جنس محض احساس کا نام نہیں ہے

“جنس” محض احساس کا نام نہیں ہے

ایک پوسٹ نظر سے گزری جس کے مطابق جنس کا تعین محض ظاہری اعضاء سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق جسم کے اندر جاری ہونے والے ھارمونک سٹرکچر وغیرہ سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے احساسات سے ہے جو ظاہری علامات کے خلاف بھی ہوسکتے ہیں۔ لہذا ایک شخص اپنی جو بھی جنس چاہے متعین کرلے، پھر بعد میں اگر وہ جھوٹا ثابت ہو تو اسے پکڑا جائے۔

تبصرہ:

قابل مشاھدہ ویری ایبلز دو طرح کے ہوتے ہیں:

1) آبزروڈ (observed): جو براہ راست مشاہدے میں آتے ہیں جیسے کہ عمر (سالوں، مہینوں یا دنوں میں)، قد (انچ یا فٹ میں) و رنگت وغیرہ

2) لیٹنٹ (Latent یعنی مخفی یا پوشیدہ): وہ ویری ایبلز جو براہ راست مشاہدے میں نہیں آتے بلکہ ان کے کوئی انڈیکیٹرز ہوتے ہیں جو ان ویری ایبلز پر روشنی ڈالنے والے تو ہوتے ہیں مگر وہ متعلقہ ویری ایبل کی “تعریف” نہیں ہوتے۔ اس کی مثال کسی شخص کی ذھانت ہے۔ اب یہ ذھانت کیا ہے؟ ظاہر ہے اسے براہ راست ماپنا ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے مختلف قسم کے مظاہر کا تعین کیا گیا ہے جیسے کہ “آئی کیو ٹیسٹ” ہوتا ہے جس کا سکور ذھانت کا مظہر ہوتا۔ لیکن یہ صرف مظہر کا معاملہ ہے، بعینہ ذھانت نہیں ہے۔ اسی طرح بلوغت دانشمندی کا محض انڈیکیٹر ہے نہ کہ بعینہہ دانشمندی۔ یہی حال مثلا کرکٹ کے کسی کھلاڑی کی “بیٹنگ صلاحیت” کا ہوتا ہے جسے ہم اس کی رنز اوسط وغیرہ سے ماپتے ہیں۔ یہی حال کسی شخص کی “پیداواری صلاحیت” کا ہے اور یہی کسی طالب علم کی “تعلیمی قابلیت” کا جس کا تعین مثلا امتحان کے نمبروں سے کیا جاتا ہے۔ الغرض ان سب کو مظاہر سے پہچانا جاتا ہے اور اگر کوئی شخص اس کے مظہر کو قبول کئے یا معیار بنائے بغیر اجتماعی زندگی میں قانون سازی کی اپیل کرے تو اس کے اس دعوے کو قبول نہیں کیا جاتا۔ اصول فقہ میں قیاس کی بحث میں علت کے منضبط ہونے کے پس پشت ان معیارات کا گہرا اثر ہے اور اصولیین نے اس بحث کو بہت ریفائن کیا ہے۔

چنانچہ سوال یہ ہے کہ جنس ان دونوں میں سے کونسی قسم کا ویری ایبل ہے؟ اگر یہ براہ راست آبزروڈ ہے (چاہے آنکھ کے مشاہدے سے ہو یا کسی طبی رپورٹ سے) تو پھر اس بات کے کہنے کی قطعا کوئی بنیاد نہیں کہ “یہ ایک شخص کا بس احساس ہے”۔ میڈیکل کی بنیاد پر اس بات کا قوی کیس موجود ہے کہ یہ براہ راست آبزروڈ ویری ایبل ہے علی الرغم اس سے کہ اس کا تعین آنکھ کے مشاھدے سے ہوگا یا کسی میڈیکل رپورٹ سے۔ اس طریقے پر انسانی علم کی گہرائی یقینا اثر انداز ہوسکتی ہے لیکن اس معاملے کے “بارڈر لائن کیسز” کو بھلے سے جس قدر مرضی کھینچ لیجئے، بالاخر یہ فیصلہ فرد کا ذاتی احساس نہیں ہوگا بلکہ طبی معاملہ ہوگا۔

اگر یہ کوئی لیٹنٹ ویری ایبل ہے تب بھی قانون سازی کے لئے اس کا معیار بنانا ہی ہوگا، تمام ظاہری علامات کے خلاف “احساس” کے نام پر ایک شخص کو شاید یہی اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اس احساس کے ساتھ جنگل میں چلا جائے۔ اگر اسے انسانوں کے معاشرے میں رھنا ہے تو ہم اس کے اس احساس کا علاج کرائیں گے۔ کیا دنیا بھر کے تعلیمی ادارے اس بنیاد پر کسی طالب علم کو داخلہ دیتے ہیں کہ “اس کا یہ احساس ہے کہ وہ بہت ذھین و قابل ہے چاہے وہ فیل ہی ہو”؟ کیا کسی کرکٹ ٹیم میں اس بنیاد پر کھلاڑی کو شامل کیا جاتا ہے کہ اس کے خیال مین وہ بہت اچھا بیٹسمین ہے، چاہے ہر بار دو رنز بناتا ہو؟ غربت کی مثال لیجئے، اپنی اصل میں یہ “کسی چیز سے محرومی” کی کیفیت کا نام ہے، تاہم عام طور پر اس کی جانچ کے لئے “آمدن” کو معیار بنایا جاتا ہے (یا اسی جیسے چند دیگر مظاہر)۔ کیا کسی ملک نے آج تک کسی شہری کا یہ عذر قبول کیا ہے کہ “چونکہ اس کے خیال میں وہ غریب ہے، لہذا اسے ٹیکس سے چھوٹ دے کر سرکاری خزانے سے (مثلا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام) سے عطیات دئیے جائیں”؟ یقین مانئے کہ اگر کوئی شخص ھسپتال جا کر محض یہ دعوی کرنے لگے کہ “میرا احساس ہے کہ میں بیمار ہوں اور صحت تو محض ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے” تو ھسپتال والے بھی اس دلیل کی بنیاد پر اسے داخل نہیں کرتے یہاں تک کہ خرابی صحت کے کچھ انڈیکیٹرز ظاہر ہوں اور اگر وہ زیادہ اصرار کرے تو اسے ماہر نفسیات کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔ آخر دنیا کا کونسا نظام ہے جہاں پبلک لائف سے متعلق قانون کو محض کسی شخص کے دعوے و کیفیت پر چھوڑ دیا جاتا ہو؟ اگر ایسا کہیں نہیں ہورہا تو کیا اھل دین ہی رہ گئے ہیں ایسی باتوں کے ذریعے بیوقوف بنائے جانے کے لئے؟

پس اگر کسی کا اصرار ہو کہ جنس کوئی لیٹنٹ ویری ایبل ہے تب بھی صدیوں پر محیط انسانی معاشروں کا تجربہ بتاتا ہے کہ جن ظاہری اعضاء کو جنس کے لئے بنیاد بنایا جاتا رہا ہے، نناوے اعشاریہ اٹھانوے فیصد سے زائد مرتبہ وہی درست ہوتے ہیں۔ پس اگر کسی کو ان پیمانوں کے خلاف جاتے ہوئے کوئی بات ثابت کرنا ہے تو اس کی ذمہ داری اس شخص پر ہے نہ کہ معاشرے پر کہ پہلے وہ اسے غلط انتخاب کرکے معاشرے میں فساد برپا کرنے کا حق دے اور پھر معاشرہ اسے غلط ثابت کرتا رہے۔ جس نظام زندگی میں حقوق و ذمہ داریوں جیسے اہم احکام کا جنس کے ساتھ تعلق ہو، وہ ایسی باتوں سے متاثر نہیں ہوا کرتا۔

ڈاکٹر زاہد مغل، پروفیسر سوشل سائنس، نسٹ یونیورسٹی، اسلام آباد