مغرب زدہ این جی اوز کے ایجنڈوں کے بارے میں صرف اخبارنویس ہی نہیں، پڑھے لکھے لوگ سب جانتے ہیں۔ ہر ایک کو علم ہے کہ جب کسی این جی او کی کسی مغربی ملک سے فنانسنگ کی جائے، وہاں سے آنے والی مختلف کمپین کو یہاں لانچ کرنے کے لئے فنڈز لیے جائیں تو پھر کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ جو پیسے دیتا ہے، ظاہر ہے وہ اپنے ایجنڈا ہی آگے بڑھائے گا۔ گورے ایک فقرہ عام طور سے بولتے ہیں کہ There is no free lunch ان کی بات بھی درست ہے کہ مفت میں وہ ڈالر، یورو کیوں بانٹیں؟ یہ ایک پورا سائنٹفک کھیل ہے۔ بھاڑے کے ٹٹو پیسے لے کر مہرے بنتے ہیں۔ کسی این جی او کو موت کی سزا ختم کرانے کے لیے ٹھیکہ ملتا ہے، ٹھیکہ زیادہ سخت لفظ ہے تو کمپین کہہ لیں۔ ایک ہی بات ہے۔ کوئی لبرل ازم اور آزادی اظہار کے نام پر پروپیگنڈہ کرتی ہے، کسی کے پاس احمدیوں کے حقوق کا ٹھیکہ ہے، کئی تنظیمیں بیک وقت مل کر مختلف زاویوں سے توہین رسالت کے قانون کے خلاف کام کر رہی ہیں، کوئی خواجہ سراوں کی ’’محرومیوں‘‘ کا مداوا اور کسی نے خواتین کے حقوق کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی حکومتی ادارہ اس خواتین مارچ کے پیچھے موجود تنظیموں کا جائزہ لے کر یہ پتہ لگائے کہ ایجنڈا کہاں سے آیا اور فنانس کس نے کیا؟ یہ تو ایک طے شدہ امر ہے کہ سب کچھ منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔ مقصد وہ بیرئیر، رکاوٹیں توڑنا ہے، جو مغربی تہذیب اور کلچر کے لیے رکاوٹ ہیں۔ یہ وہ بیرئیر ہیں جو ہم نے بچانے، ان کی حفاظت، انہیں مضبوط کرنا ہے۔
ان خواتین کے مسائل کیا ہیں جو روزانہ رکشوں اور بسوں پر دھکے کھاتیں روزگار کے لیے جاتی ہیں، جن کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا، جائیداد میں حصہ نہیں ملتا، ہسپتالوں میں بچہ جننے کو جگہ نہیں ملتی اور ایسے کئی قابلِ ذکر اہم مسائل۔ مگر نہیں جناب یہاں تو لگتا کہ اس ملک کی خواتین کا سب سے بڑا مسلہ جنسی آزادی ہے، بیٹھنا کیسے ہے، کھانا کیوں بنائیں، موزے کیوں سنبھال کر رکھیں، پیڈز کیوں چھپا کر خریدیں یا استعمال کریں؟ وغیرہ۔ موازنہ کریں ذرا اس انٹرنیشنل ڈے کی اہمیت اور ہماری خواتین کے مسائل کا۔
کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ عورت مارچ میں جو بیانہ پلے کارڈ کی صورت میں پوری دنیا کو دکھایا جاتا ہے، وہ ٹھیک ہے؟ وہ جینوئن ہے؟ کیا واقعی میرے اور آپ کے گھر میں موجود ماں و بہن یا بیوی کا بھی یہی المیہ ہے؟ یہی رونا ہے؟ ایک طرف تو ہم جنسی ہراسگی پر بات کرتے اور بالکل ٹھیک کرتے ہیں کہ یہ سنگین مسئلہ واقعی موجود ہے۔ مگر دوسری طرف سے یہ ٹرینڈ لایا جانا کہ میری مرضی سے سب کرو تو پھر ٹھیک ہے، وہ ہراسگی نہیں ہوگی۔ کیا یہ ذہنی بدلاؤ صحت مندانہ ہے؟
کتنا اچھا ہو کہ اس طرح کے اہم دنوں میں جن کو میڈیا بھی اچھی طرح ہائی لائٹ کرتا ہے، وہاں خواتین کی عزتِ نفس، سیرت و کردار اور صلاحیتوں کے حساب سے اصل ایشوز کو اجاگر کیا جائے۔ پلے کارڈز میں حقیقی بیانیہ لکھا جائے۔ سہولیات میں برابری کی بات کی جائے۔ بیٹا و بیٹی میں فرق رکھنے پر بات ہو، اعلی تعلیم دلوا کر گھر بیٹھاے رکھنے پر بحث ہو۔ دیر سے شادیاں ہونے کی وجوہات پر بات ہو، ان پر گھریلو جسمانی و ذہنی تشدد پر بات ہو، دفاتر میں اچھا ماحول و تنخواہ کے حوالہ سے مطالبہ ہو، ان کو گھر بیٹھے چھوٹے کاروبار کروانے میں درپیش مسائل کو ہائی لائٹ کیا جا سکتا ہے، وغیرہ۔ اس لیے بہت بہتر ہو اگر وقتی پبلک سٹنٹ کے لیے پلے کارڈز پر سستے قسم کی چسکہ آمیز بازاری جملہ بازی لکھنے سے دور رہا جائے۔ جن کو “عام آدمی” اپنی فیملی کی خواتین میں نہ بتا سکے نہ سمجھا سکے کہ ان سب کا مقصد کیا ہے۔
ان پلے کارڈز پر ہمارے اصل مسائل نہیں ہیں، تبھی ایسی محدود سوچ رکھ کر ایسے مارچ منانے سے سوائے تنقید کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جتنی بری طرح سوشل میڈیا پر اس مارچ کو خواتین کی جانب سے ہی رگیدہ جاتا ہے، بندہ اسی فیڈ بیک کو سمجھ کر اپنا قبلہ درست کر لے۔ مگر نہیں، یہاں تو “کاں چٹا ہی ہے”۔ آپ مذہب کو ایک سائیڈ پر رکھ کر بھی ایک باشعور انسان بن کر غیر جانب دار ہو کر دیکھیں تو بھی اس ملک کی خواتین کا اصل مسئلہ ان پلے کارڈز پر لکھی جیسی باتوں کا نہیں ہے۔ کم از کم میری ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کا تو نہیں ہے۔
خدارا اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پاکستانی عورت کے مسائل کو ”میرا جسم میری مرضی” اور ”کھانا خود گرم کر لو” کا بہانہ بنا کر نظرانداز کر دیں- ان کے جائز حقوق کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا جائے کہ انہیں تو سارے حقوق اسی دن مل گئے تھے جس دن سورۂ نساء نازل ہوئی۔ سورہ نساء ہی نہیں پورا قرآن خواتین کے حقوق کی بحث جگہ جگہ چھیڑتا ہے۔ صاحب قرآن کا لہجہ تو اپنی اس کمزور مخلوق کے لیے محبت سے لبریز ہے لیکن قرآن کے اصولوں کو ایک طرف رکھ کر ہم عائلی معاملات میں ہندومت کی پیروی کو دین سمجھتے ہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے میں عورت کے ساتھ تفریق رکھی جاتی ہے اور یہ معاشرے کا مزاج ہے جسے عورت خود بھی سپورٹ کرتی ہے۔ ان گنتی کی چند خواتین نے خواتین کے حقوق کی بات نہیں کی، اصل عورت کا منہ بھی بند کر دیا ہے جو اپنے جائز حق کے لیے کچھ کہنا چاہتی ہے۔خدارا! ان چند خواتین کو بہانہ بنا کر معاشرے کے مختلف طبقات کی عورت کے مسائل کو نظرانداز نہ کریں۔ اسے اس کی وہ حیثیت دینے کے لیے جدوجہد کریں جو اسے خالق کائنات اور میرے آقا صلیٰ الله علیہ وسلم نے دی ہے۔
عامر ہاشم خاکوانی