انسان کے اندر جو شہوانی تحریک اور اُبال رکھا گیاہے اگرچہ یہ ایک خالص حیوانی جذبہ ہے لیکن یہ جذبہ بھی اللہ نے کسی خاص مقصد کے لئے رکھا ہے اور انبیاءکی شرائع کے ذریعے سے ہمیں بتادیا گیا کہ انسانی جسم و ذہن میں پیدا ہونے والے اس شہوانی زورکو انسانی تمدن کی تعمیر میں کس طرح سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ نہ صرف اسلام بلکہ تمام معروف انسانی معاشرے ایسے کسی جنسی استفادے پر پابندی لگاتے ہیں جس میں کوئی فرد جنسی لذت تو حاصل کرنے کا طلبگار ہو لیکن اس سے متعلقہ سماجی کردار اور ذمہ داری پوری کرنے پر آمادہ نہ ہو۔
اس کے مقابلہ میں مغربی تہذیب جو کہ معاشرے کی ہر روایت کے مقابلے میں نئے نظریات پیش کرتی ہے نے شہوانی لذت کو معاشرتی ذمہ داریوں سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ ویسے تو یہ کمزور اور جلد باز انسان ایسے موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ جس میں لذتیں تو بے انتہا ہوں لیکن قیمت کوئی دینی نہ پڑے۔ لیکن اگر اس لذت پرستی کو نظریاتی اور فکری سہارا بھی دے دیا جائے تو پھر اس کے کیا کہنے۔ اس لذت پرستی کو جواز دینے والی فکر کے نتیجے میں بہت سارے انسانی اجتماعی مسائل پیدا ہوئے جس کو کسی حد تک مغرب نے اپنے سیاسی زور و قوت سے قابو میں کیا ہوا ہے۔لیکن جیسے ہی ان کی سیاسی قوت کمزور پڑ جائے گئی ان کا معاشرہ اور بھی افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔
اس وقت اسلام بمقابلہ مغرب کے عنوان سے کوئی نیا اضافہ کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس وقت ہم مغربی تہذیب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایک اہم مسئلے پر گفتگو کریں گے۔ غیر فطری جنسی رجحان جس کے بارے میں ہمارا اردو دان طبقہ بہت ہی کم واقف ہے اور چونکہ مغرب کا یہ پہلو مسلم برصغیر کے معاشرے پر ابھی زیادہ اثر انداز نہیں ہوا ہے اس لئے اس پر توجہ بھی کم ہی دی گئی۔اس موضوع پر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جو خطرہ اس وقت ہمارے سر پر کھڑا ہے اسکا ہمیں صحیح اور بروقت ادراک ہوجائے۔ ذرائع ابلاغ کے ہوتے ہوئے سمندر پار کی کسی فکر یا رجحان کو ہمارے معاشرے میں سرایت کرتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اردو میں اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے ۔ بلکہ اگر کچھ لکھا بھی گیا ہے تو صرف ہم جنسی کی حرمت قرآن و سنت سے ثابت کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ یہاں پر ہم مغرب کی غیر فطری جنسیت کا تعارف کرائیں گے اور مغرب کی طرف سے اسکے جواز میں جو دلائل دیے گئے ہیں ان کے ممکنہ رد پر بحث کریں گے۔
ہمارے دین دار مسلمان طبقے کو دو وجوہات کی بنا پر اس موضوع پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگرچہ ہم اس بات میں خوشی محسوس کرنے میں حق بجانب ہیں کہ مغرب کی مادر پدر جنسی آزادی کے نتیجے میں انکا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کے قریب ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہو کہ انکے معاشرے کو اس رخ پر ڈالنے والے عوام نہیں بلکہ مفکرین تھے جنہوں نے مسیحیت سے بغاوت کے نتیجے میں اپنے آپ اور اپنے معاشرے کو ہرقسم کے نقش کہن سے آزاد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ذریت آدم پر خصوصی شفقت ہمارا خاصہ ہو نا چاہیے اور اتنی کثیر تعداد میں نسل انسانی کی فطرت کا مسخ ہونا ہمارے لئے درحقیقت خوشی کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ ہماری ذمہ داری پوری انسانیت ہے اور اس موضوع کو یورپ اور امریکہ کا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کردینا ایک مناسب طرز فکر نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ انسان اپنی فطرت میں متجسس، ایجاد پسند اور مہم جو واقع ہوا ہے۔اور اس معاملے میں مغرب اور مشرق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دوسری طرف میڈیا کی موجودگی میں مغرب اور مشرق کے فاصلے بہت گھٹ گئے ہیں۔ دنیا کے کسی کونے میں ہونے والے واقعے سے ہمارا معاشرہ کسی نہ کسی طور پر مربوط ہے ۔ اس لئے اگر ہمیں اپنی نسلوں کو اس غیرفطری جنسیت کی وبا سے بچانا ہے تو دوسرے اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی نظریاتی فصیلیں بھی اُٹھانا ہوں گی۔ موضوع کی کراہت اس موضوع سے گریز کرنیکا جواز نہیں ہونا چاہیے۔ مغرب سے اس موضوع پر فکری مواد کی درآمد پر کوئی پابندی بہرحال ممکن نہیں ہے اسلئے اہل علم طبقوں کی طرف سے متبادل مواد فراہم ہونا ناگزیر ہے۔واضح ہو کہ امریکہ و یورپ میں اب ایسے مسلمان بھی پائے جاتے ہیں جنکا دعوی یہ ہے کہ وہ ہم جنس مسلمان(Gay Muslim) ہیں بلکہGay Muslim کی باقاعدہ تنظیم تک بن چکی ہے اور انہوں نے اپنا ویب سائٹ بھی بنایا ہوا ہے ۔ تو اگر ہمیں اپنی نسلوں کو خراب ہونے سے بچانا ہے تو اسکی تیاری ابھی سے کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اس بارے میں سب سے پہلے ہمارے لئے مغرب میں موجود غیر فطری جنسی رجحانات کی واقفیت ضروری ہے۔ آگے اس کا ایک مختصر تعارف دیا جارہا ہے۔ واضح ہو کہ اردو زبان ابھی مغرب کے اس منہ زور طوفان میں بہت پیچھے ہے اس لئے اکثر اصطلاحات کا اردو متبادل بہ طور تجویز ہی دیے گئے ہیں۔
اس سے پہلے کہ موجودہ دور کے غیر فطری رجحانات کی تفصیل میں جایا جائے، اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ آج کے دور میں”جنسیت” کے کیا معنی لئے جاتے ہیں!۔ یوں سمجھیں کہ جس طرح سے پیدائش سے پہلے ایک بچے کے بارے میں ہم اس تجسس میں ہوتے ہیں کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی، کچھ اسی طرح سے مغرب کے جدید معاشرے میں نوعمر “Teenage” لڑکا یا لڑکی اپنے بارے میں اس اُلجھن میں ہوتے ہیں کہ اسکی جنسیت “Sexuality” کیا ہے! آیا وہ “Straight” ہے، “homosexual” ہے “Bisexual” ہے یا کچھ اور ہے۔اور ان اقسام میں ہونا تقریباً ایسا ہی سمجھا جانے لگا ہے جیسے کسی کا لڑکا یا لڑکی ہونا۔ جس طرح کچھ والدین اولاد کی پیدائش سے پہلے بچے کی جنس کے بارے میں تجسس کی سی ایک کیفیت سے گذرتے ہیں اسی طرح ایک نوعمر بھی کچھ اسی طرح ایک نفسیاتی الجھن سے گذرتا ہے۔ بلکہ کچھ نوعمر اپنے ذہنی اور جذباتی کیفیات کو بیان کر کے انٹرنیٹ پر اپنی جنسیت کی شناخت کے لئے سوالات پوچھتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ اگر انٹرنیٹ پر سوالات پوچھنے والے اگر اس طرح سے پائے جاتے ہیں تو کتنے ایسے ہونگے جو سچ مچ ایسی الجھن میں ہیں اور وہ براہ راست یا انٹرنیٹ پر کسی کو نہیں پوچھ رہے ہوں۔ یہ تفصیل اس لئے بیان ہوئی کہ ہمارے قارئین یہ سمجھ سکیں کہ جنسیت “Sexuality” کی شناخت یا اس کو سمجھنا آج کی فکر کے اعتبار سے کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ آج کے عالمی پیمانے پر رائج تہذیب میں ہم جنسی صرف ایک عمل نہیں بلکہ باقاعدہ ایک صنف یا جنس ہے۔ اس لئے صرف فقہی اعتبار سے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ یہ ایک حرام عمل ہے۔ بلکہ ہمیں ایسے ذہن کا نفسیاتی تجزیہ کرکے پھر اس سے متعلق مزید کچھ فقہی احکام یا باقاعدہ ایک نظریاتی مؤقف اختیار کرنا پڑے گا۔ آج مغرب میں ہم جنسی کو ایک نظرئیے کے طور پر فروغ دیا جارہا ہے ۔ دعوی یہ ہے کہ جس طرح مرد اور عورت کے درمیان جنسی کشش ہوتی ہے بالکل اسی طرح مرد اور مرد اور عورت اور عورت کے درمیان جنسی کشش کا ہونا بھی عین فطرت ہے۔ ایسے دعوے کے لئے ان کے پاس انکی اپنی دلیلیں بھی وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ بلکہ جنسیت کی اقسام کو فطری جنسی میلانات قرار دے کر اس کے پیمانے تک مقرر کئے گئے ہیں۔ جنسی میلان(sexual orientation) کے پیمانے کو اس کے موجد کے نام پر کنزی سکیل (Kinsey scale) کہا جاتا ہے۔ الفریڈ کنزی (Alfred Kinsey) نے جنسی میلان کے لئے صفرسے لے کر چھ تک کا ایک پیمانہ مقرر کیا ہے۔ یہاں پر اگر کسی کے نمبر چھ ہوں تو وہ مکمل طور پر ہم جنس ہے اور اگر صفر ہوں تو وہ مکمل طور پر straight ہے، یعنی عام انسانوں کی طرح جنس مخالف میں کشش محسوس کرتا ہے۔
اب ذرا تفصیل سے ان جنسی میلانات کی سلسلہ بندی پر غور کرتے ہیں
1۔ straight یا Heterosexual
”سیدھا” یعنی ایسافرد جو صنف مخالف کے ساتھ جذباتی لگاؤ اور جنسی کشش محسوس کرتا ہو۔ مشرقی تہذیبوں میں چونکہ یہ ایک فطری اور عام میلان ہے اس لئے کوشش کے باوجود اردو میں اس کا کوئی متبادل لفظ نہیں ملا۔کنزی سکیل میں ایسے فرد کا سکور صفر ہے۔ چونکہ اسلامی طور پر یہ ایک طبعی اور قابل قبول رجحان ہے اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
2۔ ہم جنس (homosexual)
یعنی ایسا فرد جواپنی ہی صنف یا جنس میں جذباتی یا جسمانی کشش محسوس کرتا ہو۔ اس نوع میں مرد بھی ہوسکتے ہیں اور عورت بھی۔کنزی سکیل پر ایسے فرد کا سکور سب سے زیادہ یعنی چھ ہوتا ہے۔ دنیا میں تقریباً ہر ملک اور تہذیب میں پابندیوں کے باوجود ہم جنسی کا رجحان کسی نہ کسی درجے میں پایا جاتا رہا ہے۔ لیکن آج کی دنیا میں ہم جنسی کے نام سے جو چیز پائی جاتی ہے وہ اس ہم جنسی سے قطعاً مختلف ہے جس سے عام طور سے مشرقی ممالک کے افراد واقف ہیں۔جس چیز سے ہم واقف ہیں اسے اغلام بازی بھی کہتے ہیں۔ ایک عام مشرقی باشندے کے نزدیک ہم جنس یا اغلام باز ایک زیادہ عمر کا شخص ہوتا ہے جو امرد، نازک یانسوانی (Feminine) قسم کی شکل صورت کے لڑکے میں کشش محسوس کرتا ہے اور اس سے جنسی حظ حاصل کرتا ہے جس میں بدفعلی (anal sex)بھی شامل ہے۔مگر آج کی دنیا میں ہم جنسی کے نام سے جو چیز پائی جاتی ہے وہ اس سے قطعاً مختلف ہے۔ اس میں ایک فرد جس کی عمر کچھ بھی ہوسکتی ہے.( 2005 میں جب برطانیہ میں ہم جنس شادیوں کی اجازت دی گئی تو ایلٹن جان(Elton John) جو برطانیہ کا مشہور گویا ہے نے 58 سال کی عمر میں اپنے “ساتھی” مسٹر فرنش(Mr. Furnish) سے شادی رچائی جس کی عمر اس وقت 43 سال تھی۔یہ شادی بڑے دھوم دھام سے ہوئی کئی بین الاقوامی فلم ایکٹروں نے شادی پارٹی میں حاضری دے کر “نو بیاہتاجوڑے ” کو مبارک باد بھی دی۔) اپنے ہی ہم جنسوں میں کشش محسوس کرتا ہے اور اس کے ساتھ بالکل دوستوں کی طرح رہتا ہے۔ یہ صرف جسمانی کشش ہی نہیں ہوتی بلکہ اس میں جذباتی لگاؤ بھی پایا جاتا ہے، بلکہ محدود پیمانے پر محبت اور وفا کی داستانیں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ جنس مخالف میں کسی قسم کا جنسی لگاؤ محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ جنس مخالف سے جنسی تعلق کے بارے میں ان کا احساس بالکل ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ایک عام فرد کا ہم جنسی کے بارے میں۔ان کی اس جنسیت میں دبر سے دخول بھی شامل ہوسکتا ہے لیکن یہ موجودہ دور کی ہم جنسیت کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ ہم جنس مردوں کے لئے انگریزی میں ایک اور لفظ بھی پایا جاتا ہے جسے “گے” (Gay)کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ لفظ ہم جنس عورتوں کے لئے بھی مستعمل ہے لیکن عام طور پر اس سے مرد مراد لئے جاتے ہیں۔عورتوں کے لئے ایک مخصوص لفظ اور ہے۔کچھ اسی قسم کی ہم جنسیت عورتوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ایسی عورتوں کو لزبین (Lesbian) کہا جاتا ہے۔ یہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں دوسری عورتوں سے جسمانی و ذہنی قربت کی خواہاں ہوتی ہیں۔ ان کے لئے بھی کنزی سکیل میں چھ کا سکور ہوتا ہے۔ہم جنس رفقاءمیں فاعل اور مفعول کا بھی رول ہوتا ہے ۔ کچھ ہم جنس اپنے آپ کو فاعل اور کچھ مفعول کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک دھندلا تصور ہے اور اپنے غیر فطری بنیاد کی وجہ سے اس کی واضح تشریح نہیں ہوسکتی۔
3۔دو جنسی(Bisexual)
ایک اور قسم ہوتی ہے جس کودو جنسی یا بائی سیکشول(Bisexual) کہا جاتا ہے۔Bisexuality کے درجات مختلف ہوتے ہیں ۔ یہ درجات کنزی سکیل میں ایک سے لے کر پانچ ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی عمومی طور پرجنس مخالف میں ہی کشش محسوس کرتا ہو لیکن اگر اس میں تھوڑا سا ہم جنسیت کا رجحان ہو تو اس کا سکور کنزی سکیل میں ایک ہو گا۔ اور اگر کوئی تقریباً پوری طرح ہم جنس ہو لیکن تھوڑی سے کشش جنس مخالف میں بھی محسوس کرتا ہو تو اس کا سکور کنزی سکیل پر پانچ ہوگا۔ اگر کوئی مرد اور عورت میں یکساں طور پر کشش محسوس کرتا ہو تو اسکا سکورکنزی سکیل پر تین ہوگا۔
4۔غیر جنسی:
ایک قسم اور بیان کی جاتی ہے جس کی تشریح کنزی سکیل میں نہیں ہوسکتی۔ یہ ہے “غیرجنسی” (Asexual)۔ ایسا فرد نہ مرد اور نہ عورت میں کشش محسوس کرتا ہے۔ اس کے لئے کنزی سکیل میں کوئی نمبر کے بجائے X۔ سکور دیا گیا ہے۔
5۔بائی کیوریس“Biscurios” ۔
ایسا فرد جو ہے تو عام فرد جو جنس مخالف میں ہی کشش محسوس کرتا ہے لیکن وہ ہم جنسیت کے بارے میں متجسس ہے یا ہم جنسی سے متعلق کوئی تجربہ کرنے پر آمادہ ہو۔یوں لگتا ہے کہ یہ لفظ بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ اگر کوئی ہم جنس نہیں بھی ہے تو اسے دھیرے دھیرے ہم جنسی کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انسان کی طبیعت ویسے تومتجسس ہوتی ہے اور پھر ہم جنسی کے بکثرت مظاہر سے تجسس کا پیدا ہونا ایک عام بات ہے۔لیکن اس کے لئے الگ سے نام تجویز کرنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس تجسس کو غیرمحسوس انداز میں بھڑکا کرہم جنسی کی طرف متوجہ کیا جائے۔
6۔ ٹرانسیکشول(Transexual):
ایسا فرد جو اپنی جنسی شناخت سے غیر مطمئن ہو۔ یعنی ایک فرد ہے تو جسمانی اعتبار سے ایک مکمل مرد ہے لیکن ذہنی طور پر اپنے آپ کو مرد کے بجائے عورت محسوس کر رہا ہو۔ جس طرح جسم مردانہ اورنسوانی ہوتا ہے اسی طرح انسانی ذہن بھی نسوانی اور مردانہ ہوتا ہے۔جو شخص یہ محسوس کرتا ہو کہ اس کا جسمانی صنف اس کی ذہنی شناخت کے مخالف ہو اس کو Transexual کہا جاتا ہے۔ میڈیکل سائنس میں عام طور پر اس کی وجہ ہارمون کی بد نظمی (Hormone disorder) قرار دیا جاتا ہے اور ہارمون انجیکٹ کر کے اس کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔لیکن کبھی کبھی اس کو پیدائشی نقص بھی گردانا جاتا ہے۔ بعض افراد اس مسئلہ کی وجہ سے ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تبدیلیٔ جنس کا آپریشن بھی کرا لیتے ہیں۔اس سے کمتر درجے کا ایک نقص ہوتا ہے جسے Cross dressing” کہتے ہیں۔ اس میں ایک فرد صنف مخالف کا لباس پہن کرایک قسم کی تسکین اور آسودگی محسوس تاہے۔ اگرچہ وہ اپنی جنسی شناخت تبدیل کرنے کا خواہاں نہیں ہوتا۔پہلے جنسیت کی جو بھی اقسام بیان ہوئی اس کے بالمقابل یہاں بیان کی گئی قسم کو غیر طبعی اور استثنائی سمجھا جاتا ہے اور اس کے علاج کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اگر علاج نہیں ہو پارہا ہو تو تبدیلیِ جنس کا آپریشن بھی کیا جاتا ہے۔
اوپر دی گئی تفصیل میں جن جن جنسی میلانات کو بیان کیا گیا ہے ان کو مغرب میں قابل قبول اور قانونی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی جنسی میلانات ہیں جن کے بارے میں انہیں تسلیم ہے کہ یہ غیر فطری ہیں اوران کی وجہ نفسیاتی مرض ہے۔
7۔ پیڈوفیلیا (pedophilia):
، یعنی کم عمر بچوں سے جنسی حظ اُٹھانے کا میلان ۔ اس کو ایک ذہنی مرض تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس مرض سے جو فرد متأثر ہوتا ہے وہ کسی بالغ شخص سے جنسی تعلق قائم کرتے ہوئے ناپسندیدگی اور کراہت محسوس کرتا ہے بالکل ایسے ہی جسے ایک عام فرد بچوں سے جنسی انداز کی قربت کے بارے میں محسوس کرسکتا ہے۔ مغربی ممالک میں یہ ایک کریہہ اور غیرقانونی عمل اور میلان سمجھا جاتا ہے اور اس کے قوانین بھی سخت ہوتے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ کے ذریعے Pedophiliaسے متعلق فحش نگاری (Pornography) پھیلانے کے واقعات بہ کثرت منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ سخت قسم کی پابندیوں اور آئے دن ہونے والے کریک ڈاؤن کے باوجود Child sex industry بین الاقوامی مارکٹ میں ایک اہم تجارت ہے۔(ابھی اس کے جواز کے بحثیں بھی مغربی معاشرے میں شروع ہوچکی ہے، تفصیل کے لیے ہمارے پیج پر تحریر ملاحظہ فرمائیے۔ )
برمحل ہوگا کہ یہاں ایک اہم بات قارئین کی نذرکریں۔اسلام کے واضح ترین پیغام سے پریشان مغربی اور عیسائی دنیا اسلامی الہیات سے بحث سے گریز کرتے ہوئے اپنے جدید اخلاقیاتی معیارات جس کی تفصیل اس مضمون میں کچھ واضح ہوجائے گی کو بنیاد بنا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرنے کے مواقع تلاش کرتی رہتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کم عمری میں نکاح کو لے کر آپ ﷺ پر نعوذ باللہ پیڈوفیلیا کا الزام لگایا جاتا ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ”نکاح“ تھا اور معاشرتی نظم اور اصولوں کے تحت کیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے جو نکاح کئے تھے ان کی حکمت میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور یہاں پر مزید اس پر لکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں پر صرف یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ پیڈوفیلیا ایک نفسیاتی مرض ہے اور اس مرض کا شکار ایک عام شادی شدہ زندگی نہیں گذار سکتا بلکہ بالغ عورت کے ساتھ ازدواجی تعلقات رکھنا بھی اس کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ اس کی توجہ کم عمر بچوں کی طرف ہی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ انسانی تاریخ میں کم عمری میں شادی کرنا کبھی عیب نہیں کردانا گیا اور نہ ہی اس سے کوئی معاشرتی مسئلے پیدا ہوئے۔ کم عمری کی شادی اور پیڈوفیلیا دو قطعی علیحدہ موضوعات ہیں اور اس سے مغرب کے دانشور اچھی طرح سے واقف ہیں۔ یہ نبی ﷺ کے دشمن اور حق کو عاجز کرنے کے لئے سرگرداں دشمنوں کی ذہنی خباثت کا بین ثبوت ہے۔
8۔ زوفیلیا(zoophilia):
اس سے مراد جانوروں سے جنسی حظ اٹھانے کا میلان۔ اس میں اذیت پسندی (Sadism )بھی شامل ہوسکتی ہے۔یعنی جانوروں سے جنسی حظ اٹھاتے ہوئے ان کو تکلیف دے کر مزا حاصل کرنا۔ اگرچہ اس کو عمومی طور پر نفسیاتی مرض(Psychological disorder) قرار دیاجاتا ہے لیکن بہت سارے ممالک میں یہ غیر قانونی نہیں ہے۔
یہاں پر موضوع کے تقاضے کے تحت بہت ہی مختصر انداز میں کچھ تحریر کیا گیا ہے۔ ورنہ جنسیت خود ہی ایک اچھی خاصی سائنس بن چکی ہے۔اوپر دیے گئے جنسی میلانات کے علاوہ کچھ اور بھی میلانات کا بظاہر دعوی کیا جاتا ہے لیکن ان کی کوئی واضح تشریح نہیں کی جاسکتی، جیسے ،transgender ،کثیرجنسیت (polysexuality)، ہمہ جنسیتpansexuality, و shemale وغیرہ۔
مجموعی طور پر جدید نظریات جنسیت کو الگ الگ discrete اقسام میں واضح تقسیم کرنے کے بجائے ایک مسلسل (continuous) پیمانے کے طور پر لیتے ہیں۔یعنی جس طرح عام طور پر کسی بالغ فرد کا قد ساڑھے چار فٹ سے لے کر ساڑھے چھ فٹ تک کچھ بھی ہوسکتا ہے اسی طرح کنزی کے پیمانے میں کسی کی جنسیت صفر سے لے کر کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ صفر، ایک ، دو یا چھ ہی ہو، بلکہ ایک اعشاریہ 2 یا تین اس طرح کوئی بھی عدد ہوسکتا ہے۔ اس میں مزید یہ بھی دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ عدد کوئی طے شدہ بھی نہیں ہے۔ اس کو ایک متحرک (Dynamic) خصوصیت قرار دیا جاتا ہے جو کسی وجہ سے تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔ جنسیت کے غیر متعین ہونے کے تصور کی اس حد تک تشہیر کی گئی ہے کہ ایک بڑی تعداد کسی اور نظریے کو قطعاً قابل اعتناءنہیں سمجھتی۔ صورت حال یہ ہے کہ ہم جنسی کی مخالفت کرنااب ایک ایسی سماجی برائی کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے جیسے یہ بھی کسی طرح کی نسل پرستی ہے۔ یہاں تک کہ اس “سماجی برائی” کے لئے کافی عرصے سے ایک نام تک تجویز کیا جاچکا ہے۔ اب جو کوئی ہم جنسی کی مخالفت کرے یا اسے غیر فطری قراردے اس پر ہوموفوبیا(Homophobia) کا لیبل دھر دیا جاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسی یہودیوں کی مخالفت کرنے والے کو Anti-semitic قرار دیا جاتا ہے۔
ہم جنسی کی اس حد تک پذیرائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عموماً نوعمر لڑکے اور لڑکیاں اپنی جنسیت کے تعین میں الجھاؤ محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ جس طرح عشق و محبت میں اپنے محبوب کی بے وفائی کا خوف محسوس ہوتا ہے مغرب میں اپنے محبوب کی جنسیت کے تبدیل ہونے کا خوف بھی محسوس کیا جاتا ہے۔یعنی ایک لڑکی جو ہم جنس پرست (Lesbian) ہے اور اس کی کسی دوسری ہم جنس پرست لڑکی کے ساتھ “دوستی” ہے وہ اس خوف میں مبتلاءرہتی ہے کہ کہیں اس کی دوست کا میلان مردوں کی طرف نہ ہونے لگے یعنی کہیں کنزی سکیل میں اس کا سکور چھ سے کم ہوکر، پانچ، تین یا پھر صفر نہ ہوجائے۔ قریب قریب یہی خوف مرد ہم جنس جوڑوں میں بھی پایا جاسکتا ہے۔
ہم جنسیت کی حمایت کے سلسلے میں جدید نظریات کے کچھ نکات ہیں جس کو بنیاد بنا کر ہم جنسیت کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔
1۔ آپسی رضامندی(Mutual Consent)،یعنی دو افراد آپسی رضامندی سے ایک دوسرے سے جس طرح بھی جنسی حظ اُٹھارہے ہوں کسی دوسرے کا اس میں کیا جاتا ہے؟ باقی اگر کوئی طبی مسئلہ ہو تو جدید میڈیکل سائنس سے افادہ کر کے احتیاطیں برتی جاسکتی ہے۔
2۔ جدید فکر نے ان جنسی رجحانات کے جواز میں جو دلائل پیش کئے ان میں یہ بھی ہے یہ رجحانات تاریخی طور پر ہمیشہ سے انسانوں میں موجود رہے ہیں۔ لیکن مذاہب اور خاص طور پر ابراہیمی ادیان (یہودیت، مسیحیت اور اسلام) نے ان پر غیر ضروری پابندیاں لگوائیں۔ اگر مذاہب عالم نے اس جذبے کو فطری طور پر پروان چڑھنے دیا ہوتا تو اب تک سارے عالم میں اس طرح کی جنسیت کے بارے میں کوئی تنفر نہیں پایا جاتا۔ تاریخی طور پر ان کے پاس، قدیم یونان، روم اور بھارت کی پرانی تہذیبوں کی مثالیں موجود ہیں۔
3۔ کچھ نے سائنسی تحقیقات کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم جنسیت جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اور چونکہ جانور اپنی فطرت سے لگے بندھے رہتے ہیں اور تجسس، مہم جوئی اور ایجاد پسندی کے جذبے سے انحراف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے ہم جنسیت قدرت میں پائے جانے والا فطری رجحان ہے۔
*مسیحیت اور جدید جنسی نظریات کی کشمکش:
مسیحیت اپنی رہبانیت اور ترک دنیا کے نظریات کی وجہ سے جائز جنسیت کے بارے میں بھی کافی منفی رائے رکھتی رہی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو موجودہ جنسی بے راہ روی کو عیسائیت کے رد عمل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔بہرحال اس وقت مسیحیت اور خاص طور رومن کیتھولک چرچ اپنے اپ کو کافی مشکل میں پارہا ہے۔ ایک طرف رومن کیتھولیک چرچ کے مطابق جنسی تعلق کی بنیادی وجہ صرف اولاد پیدا کرنا ہے اور بغیر اولاد کی نیت سے جنسی حظ اُٹھانے کو Lust یا ہوس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر رومن کیتھولک چرچ کے مطابق مانع حمل تدابیر کا استعمال جائز نہیں ہے۔دوسری طرف غیر فطری جنسی رجحانات کا بہاؤ پورے کے پورے مغرب پر حاوی ہو رہا ہے۔کسی بھی چرچ کی اتنی ساکھ نہیں ہے کہ وہ اس فطری اور غیر فطری جنسی میلانات کو قابو کرنے کا تصور کر سکے۔بلکہ دباؤ اتنا شدید ہے کہ 21 نومبر 2010 کے اخبارات کے مطابق پوپ بینیڈکٹ 16 نے جرمن اخبار کو دئے گئے ایک انٹرویوکے مطابق ایڈز کی بیماری سے بچانے کے لئے مرد طوائف(Male Prostitute) کو کونڈم کے استعمال کی اجازت دی ہے۔اس میں سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ پوپ نے اس سلسلے میں مرد یا عورت کے لئے طوائف کا پیشہ اپنانے کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔ حالات کادباؤ ایسا ہی ہے۔
بہرحال ایک طرف رومن کیتھولیک چرچ کا جنسیت کے بارے میں تنفر اور سخت رویہ اور دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ رومن کیتھولیک چرچ کے پادریوں کا اپنے مذہبی پوزیشن سے فائدہ اُٹھاکر اغلام بازی میں مبتلا پایا جانا معمول کی خبریں۔ اس لئے جنس کے بارے میں پوپ کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ کیتھولک چرچ کی جنسیت مخالف نظریے کہ وجہ سے کیتھولک پادریوں کے جنسی رجحانات کا پتہ چلنا انتہائی مشکل ہے ورنہ بہت سی کہانیاں تو عام ہیں۔
مسیحیت کے فرقے سینکڑوں کے حساب سے ہیں۔اکثر بڑے فرقے ہم جنسیت کے خلاف ہیں۔ لیکن اس میں کچھ فرقوں نے ہم جنسیت کو نہ صرف قبول بھی کیاہوا ہے بلکہ ہم جنس جوڑوں کی شادی کی بھی اجازت دی ہوئی ہے۔ کچھ فرقوں میں باقاعدہ طور پر گے بشپ(Gay Bishop) بھی پائے جاتے ہیں۔حالات کا دباؤ، مسیحیت کی نظریاتی شکست خوردگی اور پھر بعض مسیحی پادیوں اور پاسٹروں کا خود اس میں ملوث ہونے کی وجہ سے مجموعی طور مسیحیت اپنے سخت گیر مؤقف سے ہٹ رہی ہے۔ بڑے اور پرانے فرقوں کے مقابلے میں نوآموز فرقوں کے لئے اس معاملے میں لچک دکھانا نسبتاً اس لئے آسان ہے کہ ان کے لئے پرانی روایات کی پابندی غیر اہم ہے۔ جدت پسندی اور مسیحیت کی مڈبھیڑ کی تاریخ کافی پرانی ہے اور یہ بھی اسی داستان کا حصہ ہے جس میں مسیحیت اپنے میراث کا دفاع کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہورہی ہے۔زیادہ سے زیادہ مسیحیت اسی پر زور دے رہی ہے کہ یہ ہم جنسیت ایک اختیاری عمل ہے نہ کہ جبلی۔الغرض عالم عیسائیت اس معاملے میں شدید تناقضات کی شکار ہے۔ عصری تناظر میں یہ ایک طویل بحث ہے لیکن اس مضمون میں اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔
مسلمانوں میں ہم جنسیت کے دعوے دار:
اگرچہ اغلام بازی کے اکا دکا واقعات ماضی میں ہوتے رہے ہیں مسلمانوں میں اس کی قبولیت کا رجحان کبھی پایا نہیں گیا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، جدید ہم جنس پرستی ماضی کی اغلام بازی سے قطعاً مختلف ہے۔ جدید قسم کی ہم جنس پرستی کا اثر اب تک مسلمانوں میں اجتماعی طور پر بہت کم پڑا ہے۔ مسلمانوں میں اگر کچھ اس طرح کے میلانات رکھنے والے ہیں بھی تو ان کی ہمت نہیں کہ کھل کر اس کا اظہار کریں۔ امریکہ میں نعوذ باللہ “الفاتحہ فاؤنڈیشن”کے نام سے ایک تنظیم رجسٹرڈ ہے جو، ان کے دعوے کے مطابق، مسلمان ہم جنس پرستوں کی ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں بھی “ایمان” نام کی تنظیم ہے جو اپنے دعوے کے مطابق مسلمان ہم جنس پرستوں کے مسائل حل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ ان دونوں تنظیموں کا دعوی ہے کہ اسلام ہم جنس پرستی کا مخالف نہیں ہے۔
اسلام کا شرعی موقف:
اسلام کا اس بارے میں شرعی مؤقف واضح ہے۔اسلامی شریعت میں ایک طرف جنسی خواہش کو نکاح کے دائرے میں پوری کرنے پر کوئی روک نہیں ہے تو دوسری طرف نکاح کے بغیر جنسی تعلق کے بارے میں انتہائی سخت مؤقف ہے۔ اسلام میں نکاح مرد اور عورت کے درمیان ہی ہوتا ہے۔قرآن میں تقریباً سات مقامات پر قوم لوط کے جرم اور اس کے انجام کا ذکر ہوا ہے۔ ہر مقام پر قوم کا جرم فحاشی ہی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کی بنیادی دعوت توحید ہونے کے باوجود جب قوم لوط کی بات آتی ہے تو قرآن صرف انکی فحاشی اور خصوصاً ہم جنسی کا ہی ذکر کرتا ہے۔ تاریخی روایات سے ہمیں کہیں پتہ نہیں چلتا کہ مکہ اور آس پاس میں بہت کچھ برائیاں ہونے کے باوجود عمومی طور پر ہم جنسی پائی جاتی ہو۔اسکے باوجود اگر قرآن ہم جنسی کے انکار کا اتنا اہتمام کرتا ہے تو صاف بات ہے کہ اسلام میں کسی بھی طوراس کی گنجائش نہیں پائی جاسکتی۔ اس پر مستند روایات کا کثیر ذخیرہ اس پر مستزاد۔اس معاملے میں اسلام کا شرعی مؤقف اتنا صاف اور واضح ہے کہ اسکے بارے میں مزید لکھنا غیرضروری محسوس ہوتا ہے۔
٭مسلمانوں کا فکری مؤقف:
چونکہ یہ مسئلہ مغرب کے اپنے مخصوص سیاق میں پیدا ہوا ہے اور اسے مغربی اقوام ہی بھگت رہی ہیں اور وہ اس چیز کو نقصان دہ بھی نہیں سمجھ رہی ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہمیں کوئی فکری مؤقف اپنانے کی ضرورت ہی کیا؟ صورت حال یہ ہے کہ تہذیبوں کے اس معرکے میں مغرب اور اسلام کے درمیان ہر اختلاف پر فکری سطح پر جنگ لڑی جارہی ہے ۔ اگر ہم صرف اپنا شرعی مؤقف بیان کرتے ہیں تو اُن کو تو کوئی شرم نہیں ہے کہ وہ ہماری شریعت کو ہی غیر فطری قرار دینے لگیں۔ اس کے علاوہ ہمارے اپنے جگر گوشے جیسے کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے اس کے شکار بن رہے ہیں۔ غیر فطری جنسیت کو عموم حاصل ہونے میں ایک طرف حیوانی ہوس کاری کا کردار رہاہے تو دوسری طرف ہم جنسی کی حامی فکر کی بھی اچھی خاصی حصہ داری رہی ہے۔ مغرب جنسیت کے بارے میں اچھا خاصا مقدمہ رکھتا ہے جس سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم جنسی جیسے رجحانات فطری ہیں۔ہمارے اپنے اسلامی مزاج کے مطابق جو کہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے یہ محسوس کرنا مشکل نہیں ہے کہ مذکورہ جنسی رجحانات غیرفطری اور گھناؤنے ہیں۔ لیکن اس کی محض تحقیر، تضحیک اور تمسخر کرنا مغرب کے بزعم خویش ایک منطقی مقدمے کے مقابلہ کیلئے شاید کافی نہیں ہے۔
تو پھر ہمارا فکری مؤقف کیاہو ؟
یہ مضمون مسلمان دانشوروں کو اس پر سوچ بچار کرنے کے لئے دعوت فکر دیتا۔ مغرب میں پروان چڑھنے والے اس غیر فطری رجحان کی تفصیل بتانے کا بھی یہی مقصد ہے کہ کوئی فکری مؤقف اختیار کرنے سے پہلے ہم یہ جان لیں کہ مغرب کا اپنا مؤقف اور مقدمہ ہے کیا۔ موضوع کی کراہت کی وجہ سے شاید ہی ہمارے دین دار طبقے جان پائے ہوں کہ مغرب میں جنسی میلانات کو کس نظر سے دیکھتا جا رہا ہے۔
مسلمانوں کا فکری موقف کیا ہو ؟جنسی تعلقات کے بارے میں مغرب اور اسلام کے مابین کچھ بنیادی فرق ہے جس کو پہلے سمجھ لینا چاہئے۔
٭آپسی رضامندی یا Mutual Consent کی دلیل :
Consentکا مسئلہ آج کی جدید تہذیب میں اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ رشتے کے قانونی اور غیر قانونی ہونے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جوڑوں کا شادی شدہ ہونا ایک غیر اہم چیز ہے۔ اگر ایک شادی شدہ فرد بھی کسی دوسرے سے جنسی تعلق قائم کرلے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ ایک طلاق کا کیس بن سکتا ہے۔ لیکن اگر ایک شادی شدہ عورت یہ دعوی کرے کہ اس کے شوہر نے اس کی مرضی کے خلاف مباشرت کی ہے تو یہ ایک سخت قانونی مسئلہ ہے۔ اس کو قانونی زبان میںMarital rape کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ تصور اتنا اجنبی ہے کہ کوشش کے باوجود اس کے لئے کوئی اردو کا مرکب لفظ نہیں مل سکا۔
غور طلب ہے کہ ان جدید نظریات کے تحت بھی جن جنسی میلانات کو نفسیاتی مرض قرار دیا گیا ہے اس کے پیچھے بھی یہی Consent یا آپسی رضامندی کا نکتہ کار فرما ہے۔ پیڈو فیلیا اور زوفیلیا کو نا پسندیدہ سمجھنے کی وجہ بھی یہی نظر آتی ہے کہ قانونی طور پر بچہ یا جانور کی منظوری متعین نہیں ہوسکتی ۔ اگر اس کی گنجائش ہوتی تو شاید اس کو بھی عین فطری رجحان قرار دیا جاسکتا تھا۔عام طور پر پیڈوفیلیا کو بچوں پر زیادتی(Child Abuse) اور زوفیلیا کو جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی(Violation of animal rights) کے ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔
بے قید جنسی آزادی ہو یا ہم جنسیت کی آزادی ، مغرب کا اسلام سے بلکہ تمام تہذیبوں سے یہ مطالبہ ہے کہ اس کو اس طرح کے میلان کی نہ صرف آزادی دے بلکہ سند قبولیت سے بھی نوازے۔ یعنی اس طرح کے جنسی میلان کو قابل قبول ، صحیح سلامت اور ایک فطری میلان کے طور پر قبول کرے۔ نیز کسی فرد کو ہم جنسیت کے خلاف بات کرنے کی، اس کو غیر فطری قرار دینے کی یا اس سے کراہت کا اظہار کرنے کی کھلم کھلا آزادی نہیں ہونی چاہئے۔ایسے آزادی اظہار کو نفرت گوئی(hate speech) قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جائے۔
جنسی تعلق کے جواز کے معاملے میں اسلام اور مشرقی تہذیبوں کا مؤقف مغرب سے سرے سے مختلف ہے۔ بلکہ نہ صرف جنسی معاملات بلکہ ہر انفرادی معاملہ جو معاشرے پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوسکتاہے اس کو انفرادی نہیں مانا جاسکتا۔یہی معاملہ جنسیت سے بھی متعلق ہے۔ اگردو افراد کے درمیان جنسی تعلق ہے اور کوئی تیسرا اس سے واقف نہیں ہے تب تو یہ ایک انفرادی معاملہ ہے اور اسکا جواب انہیں اللہ ہی کودینا ہے۔ لیکن اگر یہ تعلق دوسروں پر افشاءہو گیا تو یہ انفرادی نہیں بلکہ ایک اجتماعی مسئلہ ہوگیا اور پھر معاشرتی نظم کو یہاں دخل انداز ہونا پڑے گا۔ اس لئے دو افراد اگر معاشرے میں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو اس کو معاشرتی نظم اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے۔ اس طرح کے تعلق کو شادی کا نام دیا جاتا ہے اور ہر معاشرہ مرداور عورت کا ایک کردار متعین کرتا ہے اور ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریاں طے کرتا ہے۔بلاشبہ یہ نظم انسانی تمدن کی ترقی کے لئے یہ ایک خدائی انتظام ہے اور انتہائی حسین انتظام ہے۔
یہاں پر جنسیت ایک انفرادی معاملہ نہیں ہے۔ جنسی حظ کے ساتھ بہت ساری سماجی ذمہ داریاں ملحق کردی جاتی ہے تاکہ ایک خالص شہوانی جذبہ تمدنی ترقی اور بقاءمیں اپنا کردار ادا کرے۔ بلکہ بطور آزمائش کے جس طرح اسلام ہر انسانی استعداد کا صحیح اور غلط استعمال کرنے کا اختیار دیتا ہے اسی طرح شہوانی جذبات کو معاشرے کے حق میں اور معاشرے کے بگاڑ کے لئے استعمال کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ساتھ ہی معاشرتی نظم کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے ایسے کسی عمل کے عوامی اظہار(Public expression) سے سخت مزاحمت کرے جو تمدنی ترقی اور معاشرتی اقدار کی بقاءکے لئے خطرہ ہو۔ “شادی” اور” خاندن ” جو کہ تمدنی بقاءکے خدائی نظم سے عبارت ہے اس کا متبادل فراہم کرنا دراصل تمدن پر ایک انتہائی مہلک وار ہے۔ اسی طرح مرد اور عورت کے درمیان جو فطری کشش ہے وہ شادی سے بھی اہم ہے جس کی بنیاد پر شادی اور خاندان کا نظام منحصر ہے۔ اور اگر کوئی صنف مخالف کے درمیان جنسی کشش اور جذباتی لگاؤ کا متبادل پیش کرے تو یہ وار اس سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ اس پورے معاملے کو مغرب دو افراد کے درمیان آپسی رضامندی کے طور پر ہی دیکھتا ہے جبکہ یہ مسئلہ فرد اور معاشرے کے درمیان حقوق اور ذمہ داری سے توازن سے متعلق ہے۔ چونکہ مغرب نے اپنے حساب سے قومیت اور قانون کو ہی معاشرے کا متبادل قرار دیا ہے اس لئے کسی معاشرتی اقدار کے متبادل فراہم کرنے پراس کا فکر مند نہ ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
اکثر مغربی ممالک میں کسی فرد کی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ میں اس کے والدین کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ پاسپورٹ پر باپ کا نام لکھنے کے سلسلے میں مغربی اقوام کو جو دشواری ہے سو ہے لیکن ماں کا نام بھی نہیں ہوتا۔ کسی فرد کی شناخت کی بنیاد صرف شہریت پر ہوتی ہے۔ بقیہ خاندانی نظام میں بچوں کی تربیت کے لئے بڑوں کا قابو چلتاہے لیکن مغربی ممالک میں اگر بچوں کو مارنے کی نوبت آئے تو اس کو child abuse قرار دے کر بچے والدین کے خلاف انتظامیہ کو شکایت کر سکتے ہیں۔ خاندانی نظام میں اولاد بزرگوں کا ادب اور ان کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھتی ہے جب کہ مغربی ویلفیر سٹیٹ میں Senior citizen کی ذمہ داری حکومت کے سر ہے۔ نہ اولاد اپنے بڑوں کو اپنی ذمّہ داری سمجھتی ہے نہ بڑے اپنی اولاد سے کوئی توقع رکھتے ہیں۔ نئی نسل کی ذمہ داری کیریر(Career)بنانے اوراپنے لئے عارضی یا دائمی جوڑا ڈھونڈنے تک محدود ہوتی ہے جسے مغرب کی مخصوص اصطلاح میں relationship کہتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ اس نظام میں کیا خوبیاں یا خامیاں ہے اس کو اس لحاظ سے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مغرب قومیت اور حکومتی نظام کو ”معاشرے “ کا متبادل سمجھتا ہے ۔ ایسے میں معاشرتی اقدار کو غیر ضروری اور اضافی سمجھنا اس سوچ کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ یہ نظام مضبوط معیشت میں جیسے تیسے چل رہا ہے لیکن معاشی بحران کے نتیجے میں Senior citizens کا کیا حشر ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
حقوق انسانی کے نام پر اکثر جو آوازیں سنائی دیتی ہیں وہ دراصل فرد کے حقوق تک محدود ہیں۔ معاشرے کے حقوق کے نام پر مغرب کا مطالبہ صرف قانون کی پابندی یا بین الاقوامی عملداری کے معاملے میں مغرب کے آگے سر خم تسلیم کرنے کی حد تک ہے۔ہم معاشرے کے نام پر جو چیز مراد لیتے ہیں وہ کوئی اور ہی چیز ہے جسے مغرب ماضی کی کچھ باقیات کے طور پر ہی دیکھتا ہے۔مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب” پردہ ” میں انسانوں کے سب سے مقدم اور سب سے زیادہ پیچیدہ دو مسئلوں کو بیان کیا ہے جس کے صحیح اور متوازن حل پرانسان کی فلاح و ترقی کا انحصار ہے۔یہ مسئلے ہیں مرد اور عورت کے حقوق کے درمیان توازن اور دوسرا فرد اور معاشرے کے حقوق کے درمیان توازن۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ مغرب جس رخ پر جارہا ہے اس میں حقوق کے توازن کی بات رہی ایک طرف، مردوزن میں فرق کی ہی ہر اعتبار سے نفی کی جارہی ہے۔حیاتیات (Biology) اور انسانی نفسیات کے تحت مرد وزن میں جو فرق ہے وہ اتنا واضح ہے کہ کوئی بھی سلیم الطبع فرد اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن مغرب ایک طرف اس فرق کے انکار پر بضد ہے تو دوسری طرف ”صنف مخالف“ ہونے کے ناطے ان کے درمیان جو کشش ہے اس کے لوازمات سے بھی انکاری ہے۔ رہا معاشرہ تو حقوق انسانی کی دہائیاں تودی جاتی ہے لیکن اس میں معاشرے کے کسی حق کے بارے میں کبھی کچھ سننے میں نہیں آیا۔پچھلی صدی میں سوشیلزم کے نام پر جس چیز کو متعارف کرایا گیا تھا اس میں معاشرے سے مراد دراصل معاشی استبداد کی ایک سخت ترین صورت تھی جس میں خاندانی نظام کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو رضامندی (Consent) کامعاملہ قطعاً غیر اہم ہوجاتا ہے۔ جن معنوں میں اسلام معاشرے، خاندان اور مرد و زن کے وجود کا قائل ہے ان معنوں میں مغرب جب ان چیزوں کے وجودکو ہی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو دو افراد کی رضامندی کے مقابلے میں”معاشرے کی منظوری“ اس کی سمجھ سے ہی باہر ہوگی۔
٭فطری انسانی میلان کی دلیل :
اب رہا یہ دعوی کہ ہم جنسی ایک فطری انسانی میلان ہے۔ مغربی ممالک میں مردوں اور عورتوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو نہ صرف ہم جنس ہیں بلکہ باقاعدہ ہم جنسی کے مطابق اپنے ہی جنس کے فرد کے ساتھ پارٹنر شپ کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک ایسا کوئی قابل اعتبار سروے نہیں ہوا ہے جس میں اس بات کا تقابل کیا جائے کہ عام جوڑوں کے مقابلے میں ہم جنس جوڑوں کی سیول پارٹنرشپ (Civil partnership) کتنی کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن اتنی کثیر تعداد میں ہم جنسوں کی موجودگی کے ہوتے ہوئے ہمارے اسلام پسند دانشوروں کے لئے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ اس کو اختیاری معاملہ قرار دیں۔ یعنی یہ کہنا کہ” یہ ہم جنسی کے دعوے دار جان بوجھ کر ایسا میلان اختیار کرتے ہیں ورنہ وہ بھی جنس مخالف میں کشش محسوس کرتے ہیں“ مسئلے کی نوعیت کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔ لامحالہ ہم کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کے ہم جنسی کے دعوے دار سچ مچ ہم جنس ہی ہیں۔ہمارے لئے اس کے علاوہ اور کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے کہ ہم اسے ایک نفسیاتی مرض قرار دیں۔لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنسی آزادی ملتے ہی اچانک ہم جنسی کی وبا اس طرح کیوں پھوٹ پڑی؟ مغرب کا دعوی یہ ہے کہ ہم جنس پہلے بھی ہوتے تھے لیکن آزادی کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے فطری میلان کو دبانے پر مجبور تھے۔
بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ پچھلی ایک صدی میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اس میں انسان کو معاشرتی پابندیوں سے آزادی ہی نہیں ملی بلکہ اس آزادی کا بڑی بے دردی سے معاشی استحصال ہوا ہے۔بہرحال مغرب کے اس سوال کہ ”آزادی ملتے ہی اچانک ہم جنسی کی وبا کیوں پھوٹ پڑی “ کے جواب میں کچھ ممکنہ مؤقف ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ انسانی نفسیات کا انتہائی اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے اس لئے راقم اس کے لئے صرف ممکنہ مؤقف کو ہی پیش کر سکتا ہے۔ اس گتھی کو سلجھانا کسی تجربہ کار ماہر نفسیات کا کام ہے۔
انسان فطری اعتبار سے مہم جواور متجسس واقع ہوا ہے۔اس کی جبلت میں پابندیوں کو توڑنے کا جذبہ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ایک طرف معاشرے کا مفاد جس کے تحت انسان کو بہت ساری پابندیوں میں رہنا ہے اور دوسری طرف انسان کی مہم جو طبیعت جو پابندیوں کوکسی نہ کسی طور پر توڑنے پر آمادہ۔ شجر ممنوعہ کی طرف لپکنا تو گویا اس کی سرشت میں ہے۔ یہ شخصی آزادی اور معاشرتی پابندی کی کشاکش ہی کسی حد تک تہذیبوں کی ترقی، تغیر اور تنزل سے عبارت ہے۔ جدید مغربی تہذیب نے جو رجحان اپنایا ہے اس میں جیسا کہ پہلے آچکا ہے، اجتماعی پابندیوں کو بالکل سرے سے لگادیا اور اپنی تمام فکر کا مرکز شخصی آزادی کو قرار دیا۔جنسی تعلق کے لئے صرف آپسی رضامندی کی شرط رکھ دی گئی۔ عمر کی پابندی رکھ تو دی گئی لیکن اس کی وجہ بھی در اصل رضامندی کی عمر کا تعین ہے۔ نتیجتاً انسان کی سیماب طبیعت کو چین نہ آناتھا نہ آیا۔ انسان نئی مہموں کو سر کرنے نکلا۔ زنا کی آزادی مل گئی تو زنا بالجبر کے جرائم بڑھ گئے آخر طبیعت میں ٹھیراؤ کہاں؟ پھر بھی جی نہ بھرا تو نئی پابندی کی تلاش کہ کسی طرح اسے بھی پیروں تلے روند دیا جائے۔ہم جنسی سے انسان کسی نہ کسی اعتبار سے صدیوں سے واقف تھا ہی بلکہ کچھ معروف ہم جنس یوروپ میں گذر بھی چکے تھے۔تو اس ضدی اور جدت پسند انسانی طبیعت کو اپنی منزل سامنے نظرآنے لگی۔پھرانہیں ایک ایسا معاشرہ میسر تھاجس کی رگوں میں سرمایہ دوڑ رہاہو، تفریح اور ابلاغ جس کی روح ہواور آزادی جس کا مقصد حیات ہو، ہم جنسی کو پنپنے کے لئے بہترین مواقع ملے۔ جب ہم جنسی معاشرے میں پابندیوں (Taboos)کے خلاف ایک احتجاج کی علامت بن گئی اور اس کی حمایت میں نظریات تک گھڑے گئے تو پھر اس کی ترویج میں کیا رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ کٹر رومن کیتھولک اور کچھ روایتی عیسائی فرقوں کے علاوہ کوئی اور طبقہ اس وقت ہم جنسی کی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں کررہا ہے۔ جب معاشرے میں ہم جنسی حقوق کی جدوجہد کی علامت بن جائے، جب اس کو ایک فطری میلان کا درجہ دیا جائے اور جب برقی ذرائع ابلاغ اسے ایک عام اور قابل قبول معاشرتی رویے کی طور پر پیش کرے تو ہم جنسی اگر وبائی مرض کی شکل اختیار کرلے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ سب سے پہلے تو مغرب نے معاشرتی پابندیوں (Taboos)کی ہی مخالفت کرکے اس کے لئے راہ ہموار کی تھی۔ اصل مسئلہ تو جب ہوا تھا جب آزادی کے نام پر شادی کی پابندیوں ہی سے معاشرے کو آزاد کرنے کی کوشش کی گئی۔ تو یہ آزادی کی گاڑی پتہ نہیں کہاں جا کر رکنے والی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے پابندیاں اجتماعی نظام کے چلانے کے لئے لازم ہے اور یہ غیر فطری وبا پھیلنے کی وجہ فرد کی آزادی کوحد درجہ اہمیت دے کر معاشرتی نظم کو نظر انداز کردینا ہے۔زنا پر پابندی دراصل ایک طرف شادی کے انتظام کی حفاظت کے لئے تھی تو دوسری طرف انسان کی باغیانہ جبلت کو قابو میں کرنے کا کام دے رہی تھی۔ جب زنا پر پابندی ختم کردی گئی تو انسان اپنی فطرت کے تقاضے کے تحت نئی مہم سر کرنے نکلا۔
بچے کی جسمانی نشو نما کے ساتھ ذہنی نشو نما میں ایک تدریج ہوتی ہے۔ سگمنڈ فرائڈ نے بچوں کی ذہنی ارتقاءکی جنسی تشریح کی ہے جسے فرائڈ کا نظریہ برائے جنسی نفسیاتی نشونما(Freud’s theory of Psychosexual development) کہا جاتا ہے۔ اس نظرئے کے تحت فرائڈ نے بچے کی نفسیاتی نشؤنما کے مراحل بیان کئے ہیں۔ جس طرح سے فرایڈ نے ان مراحل کی جنسی تشریح کی ہے اس پر کافی حد تک فرائڈ پر تنقید بھی ہوئی ہے۔ ان مراحل میں ایک مرحلہ جس کو اخفائی کیفیت (Latency phase) قرار دیا گیا ہے جو کہ چھ سال کی عمر سے لے کر ذہنی پختگی کے مرحلے تک ہے(یہاں پر مسئلہ اس لئے زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ فرائڈ نے چھ سال کی عمر سے پہلے کے مرحلے بلکہ شیر خوارگی کی بھی جنسی تعبیر کی ہے اور بچوں کے دودھ چوسنے کو بھی جنسی مرحلہ قرار دیا ہے۔ اس تھیوری پر مسلم اور غیر مسلم دانشوروں کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے ہیں اور مطالعہ کے شوقین حضرات اس سے واقف ہیں۔ امکان یہی ہے کہ اخفائی کیفیت (Latency phase) کے بعد والا مرحلہ ہی پہلا جنسی مرحلہ ہے اور اس سے پہلے والے مراحل کی جنسی تعبیر کرنا فرائڈ کا مغالطہ تھا۔ اس بارے میں بعض لوگوں نے الزام لگایا ہے فرائڈ نے جنسی انارکی پھیلانے کے لئے جان بوجھ کر اس طرح کی غلطی کی تھی۔ بلکہ بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ یہ ایک یہودی کا عیسائی دنیا سے انتقام تھا۔ اس مضمون کے تناظر میں یہ ایک غیر متعلق موضوع ہے اور ہمارے دلچسپی اس وقت صرف اخفائی کیفیت (Latency phase) ہے جو ایک عام فردکے مشاہدے میں بھی آسکتی ہے۔)
بقول فرائڈ اس مرحلے میں بچے ہر قسم کی جنسیت سے لا تعلق ہوجاتے ہیں اور اپنے آس پاس کے ماحول انسیت سے حاصل کرتے ہیں۔ جنسیت کی طرف ان کی توجہ نہیں جاتی اور عام طور پر اپنے ہم صنفوں کے ساتھ دوستی اور تعلقات قائم کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ یعنی ماحول جیسا بھی ہو لڑکا لڑکوں سے دوستی کرتا ہے اور لڑکی لڑکیوں سے دوستی کرتی ہے عام طور پراس عمر میں بچوں کے خاص دوست (Best Freind) ان کے ہم صنف ہی ہوتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ فرائڈ کا نظریہ کتنا صحیح ہے اور کتنا غلط اس قسم کے مراحل کو علمی انداز میں بیان کرنے کی کوشش فرائڈ کی طرف سے ہی ہوئی ہے۔ اس لئے فرائڈ کی جنسی تعبیر کی مخالفت کے جذبے کے تحت مکمل طورپر فرائڈ کی پوری تھیوری کو رد کرنا مناسب نہیں ہے۔ جس مرحلے کو فرائڈ نے اخفائی کیفیت (Latency phase) قرار دیا ہے اس کا مشاہدہ بچوں میں کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ بلکہ اگر بڑے بھی اپنی عمر رفتہ کو یاد کریں تو ہم ایک ایسے مرحلے سے ضرور گذرے ہیں جس میں ہماری دلچسپی صنف مخالف میں قطعاً نہیں ہوتی۔ اگر ہم غور و خوص کریں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ یہ عمر ایک بچے کے لئے اپنے آپ کو سمجھنے اور خود کو اپنے اطراف و ماحول سے متعلق کرنے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔اس عمر میں بچوں کو نامناسب محرکات اور اکساوے (Stimulus) فراہم کرکے اس کی ذہنی نشونما کے توازن کو بگاڑا جاسکتا ہے۔ اب تصور کریں کہ اس عمر میں جب کہ بچے فطری طور پر جنسیت سے اباکرتے ہیں اور انکی دلچسپی صرف اپنے ہم صنفوں سے دوستی تک ہوتی ہے اگر کثرت سے جنسی اکساوے مہیا کئے جائیں تو ان کے ذہن کی درگت کیا بنے گی؟میڈیا اور انٹرنیٹ کے دور میں جنسی مواد کو بالغوں تک محدود رکھنا ناممکن ہے۔ فحش فلمیں اور لٹریچر (Pornpgraphy) مغربی معاشرے کی منظور شدہ انڈسٹری ہے۔ کسی بھی فحش مواد کو کمپیوٹر کے ذریعے کاپی پیسٹ(Copy paste) کرناانتہائی آسان ہے۔ ایسے میں نوعمروں کی متجسس طبیعت پر ایسے مواد کی پردہ فاشی کیا رنگ لاسکتی ہے اس کے بارے میں تصور کرنا ہی مشکل ہے۔ خصوصاً اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ جب وہ اپنے ہم صنفوں سے ہی دوستی کر رہے ہیں اس دوران انکو جنسیت سے آگاہی کا ایک زوردار اور بے قابو ماحول فراہم کرنے سے اس بات کا کافی امکان بڑھ جاتا ہے کہ جو جنسیت ان پر قبل از عمر مسلط کی گئی ہے اس جنسیت کو وہ اپنے دوستوں سے ہی متعلق کر کے تصور کریں گے۔
عام طور پر بچے اپنی جنسیت کے بارے میں اسی عمر میں الجھن کا شکار ہوتے ہیں جب ان کو انکی مرضی کے بغیر فحاشی کا ڈوزکافی مل چکا ہوتا ہے۔اور جیسا کہ پہلے کہا جا چکا کہ نوعمر بچے انٹرنیٹ فارم پر اپنی ذہنی کیفیت بتاکر یہ پوچھتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ Am I bi? ( کیامیں بائی سیکشول ہوں؟)۔ اس پورے پراسیس میں مغرب کا ”رضامندی“ (Consent) کا نظریہ مکمل طور پر فیل ہوجاتا ہے۔ بے چارے نوعمر بچوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ ایک جنسیت زدہ ماحول میں رہنا چاہتے ہیں یا نہیں!۔ شاید یہ احساس مغرب کو بہت دیر بعد ہوگا کہ ابلاغی اور سرمایہ دارانہ ماحول کا جبر تیسری دنیا کے کسی پس ماندہ مشرقی ملک کی پابندیوں سے بہت زیادہ سنگین ہے۔
٭تاریخ کی گواہی:
ہم جنسی کے فطری ہونے کے دعوے کے سلسلے میں ایک معروف دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اکثر پرانی تہذیبوں میں ہم جنسی پائی جاتی ہے اور یہ کہ ابرہیمی مذہب نے ہی اس پر غیر ضروری پابندیاں لگائی ہیں۔اگر تو کوئی خدا کا بندہ خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہے تو اس کو یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے کہ پرانی تہذیبوں کا زوال خود اس بات کی نشانی ہے کہ انسان کے خالق کو یہ عمل پسند نہیں اور اگر کوئی بقائے اصلح (Survival of fittest) کو مانتا ہے تو ایسے شخص کو یہ بھی ماننا چاہئے کہ سامی مذاہب کا فکری اور سیاسی غلبہ بھی اسی بقائے اصلح کے اصول کے تحت ہوا ہے۔ یعنی اگر کوئی تہذیبوں کے عروج و زوال کے لئے کسی اصول کو تسلیم کرتا ہے تو یہ بھی بتائے کہ روم یونان اور پراچین بھارت (قدیم بھارت) جو کہ ہم جنس موافق تہذیبوں میں شمار ہوتی ہیں پر کیوں زوال آیا؟ یورپ میں مسیحیت اور دنیا کے بہت بڑے علاقے میں اسلامی تمدن کیوں چھا گیا؟( یہاں پر مسیحیت کی تحسین کرنا مقصود نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ مسیحیت اپنی الہیات میں جتنی گمراہ کن ہو، یوروپ کو اخلاقی طور پر قابو کرنے میں مسیحیت کے رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔بلکہ اخلاقی اور روحانی تعلیمات میں غلو بھی وجہ ہے جس کے رد عمل میں مغرب جنسی انارکی کا شکار ہوا) حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کی اگر کوئی گواہی ہے تو یہ ہم جنسیت کے خلاف ہی پڑتی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں ہم جنسیت کے وجود کے باوجود کہیں بھی زیادہ عرصے تک نہ ٹک سکی۔ کل کو شاید تاریخ کا کوئی ماہر یہ بھی نتیجہ اخذ کرلے کہ ہر تمدن کے آخری دور میں ہی ہم جنسیت نے معاشرے میں جڑ پکڑ لی تھی جس کے بعد زوال اس معاشرے کا مقدر بن گیا۔
٭
حیوانات میں ہم جنسی کی دلیل:
باقاعدہ تحقیق کرکے اعداد و شمار بنائے گئے ہیں کہ زمینی اور سمندری جانوروں اور پرندوں تک میں ہم جنسیت پائی جاتی ہے اور جسمانی تعلق کے ساتھ ساتھ الفت کے اظہار کی شکلوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ہم مسلمان اس تحقیق میں اتنے ایڈوانس نہیں ہیں کہ اس تحقیق کے جواب میں کوئی نئی تحقیق پیش کرسکیں۔پچھلی دو تین دہائیوں سے جس طرح ہم جنسیت کی قبولیت کے لئے انسانی معاشرے پر دباؤ ڈالا گیا ہے اس بنا پر یہ شبہ کرنے کی کافی مضبوط وجوہات موجود ہیں کہ یہ تحقیق ایک منصوبے کے تحت کی گئی ہے۔ اگر بالفرض یہ تحقیق امانتداری کے ساتھ ہی کی گئی ہو تو بھی یہ اس کے جواز کی کوئی مضبوط وجہ نہیں ہوسکتی۔ جانوروں کا معاشرہ ایک جامد قسم کا معاشرہ ہے جبکہ انسانی تمدن مختلف طبقوں میں بٹ کر منظم انداز میں اتار چڑھاؤکا شکار ہوتاہے اور اس پراسیس میں خاندان اور جنس کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے لئے خاندان اور معاشرتی نظم قائم کرنے کے لئے خود سے تگ و دو کرنی پڑتی ہے جبکہ حیوانات کا اجتماعی نظام آپ سے آپ چلتا ہے۔ بلکہ جانوروں میں Cross species sex بھی پایا جاتا ہے یعنی جانوروں کی ایک قسم دوسری قسم سے جنسی تعلقات رکھتی ہے جیسے گھوڑے اور گدھے کے درمیان تعلقات کے نتیجے میں خچر پیدا ہوتا ہے۔ اگر جنسیت میں حیوانات کا رویہ وجہ جواز ہوسکتا ہے تو مغرب کیوں زوفیلیا کو ناقابل قبول قرار دیتا ہے؟ شایدکل کو ایسے کریہہ عمل کے لئے یہیں سے جواز فراہم کردیا جائے۔
شادی کی روایت پر حملہ:
دنیا میں جتنی تہذیبیں گذری ہیں چاہے ان کو ترقی کی معراج پر سمجھا جاتا ہو یا انتہائی پس ماندہ، ان سب میں شادی کا تصور رہا ہے۔ انسانی معاشرے کی بقاءاور بالیدگی کے لئے یہ ایک انتہائی مضبوط خدائی انتظام ہے۔ مغرب میں انسانی اقدار کی بے توقیری کے لئے ان اقدار کے لئے استعمال شدہ بنیادی اصطلاحات ہی کو بے عزت کیا گیا۔ ایک طرف ہم جنسی کو فطری قرار دے کر انسانی فطرت پر حملہ کردیا گیا تو دوسری طرف ایک تحریک چلائی جارہی ہے کہ ہم جنسوں کی شادی بھی ہونی چاہئے۔ یعنی قانوناً مر د کی مرد سے اور عورت کی عورت سے شادی کی اجازت ہونی چاہئے۔یورپ کی کئی ممالک اور امریکہ کی کچھ ریاستوں میں ہم جنسوں کی شادی کے لئے قانون بن بھی چکا ہے۔ شادی کا مفہوم ہر معاشرے اور تہذیب میں مرد اور عورت کے ملاپ کو معاشرتی منظوری دینا رہا ہے۔لیکن اب یہ تہذیب اس پر بھی حملہ آور ہے۔ بھلا ایسے معاشرے میں جس میں شادی ایک اضافی چیز ہے اور اس کے ذریعے سے اپنے ساتھی کو دوسروں سے تعلقات قائم کرنے سے روکنا ہی مقصود ہوتا ہو، ہم جنسوں کو ”شادی “ کی کیا ضرورت پیش آئی؟ سیدھی سی بات ہے کہ ہم جنسوں کو اپنے آپ کودوسروں سے الگ گرداننا قابل قبول نہیں ہے۔ یہ دراصل ان قوّتوں کی جو ہم جنسی کو فطری میلان قرار دینے پر مصر ہیں کی ایک اور پیش قدمی ہے۔ ایک اصطلاح جب مخصوص معنوں میں استعمال ہوتی ہے تو اس کو وسعت دے کر دوسرے معانی بھی اس اصطلاح میں شامل کرنا دراصل اس اصطلاح کو رقیق (dilute) کرنا ہے۔ شادی ویسے ہی مغرب میں ایک اضافی رواج بن گیا ہے اور اب اس میں ہم جنسوں کے ملاپ کو بھی شامل کرلینا شادی جیسے قدیم ترین اور متفق علیہ دستور پر اوچھا وار ہے۔
آخری بات:
:
شرک کی شکل میں اللہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنا، قتل کی شکل میں بندے کا اہم ترین حق مارنا اور زنا کی شکل میں سماجی و خاندانی نظم پر زیادتی کرنا ،یہ خالق ارض و سماءکے نزدیک عظیم ترین گناہ ہیں۔ زنا کے گناہ کو”تہذیب“ نے اپنے مخصوص فائدے کے لئے کچھ اسطرح سے عموم دیا کہ اس کے گناہ ہونے کے تصور کو ہی ختم کرنے کی کوشش کی۔ بلکہ جس بنیادپر زنا کے زنا ہونے کا احساس قائم ہے اس بنیاد پر بھی بڑے زورآور انداز میں ٹوٹ پڑی۔ یعنی اللہ تعالی نے مرد اور عورت کی جو واضح تقسیم کی ہے پہلے تو اس تقسیم کی سماجی بنیاد کو رد کردیا پھر کچھ آگے بڑھ کے اس تقسیم کی نفسیاتی بنیادوں پر حملہ آور ہوگئی۔ مسخ شدہ فطرت کو ہی عین فطرت قرار دینا اورمذہبی اور سماجی پابندیوں کو غیر فطری قراردینا مغرب کا ایک منفرد کارنامہ ہے۔ اس کا منہ توڑ جواب ہم پر قرض ہے۔ وحی کی حامل اس اُمّت کو اللہ ربّ العزّت نے پہلے ہی تیار کیا ہوا ہے۔ قرآن میں کسی بات کا ایک بار تذکرہ ہوناویسے ہی اہمیت رکھتا ہے، دو بار اس کو تذکرہ ہو تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ مکرر کئی بار مختلف اندازمیں قوم لوط کا کیس بیان کر کے ان کی بربادی کی داستان سناناانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔مسیحیت اس مرض کا شکار بن چکی ہے۔ عوام تو ایک طرف رہے مذہبی رہنما تک اس کے شکار بن چکے ہیں۔ بھارت میں کچھ عرصے سے گے پریڈ(Gay parade)ہورہے ہیں بلکہ ایک گے پریڈ میں کچھ ہم جنسوں کے ساتھ ان کے والدین بھی ان کی حمایت میں گے پریڈ میں شرکت کر چکے ہیں۔وہ مسلمان جو دیار مغرب میں مقیم ہیں ان کی اولاد بھی اس مرض کی زد میں ہے بلکہ کچھ اس کا شکار بھی بن چکی ہے۔مسلم ممالک میں یہ مرض اندر تک کس حد تک پھیل چکا ہے اس کا اندازہ لگانا اس وقت مشکل ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ ابلاغی ذرائع ہر قسم کی جنسی بے راہ روی کو پھلانے کے لئے بہترین میڈیم کا کام دیتے ہیں اور یہ ذرائع عمومی طور پرانہیں لوگوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جو مغرب کے ایجنڈے کو مسلم ممالک میں نافذ کرنے پر مامور ہوتے ہیں۔
ایک حساب سے یہ مرض یا گناہ ان معنوں میں منفرد ہے کہ اس کا مرتکب اس کو اپنی فطرت سمجھ رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کو فطرت کے مطابق ثابت کرنے کے لئے ایک مکتب فکر وجود میں آچکا ہے۔ جنسی رجحان (Sexual Orientation) آج ایک باقاعدہ سائنس بن چکا ہے لیکن شاید موضوع کی کراہت ہی کچھ ایسی ہے کہ مسلم دانشوروں کی فکری تگ و دو میں یہ موضوع زیادہ حصہ نہیں پاسکا۔ اللہ ہمیں اس وقت سے بچائے جب ہم مسلمان ماں باپ کے جگر گوشوں کے بارے میں یہ اندیشہ رکھنے لگیں کہ کسی دن وہ اچانک اپنے جنسی میلان کا اعلان کرڈالیں!!۔
اس تحریر کے ذریعے سے مغرب کے چیلنج کا جواب دینے سے زیادہ اس مسئلے کی سنگینی کا احساس دلانا اصل مقصود ہے۔ راقم اپنے بارے میں یہ خوش فہمی نہیں رکھتا کہ یہ اس قسم کے سنجیدہ مسئلے میں اسلام کے فکر ی مؤقف کا حق ادا کرسکے۔ یہاں پر فکری مؤقف کے بارے میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ صرف ممکنہ مؤقف ہے۔ یہ موضوع ابھی اہل علم اور دانشوروں کی توجہ کا محتاج ہے۔
تحریر ابوزید، سہ ماہی ایقاظ