عشاء کی نماز میں دہرائی جانے والی دعائے قنوت کو بھی تبدیل کرنا پڑے گا کیونکہ اس میں ایک مومن اپنے رب کے سامنے اس بات کا عہد و اقرار کرتا ہے کہ نخلع ونترک من یفجرک (یعنی اے اللہ! جو نافرمانی کرتے ہیں ہم ان سے قطع تعلق کرلیتے ہیں)۔ مذہب کو ذاتی مسئلہ بنانا درحقیقت یہ دعویٰ کرنا ہے کہ مذہبی اقدار کا تعلقات کی تشکیل اور اس کی درجہ بندی سے کوئی تعلق نہیں اور یہ دعویٰ قرآن مجید و احدیث نبویﷺ سے کھلی ہوئی بغاوت ہے۔
2) نیکی اور بدی برابر ہیں:
اسی سے منسلک دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ مذہبی احکام کی بجاآوری مہمل اور بے معنیٰ ہیں۔ ان کی نوعیت بالکل ایسی ہی ہے جیسے جمناسٹک، باڈی بلڈنگ یا کھیل تماشا کرنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک جمہوری ریاست میں فرد کی نجی زندگی کی ترجیحات اس کے اجتماعی معاملات طے کرنے میں اصولاََ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں (گو عملاََ یہ دعوی بھی درست نہیں کیونکہ جمہوری ریاست میں وہی شخص آگے نکل پاتا ہے جو اپنی نجی زندگی کو بھی حرص و حسد و نفسانی خواہشات کی آماجگاہ بناتا ہو، مگر اس مضمون میں ہم اس پہلو پر بحث نہیں کریں گے)۔ وہ اگر کسی یونیورسٹی کا استاد ہے تو اپنی ذاتی زندگی میں چاہے تو جمناسٹک کلب جائے، کرکٹ کا تماشائی بنے، فلموں کا تمش بین بنے، شراب خانے جائے یا نماز پڑھے، ان تمام باتوں کا اس کی اجتماعی زندگی کی ذمہ داریوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ذاتی زندگی میں افراد کی خواہشات کی تمام ترجیحات مساوی طور پر بے معنیٰ متصور کی جاتی ہیں۔ لہٰذا نیکی اور بدی بذات خود کوئی شے نہیں اور اپنی ذات کے اعتبار سے دونوں ہی مساوی قدریں ہیں۔ اب ایک طرف قرآن کا یہ اعلان سامنے رکھئے کہ (نیکی اور بدی یکساں نہیں ہوسکتیں: حم سجدہ، 34) اور دوسری طرف یہ دعوی کہ مذہب فرد کا ذاتی مسئلہ ہے، کیا اب کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ اسلام جمہوری مذہب ہے اور اس کا معاشرے اور ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے؟ قرآن کی رو سے علم اور جہالت، ہدایت اور گمراہی، نیکی اور بدی، ہر گزبرابر نہیں ہوسکتے۔
3) ٹولیرنس(Tolerance) یا تضیع ایمان:
مذہب کو فرد کا ذاتی مسئلہ قرار دینے کا لازمی تقاضایہ بھی ہے کہ ہم مان لیں کہ کسی بھی فرد کو مذہب کی بنیاد پر کسی دوسرے شخص کے عمل پر تنقید کرنے یا اسے تبدیل کرنے کی خواہش رکھنے اور اس کے لئے جدوجہد کرنے کاحق حاصل نہیں۔ یہاں تک کہ ایک باپ کو نماز کے لئے اپنے بچوں پر جبر کرنے کاحق حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب شہرِ لاہور میں ہونے والی عورتوں کی حیا باختہ میراتھن ریس کے خلاف دینی تحریکوں اور علماء کرام نے احتجاج کیا تو جدیدیت کے دلدادہ صدر مملکت صاحب نے یہ ارشاد فرمایا کہ جو میراتھن ریس نہیں دیکھنا چاہتے وہ اپنا ٹی وی بند کرلیں،مگر انہیں دوسروں پر تنقید کرنے کا حق حاصل نہیں۔ اس رویے کا خوبصورت نام ٹولرینس ہے (جس کا ترجمہ غلط طور پر ‘رواداری’ کرلیا گیا ہے) جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تمام افراد کی ذاتی خواہشات کی ترتیب اور زندگی گزارنے کے طریقے مساوی ہیں، تو ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ دوسرے کی خواہشات کا احترام کرے اور اسے برداشت کرے۔ آزادی کے اصول پر معاشرتی تشکیل تبھی ممکن ہے جب افراد اظہارِ ذات کے تمام طریقوں کو یکساں اہمیت دیں اور انہیں برداشت کرنے کا مادہ پیدا کریں، یعنی ٹولیرنس کا مظاہرہ پیدا کریں ۔
ٹولیرنس کے فلسفے کے تحت قائم ہونے والے معاشروں میں کس کس قسم کے اعمال اور اظہارِ ذات کے کن کن ممکنہ طریقوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ چند روز قبل ہونے والے ان دو واقعات سے لگائیں۔ امریکہ میں ایک عورت کو چوبیس گھنٹے میں کئی سو مردوں کے ساتھ ‘بدکاری کا عالمی ریکارڈ’ بنانے کے ‘اعزاد’ میں انعام سے نوازا گیا۔ اسی طرح چند روز قبل امریکہ میں پانچ ہزار سے زیادہ مردوں اور عورتوں نے مکمل برہنہ حالت میں سڑکوں پر احتجاجی جلوس نکالا، یہ ہے ٹولیرنس کا اصل مفہوم اور اسپرٹ، العیاز باللہ من ذالک۔ اب ٹولیرنس کے اس خوشنما فلسفے کو اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں پرکھئے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛تم میں سے جو کوئی بھی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ (یعنی طاقت) سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے ایسا کردے، اگر اس کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تو اپنے دل سے ایسا کردے (یعنی دل سے برا اسے برا جانے اور اس بات کا پختہ تہیہ رکھے کہ جب کبھی زبان اور ہاتھ سے اسے روکنے کی استطاعے آجائے گی تو روک دوں گا)، اور یہ (یعنی دل سے اسے ایسا کرنا) تو ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے: (مسلم)
تقرریباََ یہی بات زیادہ تاکیدی انداز میں آپ ﷺ نے یوں ارشاد فرمائی:
“جس امت میں کسی نبی کو مبعوث فرمایا تو اس کی امت میں ایسے حواری ہوتے تھے، پھر ان (حواریوں) کے بعد ان کے ناخلف جانشین آجاتے تھے جو وہ کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے، اور کرتے وہ کام تھے جن کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ تو جو کوئی ایسے (ناخلف) لوگوں سے جہاد کرے گا اپنے ہاتھ سے پس وہ مومن ہے، اپنی زبان سے پس وہ مومن ہے، اپنے دل سے پس وہ مومن ہے، اور جو اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے: مسلم)۔
ان احادیث میں واضح طور پر ایسے شخص کے قلب سے ایمان کی نفی فرمائی گئی ہے جو دل سے بھی برائی کو برائی نہ سمجھتا ہو، اسے دیکھ کر اس کے دل میں تکلیف اور رنج نہ ہو اوراسے ختم کردینے کا اردادہ بھی نہ پیدا ہو۔ اسی طرح ایک صحابی نے جب ایمان کی نشانی پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب نیکی کرنے سے تجھے خوشی ہو اور برائی سے غم و رنج ہو تو تُو مومن ہے۔ پس واضح ہوا کہ مذہب کو فرد کا ذاتی مسئلہ قرار دینا نیز فلسفہء ٹولیرنس درحقیقت ایمان کی نفی کے مترادف ہے کیونکہ ٹولیرنس کا مطلب ہے کہ میں یہ مان لوں کہ اول تو برائی کوئی شے ہی نہیں، اور اگر مجھے کوئی عمل اپنے تئیں برائی نظر آتا بھی ہے تو میں اسے برداشت کروں، نہ کہ اسے روکنے کی فکر اور تدبیر کرنے لگوں۔ بلکہ جمہوری اقدار کاتقاضا تو یہ ہے کہ میں دوسرے شخص کے ہر عمل کو قابلِ قدر نگاہ سے دیکھوں، اگر وہ اپنی ساری زندگی بندروں کےحالات جمع کرنے میں صرف کردے تو کہوں کہ ‘واہ جناب! کیا ہی عمدہ تحقیقی کام کیا ہے’، اسی طرح اس عالمی ریکارڈ یافتہ زانیہ کی صلاحیتوں کا اعتراف کروں وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں یہ دعویٰ کہ مذہب فرد کا نجی مسئلہ ہے اس دعوے کے مترادف ہے کہ درج بالا نوع کی تمام احادیث نیز قرآنی آیات جن میں اہلِ ایمان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ (اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ: تحریم،6) نعوذباللہ ناقابلِ عمل اور فضول تعلیمات ہیں۔
4) مسئلہء آخرت بے کار سوال ہے:
معاشرتی صف بندی میں یہ سوال کہ ‘افراد معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے بعد جنت میں جائیں گے یا جہنم میں، ایک لایعنی سوال ٹھہرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مسئلہ کہ آیا افراد کو معاشرے میں زیادہ نیکیاں اور گناہ کم کمانے کے مواقع میسر ہیں،ایک بیکار سوال ہے کیونکہ جوں ہی نیکی اور گناہ کا سوال اٹھایا جائے گا تو مذہب ذاتی زندگی سے نکل کر اجتماعی زندگی میں آجاتا ہے۔ اسلامی نقطہء نظر سے معاشرتی صف بندی میں اصل اور فیصلہ کن سوال ہی یہ ہے کہ افراد کو جنت میں جانے کے مواقع زیادہ فراہم ہیں یا جہنم میں۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر اوقات شادہ وغیرہ یا کئی دوسری محافل میں دورانِ طعام بیٹھنے کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے شرکاء محفل کو کھانا کھڑے ہوکر کھانا پڑتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس موقع پر یہ بات کہے کہ ‘بہتر یہ تھا کہ بیٹھ کر کھانا کھانے کا انتظام ہوتا، تو لوگ طرح طرح کے فلسفے بگھارنے لگتے ہیں۔ ایک عام جواب یہ ہوتا ہے کہ ‘بھائی بیٹھ کر کھانا فرض یا واجب تو نہیں ہے’۔ لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ آیا یہ عمل فرض ہے یا واجب، بلکہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے کی ادارتی صف بندی میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا یا نہیں کہ آیا اس کے نتیجے میں لوگوں کو زیادہ نیکیاں کمانے کا موقع میسر آئے یا کم؟ اگر ایک عمل کو کئی طریقوں سے کرنا ممکن ہے تو سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سا اختیار کیا جائے گا؟ ظاہر ہے مسلمان کے لئے بہتر طریقہ وہ ہے جس میں اپنے نبی ﷺ کی اتباع ہو تاکہ زیادہ نیکیاں کمائی جاسکیں کیونکہ یہ نیکیاں ہی تو وہ شے ہیں جو آخرت میں کامیابی کا اصل سامان ہیں، ایسے ہی اسلامی معاشرے میں نیکیوں کا فروغ اور گناہوں کا سدباب کرنا ہی تو ریاست کا بنیادی وظیفہ ہوتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی نے اہلِ ایمان کی ایک نشانی یہ بتائی کہ:(یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے؛ حج،41)
مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دینے کا مطلب یہ اعلان کرنا ہے کہ مرنے کے بعد جنت و جہنم میں جانا بےکار کے سوالات ہیں، اس کے مقابلے میں اسلام میں سب سے اہم اور پہلا سوال ہی یہ ہے کہ مرنے کے بعد کوئی شخص کہاں جائے گا۔ لہٰذا جمہوریت کو اسلام کے ساتھ جوڑنا درحقیقت اسلام کی بنیادیں ڈھانے کے مترادف ہے۔ ہم پھر کہے دیتے ہیں کہ یہ محض نظریاتی باتیں نہیں، بلکہ دنیا میں جہاں جہاں بھی جمہوری اقدار (آزادی اور مساوات) کا فروغ ہوا، ان معاشروں کے افراد کی زندگیوں میں فکرِ آخرت اور مرنے کے بعد کی زندگی کا سوال بے کار ہوتا چلا گیا۔ ایک جمہوری ریاست کو اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ افراد جنتیوں والے اعمال کررہے ہیں یا جہنمیوں والے، اسے تو صرف ایک شے سے غرض ہوتی ہے اور وہ ہے آزادی یعنی سرمائے میں اضافہ۔ مقاصد کے اس عظیم اختلاف کے بعد بھی کوئی شخص اسلام سے جمہوریت کا تقاضا کیسے کرسکتا ہے؟ْ
جملہء معترضہ کے طور پر ‘یہ عمل فرض نہیں ہے’ کے فلسفے پر بھی چند باتیں عرض کرنا ضروری ہیں کیونکہ آج کل دین پر عمل نہ کرنے کے لئے اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا پے۔ وہ حضرات جو دین کے ہر عمل کو ‘فرض نہیں ہے’ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ان سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہئے کہ کیا آپ اپنی زندگی میں سارے کام فرض ہی کرتے ہیں، نیز کیا معاشرے میں سارے فرض کام ہی کئے جاتے ہیں؟ مثلاََ کیا نفیس اور مہنگے قسم کے برتیوں میں کھانا کھاناکوئی فرض ہے، کیا گھروں میں قالین، فرنیچر، فانوس اور ماربل کا فرش ہونا فرض ہے، کیا غسل خانوں میں ہزاروں لاکھوں روپے کا پتھر لگانا فرض ہے، کیا نئے ماڈل کی گاڑیوں میں سفر کرنا فرض ہے، کیا پُرتکلف کھانوں کا اہتمام کرنا بھی کوئی ضروری امر ہے؟ آخر یہ اور ان جیسے کئی اور کاموں میں سے کون سا کام فرض ہے؟ تو جب ایسے تما م غیر فرض کام کئے جاتے ہیں کہ جن کا کوئی ادنیٰ ثبوت نہ تو آپ ﷺ اور نہ ہی ان کے اصحاب میں سے کسی کی زندگی میں نظر آتا ے، تو یہ فرض کا فلسفہ صرف دین ہی کے لئے کیوں یاد آجاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ محض ‘فرائض” سے عبارت نہیں ہوتا، بلکہ ہر معاشرے اور تہذیب کی معنویت اس کی سنتوں اور مستحبات (وہ جو بھی ہوں) وغیرہ ہی میں مضمر ہوا کرتی ہیں کیونکہ اس کی سنتیں اور مستحبات ہی اس کے فرائض کو تقویت بخشتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ فرائض تو کم از کم (Bare-minimum) مطلوبہ رویے کا نام ہوتا ہے، اور اگر معاشرے کے تما افراد ہی سنت اور مستحبات کو ترک کردیں تو ان کی جگہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کی سنتیں اور مستحبات لے لیتے ہیں، اور پہلے نظامِ زندگی کے فرائض بھی رفتہ رفتہ بے معنیٰ اعمال نظر آنے لگتے ہیں، جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں لوگوں کو نماز میں کوئی معنویت دکھائی نہیں دیتی اور یہ محض ایک رسمی واضافی عمل کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ چنانچہ آپ کسی کھانے کے شوقین کے دسترخوان سے سلاد، اچار، راتہ، اور اس نوع کے دیگر لوازمات کوختم کردیجئے، پھر اس سے پوچھئے کہ اب کھانے میں کوئی مزہ ہے یا نہیں۔ غضب تو یہ ہے کہ کسی عمل کے فرض یا وجب نہ ہونے کا مطلب گویا یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ بے کار اور فضول عمل ہے جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں (العیاز باللہ)۔ بھلا ایک مومن اپنے رسول ﷺ کے اس تاکیدی ارشادِ پاک کے ہوتے ہوئے کہ لا تحقرن من المعروف شیئا (نیکی کے کسی بھی عمل کو ہرگز حقیر نہ سمجھو) کیسے اس بات کا تصور کرسکتا ہے کہ کسی عمل کے فرض نہ ہونے کو اس کے ترک کرنے کا جواز بنالے؟ پس جاننا چاہئے کہ یہ ‘فرض اور واجب نہیں ہے’ کا فلسفہ درحقیقت ایک شیطانی وسوسہ ہے جو اس نےہمیں توشہء آخرت (نیکیوں اور دین) سے دور لے جانے کے لئے سوجھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے شیطانی وسوسوں سے محفوظ فرمائیں۔
5) ان گنت احکاماتِ شریعت کا انکار:
معاشرتی و ریاستی صف بندی سے مذۃب کے اخراج کا مطلب ان بے شمار احکاماتِ شریعت کا انکار ہے جن کا تعلق معاشرتی و ریاستی صف بندی کے ساتھ ہے، جیسے ستر وحجاب، معاشی لین دین، جرم و سزا، خلافت و جہاد وغیرہ۔ ان احکامات کا انکار اتنی واضح گمراہی ہے کہ ان پر کلام کرنا بھی تضیعِ اوقات ہے۔ اس رویے پر سب سے بہتر تبصرہ خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں موجود ہے:(جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی تو کافر ہیں، وہی تو ظالم ہیں، وہی تو فاسق ہیں؛ مائدہ،43-46)
اسلام کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دینے والے ایک لمحے کے لئے درج بالا گزارشات پر غور کرنے کے بعد فیصلہ کریں کہ وہ کس چیز کا دعویٰ کررہے ہیں۔ دنیا کا ہر شخص جس میں ذرا بھی عقل ہو واضح طور پر سمجھ سکتا ہے کہ یہ دعوت کفر و الحاد کی طرف بلانے کے مترادف ہے ۔ مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ بنانے کے لازمی نتائج ہیں کہ تقویٰ عزت کا معیار نہیں، احکاماتِ اسلامی پر عمل لغو و بے معنیٰ اعمال کی حیثیت رکھتا ہے، نیکی اور بدی کوئی مستقل قدریں نہیں بلکہ فرد کی خواہشات کی مرہونِ منت ہیں لہٰذا امر بالمعروف ونہی عن المنکر بلا جواز عمل کا نام ہے، مرنے کے بعد کامیابی اور ناکامی ایک بےکار سعی کے متراف ہے، تمام احکاماتِ شرعی جن کا تعلق معاشرے اور ریاست سے ہے ناقابلِ عمل ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر بات ہے کہ اسلام اس قسم کے گمراہ کن تصورات سے یکسر خالی ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل