قندیل کو قندیل کس نے بنایا ؟
اس کی بے حرمت، بے قیمت زندگی اور اندوہناک موت کا ذمے دار کون ہے؟
اس بارے میں گزشتہ چند دن میں جو آرا نظر سے گزریں ، ان میں اکثریت ان کی ہے جنھوں نے یہ عادت بنا لی ہے کہ کوئی موضوع ملے اور لٹھ اٹھا کر “معاشرے” پر برس پڑیں، “تنگ نظری” اور “عدم برداشت” ، دو ایسی اصطلاحات مل گئی ہیں جنھیں استعمال کرنے کے لیے کسی غور و فکر ، معاشرے کے رجحان، اکثریت کا اخلاقی معیار ، اس معیار کا ماخذ ۔۔کسی پہلو پر غور کرنے کی ضرورت نہیں. بس کچھ بھی ہو جائے ، لٹھ اٹھاؤ اور اس معاشرے پر برس پڑو۔
کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ قندیل کی اس مظلوم زندگی اور مظلوم تر موت میں قندیل کے اپنے لیے چنے گئے راستے کا کتنا ہاتھ تھا.؟ کسی نے معاشرے کی بچیوں کو یہ نہیں بتایا کہ برائی کے دو منطقی انجام ہیں ، توبہ یا عبرت آمیز ہلاکت؟!
کسی بھی رائے کو عادت بنا لینے میں سوچنا سمجھنا نہیں پڑتا، حالات کو اپنے اوپر لاگو کر کے نہیں دیکھنا پڑتا ، اپنے اوپر کوئی عقل کا معیار مقرر کرتے ہوئے اپنی عقل کا مواخذہ نہیں کرنا پڑتا. رائے جب عادت بنا لی جائے تو فہم بے کار ہو جاتا ہے. لیکن یہ بھی تب سمجھ آتا ہے جب فہم مستعمل ہو.
تو عمومی آرا یہ ہیں کہ قندیل کو معاشرے نے قندیل بنایا۔ کیسے ؟ اس کا جواب نہیں ملتا.
کیا یہ معاشرہ اتنا غلیظ ہے کہ اس معاشرے میں رہنے والی عورت جب تک سر بازار جسم کی نمائش نہ کرے، وہ عزت سے زندگی نہیں گزار سکتی؟
کیا یہ وہی معاشرہ نہیں جس میں باپ بھائی شوہر عورت کو ضروریات زندگی اور حفاظت مہیا کرنے کی غیر مشروط اور غیر معینہ ذمے داری اٹھاتا ہے؟
کیا قندیل کے پاس باعزت زندگی گزارنے کی کوئی آپشن نہیں تھی؟
اور جو راستہ اس نے چنا ، اس راستے پر اس کو لانے والے کون لوگ ہیں؟
کیا یہ وہی لوگ نہیں جو بدلتی ہوئی اقدار کے باوجود معاشرے میں مطعون ہیں؟ جو لوگ قندیل جیسی اونچے خواب دیکھنے والی عام لڑکی کو اس کے خوابوں کے پیچھے بھگاتے ہوئے تاریک راستوں تک لے جاتے ہیں. جو ان لڑکیوں کو بازار میں رکھی انٹرٹینمنٹ بنا دیتے ہیں،۔
کیا یہ معاشرہ انھیں شاباش دیتا ہے؟
تو پھر ہر معاملے میں معاشرہ ملعون کیوں؟
یہ ہر لمحے خود کو لعن طعن کرتا ہوا رویہ ایک نفسیاتی بیماری نہیں جسے لوگ اب رائے کی عادت کے طور پر اپناتے جا رہے ہیں؟
قندیل کے معاملے میں انٹرنیشنل میڈیا نے جس طرح پاکستانی معاشرے کو رسوا کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی. اسے عورتوں کے حقوق کی مدعی بتاتے ہوئے نہ میڈیا یہ سوچتا ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرے میں موجود مغربی میڈیا کے اندھے پیروکار یہ سوچتے ہیں کہ قندیل عورتوں کے کون سے حقوق کی جنگ لڑ رہی تھی؟ کون سے حقوق؟
اور اس سارے قصے میں مولوی کیسے دشنام کی زد میں آ گئے؟
نہ تو قندیل کو قندیل بنا کر زندہ کھانے والے مولوی تھے اور نہ اسے بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے والا کوئی مولوی تھا، بلکہ اس کا باپ تک مولوی نہیں تھا جو بیٹی کو بیٹا کہہ کر اس کی کمائی کھاتے ہوئے آنکھیں موندے رہا کہ بیٹا معاشرے میں ان ذرائع سے پیسہ نہیں کما سکتا جن تاریک راستوں سے اس کی بیٹی گزر رہی ہے. ہاں اگر کسی مولوی نے قندیل کو متبادل راستہ دکھانے کے بجائے اس کے ساتھ سیلفی لینے کو ترجیح دی تو اس مولوی کو مولویوں سے لے کر غیر مولوی طبقے تک، سب نے اسے لعن طعن کی اور اس کا سلسلہ ابھی جاری ہے، لیکن ایک فرد کی برائی کو معاشرے کا مجموعی چہرہ بنا کر پیش کرنا، اگر سوچی سمجھی سازش نہیں تو کم سے بد ترین ناانصافی ضرور ہے.
اچھا، برا یا بہت برا، پاکستان بہرحال اکثریتی آبادی میں مسلمان ملک ہے اور اس معاشرے میں معیار ، حقوق اور فرائض بہرحال وہی تسلیم ہونے چاہییں جو اللہ نے ہمارے درمیان مقرر کر دیے. انھی پر معاشرے کی عظیم اکثریت چلتی ہے. اگر اللہ کے معیار حرف آخر ہیں تو عقل کا جھگڑا کیوں؟ بہرحال کسی اور انسان کی عقل میرے لیے معیار مقرر کرنے کے قابل نہیں، ویسے ہی جیسے میری عقل کسی اور انسان کے لیے معیار مقرر نہیں کر سکتی. ایسے میں فلاح صرف اللہ کے مقرر کردہ معیار ہی کو مان لینے میں ہے.
تحریر عائشہ غازی