سیکولرائزیشن، افعالِ انسانی اور اعمال صالحہ
سیکولرائزیشن” سے مراد ’سیکولر ہو جانے‘ کا پراسث (process) ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو ’سیکولر‘ ہوتی ہے؟ ’سیکولرائزیشن‘ انسانی افعال اور رویوں کا اپنی اساس سمیت بتدریج بدل جانے اور ایک نئی تشکیل میں ظاہر ہونے کا نام ہے۔ سماجی حرکیات (social dynamics) انسانی افعال، اعمال اور رویوں کے مجموعے اور ان سے پیدا ہونے والی انسانی رشتوں کی معاشرتی صورتحال ہے۔ سیکولرائزیشن کا پروسث معاشرے کی سماجی حرکیات کو ایک خاص رخ پر تبدیل کر دیتا ہے۔ معاشرے کی ٹیکنالوجیائی ترقی اور سیکولرائزیشن ہمگام پراسث ہیں۔
سیکولرزم اور سیکولرائزیشن دو مختلف چیزیں ہیں، اور ان کے فرق کو مستحضر رکھنے کی ضرورت ہے۔ سیکولرزم کچھ افکار، نظریات اور ’اقدار‘ کے مجموعے کا نام ہے، جس کے مظاہر بالعموم سیاسی ہیں، اور جو علم، سرمایہ اور طاقت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ جبکہ سیکولرائزیشن کا دائرہ بالعموم معاشرہ اور معاشرت، اور ان میں فعال انسانی اعمال اور رشتے ہیں۔ سیکولرزم اپنے علم، منہجِ علم اور ثقافتی وسائل سے مذہبی صداقتوں کے بالمقابل ایک پوزیشن لیتا ہے۔ اس کا ہدف عقیدے کے مقررات اور ذہن کے مشمولات کو تبدیل کرنا ہے۔ سیکولرائزیشن کا پروسث انسانی افعال، اعمال اور رویوں کو تبدیل کر کے ایک نئی اخلاقی خودی (moral self) کی تشکیل کرتا ہے۔ سادہ لفظوں میں، سیکولرزم مذہبی عقائد کے بالمقابل ہے، جبکہ سیکولرائزیشن اعمال صالحہ کے بالمقابل ہے۔ سیکولرزم اور اس کے افکار سے تعامل میں خود آگاہی بالعموم شامل ہوتی ہے، جبکہ سیکولرائزیشن کا پروسث خودآگاہی سے خالی ہوتا ہے۔ سیکولرزم کچھ جاننے ماننے کا عمل ہے جبکہ ’سیکولرائزیشن‘ خود انسان کی نفسی اور عملی تبدیلی سے عبارت ہے۔
“سیکولرائزیشن” جدید سیاسی اور معاشی سسٹم کی معاشرتی تاثیرات کا نام ہے۔ ’معاشرتی تاثیرات‘ سے مراد افراد کے نفسی احوال میں وہ تبدیلیاں ہیں جو اعمال اور رویوں میں ظاہر ہو جائیں۔ ہر عملِ انسانی چونکہ لازماً معاشرتی رشتوں سے براہ راست جڑا ہوتا ہے، اس لیے ’سیکولرائزیشن‘ بنیادی طور پر انسانی رشتوں ہی کی تبدیلی کا عمل ہے۔ سیکولرزم کا مجموعی علم انسانی شعور کو بدلتا ہے، اس لیے عقیدے کے تناظر میں اس کا سمجھنا ضروری ہے۔ سیکولرائزیشن کا پروسث انسانی اعمال، رویوں اور رشتوں کو بدل دیتا ہے، اس لیے مکارم الاخلاق اور اعمال صالحہ کے تناظر میں اس کو دیکھنا ضروری ہے۔
اس بات کا بہت قوی امکان ہے کہ ہم فکری سطح پر سیکولرزم کا رد کرتے رہیں، لیکن سیکولرائزیشن کا پراسث (process) بلاروک ہمیں غیرشعوری طور پر تبدیل کر دے۔ مذہبی تناظر میں سیکولرائزیشن کے پروسث (process) کا تجزیہ یہ دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے زیر اثر انسانی افعال کیونکر انسان کی نئی نفسی اور اخلاقی تشکیل کرتے ہیں۔
سیکولرائزیشن سے مراد یہ ہے کہ انسانی فعل یا عمل قدر سے خالی ہو جائے اور مزاج اور مفاد، یعنی نفسی اور معاشی ضرورت کے تابع ہو کر مکمل طور پر میکانکی ہو جائے۔ فرد کے افعال کا میکانکی ہو جانا سسٹم کی تشکیل کا لازمہ ہے۔ معاشرے میں وقوع پذیر لامحدود میکانکی افعال کی کسی نظریے کے تحت ایک سسٹم میں تشکیل جدید عہد کا خاصہ ہے۔ اس کا نتیجہ بے پایاں طاقت کی تشکیل اور غیرمعمولی پیداواری استعداد ہے۔ انسان اور مشین کے مجموعے اور ان کی تنظیمی تشکیل کا نام سسٹم ہے۔ اس سسٹم کا دوسرا اور عام فہم نام جدید ریاست ہے جو ایک گلوبل اور عالمگیر مظہر ہے۔ یہ سسٹم مکمل طور پر یک طرفہ اور اپنی ہی طے کردہ شرائط پر فرد سے تعامل کرتا ہے۔ اس لیے سوشل کنٹریکٹ کا کوئی بھی تصور اپنی اصل ہی میں لغو اور بےمعنی ہے۔ مذہبی تصور حیات میں جو حیثیت خدا کو حاصل تھی، سیکولر تصورِ حیات میں وہ ریاست کو حاصل ہے۔ بطور سسٹم ریاست خدا کی replacement ہے۔ بطور ایک absolute sovereign ریاست/سسٹم کے افعال و اختیارات یہ ہیں:
1۔ یہ سسٹم فرد کا شناخت دہندہ (پیدائشی سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، عمر، لسانی شناخت، مذہبی شناخت، تعلیمی حیثیت وغیرہ) ہے۔ اس شناخت سے ایک عام فرد شہری کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ جدید عہد میں شناخت کے تمام وسائل اور اختیارات سسٹم یا جدید ریاست کا اجارہ ہیں۔
2۔ شناخت کی تفویض کے بعد، سسٹم یا جدید ریاست ایک شہری کو وجود (عطائے حقوق، تفویض ذمہ داری، ووٹ، اوقات کار، رہن سہن، آمدو رفت، میل جول وغیرہ) عطا کرتی ہے۔ یعنی سسٹم اپنے وسائلِ قوت اور قانون کے میکانکی افعال سے فرد کو شناخت عطا کرنے کے بعد وجود بھی عطا کرتا ہے۔ شہری ایک قانونی، میکانکی اور مادی وجود کا نام ہے۔ شہری کسی اقداری یا انسانی وجود کا نام نہیں ہے۔
3۔ حصولِ شناخت اور عطائے وجود سے شہری رزق (رجسٹریشن، لائسنس، آموزش اور ہنرمندی کا استناد، محنت کی درجہ بندی اور جوازکاری، سرمائے کی قانونی اور سیاسی تشکیل، وغیرہ) کا امیدوار ہو جاتا ہے۔ رزق کے تمام وسائل، ان کی تنظیم اور ترسیل بھی سسٹم کا دائرہ کار اور اس کی قانونی مٹھی میں ہیں۔ شہری اپنے رزق کے لیے سسٹم کا مکمل طور پر متوسل (dependent) ہے۔ سسٹم کی داتاگیری اور زمان و مکاں پر مکمل دسترس اور غلبے کی وجہ سے شہری کی زندگی کا ہر پہلو قانونی اور معاشی رشتوں کے میکانکی نیٹ ورک میں کھپ جاتا ہے۔
4۔ شناخت، وجود اور رزق پانے کے بعد شہری اپنی بقا (زندگی، صحت، بیماری، امن عامہ، قانونی تحفظ، دہشت گردی اور جنگ سے بچاؤ وغیرہ) کے لیے مکمل طور پر اسی سسٹم پر انحصار کرتا ہے۔
شہری اور سسٹم/ریاست کا باہمی تعلق وہی ہے جو عبد اور الہ کا ہے، اور اس کی توسیط کے بنیادی ترین ذرائع معاشی، قانونی اور ثقافتی ہیں۔ اگر انسان کی نوکری، لین دین، رہن سہن، آمد و رفت، تعلیم اور تفریح وغیرہ یعنی اس کی معاشرتی اور معاشی زندگی کے اہم پہلو قانون سے متعین ہونے لگیں تو ایسی زندگی میں اقدار کی گنجائش کم ہو کر آخر ختم ہو جاتی ہے۔ قانون کے تحت اعمال صالحہ کے تصور کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور صرف performance باقی رہ جاتی ہے، جسے صرف کارکردگی کے اصولوں پر متعین کیا جاتا ہے۔ سیکولرائزیشن کا بہت سادہ مطلب معاشرے کو مکمل طور پر قانونی بنانے کا عمل ہے۔ رول آف لا میں اقدار غیر اہم ہوتی ہیں، صرف طاقت، فرمانروائی اور اس کی ممکنہ حد تک توسیع اہم ہوتی ہے۔ انسانی عمل یا تو قانون کے مطابق ہو سکتا ہے یا اقدار کے مطابق۔ قانون اور قدر کا دائرہ کار الگ الگ متعین کرنا ضروری ہے، اور سسٹم یا جدید ریاست میں صرف ایک قانونی دائرہ ہی باقی رہ سکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جدید ریاست میں بچہ ماں باپ کی ڈانٹ پر پولیس کو طلب کر سکتا ہے کیونکہ وہ گھر میں اولاد کی طرح نہیں رہتا بلکہ بطور ”شہری“ مقیم ہوتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا کہ سسٹم یا جدید ریاست اپنے وجود و شئون میں ”خدا“ کی replacement ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ کہنا کہ ”خدا“ کا کوئی مذہب ہوتا ہے، ایک لغو بات ہے۔ سسٹم یا جدید ریاست سے مراد ایک ”اوپر“ ہے جو ”عالم“ اور ”عامل“ بیک آن ہے۔ یہ ”خدا“ اپنے متن کو ”کن“ کے طور پر بھیج کر انسان اور معاشرے سے ہمکلام ہوتا ہے۔ سسٹم یا ریاست کا جاری کردہ متن قانونی ہوتا ہے اور اس کا معنی طاقت کی deployment ہے، کوئی تصور یا قدر نہیں ہے۔ آج کے دور میں مذہبی متن اور اس کے معنی کا مسئلہ اسی وجہ سے پیدا ہوا کہ وہ انسان کی essential autonomy کے تصور کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ اب دنیا کا اہم ترین متن سسٹم یا جدید ریاست کا جاری کردہ متن ہے، اور باقی متون اس کی شرط پر بامعنی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آج کے عہد میں فرد اور انسانی معاشروں کا وجود و عدم اسی ”خدا“ کے ہاتھ میں ہے۔ سسٹم یا جدید ریاست ایک اسفنج کی طرح ہے اور معاشرہ اس پانی کی طرح جو اس میں جذب ہو چکا ہے، اور اسفنج سے باہر اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ ہابرماس نے سسٹم اور لائف ورلڈ کی جو تقسیم کی ہے وہ مصنوعی ہے اور ہمارے مقصد کے لیے کوئی زیادہ بامعنی نہیں ہے۔ جس طرح مذہبی ”خدا“ تنزیہ اور تشبیہ میں یقین کیا جاتا تھا، اسی طرح سسٹم یا جدید ریاست کا ”خدا“ تجرید اور میکانیت میں متحقق ہے۔ جدید ریاست ایک ایسا ”خدا“ ہے جو دست گیر بھی ہے اور دست شکن بھی۔ جدید عہد میں سسٹم سے الگ انسانی معاشرہ ناقابل تصور ہے، اور فرد کی طرح معاشرہ بھی سسٹم کا مکمل متوسل (dependent) ہے۔ جمہوریت سسٹم کی چادرِ رحمت ہے اور آمریت اس کے غضب کا کوڑا۔ جدید ریاست ایک ایسا ”خدا“ ہے جو اکثر خودکشی بھی کر لیتا ہے جیسا کہ حال ہی میں وینزویلا میں ہوا ہے۔ یہ ”خدا“ صحت مند اور بیمار بھی ہو سکتا ہے، یا اسے کئی اور طرح کے عوارض بھی لاحق ہوتے ہیں، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
سسٹم/ ریاست کی قوتیں فرد پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں، اور ان کا دباؤ اتنا شدید ہے کہ فرد اپنی moral self کو باقی نہیں رکھ سکتا اور فوراً اپنی مذہبی self میں پناہ لیتا ہے جس سے صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے۔ مکارم الاخلاق اور اعمال صالحہ سے تشکیل شدہ انسان کی moral self یا اخلاقی خودی تین چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے:1۔ ذوی الارحام اور قرابت کے رشتے۔2۔ ہمسائیگی۔3۔ مہمان داری۔
ہمارے ہاں کنبہ ٹوٹ رہا ہے، ہمسائیگی غیر متعلق ہو گئی ہے اور مہمان نوازی موہوم ہے۔ یہ انسان کی اخلاقی خودی کے خاتمے، اعمال صالحہ کے انخلا اور سیکولرائزیشن کے مظاہر ہیں۔ ان کی معنویت یہی ہے کہ انسانی رشتے اخلاقی بنیادوں سے ہٹ کر نفسی اور معاشی ضرورت کی جبریت پر ڈھل کر نئی انسانی تشکیل کر رہے ہیں۔ جدید سیاسی نظام کی بنیاد ”ایک آدمی، ایک ووٹ“ اور معاشی نظام کی بنیاد ”ایک نوکری، ایک پیٹ“ ہے۔ قانون اور معاش سسٹم کے دو بڑے پہلو ہیں اور ان کے مؤثرات اور تاثیرات انسان کی اخلاقی خودی کو بدل دیتی ہیں۔ سسٹم کی ترجیحات میں بنیادی انسانی رشتوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
جدید تعلیم اور کلچر بھی انفرادیت پسندی پر بہت زور دیتے ہیں۔ انسانی رشتوں کی عمودی جہت کا تعلق سسٹم سے ہے، جبکہ باہمی انسانی رشتوں کی جہت افقی اور متوازی ہوتی ہے۔ انفرادیت پسندی افقی رشتوں کے غیر اہم ہو کر عمودی رشتوں کے مرکزی ہو جانے سے عبارت ہے۔ اس میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مذہبی عبادات اور انفرادیت پسندی میں تطابق ممکن ہے لیکن مکارم الاخلاق اور انفرادیت پسندی باہم قطعی متضاد ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مغالطہ عبادات پر مبنی مذہبی معاشرے کا قیام ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ مذہبی معاشرہ صرف عبادات سے قائم نہیں ہوتا۔ مذہبی کردار کے بغیر ’مذہبی معاشرے‘ کا کوئی معنی نہیں ہے اور کردار کی اساس مکارم الاخلاق ہے۔ عبادات عموماً میکانکی افعال ہی ہیں، اور ان کی روحانیت نیت سے حاصل ہوتی ہے۔ اپنے میکانکی پہلوؤں کی وجہ سے عبادات سیکولر معاشرے کی انفرادیت پسندی سے تطابق کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس بات کا سو فیصد امکان ہے کہ معاشرہ مکمل طور پر سیکولر اور ’عبادتی‘ ہو، اور مذہبی کردار اور معاشرت سے مکمل طور پر خالی ہو۔ فی الوقت ہم ایسے ہی معاشرے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں جو ’عبادتی‘ اور سیکولر بیک وقت ہے۔ عبادات کو ڈیوٹی کے جدید میکانکی افعال کی طرح سرانجام دینا ہمارے روز مرہ مشاہدے میں ہے۔ اخلاقی خودی کے خاتمے سے معاشرہ تہذیبی اور اعلی انسانی مظاہر سے خالی ہو جاتا ہے۔ مذہب کا بالعموم ’سیاسی‘ اور ’عبادتی‘ مظاہر میں باقی رہ جانا سیکولرائزیشن ہی کا ایک مرحلہ ہے۔ جدید دنیا کی صورت حال میں سسٹم مذہب کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ سسٹم اپنے مؤثرات سے مذہب کی نئی تشکیل کرتا ہے۔ اگر انسان کی اخلاقی تشکیل کے مؤثرات سسٹم اور تاریخی قوتوں کے تابع ہو جائیں تو میکانکی اور ’عبادتی‘ معاشرہ بنانا تو ممکن ہوتا ہے لیکن انسانی اور مذہبی معاشرے کا قیام محض ایک خواب رہ جاتا ہے۔
سیکولرائزیشن انسان اور معاشرے کی تبدیلی کا سیکولرزم سے کہیں طاقتور مظہر ہے۔ ہمیں ایک ایسی دنیا کا سامنا ہے جو اپنے علم سے ہمارے عقیدے اور اپنے میکانکی سسٹم سے ہمارے اعمال صالحہ کی بنیادیں ڈھا چکی ہے۔ سیاست بازی کی کشاکش پیہم سے فرصت اگر ملے تو ہمیں کچھ سوچنے اور کرنے کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے۔
محمد دین جوہر
سوال: اگر سسٹم فرد کو عبادات و اجتماعی اقدار کو بروئے کار لانے میں مزاحم نہ بن رہا ہو تو کیا تب بھی اسے خدا کی replacement کہا جا سکتا ہے؟
گزشتہ دنوں سیکولرائزیشن اور اعمال صالحہ کے حوالے سے ایک پوسٹ پر دو احباب نے مندرجہ بالا اہم سوال اٹھایا۔ مذکورہ پوسٹ میں زیربحث امر یہ تھا کہ سیکولر تصورات پر قائم ہونے والا اجتماعی سیاسی اور معاشی نظام فرد پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے، اور اس کی اخلاقی خودی کیونکر نئی تشکیل میں ڈھلتی ہے۔ میری رائے میں اخلاقی خودی کی یہ نئی تشکیل مذہبی مطالبات کے برعکس ہے، اور بالآخر مذہب کے خاتمے کا باعث بنتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکولر نظمِ اجتماعی نجی دائرے میں فرد کی آزادی پر براہ راست کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ اگر مذہبی مطالبات کو ذاتی اوراد و وظائف اور عبادات، اور مکارم الاخلاق کو ’سماجی‘ اچھائی اور ڈسپلن تک محدود سمجھا جائے تو سیکولر نظم اجتماعی اور مذہب میں کوئی تضاد، تخالف اور تغایر نہیں رہتا۔
اپنی بے بضاعتی کے باوجود، سابقہ تحریر سیکولر نظم اجتماعی میں واقع ہونے والی نئی انسانی تشکیل جیسے اہم موضوع کو سمجھنے اور اس میں احباب کو شریک کرنے کی ایک کوشش تھی۔ سیکولرائزیشن کا پروسث سیکولرزم کی براہ راست پیدا کردہ اجتماعی صورت حال کا لازمہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں، سیکولر تصورات جس اجتماعی سیاسی اور معاشی نظام کو جنم دیتے ہیں، سیکولرائزیشن اس نظام ہی کی تاثیرات ہیں۔
گفتگو میں ابہام کی بنیادی وجہ ’اجتماعی‘ اور ’معاشرتی‘ کا التباس تھا جس کی میں خاطر خواہ وضاحت نہیں کر پایا۔ اجتماعی اور معاشرتی دو مختلف چیزیں ہیں، اور انہیں مساوی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ’اجتماعی‘ سے مراد ہر وہ عمل اور ادارہ ہے جس میں سیاسی طاقت اور اس کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہو، جبکہ معاشرتی ہر وہ عمل ہے جس میں طاقت یا اس کا کوئی تصور غیرحاضر ہو۔ عبادات اور اخلاق وغیرہ فرد کی نجی، خانگی اور سماجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، اور بالعموم وسیع تر معاشرے پر اس کا اثر معمولی ہوتا ہے۔ ’فرد‘ کو ٹھیک کر کے معاشرے کو بہتر بنانے کا موقف بے خبری اور نادانی سے پیدا ہوتا ہے۔ معاشرہ اصل میں وہی کچھ ہوتا ہے جو یہ اپنے سیاسی عمل اور نظام میں ہوتا ہے۔
اجتماعی کی ضروری تفصیل یہ ہے کہ اس سے مراد ’سیاسی عمل‘ اور اقتدار ہے۔ معاشرے میں واقع ہونے والا سیاسی عمل عبادات اور اخلاق وغیرہ سے قطعی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ عبادات، اخلاق وغیرہ سیاسی عمل سے اثر قبول کرتی ہیں، لیکن سیاسی عمل پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب سیاسی طاقت سے کوئی مطالبات رکھتا ہے یا نہیں؟ یقیناً، اور وہ بہت واضح ہیں۔ سیاسی طاقت سے مذہب کا مطالبہ حدود اور قانون کے دائرے میں ہے، اور اس مطالبے کا مطلب یہ ہے سیاسی طاقت absolute sovereign نہیں ہو سکتی۔ دوسرا مطالبہ سیاسی طاقت کے ذریعے قائم ہونے والے معاشی نظام سے ہے کہ سود پر قائم نہیں ہو گا، اور زکٰوۃ کا نظام نافذ ہو گا۔ سیکولرزم اور مذہب میں بنیادی تضاد اسی جگہ پر ہے، اور مذہب کے نجی مسئلہ ہونے کا مسئلہ بھی یہیں سے پیدا ہوا ہے۔ سیکولرزم، سیاسی طاقت اور معاش کا جو بھی نظام قائم کرتا ہے، وہ مذہب کی ضدِ عین ہے۔ اور یہ نظام قائم ہونے پر اپنے زیرسایہ زندگی گزارنے والے افراد کو بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ اب اس سسٹم میں رہتے ہوئے فرد عبادات کی پابندی کر سکتا ہے، اور ثقافتی اور تنظیمی اخلاقیات پر بھی عمل کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسے سیاسی اور معاشی نظام کی عطا ہے جو مذہب کی بنیادی ترین اجتماعی اقدار کے رد پر قائم ہوتا ہے۔
سیکولرزم کے زیر سایہ مذہبی آزادی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کے تعین کا اختیار مذہب کے پاس نہیں ہوتا بلکہ اس کا دائرہ سیکولرزم متعین کرتا ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ مذہب معاشرے کے اجتماعی معاملات سے قطعی طور پر خارج ہو گا۔ سیکولرزم اور مذہب میں بنیادی خلط مبحث اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک سیاسی عمل اور نظام کی درست معنویت متعین نہیں ہو سکی۔ مذہب سے اخذ ہونے والے متداول سیاسی تصورات بھی دراصل سیکولر سیاسی عمل اور نظام کو مضبوط بناتے ہیں، اور مذہب کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔
اس حوالے سے قطعی بات یہ ہے کہ سیاسی عمل، اقتدار، سرمایہ اور طاقت ہر معاشرے کی طرح مسلم معاشرے کے لیے بھی بنیادی ترین اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے بالمقابل عبادات، اخلاق، تقویٰ، علم، کلچر وغیرہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، اگرچہ اپنی جگہ ان کی اہمیت مسلم ہے۔ مخالفانہ سیاسی طاقت سے عبادات وغیرہ کی صرف گنجائش کی استدعا کی جا سکتی ہے۔ فلاح آخرت کی بنیاد تقوی اور تزکیہ ہے اور فلاح دنیا کی بنیاد سرمایہ اور سیاسی طاقت ہے۔ سیکولر فکر اور سیکولر نظام یہ بات سرے سے قبول ہی نہیں کرتے کہ مذہب کا ان اجتماعی امور سے کوئی سروکار ہو سکتا ہے۔ بطور مسلمان ہم نے یہ بات سمجھنے میں ازحد تاخیر کی ہے کہ معاشرے کی تشکیل اور فرد کی تشکیل کے ذرائع باہم مختلف ہیں، اور آج بھی ہمارے مسائل کے لاینحل ہونے کی بڑی وجہ ان ذرائع میں التباس ہے۔
محمد دین جوہر