خنثی  ، خصی، خنثی مشکل وغیرہ سے متعلق شرعی احکام

سب سے پہلے یہ کہ فقہا کے ہاں دو امورمیں واضح فرق دکھائی دیتا ہے:

۱: فقہا “خنثی” کے لیے دو ٹوک معیار مقرر کرتے ہیں۔

۲: تاہم اگر کسی کا “خنثی” ہونا ثابت ہو جائے، تو اس کے بعد، ان کے ہاں بہت گنجائش اور نرمی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی انسان میں اصل یہ ہے کہ وہ مرد ہے یا زن اور اس میں دونوں اعضا نہ ہوں۔اور یہی انسانی تاریخ کا غالب مشاہدہ بھی ہے۔ اس لیے، اس حوالے سےتعین کو مشکوک نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن جب ایک مرتبہ شک کی دراڑ پڑ گئی، تو اس کے بعد، گنجائش زیادہ ہوتی ہے۔

خنثی: فقہا کے ہاں خنثی وہ ہے جس میں دونوں اعضائے تناسل ہوں۔ اس لیے، فقہا کے ہاں، معیار تولیدی نظام سے وابستہ اعضا ہیں۔ اس سے ہمیں مندرجہ ذیل امور واضح ہوئے:

۱: جس انسان کا جینیاتی ڈھانچہ اس کے نظام تولید سے ہم آہنگ نہیں لیکن اس میں اعضا صرف ایک ہی جنس کے ہیں، تو وہ خنثی نہیں۔ اگرچہ ہم پیچھے یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ ہم آہنگی صرف ہماری کم علمی ہوتی ہے ورنہ اصل میں ہر ساختیاتی تبدیلی کے پیچھے جینیاتی تفسیر کھڑی ہوتی ہے۔ اس لیے، یہ لوگ خنثی نہیں۔

۲: اگر کسی عورت میں مردانہ ہارمونز زیادہ ہوں جس کی وجہ سے اس کے جسم پر بال آر ہے ہیں تو خنثی نہیں۔ بلکہ وہ “مادہ” ہی ہے۔

۳: “خصی” بھی خنثی نہیں بلکہ نر ہے۔ خصی (eunuch)اسے کہتے ہیں جس کے خصیے وغیرہ کاٹ دیے گئے ہوں۔اس لیے، اس پر “نر” کے احکام لاگو ہوں گے۔

۴: جس پیدائشی نر کو نفسیاتی طور سے یہ لگے کہ وہ عورت ہے، تو وہ مرد ہی ہے اور اسی طرح پیدائشی مادہ۔ بالفاظ دگر، “متبدل صنف” خنثی نہیں، وہ نر یا مادہ ہی ہے۔

۵: جس متبدل جنس نے اپنے اعضا کو تبدیل کر لیا جبکہ اس کے اعضائے تناسل واضح طور سے نر یا مادہ کے تھے، تو وہ بھی خنثی یا خنثی مشکل نہیں۔ بلکہ اس عمل جراحی سے پہلے اس کی جو جنس تھی ، وہی اب بھی ہے۔ جنس ناقابل تغیر ہے۔

تاہم، یہ ہو سکتا ہے کہ کسی انسان کے ظاہری اعضا کسی ایک جنس کے ہوں لیکن اس کے اندر دوسرے جنس کے اعضا ابتدا میں نشو ونما نہ پا سکیں لیکن بعد میں وہ زندگی کے کسی موڑ پر اچانک ظاہر ہو جائیں۔ اگر سکین کے ذریعے وہ اعضا نظر آ جائیں، تو یہ خنثی ہے۔پر یہاں بھی حقیقت میں ظاہری اعضا ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

خنثی کا تعین بین الاقوامی عرف میں:

اقوام متحدہ کے اعلی کمیشنر برائے انسانی حقوق نے جولائی ۲۰۱۳ میں جی بی ٹی آئی (LGBTI) کے لیے ایک مہم کا اجرا کیا جس کا عنوان ہے: “اقوام متحدہ: آزاد ویکساں”۔ یہ دراصل حقوق انسانی کے عالمی منشور کی پہلی شق سے مستعار ہے کہ:

“تمام انسان آزاد اور کرامت و حقوق میں یکساں پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں (فطرت نے) عقل وشعور کے تحفے سے نوازا ہے ۔ اس لیے، انہیں چاہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اخوت اور بھائی چارےسے پیش آئیں۔” 

اس مہم نے خنثی کے حقوق کے حوالے سے ایک معلوماتی دستاویز شائع کی جس کے مقدمے میں خنثی کی تعریف ان الفاظ سے کی گئی:

Intersex people are born with sex characteristics (including genitals, gonads and chromosome patterns) that do not fit typical binary notions of male or female bodies. Intersex is an umbrella term used to describe a wide range of natural bodily variations. In some cases, intersex traits are visible at birth while in others, they are not apparent until puberty. Some chromosomal intersex variations may not be physically apparent at all. According to experts, between 0.05% and 1.7% of the population is born with intersex traits – the upper estimate is similar to the number of red haired people. Being intersex relates to biological sex characteristics, and is distinct from a person’s sexual orientation or gender identity. An intersex person may be straight, gay, lesbian, bisexual or asexual, and may identify as female, male, both or neither.

مفہوم: خنثی برادری میں دونوں جنس کی خصوصیات ہوتی ہیں جو روایتی دوئی پرمبنی جسمانی تصور نر ومادہ سے ہم آہنگ نہیں۔ (ان خصوصیات میں اعضائے تناسل، تناسلے غدے، کروموسومز کی ہیئت شامل ہے)۔ خنثی کی اصطلاح تلے کئی مختلف جسمانی تنوعات آتے ہیں۔ بعض اوقات، خنثی کی خصوصیات بوقت پیدائش ہی ظاہر ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات بلوغ پر ظاہر ہوتی ہیں۔نیز یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض کروموسومز پر مبنی تنوع  بالکل جسمانی طور سے ظاہر ہی نہ ہو۔ماہرین کے مطابق 0.05 سے 1.7 فیصد لوگ خنثی ہوتے ہیں جیسا کہ سرخ بالوں والوں کی زیادہ سے زیادہ شرح بھی یہی ہے۔خنثی ہونے کا تعلق انسان کی حیاتیاتی جنسی خصوصیات سے ہے جو جنسی رجحان اور صنفی شناخت سے جداگانہ تصور ہے۔ ایک خنثی کا جنسی رجحان “انسانی نر “کی طرف بھی ہو سکتا ہے، انسانی مادہ کی طرف بھی، دونوں کی طرف بھی اور سرے سے اس رجحان سے عاری بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح، خنثی اپنی شناخت مردانہ، زنانہ یا دونوں قرار دے سکتا ہے یا سرے سے کوئی شناخت قرار ہی نہ دے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں اس کی تعریف یہ ہے:

intersex, in biology, an organism having physical characteristics intermediate between a true male and a true female of its species. The condition usually results from extra chromosomes or a hormonal abnormality during embryological development.

مفہوم: علم احیا میں، خنثی اس زندہ کائنات کو کہتے ہیں جس کی جسمانی خصوصیات اپنے نوع کے ٹھیٹ نر اور ٹھیٹ مادہ کے بیچ میں ہو۔ یہ صورت حال عام طور سے، اضافی کروموسومز سے جنم لیتی ہے یا رحم ماد میں جنین کی نشو ونما کے وقت ہارمونز میں انحراف سے۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ خنثی میں ان لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جو جنسی ساخت کے حوالے سے بالکل واضح اور دوٹوک ہیں لیکن ان کے کروموسوز کا ڈھانچہ اس سے جوڑ نہیں کھاتا۔ اور ہم واضح کر چکے ہیں کہ شرعی نقطہ نگاہ سے یہ خنثی نہیں، بلکہ نر یا مادہ ہیں اور اسی کے مطابق انہیں حقوق ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تناظر میں صرف اتنی بات کافی نہیں کہ طبی دستاویز کی بنیاد پر جنسی اعضا کی عمل جراحی کی اجازت دے کر قانون میں جنس کو بدل دیا جائے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ فقہ دراصل قدر کا سوال ہےاور طب ، سائنس وغیرہ اس سے کوسوں دور ہیں یا ہونا چاہیے اصولی طور سے۔ اب کسی طبیب کی کیا قدر ہے، وہ اس کے مطابق فیصلہ کر ے گا اور عنوان یہ دیا جائے گاکہ “سائنس کی بنیاد پر فیصلہ ہوا” اوراس دھرتی کے لوگ جو سائنس کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہیں، اس پر خوشی محسوس کریں گے کہ ہم نے جدید ہونے کا ثبوت دیا جب کہ حقیقت میں ہم نے سائنس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا، بلکہ ایک طبیب کے عقیدے اور اس کی قدر کو مان لیا۔اور اس سے بڑھ کر ہماری تہذیبی اقدار کا اور کیا خون ہو گا۔

اس لیے واضح رہے کہ “کئی ڈاکٹرز اس مسئلے کا حصہ ہیں حل نہیں۔”

ڈاکٹرز اس مسئلے کا حصہ ہیں حل نہیں:

ڈاکٹرز ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ یہ ہمارے بھائی، بہن ، بیٹے بیٹی ہی ہیں اور جس طرح، ہر شعبے میں بھانت بھانت کے افکار رکھنے والے ہیں، اس پیشے میں بھی ہے۔ اور جس طرح، ہر میدان میں اچھے برے ہیں، اس میدان میں بھی ہیں۔ میرا اپنا جتنے اطبا سے واسطہ پڑا، ان میں سے کئی دین کو پسند کرنے والے اور خوب صورت اخلاق کے مالک تھے اور اس شعبے کو واقعی خدمت خلق سمجھ کر نبھانے والے تھے۔

تاہم افسوس کے ساتھ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو انسانوں کی صحت پر اپنی جاگیریں کھڑی کرتے ہیں۔ دواساز ادارےمیڈیکل نمائندوں کے ذریعے سے کئی اطبا کو بڑی بڑی مراعات (فریج، اے سی، بیرون ملک سیر وسیاحت کی سہولت وغیرہ)دے کر اپنی ادویہ دینے پر راضی کرتے ہیں ۔ اب بازار میں ایک بیماری کے لیے سستی دوا موجود ہے لیکن میڈیکل نمائندے نے چونکہ اپنا ہدف(ٹارگٹ) پورا کرنا ہوتا ہے اس لیے ڈاکٹر اسی کمپنی کی دوا لکھ کر دے گا جس کے نمائندے نے اسے مراعات سے نوازا۔ اسی طرح، بعض ڈاکٹرز خاص مختلف عنوان سے ادویہ بناتے ہیں جو صرف ان کی اپنی فارمیسی سے ان کے اپنے نرخ پر ملتی ہیں جبکہ وہی تاثیر رکھنے والی سستی دوا بازار میں موجود ہوتی ہیں اور نسخے پر لکھے ہوئے عنوان کو اس فارمیسی کے علاوہ کوئی دوسری فارمیسی والے پہچانتے بھی نہیں۔

ہمارے زیر بحث مسئلے میں کہ جنس کا پیمانہ کیا اور کسے خنثی مان کر اس عمل جراحی کی اجازت دی جائے، کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس حوالے سے دو پہلوؤں کو دیکھنا ہے:

۱: اس وقت جنس وصنف سے متعلق مسائل کے پشت پر ایک مکمل عقیدہ کھڑا ہے جو مابعد جدیدیت اور وجودیت کے نظریات سے متاثر ہے۔ اس کے خیال میں : “وجود ماہیت پر مقد م ہے”۔ انسان کے ساتھ پیدائشی طور سے مختلف ماہتیں اور نسبتیں جڑ جاتی ہیں، وہ اپنے ساتھ نہیں لاتا بلکہ معاشرہ انہیں بچے کو پہناتا ہے۔ اس لیے، وجود ہر ماہیت پر مقدم ہے اور کس انسان نے اپنے لیے کس ماہیت کا لباس اوڑھنا ہے، یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔اسی طرح، مرد وعورت ہونا کوئی بچہ اپنے ساتھ نہیں لاتا، بلکہ ڈاکٹر جب پہلی مرتبہ یہ کہتا ہے کہ: “آپ کا بیٹا ہوا”یا “آپ کی بیٹی ہوئی”، تو وہ اپنے انشائی بول (illocutionary speech act) سے “مرد” یا “عورت” کو جنم دیتا ہے، وہ کسی حقیقت کی خبر نہیں دیتا، بلکہ ایک حقیقت کو خود وجود دے رہا ہوتا ہے۔نیز بعض لوگ اس کی تائید اس سے بھی کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرانس لوگوں کے جینز دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں جو ان کے ذہن کو ان کی جسمانی جنس سے مختلف کر دیتے ہیں۔ اس کا ہمیں خود بھی تجربہ ہے کہ ہمارے ایک عزیز کی بچی اس نفسیاتی الجھ میں ہے اور ایک ڈاکٹر سے رہنمائی لی۔ اس نے کہا کہ یہ فطری ہے کہ بعض لوگوں میں خاص جینز ہوتے ہیں ۔والدین جو پہلے ہی بچی کی صورت حال سے پریشان تھے، ان کے لیے مزید معاملہ گھمبیر ہوگیا۔اور ہم نفسیات کے تحت واضح کر چکے ہیں کہ انسانی نفسیات ودماغ کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

۲ : دوسرا پہلو سرمایہ دارانہ ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ جنس اور باقی اعضا تبدیل کروانا ، جیسے مرد کا عورت جیسا بننے کے لیے اپنی چھاتی بنوانا اور اندام نہانی کی تنصیب وغیرہ، یہ دنیا کی مہنگی ترین سرجری میں آتا ہے۔جب کوئی انسان اپنے اعضا کو بدلواتا ہے تو عام طور سے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جس جنس کا خواہاں ہے، اپنے جسم کو پوری طرح ویسے کروائے اور یہ کاسمیٹک سرجری بہت مال طلب ہے۔اس لیے، اس کے ساتھ بہت سا سرمایہ جڑا ہوا ہے۔پھر ان لوگوں کو مستقل کسی معاینہ کروانا پڑتا ہے۔ اسی طرح، کئی لوگ جو اپنے اعضا بدلوا لیتے ہیں، وہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر، مستقل کسی ماہر نفسیات کے در پر آج جاتے ہیں۔ اگر ایک سے اطمینان نہ ہوا، تو دوسرے کی طرف۔ اس طرح، ان کے کلینک آباد اور اکاونٹس بھرے ہوئے رہتے ہیں۔ بعض علاقوں میں خنثی بچوں کی ولادت پر اس کی جراحی کر کے اسے کسی ایک جنس کی پھیر دیا جاتا ہے۔ اب اس پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے مہم چلائی جاتی ہے کہ اس عمل کو روکا جائے ۔ ایسے بچے بڑے ہو کر پیچیدگیوں کا شکار رہتے ہیں۔ اور نوبت خودکشی تک آجاتی ہے۔

ان وجوہ سے، صرف یہ کافی نہیں کہ ڈاکٹر کی رپٹ پر کسی کے خنثی ہونے کا فیصلہ کر دیا جائے۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ دین دار اور اسلامی اقدار کے حوالے سے پختہ اطبا بیٹھ کر ایک معیار طے کریں کہ جو اس پر پورا اترے اسے خنثی قرار دیا جائے اور اس کے بعد، اسے عمل جراحی وغیرہ کی اجازت ہو اور اس کی شناخت کی تعیین کے حوالے سے نادرا سے رجوع کرنے کی اجازت ہو۔ ورنہ، اگر ان اصطلاحات کو جدید طب کی روشنی میں واضح اور ان کے لیے کوئی واضح معیار (بنچ مارک) مقرر نہ کیا گیا، تو وہی نتائج ان اصطلاحات سے ایک ڈاکٹر باآسانی حاصل کر لے گاجس کے خدشے سے اس وقت ساری محنت کی جاری ہے جیسے ایک ماہر قانون ایک قانونی متن کو مختلف طرح سے پڑھ لیتا ہے۔

اس امر کے لیےشرعی اصول، بیمار کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے کہ اگر طبیب اسے کہے کہ روزہ اس کے لیے نقصان دہ ہے، تو وہ چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ طبیب مسلمان ہو اور اسلامی اقدار کو وہ اہم سمجھتا ہو۔شریعت اس زبان زد عام تصور کو تسلیم نہیں کرتی کہ “بس ماہر کی بات کو تسلیم کیا جائے۔” بلکہ ماہر بھی انسان ہے او ر وہ بھی اپنی مہارت کو غلط استعمال کر سکتا ہے۔ نیز اس کی تحقیق اس کے کسی عقیدے کا اثر بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے، صرف سائنس کا نام سے مرعوب ہونے کے بجائے، شرعی اصولوں پر فیصلہ کرنے والے کو ایک متحرک ناقد کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے خواہ اس پر کتنا ہی استہزا کا سامنا کرنا پڑے کہ اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی زیادہ شدید ہے اس استہزا سے۔

خنثی کے دو مختلف حالات:

اوپر یہ قاعدہ گزرا کہ اسلام صرف دو جنسوں کو تسلیم کرتا ہے۔ تاہم چونکہ انسان کا علم ناقص ہے، اس لیے بعض محدود صورتوں میں انسان کے لیے یہ دریافت مشکل ہوجاتی ہے۔

دوسری طرف، انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بنایا ، فرشتوں سے سجدہ کروایا اور اس زمین کی خلافت سے نوازا۔ اس شرف وبلندی کا مظہر یا اس کا ایک سبب اس کا اپنے افعال کا ذمے دار ہونا ہے۔اور چونکہ عقل کے قاضی کا فیصلہ ہے کہ بغیر اختیار کے کسی چیز کی ذمے داری غیر حکیمانہ امر ہے، اس لیے اللہ تعالی نے جس نے یہ عقل اور اس کا ڈھانچہ خود بنایا، انسان کو اختیار دے دیا ۔چناچہ اب اس کا فعل بے زبان چوپایوں اور بے جان در ودیوار کی طرح نہ رہا۔بلکہ اس کا فعل اس کے اختیار سے پھوٹتا ہے اور انسان کی اپنی نفسیاتی حالت اسے یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ اس نے جو فعل کیا وہ اس کا ذمے دار ہے کہ اس کے اپنی اختیار سے بہہ کر آیا ہے۔وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ وہ سائے کی طرف پوری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔

تیسری طرف، انسان کے ساتھ ایسے عوارض جڑے ہوئے ہیں، جو اس کے اختیار کو کبھی ماؤُف اور کبھی محدود کر دیتے ہیں۔ ان ہی عوارض میں سے ایک بچپن ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو شاید اسے اپنے وجود ہی کا احساس نہیں ہوتا ۔ اس کی عقل کا بیج اپنی ابتدائی حالت میں ہوتا ہے کہ اگر سازگار حالات رہے تو بلوغ تک وہ ایک ہرا بھرا درخت بن جائے۔ اوراسی وجہ سے ، اخلاق اور اس پر مرتب ہونے والے قانون میں ،اس بچے کے جان مال کو وہی حرمت ملتی ہے جو ایک باشعور وباعقل انسان کو دی جاتی ہے کہ اس نے اپنے مآل ونتیجے میں ایک ذی شعور وذی عقل مخلوق بننا ہے۔

اسی وجہ سے، فقہ جو مقاصد پر مبنی (Purpose-Driven)انسانی سرگرمی ہے،بچے کے معاملات کو اس کے ارد گرد میں موجود لوگوں کے سپرد کرتی ہے کہ وہ اس بیچ کی نگہداشت وآبیاری کر کے اسے ایک تناور درخت بنائیں۔ اور ان لوگوں میں بچے کے والدین اور پھر دیگر رشتے دار، درجہ بہ درجہ، آتے ہیں جن کی بابت انسانی تاریخ، انسانی فطرت اور ادیان یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ اس بچے کے خیر خواہ ترین ہیں۔اور بچے کے جانی ، جسمانی ومالی معاملات کا فیصلہ وہ والدین کرتے ہیں تا کہ وہ بچہ ان کی چھاؤں میں جوان ہو اور ایک صحت مند فرد بنے۔ اس کے بعد، وہ اپنے معاملات کا فیصلہ خود کر سکے۔

ان سب باتوں کے پیش نظر فقہا ، خنثی کے احکام کو دو مراحل میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا مرحلہ پیدائش سے بلوغ سے پہلے کا اوردوسرا مرحلہ بلوغ سے بعد ہے۔ 

خنثی بچپن میں:

اب چونکہ خنثی ایک انسان ہے جسے وہ تمام حقوق ملیں گے جو ایک انسان کو ملتے ہیں اور انسان “نر” یا “مادہ” ہوتا ہے،اس لیےفقہا کے ہاں بنیادی سوال اس کی جنس کی تعین ہے تاکہ اس کے ساتھ کچھ مقاصد واحکام وابستہ کر سکیں۔ جب تک بچہ بالغ نہیں ہوتا، تو بنیادی ترین حکم میراث کا ہے کہ اگر اس کا مورث مر گیا تو اسے کتنی میراث ملے، نیز اس کے حق پرورش کا ہے کہ اگر ماں باپ میں جدائی ہو گئی، تو اگرچہ اصولی طور سے، حق پرورش نومولود کا ماں کے پاس ہے،تاہم ایک خاص عمر میں پہنچ کر یہ باپ کو منتقل ہوتا ہے: لڑکے میں یہ جلدی ہوجاتا ہے کہ جیسے ہی اسے ہوش آئے اورروزمرہ کی بنیادی ضرورتوں میں وہ خود کفیل ہو توباپ کو حق ملتا ہے کہ اسے مردانہ اخلاق وعادات کا عادی بنائے اور معاشرے میں اپنا کردار (Gender Role)ا دا کرنے کا لیے پوری طرح سے تیار ہو(جی ہاں، شریعت کا مقصود ہے کہ معاشرے لڑکے اورلڑکیوں کو سماجی کردار کے لیے تیار کریں۔) اور لڑکی میں یہ کچھ دیر سےملتا ہے کہ اسے اس کے سماجی کردار کے لیے آمادہ اس کی ماں کر سکتی ہے۔ اس لیے، جب اس کی شادی کی عمر ہو، تو یہ حق باپ کو منتقل کیا جاتا ہے کہ “پدر قوّامی”(واو کی تشدید کے ساتھ)معاشرے میں ، جوعین  فطرت ہے،بیٹی کی حفاظت ،اسے معاشرے کے تاریک گوشوں سے بچانے اور عمر کے ساتھ پنپتے ہوئے احساسات وجذبات کی بیل کو منڈھے چڑھانے کی ذمے داری باپ پر ہے۔اور جب وہ بالغ ہوتا ہے تو قانونی وفقہی احکام کا ایک جہاں وا ہو جاتا ہے۔ اس لیے، اس وقت اس کی جنس کا فیصلہ دوبارہ کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ ایک بالکل فطری معاملہ ہے کہ بلوغ کے وقت انسان بالکل ایک نیا روپ دھار لیتا ہے۔ اس کی جسمانی و نفسیاتی کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔

بہر کیف، بلوغ سے پہلے خنثی کا فیصلہ اس کے پیشاب کی جگہ پر کیا جاتا ہے۔ چناچہ اگر اس کا جسم مردانہ عضو سے ہو کر آتا ہے، تو اسے نرقرار دیا جائے گا او رزنانہ عضو سے کرتا ہے، تو مادہ۔ اور اگر دونوں ہی اعضا استعمال کرتا ہو، تو اب یہ “خنثی مشکل” ہے۔ اس کے جنسی فیصلے کو اس کی جوانی تک روک دیاجائے گا۔ اور میراث وغیرہ کے احکام میں فقہا کچھ فقہی اصولوں کی روشنی میں اس کا حل پیش کرتے ہیں جن کی تفصیل یہاں پیش نظر نہیں۔اوپر جو فقہا کی عبارات دی گئیں ان کے ضمن میں یہ تفصیالات موجود ہیں۔ تاہم علامہ حصکفی کی عبارت ملاحظہ ہو:

«فإن بال من الذكر فغلام، وإن بال من الفرج فأنثى وإن بال منهما فالحكم للأسبق، وإن استويا فمشكل»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)


مفہوم: اگر خنثی مردانہ عضو سے پیشاب کرے، تو لڑکا، اور اگر زنانہ سے کرے تو لڑکی اور دونوں سے کرے، تو جس سے آغاز ہوا اس پر فیصلہ ہوگا۔ اور اگر دونوں ہی ہر لحاظ سے برابر ہوں، تو یہ خنثی مشکل ہے۔۱۲

اس پر علامہ شامی فرماتے ہیں:

«(قوله فالحكم للأسبق) لأنه دليل على أنه هو العضو الأصلي ولأنه كما خرج البول حكم بموجبه لأنه علامة تامة فلا يتغير بعد ذلك بخروج البول من الآلة الأخرى»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727):


مفہوم: (علامہ حصکفی کا فرمانا کہ جو پہلے ہے اس پر فیصلہ ہو گا) اس لیے کہ وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اصلی کارآمد عضو ہے، نیز اس لیے کہ جوں ہی وہ پیشاب کرے گا، وہ اس کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے گا کہ پیشاب کرنا ، جنس کی تعیین میں، ایک مکمل علامت ہے۔ اس کے بعد، دوسرے آلے سے پیشاب خواہ کرے، پر حکم نہیں بدلا جائے گا۔

یہاں یہ بات نوٹ کیجیے کہ فقہا اس حوالے سے کتنی واضح ہے کہ چونکہ جنس ایک امر ربی ہے ، وہ بدلنے سے نہیں بدلتی اور ہمیں اس کا اندازہ علامات سے ہوتا ہے(جیسے نماز کی فرضیت کا اندازہ سورج کے چڑھنے ڈھلنے سے)، اس لیے جب ایک بار حکم ثابت ہو گیا تو اسے وہ بدلنے نہیں دیتے۔ (آگے اس پہلو پر کچھ تفصیل اور تقیید آئے گی۔)

اہم بات یہ ہے کہ فقہا کے نظام میں اس بچے کو عمل جراحی سے گزارنا اور اسے کسی ایک جنس کی طرف موڑ دینا ضروری نہیں۔ بالکل اگر میں یہ کہنے کی جرات کروں کہ ناپسندیدہ ہے، تو بعید نہیں کیونکہ بغیر کسی ضرورت کے اس بچے کا جسم کی ہیئت کا فیصلہ کرنا جو ساری زندگی اس کے ساتھ رہی گی مناسب نہیں۔البتہ اگر بچے کی حالت ایسی ہوئی کہ جان پر بن رہی ،مثلا پیشاب میں دشواری ہو اور اطبا کا خیال ہو کہ عمل جراحی ضروری ہے، تو وہ ایک جائز عمل ہے۔

 بس وہ بچہ دوسرے بچوں ہی کی طرح اپنی زندگی گزارے اور جب وہ شعور وبلوغ کی دہلیز پر قدم رکھے، تو اس کا فیصلہ کیا جائے۔

اس وقت بین الاقوامی عرف بھی اس پر زور دے رہا ہے کہ خنثی کو عمل جراحی کے ذریعے کسی ایک جنس کی طرف بچپن ہی میں نہ موڑا جائے، اور یہ بات اسلامی اخلاق سے بھی ہم آہنگ ہے کیونکہ بلوغ کے بعد، خنثی کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے اور اس وقت حتمی رائے سامنے آتی ہے کہ اس کی وہ جنس کیا ہے جس کے ساتھ اس نے زندگی بسر کرنی ہے۔

خنثی کا فیصلہ جوانی میں:

خنثی جب جوان ہوتا ہے، تو وہ ایک بالکل نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جو بچپن سے بہت مختلف ہے۔ اس کی نفسیات واحساسات، ترجیحات ومعیارات، جسم، عقل، شعور، تحت الشعور سب کچھ بدل جاتا ہے۔ اس لیے، بالغ ہونے کے بعد، فقہا خنثی کا فیصلہ دوبارہ کرنے کا کہتے ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے، میں دوبارہ یاددہانی کرنا چاہوں گا کہ یہاں گفتگو اس کی بابت ہو رہی ہے جس کا “خنثی” ہونا ثابت ہوگیا، فقہا کےطے کیے ہوئے کڑے معیار پر پورا اتر گیا۔

چناچہ فقہا کے کلام میں مندرجہ ذیل پیمانے ملتے ہیں:

حیض آنا، قرار حمل، کسی خنثی کا اس قابل ہونا کہ کوئی مرد اس سے زن وشو کا تعلق قائم کر لے یا کسی خنثی کا کسی عورت سے یہ تعلق باآسانی قائم کر لینا، عورتوں کی طرح چھاتی نکلنا، یا دودھ اترنا وغیرہ۔

حتی کہ اگر کسی خنثی کا کہنا ہے کہ وہ “مرد” کی طرف جنسی جھکاؤ رکھتا ہے، تو وہ عورت شمار ہو گا اور اگر اس کا جنسی جھکاؤ عورت کی طرف ہو، تو وہ مرد شمار ہو گی۔ یہاں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ فقہا کے ہاں جنس جنسی رجحان کے ساتھ گتھم گتھا ہے۔

یہاں جو پیمانے دیے گئے ہیں اس میں ایک ایسے قاری کو اشکال ہوسکتا ہے جو فقہی جزئیات پڑھنے سے آشنا نہ ہو۔ مثلا،ہماری گفتگو اس بابت ہے کہ خنثی کو مرد مانا جائے یا عورت تا کہ اسے نکاح، معاشرتی کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کا موقع ملے۔تو یہ کیا بات ہوئی کہ اگر کسی خنثی نے کسی عورت سے تعلق قائم کر لیا، تو سے “نر “اور کسی مرد نے اس سے تعلق قائم کر لیا تو اسے “مادہ” تصور کیا جائے گا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فقہا یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ ایسا کرے ان کا مقصود یہ ہے کہ اگر ایسا ہوگیا ، تو یہ حکم عائد کیا جائے گا۔اس کی دو صورتیں سمجھیے:

۱: ایک خنثی بالغ ہوا ور اس نے کسی مرد کو برضا ورغبت اپنے پاس آنے دیا۔ عدالت میں زنا کا جرم ثابت ہوا اور انہیں سزا ملے۔ لیکن اس سزا کے ضمن ہی میں یہ فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ وہ خنثی “مادہ” ہے اور آئندہ اس پر مادہ ہونے کا حکم عائد ہو گا۔

۲: نیز فقہا جو قانون مرتب کر رہے تھے اس وقت غلام اور باندی سماج کا اٹوٹ انگ تھے۔ چناچہ ایک خنثی کسی مرد کا غلام ہے۔ جب وہ بالغ ہوا، تو اس کے آقا نے اس سے تعلق قائم کر لیا اور اس خنثی میں جسمانی صلاحیت تھی، اس سے ثابت ہو جائے گا کہ وہ خنثی عورت تھا۔اور یہ تعلق گناہ اس وجہ سے نہیں شمار ہو گا کہ انسان اپنی جنس لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے، اس تعلق سے صرف یہ “تبیین” ہو گئی کہ وہ پہلے ہی سے عورت تھا۔(اسلامی فقہ فیصلے کے ثابت ہونے کے چار طریقوں کو تسلیم کرتی ہے: الانقلاب، والاقتصار، والاستناد، والتبيين۔ اس پر تفصیل کا یہ موقع نہیں)۔

علامہ شامی فرماتے ہیں:

«هذا قبل البلوغ (فإن بلغ وخرجت لحيته أو وصل إلى امرأة أو احتلم) كما يحتلم الرجل (فرجل، وإن ظهر له ثدي أو لبن أو حاض أو حبل أو أمكن وطؤه فامرأة»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)


مفہوم: یہ بلوغت سے پہلے ہے۔ (پس اگر وہ بالغ ہو اور باریش ہو جائے یا کسی عورت سے تعلق قائم کر لے یا اسے اس طرح احتلام ہو ) جیسے مرد کو ہوتا ہے (تو وہ مرد ہے۔ اور اگر اس کے پستان ظاہر ہو جائیں یا دودھ اتر آئے یا حیض آ جائے یا قرار حمل ہو یا جنسی تعلق میں فطری طریقے سے اسے مفعول بنانا ممکن ہو تو وہ عورت ہے)۔
«السيد قدس سره … قال وإذا أخبر الخنثى بحيض أو مني أو ميل إلى الرجال أو النساء يقبل قوله ولا يقبل رجوعه بعد ذلك إلا أن يظهر كذبه يقينا مثل أن يخبر بأنه رجل ثم يلد فإنه يترك العمل بقوله السابق اهـ»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 729)


مفہوم:۔۔۔ سید شریف رحمہ اللہ تعالی … فرماتے ہیں کہ اگر کوئی خنثی حیض یا منی یا مرد یا زن کی طرف جھکاؤکی خبر دے تو اس کی بات قبول کی جائے گی۔تاہم اگر وہ اس سے پھرے تو اسے اس وقت تک نہیں تسلیم کیا جائے گا جب تک اس کا جھوٹ یقینی طور سے ثابت نہ ہو، مثلا وہ یہ کہے کہ وہ مرد ہے ،پھر اس کے ہاں ولادت ہو جائے، تو اس کے سابقہ قول پر عمل کو چھوڑ دیا جائے۔

اس گفتگو سے بلوغت کے بعد، خنثی کے حوالے سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:

  • خنثی کے بالغ ہونے کے بعد، دوبارہ اس کی جنس طے کی جائے گی۔
  • اس حوالے سے فقہا نے کوئی ایک پیمانہ مقرر نہیں کیا، بلکہ مختلف علامات دے دی ہیں کہ ان کے حوالے سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
  • تاہم کچھ علامات ایسی ہیں کہ وہ فیصلہ کن ہیں جیسے ولادت ہونا کہ وہ صرف مادہ کے ہاں ہو سکتی ہے۔اور سید شریف جرجانی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت جو اوپر نقل ہوئی اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ولادت ایسا معاملہ ہے جس کی بنیاد پر سابقہ اقرار کو بھی چھوڑ دیا جائے گا۔ اسی طرح، حیض آنابھی کسی کے عورت ہونے کی حتمی فیصلہ ہے۔یہاں یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ تنصیب رحم (Uterus transplantation) سے مستقبل میں امید ہے کہ مرد بھی بچے جننے لگے کیونکہ یہاں گفتگو فطری طور سے ہونے کی ہے۔
  • نیز اگرچہ خنثی کے ثبوت کے بعد، فقہا کے ہاں گنجائش ہے لیکن جنس دراصل معاشرے کی رگ جاں ہے۔ اس لیے، اسے کھیل نہیں بنایا جا سکتا کہ خنثی جب چاہے، آکے اس کی تعیین نو کر لے۔ چناچہ اگر کسی بالغ خنثی نے ایک مرتبہ اپنی جنس طے کر لی، تو اب اسے تبدیل کرنا آسان نہیں ہونا چاہیے۔ نیز اگر یہ ثابت ہو کہ اس نے پہلے جھوٹ بولا، تو اس پر تعزیر بھی ہو سکتی۔
  • اس دور میں چونکہ سائنسی آلات نے ترقی نہیں کی تھی، اس لیے فقہا کا کہنا تھا کہ خنثی ہی کے قول پر اعتماد کر لیں کہ مثلا اسے حیض آتا ہے۔اب چونکہ ہمارے پاس آلات ہیں جن سے ان چیزوں کی تحقیق ہو سکتی ہے، اس لیے جن امور کی تحقیق ہو سکتی ہو، ان کی تحقیق کی جائے۔
  • فقہا نے جنسی رجحان(Sexual Orientation) کو بھی تسلیم کیا ہے۔ ایک بات یہ واضح رہے کہ یہ ذاتی صنفی شناخت (Gender Identity)نہیں ۔چناچہ اگر خنثی کے ہاں حیض ، ولادت وغیرہ امور نہ پائے جائیں، تو اس کے جنسی رجحان کی بنیاد پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے اس ہی کی بات پر اعتماد کیا جائے گا۔ اور یہ وہ مرحلہ ہے جہاں دراصل خنثی کی اپنے رائے پر اعتماد ہے۔ لیکن اس کے پس پشت مفروضہ یہ نہیں کہ وہ اپنی جو صنف چاہے مقرر کرے، بلکہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے پہلو کو بنیاد بنا رہا ہے جس کی تحقیق اس کی بات کے علاوہ کسی اور طرح نہیں ہو سکتی۔ اس لیے، اسی کے قول پر اعتماد ہو گا۔

جنس کے ناقابل تغیر ہونے کا مطلب:

اب یہ ضروری ہے کہ اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی جائے کہ جنس کے نہ بدلنے سے مقصود کیا ہے؟ جب ہم کہتے ہیں کہ جنس نہیں بدلتی، اور جو بندہ اس کا اقدام کرتا ہے، تو وہ گناہگار ہے، تو فقہ وقانون میں اس سے مقصود کیا ہے؟

کیا اس سے یہ مقصود ہے کہ اگر کسی نےعمل جراحی کے ذریعے اپنے اعضا بدلوا لیے، تو اگرچہ وہ گناہگار ہو گا تاہم اس کی جنس بدل جائے گی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جنس نہیں بدلے سکتی اور فاعل کا یہ عمل شرعی قانون میں کالعدم ہے۔ جو بندہ “خنثی” نہیں یا ایسا “خنثی” ہے کہ حتمی علامات سے اس کی جنس طے ہو جائے، تو اب اگر وہ عمل جراحی کے ذریعے اپنے اعضا بدلواتا ہے، تو اس کا کوئی قانونی اثر نہیں۔یہ بیع باطل کی طرح ہے کہ جو سودا ہو رہا ہے، وہ بائع سے مشتری کی ملکیت میں منتقل ہی نہیں ہوتا اگرچہ مشتری اس پر قبضہ کر لے۔یہ ایک تین سالہ بچے کے ہبہ (گفٹ) کی طرح ہے کہ اگرچہ بچہ اپنی مرضی سے کسی کو اپنی چیز دے دے (اور قبضہ بھی ہو جائے)، وہ بدستور اس بچے ہی کی ملکیت ہے۔

یہ جمہور کے ہاں ایک مجلس میں تین طلاق کی طرح نہیں کہ اگر کسی نے تین طلاقیں دیں، تو اگرچہ اس نے برا کیا، لیکن اس طلاق کو قانون تسلیم کرتا ہے۔ اعضا کی تبدیلی ایسا معاملہ نہیں ۔ بلکہ اعضا کی تبدیلی سے پہلے جو حالت انسان کی تھی، وہ اس کے بعد ہے۔

۱: چناچہ اگر وہ نر تھا اور اس نے زنانہ اعضا بنوا لیے، تو وہ مرد ہی رہے گا۔

۲: اگر وہ مادہ تھی اور اس نے مردانہ اعضا بنوا لیے، تو وہ عورت ہی رہے گا۔

۳: اگر وہ خنثی تھا لیکن کسی قطعی علامت سے نر یا مادہ ہونے کا فیصلہ ہو چکا، تو جس علامت کی بنیاد پر فیصلہ ہوچکا، وہ خنثی وہی رہے گا۔

۴: اگر وہ خنثی ہےپر کوئی قطعی علامت نہیں، تو چونکہ اس کے جنسی رجحان پر فیصلہ ہو گا، تو اب اگر اس نے کسی جنس کی طرف اپنے آپ کو موڑ دیا اور عمل جراحی کروائے، تو اس میں کوئی اشکال نہیں۔ تاہم یہاں بھی مفروضہ یہی ہے کہ عمل جراحی سے پہلے اس کی جنس کے جنسی رجحان سے طے ہو گئی اور عمل جراحی سے کچھ بدلا نہیں۔اسی سے واضح ہوا کہ عمل جراحی کروا نے کے بعد وہ خنثی مشکل نہیں رہے گا بلکہ کسی ایک جنس کی طرف پھر جائے گا(آگے یہ بات آنے کو ہے کہ بلوغ کے بعد، عام طور سے اشکال نہیں رہتا۔)

خصی:

«”والخصي في النظر إلى الأجنبية كالفحل” لقول عائشة رضي الله عنها: الخصاء مثلة فلا يبيح ما كان حراما قبله ولأنه فحل يجامع»«الهداية في شرح بداية المبتدي» (4/ 372):


مفہوم: اجنبی عورت کو دیکھنے میں خصی کام مرد کی طرح ہے ۔ ا س کی دلیل بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا فرمان ہے کہ خصی کرنا مثلہ ہے۔ پس جو امر خصی ہونے سے پہلے حرام تھا وہ حرام نہیں ہو گا، نیز اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک کامل مرد ہے جو زن وشو کا تعلق قائم کر سکتا ہے۔۱۲

یہاں واضح رہے کہ فقہا کے ہاں خصی کا اصطلاح صرف اس کے لیے استعمال ہوتی ہے جسے کے خصیے نہ ہوں لیکن آلہ تناسل ہو اور جس کا آلہ تناسل نہ ہو، اسے “مجبوب” کہتے ہیں۔

اس وضاحت کے بعد، یہ غور کیجیے کہ جنسی اعضا میں تبدیلی سے جنس نہیں بدلتی۔ بلکہ وہ مرد ہی ہے اور اسی کے احکام لاگو ہوں گے۔مشہور حنفی فقیہ ومحدث علامہ عینی نے اس پر اس حوالےسے کلام کیا ہے کہ یہ آیا اس اثر سے استدلال درست ہے یا نہیں اور اس مدعی کو ثابت کرتا ہے یا نہیں، لیکن کس مقصد کے لیے ہم نے یہ بات نقل کی ہے کہ وہ شرعی احکام میں مرد ہی ہے،وہ بہر حال اس سے واضح ہے۔

نیز خصی کرنا اللہ تعالی کی خلقت میں تبدیلی ہے۔صحیح بخاری کی مندجہ ذیل روایت ملاحظہ ہو:

« عبد الله رضي الله عنه، قال: ” كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء، فقلنا: ألا ‌نختصي؟ فنهانا عن ذلك»«صحيح البخاري» (6/ 53 ط السلطانية)


مفہوم: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ : ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں تھی اور گھر والیاں ساتھ نہ تھیں۔ ہم نے عرض کیا کہ کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ اللہ کے نبی نے اس سے منع فرمایا۔

اس پر علامہ عینی ہی فرماتے ہیں کہ:

«وفيه تحريم الاختصاء لما فيه من ‌تغيير ‌خلق ‌الله تعالى، ولما فيه من قطع النسل وتعذيب الحيوان»«عمدة القاري شرح صحيح البخاري» (18/ 208)


مفہوم: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خصی ہونا حرام ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی تخلیق کو بدلنا ہے، نیز اس میں نسل کو بڑھنے سے روکنا اور جاندار کو عذاب سے دوچار کرنا ہے۔

اور یہی سے ہماری گفتگو تغییر فی خلق اللہ کی طرف مڑ جاتی ہے۔

عمل جراحی کی اجازت اور تغییر فی خلق اللہ:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مشہور حدیث منقول ہے کہ انہوں نے جسم گدنے (ٹیٹوز بنوانے) پر لعنت کی۔ اسی طرح، دانتوں میں زیب وزینت کے لیے فاصلہ پیدا کرنے پر بھی لعنت کی۔ اس پر علامہ عینی فرماتے ہیں کہ:

«أما إذا احتيج إليه لعلاج أو عيب في السن ونحوه فلا بأس به»«عمدة القاري شرح صحيح البخاري» (19/ 225)


مفہوم:اگر علاج معالجے یا دانتوں کی بیماری کی وجہ سے ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔۱۲

اسی طرح، حدیث کے مطابق، اگر کسی کا ناک کٹ گیا اور اس نے چاندی کا ناک لگوا لیا، تو یہ جائز ہے۔ امام محمد کے ہاں سونے اور چاندی دونوں کے ناک کی گنجائش ہے۔اور اسے بھی تغییر فی خلق اللہ میں شمار نہیں کیا گیا۔«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 362)

اس لیے، جسم میں ہر تبدیلی تغییر فی خلق اللہ کے تحت ممنوع نہیں۔بلکہ اگر عام لوگوں میں جو ہیئت فطرت شمار ہوتی ہے اگر کوئی چیز اس سے ہٹی ہوئی ہو، تو اس کی اصلاح درست ہے۔

بالفاظ دگر، شریعت ایک چیز کو معیار تسلیم کرتی ہے اور جو اس سے ہٹی ہوئی ہو، اسے وہ عیب قرار دے کر اس کی اصلاح دیتی ہے۔ اور ہم پھر یاد کروانا چاہیں گے کہ شریعت ایک معیار پر مبنی نظام ہے۔

خنثی کی حالت کو شریعت فطرت صحیحہ سے ہٹا ہوا گردانتی ہے،اس لیے اس کے لیے عمل جراحی درست ہو گی اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان اعضا کو ختم کروائے جو اس کی طے شدہ جنس سے ہم آہنگ نہیں اور یہ اللہ تعالی کی خلقت کو بدلنے کے زمرے میں نہیں آئے گا۔(یعنی یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ مادہ ہو اور اپنے نرینہ اعضا کو برقرار رکھ لے اور یہ کہے کہ اس کا جنسی جھکاو عورتوں کی طرف ہے۔)

مخنث:

ایک اصطلاح مخنث کی بھی ہمارے فقہی ادب میں نظر سے گزرتی ہے۔ یہ محض ایسے مرد کو کہتے ہیں جس کی چال ڈھال، ادا وانداز میں نزاکت،تکسر ہو۔

یہ مرد ہی ہےتمام احکام میں۔ تاہم اگر یہ اس میں فطری ہو، تو گناہ نہیں۔ البتہ اگر جانتے بوجھتے ہوئے ایسا کرے، تو یہ گناہ ہے۔

خنثی مشکل:

یہاں سرسری طور سے، ہم خنثی مشکل کے تصور اور اسے وابستہ احکام پر بھی نظر ڈال لیں۔

جب تک خنثی کی جنس طے نہیں ہو جاتی، اسے خنثی مشکل کہتے ہیں۔ چونکہ یہ انسان ہے اور اسی طرح کرامت ہے جس طرح دوسرے انسان، اس لیے یہ شرعی احکام کا پابند ہے۔ اس لیے، فقہا خنثی کے باب میں ، نماز جنازہ، نظر، ستر ، باجماعت نماز میں صف بندی وغیرہ کے معاملات میں تجزیہ کرتے ہیں کہ اگر اسے مرد مانا جائے، تو کیا معاملہ ہو گا اور عورت مانا جائے تو کیا۔ اور اس کے موازنے سے فیصلہ کرتے ہیں۔

لیکن سماجی لحاظ سے، سب سے اہم معاملہ نکاح کا ہے۔ خنثی مشکل نکاح نہیں کر سکتا۔ جب تک اس کی جنس کی حتمی فیصلہ نہ ہو، وہ اس انتظار کرے گا۔ اور یہی سے ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ کیوں فقہا اس پر زور دیتے ہیں کہ جلد جلد اس کی جنس کا فیصلہ کیا جائے کہ اس کی کرامت انسانی کے خلاف ہے کہ اسے بیچ میں لٹکایا جائے اور اسے سماجی کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع دیا جائے۔

علامہ شامی خنثی مشکل کے ختنے کے حوالے سے ایک جزئیے کے تحت فرماتے ہیں کہ:

«وقد يجاب بأن كونه موقوفا إنما هو من حيث الظاهر، وإلا فالنكاح في نفس الأمر إما صحيح إن كان ذكرا فيحل النظر وإما باطل إن كان أنثى»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 729)


مفہوم: اس کا یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ خنثی مشکل کا (کسی باندی سے) نکاح کا موقف ہونا ظاہر کے لحاظ سے ہے۔ ورنہ اگر وہ مرد ہے تو نکاح درست ہے اور اس کا دیکھنا درست ہے، اور اگر خود عورت ہے تو نکاح کالعدم ہے۔

یہاں سے اس بات کی بھی تائید ہو گئی جو اس سے پہلے ایک آدمی کا اپنے خنثی سے تعلق قائم کرنے کے حوالے سی گزری کہ وہ “تبیین” کے قبیل سے ہے۔ اس لیے، اس کے تعلق سے یہ ثابت ہو گا کہ اس کا خنثی غلام دراصل باندی تھا اور وہ گناہ گار بھی نہیں ہو گا۔

بلوغت کے بعد، عام طور سے اشکال باقی نہیں رہتا:

اس سلسلہ تحریر کے آغاز میں، علامہ جصاص رازی رحمہ اللہ تعالی کا حوالہ گزرا کہ امام محمد رحمہ اللہ تعالی فرماتے تھے کہ بلوغت کے بعد، عام طور سے اشکال باقی نہیں رہتا۔ علامہ سرخسی اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

«قلنا لا يبقى الإشكال فيه بعد البلوغ وإنما يكون ذلك في صغره إذا مات قبل أن يبلغ وقد بينا اختلاف العلماء في ميراثه قبل أن يستبين أمره فيما سبق»«المبسوط للسرخسي» (30/ 105)


مفہوم: ہمارا کہنا ہے کہ بلوغت کے بعد، اشکال باقی نہیں رہتا۔ یہ صرف بچپن میں ہوتا ہے جو وہ بالغ ہونے سے پہلے مر جائے۔ اور نابالغ خنثی مشکل کی میراث کے حوالے سے علما کا اختلاف ہم بیان کر چکے۔

اسی طرح، خنثی مشکل کے حوالے سے علامہ شامی فرماتے ہیں:

والتقييد بالمراهق لكونه بعد البلوغ لا يبقى مشكلا غالبا»«حاشية ابن عابدين ط الحلبي» (6/ 730)


مفہوم: قریب البلوغ ہونے کی قید اس لیے لگائی ہے کہ بلوغ کے بعد عام طور سے، اشکال باقی نہیں رہتا۔

احناف کے ہاں، یہ پہلو بہت واضح طور سے ملتا ہے کہ بالغ ہونے کے بعد، معاشرے میں کسی بھی انسان کی جنسی شناخت کو لٹکایا نہیں جائے گا اور اسے فوری طور سے حل کیا جائے گا تا کہ وہ معاشرے کا ایک موثر فرد بن سکے۔وہ کسی سے نکاح کر کے اپنے وجودی احساسات کی تسکین کر سکے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے باعث سکون ہیں، نیز کوئی اس کے لیے وقار کا لباس بن سکے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کاپیرہن ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے بھی عبرت کا مقام ہے جو اس طرح کے لوگوں کو ایک اچھوت سمجھ کر ان سے معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں انسان بنا کر مکرم ومعظم کیا۔اور ان کی جنس کا مسئلہ اللہ کی تقدیر ہے۔ اس کی بنا پر ان کو حقیر سمجھنا، اللہ کی تقدیر پر اعتراض ہے۔

ٹرانس کے لیے سیرت سے رہنمائی:

نیز ایسے خواجہ سرا لوگوں کے لیے بھی اللہ تعالی کی طرف سے خاص فضیلت کی امید ہے جب معاشرہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتاہے اور وہ صبر کرتے ہیں۔ اور اسلام کی نگاہ میں اصل زندگی آخرت ہی کی ہے: إن الدار الآخرة لهي الحيوان. یہ دنیا کی زندگی چند دنوں کی ہے اور ہمیشہ رہنے والے زندگی ہی اصل ہے اور وہاں کسی کی جنس ، رنگ یا نسل کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ اس دن معزز ومکرم وہ ہے جو متقی ہے اور ایک خنثی بھی ایسے ہی متقی ہو سکتا ہے جیسے ایک صحیح الجنس متقی ہوسکتاہے۔

اسی طرح، متبدل صنف (ٹرانس) پر بھی اس وجہ سے کوئی دوش نہیں کہ ان کے اندر یہ احساس جنم لے رہا ہےکہ ان کی صنفی شناخت ان کی جنسی شناخت سے ہم آہنگ نہیں۔ دل میں خیال آنا اور نفس میں خواہش ابھرنا ایمان ودین کے خلاف نہیں جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے۔ ایسے ٹرانس لوگ جو ہمارے بھائی ہیں ان کو میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خوشخبری سنانا چاہتا ہوں جو ان کے لیے ایک روحانی ونفسیاتی سکون واطمینان کا باعث بنے:

عن أبي هريرة، قال: جاء ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به، قال: «وقد وجدتموه؟» قالوا: نعم، قال: «ذاك صريح الإيمان»«صحيح مسلم» (1/ 119 ت عبد الباقي)


مفہوم: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ کچھ لوگوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ: “ہمارے جی میں ایسی باتیں آتی ہیں کہ ہم میں سے کسی کا اسے زبان پر لانا بہت شاق ہے۔”اللہ کے نبی نے دوبارہ پوچھا: “کیا واقعی یہ بات تم اپنے اندر پاتے ہو؟”(یعنی شیطان کا وسوسہ ڈالنا اور اسے زبان پر لانے کا شاق ہونا)۔ انہوں کے کہا: جی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: “یہ خالص ایمان ہے”

اس لیے، ان لوگوں سے میرے گزارش ہے کہ ان احساسات سے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ بس ان احساسات کو یہی سمجھیں کہ یہ صحتمندانہ نہیں۔ اور جب تک وہ یہ سمجھتے رہیں گے، ان کے ایمان کا پیمانہ بلند رہے گا۔ نیز ہمارے ان ساتھیوں کو یہ بھی معلوم ہو کہ ان کی اس طرح کی کیفیت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حل بھی بتایا کہ جب انسان کو ایسے وسوسے آئیں، تو یہ یاد کرے کہ وہ اللہ تعالی پر ایمان لاتا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ:

«فمن وجد من ذلك شيئا، فليقل: آمنت بالله»«صحيح مسلم» (1/ 119 ت عبد الباقي)


مفہوم: ۔۔۔ پس جو یہ کیفیت محسوس کرے، تو یہ کہے اور یاد کرے کہ: “میں اللہ تعالی پر ایمان لایا۔”

وہ یا دکرے کہ اس کا خالق ،اس کا مالک اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اورنفس وشیطان جو ان خیالات کو لاتے ہیں ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ وہ اللہ کی قدرت سے باہر نہیں۔اور اس کا بھروسا اللہ تعالی پر ہے جو نفس وشیطان کا بھی خالق ومالک ہے۔وہ اپنے اس گہرے ایمان کو یاد کرےاور اپنے رب سے لو لگائے تا کہ یہ خیالات ختم ہو جائیں یا وہ اتنی شدت نہ اختیار کریں کہ انسان ان کے تقاضے پر عمل کرنے لگے۔

ٹرانس کے حوالے سے مسلمان سماج کی ذمے داری:

اس حوالے سے، میں اپنے آپ کو سب سے پہلے اورباقی سماج کو اس کے بعد، یہ کہوں گا کہ ایسے لوگ ہمارے ارد گرد ہیں۔ یہ ہمارے رشتے داروں میں ہو سکتے ہیں اور دوستوں میں بھی۔ٹرانس کسی کا بیٹا ہے کسی کی بیٹی، کسی کا بھائی، کسی کی بہن۔ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ دنیاوی اغراض کے لیے ایسا کریں بلکہ واقعی یہ لوگ نفسیاتی طور سے، اس مشکل سے گزرتے ہیں۔ اس لیے، ان کی بات سننے کی ضرورت ہے،اور کسی بدگمانی کے بغیر ان سے مکالمہ ہونا چاہیے۔ اللہ سے امید ہے کہ ایسا انسان اس مشکل سے نکل آئے اور اس کا ساتھ دینے والا اپنی دنیا وآخرت سدھار جائے!

ٹرانس کے حوالے سے تبلیغی جماعت کا کردار بہت اچھا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ساتھ ملاتے اور معاشرے کا ایک صحت مند فرد بنانے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ کئی لوگ اس مخمصے سے نکلے اور ایک صحتمندانہ زندگی گزارنے لگے۔

ہماری تہذیب کا ایک اہم ترین ادارہ تصوف ہے جس کے بغیر دین محض ایک قانونی ڈھانچہ ہے جو انسان کے عمیق ایمان سے نہیں ابھرتا۔ صوفیہ کا وجود معاشرے میں پھیلی ہوئی نفسیاتی الجھنوں کے حوالے سے ہمیشہ سے ایک نعمت رہا ہے اور وہ اس کا علاج کرتے رہے ہیں۔ اس وقت ماہر نفسیات کے کلینکس کھلے ہوئے ہیں جو اچھی خاصی اجرت پر کچھ لمحات عنایت کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے صوفیہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی معاوضے کے گلے سے لگاتے، ان کے درد کا درماں کرتے رہے ہیں۔ اب بھی یہ جاری ہے۔ لیکن یہ ادارہ کمزور پڑ گیا ہے۔ اس میں موجود خرابیوں کی اصلاح ہونی چاہیے لیکن ان خرابیوں کی وجہ سے بالکل ہی اسے لپیٹنا سماجی خودکشی ہے۔ اسے نام تصوف کا دیں یا نہ دیں، لیکن اس کے بنا ہمارے سماج میں آنے والا نفسیاتی کہرام، صرف قانون میں تبدیلی کر لینے سے حل نہیں ہونے کا۔ بلکہ یہ قانون صرف یہ خبر دیتا ہے کہ معاشرے میں یہ نفسیاتی الجھنیں کتنی شدت اختیار کر چکی ہیں اور کتنی گہری ہیں۔ اگر اصلاحی سماجی اداروں نے جن میں صوفیہ، مدارس، مساجد کے منبر سر فہرست ہیں، عوامی سطح پر، انفرادی سطح پر، اس کا حل نہ کیا، تو ہماری اگلی نسل اس جنسی انقلاب کی زد میں پوری طرح سے آ جائے گی اور شاید آنا شروع ہو چکی ہے۔ ایک عالم دین، ایک امام مسجد کی اولاد بھی اب عصری اداروں میں پڑھتی ہے اور اس کی ذہن سازی وہیں ہوتی ہے۔ اس کے بچوں کے ذہنوں میں، کیا نظریات پکے ہو چکے ہیں، وہ شاید بچپن میں معلوم نہ ہو کہ اسے مخالفت کا ڈر ہو، لیکن بڑے ہو کر وہ بھرپور طریقے سے اس پر عمل کرے گا اور اپنی نسل کی بھی اسی پر تربیت کرے گا۔ اس لیے، ہم کم از کم، یہ کر سکتے ہیں کہ ان مسائل پر زجر، تجہیل وتضحیح کا رویہ نہ اپنائیں جو سیاسی حلقوں میں تو ہے ہی، لیکن ہمارے دینی حلقے میں بھی دینی اختلافات کے معاملے میں دوسروں سے کم نہیں اور اس وقت بھی ٹرانس پر گفتگو میں یہ رویہ بھی نمایاں رہا ہے۔

بلکہ ان سے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے، ان کے سوالات کو سمجھنے اور صبر سے جوابات سوچنے اور دینے کی حاجت ہے۔ اگر کسی میں اس کی سکت نہ ہو، تو کم از کم، وہ نئی نسل کو متنفر کرنے میں اپنا کردار ادا نہ کرے کہ یہ آخری درجہ ہے۔

كُفَّ أَذَاكَ عَنِ الناس فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بها عن نَفْسِكَ (مسند أحمد)

تحریر مولانا مشرف بیگ اشرف