مرد ہمیشہ ظالم ہی نہیں ہوتا

ایک نئی زندگی کو وجود میں لانے کا خواب تو دونوں ہی دیکھتے ہیں۔ پھر اس ننھے فرشتے کی قلقاریوں پر فدا ہونے اور اس کی توتلی زبان کے بے معنی لفظوں پر واری واری جانے کی شروعات سے لے کر اس کی تعلیم کے ہر درجے سے لے کر عملی زندگی کے سبھی تلخ و شیریں لمحات کے سکھ دکھ کی ساجھے داری میں بھی دونوں ہی رہتے ہیں۔ عورت تو جی لیتی ہے، جی داری میں، اک کرب مسلسل سے جنے گئے وجود کی تخلیق کی سرشاری میں، لیکن مرد اس سرشاری سے کہیں زیادہ اس ذمے داری کی فکر درماں میں غرقاب رہتا ہے۔ ایک ایسا بار جسے خوشی سے یا تکلیف سے اٹھانا ہی ہوتا ہے، ہسپتال کے اخراجات سے لے کر اس کے دودھ کے ڈبوں، اس کے پوتڑوں اور پالنوں تلک۔ یہ تو کٹھن مسافتوں کا پہلا پڑاؤ ہے آگے کئی مسافتوں کا اک طویل سلسلہ ہو گا جو اسے اپنی اولاد کی خواہشوں، اور خوابوں کو پورا کرتے کرتے خود پر ہزاروں کشٹ سہتے گزارنا ہو گا۔


مرد کی خاص بات یہ رہی کہ وہ اپنی پریشانیاں اپنے ذہن میں اٹھنے والے خدشات و حزیں خیالات کا ڈھول نہیں پیٹتا۔ بس چپ چاپ سہتا ہی رہتا ہے۔ اکثر اس کا چپ رہنا بھی اسے بے فکری اور لاپرواہی جیسے القابات کا سزاوار ٹھہرا دیتا ہے۔ یہ مانا کہ مرد کبھی روتا نہیں، لیکن یہ کوئی کیوں نہیں جانتا کہ رو کر من کا بوجھ ہلکا کر لینے والے تو خوش قسمت ٹھہرتے ہیں اور جو غم کا واویلا نہیں کرتے ان کا بوجھ کبھی ہلکا نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کے اندر ہی ٹھہر جاتا ہے۔


ہم نے اپنی عادت ہی بنا لی ہے، مرد کو ہمیشہ لعنت ملامت کرتے رہنے اور اس دنیاکے ہر غلیظ فعل اور سفاکانہ عمل کو مرد ہی کی سرشت قرار دینے کی۔ یہ بھی درست ہے کہ عورت کو زندگی کا تاوان بہت سخت ادا کرنا ہوتا ہے۔ عورت کی تلخیء حیات کی طویل اور ناقابل بیان داستانوں میں ہمیشہ مرد ہی معتوب و سزاوار ٹھہرتا ہے ہیں۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف کہ ہمیشہ عورت ہی پر روا ظلم کا ڈھول پیٹا جائے اور مرد کی تلخیء حیات کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ کوئی اس کے مداوے میں دو لفظ بھی بولنا گوارا نہ کرے۔ اسے کبھی کسی بھی واقعے پر مظلوم، قابل رحم یا قابل ہمدردی نہ ٹھہرایا جائے۔ جب کہ ہم نے اسی سماج میں رہنے والے بے شمار مردوں کی بے بسی کے کئی بار تماشے دیکھ رکھے ہوں۔ یہیں اسی معاشرے میں عورت کی بیوفائی پر خود کشی کرکے جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے مرد بھی پائے گئے ہوں۔

یہاں آپ کو غریب الوطنی کے کشٹ کاٹتے ایسے کئی مردوں کی مثالیں بھی نظر آئیں گی جن کی بیویاں تمام عمر ان کے بھیجے دھن پر اپنی اندھی خواہشوں کے ساتھ ساتھ اپنے میکے بھر کی بھی خواہشات پالتی ہیں۔ ایسی بھی ہیں جو غریب الوطن شوہروں کے بھیجے مال و دولت پر خود بھی عیش کرتی ہیں اور نوجوان لڑکوں کو پھانس کر خود ان کے بھی خرچے پورے کرتی ہیں۔ دیار غیر میں کاٹی گئی اس کی کسی صعوبت سے عورت کو سروکار نہ ہو، اسے تو بس وقت پر پیسے پہنچتے رہیں تو سکون ہے۔ ایسے بھی کئی گھر ہیں جہاں ایک مرد بال بچوں کے علاوہ بیاہی ہوئی بہنوں کے بھی مائیکے میں مہینہ مہینہ بھرکے پڑاؤ پر بچوں سمیت خرچ اٹھانے کی ذمے داری پر مامور کر دئیے جاتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کر پائیں تو ماں باپ اور بہنوں کے طعن تشنیع کا وہ واویلا مچایا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔


کبھی ہم نے سوچا کہ فی زمانہ جو ایک نئی بیماری برینڈ کلچر کی صورت نکل آئی ہے اس کا بوجھ کس کے کندھوں پر جاتا ہے۔ گھر والی بازار کے ہر پھیرے پر چھ سے سات ہزار کا جوڑا یا دو سے ڈھائی ہزار کا بیگ خریدتے ہوئے کیا یہ سوچتی ہے کہ اس کے گھر والے کی آمدنی لاکھوں میں ہے یا چند ہزاروں میں۔ عورت خواہ طبقہء امراء سے ہو یا متوسط طبقے سے وہ اپنی خریداری بازاروں سے نہیں بلکہ بڑے بڑے شاپنگ مالوں سے کرنے کو ترجیح دینے لگی ہے۔ وہ مال جہاں قدم دھرتے ہی جیب سے نوٹ پھسلنے لگتے ہیں۔ لیکن ان کی خواہشات تو پورا ہونا ہی ہیں خواہ خواہشات پوری کرنے والا فکر اور تناؤ تلے آکر خود اندر سے کھوکھلا ہی کیوں نہ ہو جائے۔ وہ بیماری،قرض یا سود کا روگ بھی پال لے، اپنی انا، اپنا ضمیر یا اپنے جسم کا کوئی حصہ ہی کیوں نہ بیچ دے، خواہشات کا سلسلہ تھمنا نہیں چاہئے۔ وہ خواہ اپنی خواہشوں کو زندگی کے جوئے میں ہار جائے، وہ اپنا سکھ اپنا چین سب تیاگ دے، لیکن خواہشات کا سلسلہ نہیں رکنا چاہئے۔


اکثر ملازمت پیشہ مرد اب پارٹ ٹائم کچھ نہ کچھ کر کے جیسے تیسے آمدنی برھانے لگے ہیں۔ پرائیویٹ کمپنی کی ٹیکسی سروسز یا کوئی اور، کسی سے بھی استفادہ ہو جاتا ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ وہ کس طرح سب مینج کرتے ہیں تو سیدھا سا جواب ملتا ہے۔ “صبح چار بجے سے آٹھ بجے گاڑی چلاتے ہیں، پھر سیدھا دفتر، شام چار بجے تک دفتر۔ پھر گھر دوگھنٹے میں کھانا وغیرہ کھانے کے بعد دوبارہ چھ بجے سے رات بارہ یا ایک بجے تک سواریاں ڈھونا۔۔۔ اچھی آمدن ہو جاتی ہے۔ گھر ٹھیک طرح سے چل جاتا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ آج کل ہر شے مہنگی ہو گئی ہے۔ بھلا ایک آمدن سے کس طور گزارا ہو پائے گا” واقعی گھر تو ٹھیک چل ہی جاتا ہے بس زرا ہمت و حوصلہ ہی چاہئے نا۔۔۔ تھوڑا ضبط بھی درکار ہے۔۔۔ پہلے دفتر میں باس اور پھر سطحی سوچ کی سواریوں کی طرف سے کچھ ذلالت یا بے عزتی سہنا ہوتی ہے۔ پر گزارا تو ہو جاتا ہے نا۔۔۔


مرد کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جیسے اپنے دکھ کا اظہار نہیں کرتا اسی طرح وہ اپنی قربانیاں جتلاتا بھی نہیں۔ اسے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ جو بھی کر رہا ہے اپنے بیوی بچوں کی ہی خاطر کر رہا ہے۔ لیکن عورت کو تو عادت ہے اپنی ہر قربانی کو جتلانے کی۔ خواہ وہ نوکری کر کے یہ قربانی دے رہی ہے یا گھر کے کام کاج کرنے سے۔ لیکن کبھی خود کو مرد کی جگہ رکھ کے سوچ ہی نہیں سکتی۔کیوں کہ وہ مرد کے برابر تو نہیں۔ اب بات تو صرف محسوس کرنے اور سوچنے کی ہے کہ حقوق نسواں کی بات کی جائے تو مرد کو بھی انسان ہی گردانا جائے۔ اگر اس کا کھانا گرم کرنا اک بوجھ ہے تو یہ کس قانون میں درج ہے کہ بھائی اپنی بہنوں کو سکول، کالج چھوڑنے کے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں۔ اک باپ اپنی بیٹی کی تعلیم سے لے کر اس کے بیاہ تک کا خرچ اور ذمہ داری نبھائے۔ اک شوہر اپنی بیوی کو معاشرے کے درندہ صفت مردوں سے تحفظ دے۔ ٹھیک ہے ظلم ہوتا ہے۔ عورت مرد کے ہاتھوں ظلم سہتی ہے لیکن اکثر اس ظلم کے پیچھے بھی تو ایک عورت ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جو ساس بن کر بہو کو اپنے بیٹے کے ہاتھوں پٹواتی یا طلاق دلواتی ہے۔ جو بیاہتا مرد پر ڈورے ڈال کر اک عورت کا گھر خراب کرواتی ہے۔ اکثر جرائم ایسے بھی ہوئے ہیں کہ جن میں خود عورت نے ماں کے روپ میں اپنی بیٹی کو بدچلنی کے الزام میں اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر زندہ جلایا یا بہانے سے گھر بلوا کر بیٹے کے ہاتھوں مروایا۔ عورت پر ہونے والے ظلم کے پیچھے کسی دوسری عورت کی اس کے لئے نفرت کا قصور بھی تو ہو سکتا ہے۔


اور مرد کے بگڑنے میں ماں کی ناقص تربیت کا بھی تو ہاتھ ہو سکتا ہے۔ پھر مظلوم ہمیشہ عورت ہی کیوں ؟ اور ظالم ہمیشہ مرد ہی کیوں؟


تحریر فارینہ الماس