ہر روز قران کی وہ آیت ذہن میں آتی ہے جس میں ابلیس اللہ کو چیلنج کرتا ہے کہ میں انہیں ورغلاؤں گا اور یہ تیری فطرت میں تبدیلی کریں گے. یہ ’’فطرت‘‘ اتنی اہم کیوں ہے اور اس میں تبدیلی کو شیطان نے اپنی زندگی کا مشن کیوں بنایا؟ فطرت دراصل ہماری انسانیت کی بنیاد ہے. اسے اللہ نے خود اپنی فطرت پر تشکیل دیا ہے. یعنی اپنی صفات کا ہلکا ہلکا پرتو ہمارے اندر رکھ دیا ہے. یہ ہمارا اوریجنل ڈی این اے ہے جس سے ہمارے بابا آدم علیہ السلام کو متصف کیا گیا. یہ وہ خدائی الہام ہے جو ہم میں سے ہر ایک کے اند بائے ڈیفالٹ انسٹال ہو کر آتا ہے جس سے ہم فجور اور تقوی میں تمیز کرتے ہیں. یہ ہماری فیکٹری سیٹنگز ہیں. یہ ہمیں کسی سے پوچھے اور کسی کے بتائے بغیر یہ بتاتی ہیں کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا؛ یعنی اچھائی اور برائی کا وہ معیار جو خود ہمارے خالق کی فطرت کے مطابق ہے.
یہی وجہ ہے کہ اگر اس معیار کو، اس پروگرام کو، اس آپریٹنگ سسٹم کو یا ان ڈیفالٹ فیکٹری سیٹنگز کو ہی تبدیل کر دیا جائے تو ابلیس کو بعد میں کچھ خاص محنت نہیں کرنی پڑے گی، انسان خود بخود اس کی راہ پر چل پڑے گا اور سب سے اہم بات یہ کہ اسے احساس بھی نہیں ہو گا کہ وہ تباہی کے راستے پر چل رہا ہے. وہ ’’صم، بکم، عمی‘‘ اور ’’ختم اللہ علی قلوبہم‘‘ کی عملی، چلتی پھرتی تصویر بن جائے گا. اور پھر یہی نہیں، وہ اس مسخ شدہ فطرت کا پرچار کرے گا اور لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرے گا اور پھر ان سے زبردستی منوانے کے لیے ان سے لڑنے تک کو تیار ہو جائے گا.
آپ اردگرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں، کل تک نفرت کی حد تک باطل سمجھے جانے والے فلسفے اور نظریات آج قبول عام پا رہے ہیں. ابھی ہم جنس پرستی سے جان نہ چھوٹی تھی کہ شیطان کے پجاریوں نے خونی رشتوں اور کم سن بچوں سے جنسی عمل کے جواز کی راہیں تلاش کرنا شروع کر دی ہیں. اور ان سب کی بنیاد میں لبرل ازم کا شیطانی فلسفہ ہے کہ جب دو لوگ کسی عمل پہ باہمی طور پر رضامند ہوں تو تیسرے کو اعتراض کا کوئی حق نہیں پہنچتا.
اس کتاب کا اصل نام تھا، ’’Pedophilia and Adult-Child Sex: A Philosophical DEFENSE‘‘ وہ تو پبلشر نے کچھ عقل کو ہاتھ مارا اور “ڈیفنس” کی جگہ “انیلسز” لکھوایا: ’’Pedophilia and Adult-Child Sex: A Philosophical Analysis‘‘ یورپ کے قدامت پسند (محض مذہبی نہیں) طبقے بھی اس کے خلاف خوب بول رہے ہیں، جیسا کہ ہم جنس پرستی کے خلاف شروع شروع میں بولتے تھے. یہ فطرت کی آواز ہے. دیکھنا یہ ہے کہ ابلیس اور اس کے گماشتوں کو اسے دبانے میں کتنا وقت لگتا ہے؛ اپنے خدا، دجال کی آمد سے پہلے کامیاب ہوتے ہیں یا اس کے بعد؟
تفصیلی خبر لنک میں
ڈاکٹر رضوان اسد خان