ٹرانس جینڈر ہیں کون؟

ٹرانس جینڈر ہیں کون؟

آئیے آج آسان اور واضح الفاظ میں سمجھتے ہیں۔

مرد یا عورت کی جنس کا تعین استقرار حمل یعنی پہلے خلیے /جنین کے بننے کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ ماں اور باپ سے آنے والے سیکس کروموسوم ہوتے ہیں۔ انہی کروموسوم کی وجہ سے جنین میں مرد یا عورت کے اندرونی اور بیرونی اعضا اور ہارمونز وغیرہ بنتے ہیں۔ اور وہ پیدائش کے وقت یا بلوغت کے ایام میں مرد یا عورت کی صنف کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں ۔

اس نظام یا ہارمونز وغیرہ میں خرابی کی وجہ سے کچھ بچوں کی جنس میں ابہام پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ابہام کبھی پیدائش کے وقت کی نظر آتا ہے اور کبھی بلوغت سے پہلے ظاہر نہیں ہوتا۔

انٹر سیکس یا ہرمافروڈائٹ:

ایسے افراد جو پیدائشی طور ایسی کسی ایبنارمیلیٹی کی وجہ سے صنفی ابہام (sexual ambiguity ) کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کو ہرمافروڈائٹ یا انٹر سیکس کہا جاتا ہے۔

ان میں ایبنارمیلیٹی کے اعتبار سے شدتوں کا فرق ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں فقہا نے ایسے افراد کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ غالب جنس یا صنف اختیار کریں ۔ اور معاشرہ میچور اور خدا خوفی رکھتا ہو تو ان کو اسی حالت کے ساتھ عزت سے جینے کا حق دینے والا ہونا چاہیے۔ البتہ ان کی مختلف ضروریات کے مختلف ہارمونل یا سرجیکل طریقے موجود ہیں جو کچھ معاملات کو آسان کردیتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ہمارے معاشرے میں شدید امتیاز بھی برتا گیا اور ان کو زندگی کے بنیادی حقوق تک سے محروم رکھا گیا۔

Cis gender سس جینڈر :

یہ وہ افراد ہیں جو پیدائشی طور اور جسمانی طور پر مکمل مرد یا عورت پیدا ہوئے اور اپنی اس صنفی شناخت پر راضی ہیں ۔ ان میں میرے آپ جیسی اکثریت شامل ہے۔

ٹرانس جینڈر:

ایسے افراد ہیں جو پیدائشی طور پر، جسمانی اور ہارمونز کے اعتبار سے مکمل عورت یا مرد کی جنس کے ساتھ پیدا ہوئے۔ مگر بڑے ہوکر کسی نفسیاتی الجھن یا پیچیدگی ، معاشرتی دباؤ ، ٹرینڈ، ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر اپنی جنس سے ناخوش ہیں۔ اس ناخوشی کو gender dysphoria کہا جاتا ہے۔ یہ افراد اپنی مرضی سے اپنی صنف یا جنس تعین کرتے ہیں ۔۔

مرد ہوں تو عورت بن جاتے ہیں، عورت ہو تو مرد۔

کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں۔ کہ مرد یا عورت دونوں ہی کا فیصلہ نہیں کرتے ۔ یہ خود کو Non Binary کہتے ہیں ۔

ایسے افراد کی رائے ظاہر ہے کہ وقت، حالات اور نظریات کے اعتبار سے بدل بھی سکتی ہے۔ یہ افراد کبھی صرف مخالف صنف کا حلیہ اور افعال اختیار کرتے ہیں اور کبھی سرجری یا ہارمون کے ذریعے اپنے اندرونی و بیرونی اعضاء میں تبدیلی کرکے آتے ہیں۔

٭ ٹرانس جینڈر کا اسلام سے کیا مسئلہ ہے:

اسلام میں مرد عورت کے درمیان پردے اور اختلاط کے علاؤہ شادی بیاہ اور وراثت وغیرہ کے قوانین ہیں۔ سوچیے ایک مرد کل کو عورت بننا پسند کرتا ہے تو وہ عورتوں کے باتھ روم، ان کے سویمنگ پول ان کے جم وغیرہ میں جائے گا، اس کی شادی کس سے ہوگی؟ اگر وہ خود کو عورت قرار دے کر کسی مرد سے شادی کرتا ہے تو کیا یہ ہم جنس پرستی نہیں ہے؟ کیونکہ کسی سرجری یا ہارمونل تھیراپی سے اس کی حقیقی جنس تو تبدیل نہیں ہوگی صرف ہئیت میں تبدیلی واقع ہوگی۔

ایک اہم غلط فہمی کو سمجھیے :

دنیا میں ٹرانس جینڈر قوانین پیدائشی خواجہ سرا یعنی انٹر سیکس افراد کے تحفظ کے لیے نہیں بنائے گئے۔ وہ تو میڈیکلی اور فزیکلی اس طرح ہیں اور تعداد میں انتہائی کم ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں ان کے حوالےسے وہ مسائل نہیں جو ہمارے یہاں ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں ٹرانس جینڈر قوانین اختیاری طور پر اپنی صنف تبدیل کرنے والوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں اور یہ صرف صنفی انتخاب تک محدود نہیں بلکہ جنسی رحجانات تک پھیلتے ہیں ۔ اس لیے ٹرانس جینڈر کے ساتھ ہم جنس پرستی کو مکمل تحفظ عطا کیا جاتا ہے۔

آگے کیا ہونے والا ہے؟

آپ لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ صرف ایک پہلو ہے۔ اور بہت آگے جاتا ہے۔ ایک ٹرانس جینڈر عورت اصلا مرد ہونے کی وجہ سے بچے پیدا کرنے پر قادر نہیں اس وجہ سے وہ بچہ پیدا کرنے کے لیے egg کسی سے مانگ کے لیتا ہے اور سپرم اپنا دیتا ہے۔ اس جنین کو پروان چڑھانے کے لیے وہ کسی تیسری عورت کا یوٹرس ادھار لیتا ہے۔

اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں کا نسب، ان کی ماں اور باپ کا تعین زنا سے پیدا ہونے والے بچوں سے بھی گیا گذرا ہوگا۔

ان کا حقیقی باپ کون ہے؟ اصل ماں کون ہے؟ کوئی ہے بھی یا نہیں ؟ کیونکہ جس کا دعویٰ بہت سے کریں اس کا کوئی بھی نہیں ہوتا۔

ایسے واقعات بھی ہیں کہ دو مردوں کی شادی کے بعد بہن نسوانی خلیہ فراہم کرتی ہے اور ان کی ماں اس جنین کو اپنی کوکھ میں پالتی ہے۔ اس سے آپ اسفل سافلین کا اندازہ لگالیجیے کہ ابھی تو ابتدا ہے چند نسلیں اور گذر گئیں تو کیا کیا سامنے آئے گا۔

ابھی مغربی دنیا میں حال یہ ہے کہ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے سنگل پیرنٹ یا دونوں والدین سے محروم ہوتے ہیں ۔ سوچیے اس قسم کے عمل سے پیدا ہونے والے بچوں کی روحانی، نفسیاتی، جسمانی اور جذباتی اٹیچمنٹ کس قدر متاثر ہوگی۔

گویا یہ نسل انسانی کی تباہی کا منصوبہ ہے۔

اس معاملے کو آگے بڑھائیں ۔ مغرب یہاں تک رکا نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایسے گروپ اور افراد سامنے آرہے ہیں جو خود کو جانور کے طور پر شناخت کروانا چاہتے ہیں۔ ۔ان کو

Furries

کہا جاتا ہے۔ میں نے ایسے فیوریز اپنی آنکھوں سے تفریحی مقامات پر گھومتے دیکھے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی سیکسوئیل فینٹسیز بھی جانوروں کے ساتھ یا ان کی طرح جنسی تسکین حاصل کرنے سے وابستہ ہوتی ہے۔

پاکستان میں کیا ہوا؟

پاکستان میں مذاق یہ ہوا کہ رنگین جھنڈوں کے ساتھ چالاک لوگوں نے انٹر سیکس (خسرے) لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر اپنی حیوانی خواہشات کی تسکین کا انتظام کروایا۔ اور ٹرانس جینڈر لا 2018 میں تمام بڑی پارٹیوں نے نہ صرف اسی متنازع اصطلاح کے ساتھ عوام کو لاعلمی میں رکھ کر پاس کروالیا۔ بلکہ آپ ویڈیو میں خود سنیں تو آپ کو علم ہو کہ تحریک انسان کی وزیر شیریں مزاری صاحبہ واضح الفاظ میں کہہ رہی ہیں کہ

Gender -identity

ہر شخص کا اپنا حق ہونی چاہیے اور اس کے لیے کسی میڈیکل معائنہ کی شرط عائد نہیں کی جانے چاہیے۔ یہ بات وہ اس اعتراض کے جواب میں کہہ رہی ہیں کہ حقیقی یا پیدائشی خواجہ سراؤں کے لیے قانون بنائیں اور ان کو جنس کے انتخاب کا اختیار دینے سے قبل طبی معائنے سے یہ کنفرم کر لیں کہ وہ پیدائشی طور پر مبہم صنف کے ساتھ پیدا ہوئے بھی ہیں یا نہیں ۔ تاکہ دوسرے نفس پرست اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔

آپ لوگوں کو اندازہ نہیں لیکن میں نے مغرب میں کئی برس گذارے ہیں اور کئی برس سے ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کررہی ہوں۔ چائلڈ سایکائٹری میں ڈاکٹر کے پاس آنے ہر تیسرا بچہ اور بچی اپنی جنس تبدیل کروانا چاہتا ہے۔ کینیڈا جو کہ اس قانون کو پاس کرنے میں سب سے آگے ہے وہاں، امریکہ اور یورپی ممالک میں اسکولوں میں بچوں کی جینڈر چینج کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اور اگر والدین اس سے خوش نہ ہوں تو ان کو مطلع کرنا بھی ضروری خیال نہیں کیا جاتا۔ قانون،حکومت اور سارا معاشرہ ان کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ بچے تیسری چوتھی پانچویں جماعت کے ننھے بچے بھی ہوسکتے ہیں۔

آپ اندازہ لگائیے اگر یہ قانون انہی الفاظ کے ساتھ پاکستان میں قائم رہا تو کیا صورتحال ہوگی ؟ دوہزار اٹھارہ سے لے کر کل کی تاریخ تک پاکستان میں اس قانون کی مخالفت صرف جماعت اسلامی کے سنیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے کی ہے اور وہی تن تنہا ان خطرناک لوگوں کے طنزو استزہزا اور مخالفت کا سامنا کررہے ہیں۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ اس خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں، شش شش کرکے چپ کروائیں یا سیاسی تعصبات کی وجہ سے مصلحت سے کام لیں

یا اپنے لیڈران پر زور ڈالیں کہ وہ اس بل میں بنیادی نوعیت کی ترامیم کریں۔

ڈاکٹر جویریہ سعید