ہمارا میڈیکل کیوں ہو کیا آپ کا میڈیکل ٹسٹ ہوا تھا؟ اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ میڈیکل ٹسٹ کی بات ہم وہاں کرتے ہیں جہاں جنس/صنف کی تبدیلی کی بات ہوتی ہے۔ اس لیے اگر آپ اسی صنف کو تسلیم کریں جو آپ کی جسمانی جنس کی بنیاد پر آپ کو پہلے ہی سے حاصل ہے، تو کسی میڈیکل ٹسٹ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ کو غلط جنس دی گئی ہے، تو آپ کا جسمانی ٹسٹ ضروری ہوجاتا ہے، اور اگر آپ کا یہ کہنا ہے کہ آپ کی جسمانی جنس جو بھی ہو، آپ کی صنف آپ کی مرضی کی ہوگی (اور یہی بات اس قانون میں کہی گئی ہے) تو اسے نہ شریعت مانتی ہے، نہ ہمارا آئین۔ البتہ ہم اس صورت میں آپ کے نفسیاتی علاج کا حق مانتے ہیں۔
ڈاکٹر معیز ہو یا دیگر ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ، ان سب کو تکلیف میڈیکل چیک اپ کی شرط عائد کرنے سے ہے۔ حالانکہ یہ نہایت فطری بات ہے کہ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میری جنس وہ نہیں جو بظاہر لگ رہی ہے تو ظاہر ہے اس کا میڈیکل چیک اپ ہونا چاہیے تاکہ یہ مسئلہ کلیئر ہو۔ یہ دلیل ہی نہایت بودی اور کمزور ہے کہ ڈاکٹر کے سامنے بے پردگی ہوگی۔ کیا ہم علاج کرانے انہی ڈاکٹرز کے پاس نہیں جاتے؟ خدانخواستہ کسی کو ران پر پھوڑا نکلے یا جانگھ پر کوئی پھنسی ، ریش ، زخم ہوجائے تو ڈاکٹر کو نہیں دکھائیں گے؟ تب بے پردگی نہیں ہوگی؟ٹرانس جینڈر کے میڈیکل چیک اپ کے لئے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ ایک مرد اور ایک خاتون ڈاکٹر ہو، تاکہ کسی قسم کا مسئلہ نہ پیدا ہو اور وہ کمفرٹیبل بھی رہے۔
*ہمارا میڈیکل ٹیسٹ کیوں نہیں؟
نہایت معصومیت سے ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ نے یہ ٹیسٹ کرایا تھا؟ اگر آپ نہیں کراتے تو ہم کیوں ؟ یہ ایک اور مغالطہ اور دھوکہ آمیز نکتہ ہے۔انہیں جواب دینا چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک کا میڈیکل چیک اپ اور ٹیسٹ ہوا تھا۔ شناختی کارڈ بنوانے سے پہلے ب فارم بنانا پڑتا ہے اور ب فارم میں اندراج سے پہلے برتھ سرٹیفکیٹ بنوانا لازمی ہے اور برتھ سرٹیفکیٹ ہمیشہ ڈاکٹر بچے کے چیک اپ کے بعد ہی بناتا ہے اور اس کی جنس واضح کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر اس برتھ سرٹیفکیٹ سے انحراف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک معاملہ ویسا نہیں تو پھر ٹھیک ہے ، ایک نیا میڈیکل چیک اپ ہوجائے ، اس کی بنیاد پر ان کی جنس /صنف طے ہوجائے گی۔
اپنی مرضی سے سیکس، جینڈر کو الگ کرنے کا مقصد ہی یہی دھوکا ہے کہ یہ تو خیالی تصور ہے جی ، اسے کس طرح جانچا جائے؟ جبکہ جنس(Sex) اور صنف (Gender)ایک ہی ہے۔ آپ مرد ہیں یا عورت یا پھر درمیانی شکل ، انٹر سیکس یعنی خنثیٰ جسے عام اصطلاح میں خواجہ سرا یا ہیجڑا کہہ دیتے ہیں۔ مرد ہوکے عورت دکھنا، یا عورت ہوکے خود کو مرد کہلوانا محض مکرو فریب اور دھوکہ دہی ہے ۔ جو ایک پرسنٹ لوگوں میں ماحول کیوجہ سے مخالف جنس کی عادات، صفات در آتی ہیں انکا نفسیاتی علاج ممکن ہے، اسکے بجائے سارے قانون فطرت کو بدل دینا محض شیطا نیت اور حوص پرستوں کے لیے آسانی کرنا ہے ۔
ٹرانس جینڈر کی اصطلاح 1980 کی دہائی میں تخلیق کی گئی جبکہ خواجہ سرا کئی صدیوں سے ہیں اور ان میں انٹر سیکس کے علاوہ ایسے لوگ بھی رہے ہیں جو کسی نفسیاتی یا سماجی وجہ سے عورت یا مرد کے صنفی اظہار میں مخصوص نہیں رہتے اور دونوں اظہار اختیار کرتے ہیں ۔ اس روایت پر بحث ہوسکتی ہے مگر یہ تصور کہ محض بندے کے کہنے پر میل سیکس کے بندے پر معاشرہ عورت مان لے یا عورت کو مرد مان لے مکروفریب اور شیطانیت ہے۔
ڈاکٹر مشتاق، رضوان اسد خان، احمد الیاس