سویرے جو کل برابری کی علمبردار اک بی بی کی آنکھ کھلی، تو “اپنا بستر تہہ کرو”، “اپنے کپڑے خود نکالو”، “اپنا ناشتہ خود بناؤ” کے دلفریب نغموں کی تال پر میاں سے لڑنے جھگڑنے کے بعد “اپنا ٹیکس آپ بھرو” کا نعرہ مستانہ بلند کر اپنی ننھی منی کار دوڑاتی، جی ہی جی میں ایمپاورڈ فِیل کرتی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے دفتر وارد ہوئیں۔
خدا کی مار! کس گھٹیا قوم میں ہماری نازک اندام بی بی جنم لے بیٹھیں۔ پارکنگ کا سلیقہ نہ قطار بندی کی تمیز۔ بعضے پراڈو، ویزل اور آؤڈی قسم کی غریب مار گاڑیاں ٹیڑھی بھینگی کھڑی کر کے اچھی خاصی شاہراہ کو کوچہ محبوب کی اک تنگ گلی میں تبدیل کر چکے تھے۔ “عوام کا لہو چوسنے والی ان جونکوں سے تو ہر منٹ پر پارکنگ فیس لینی چاہیے ” بی بی نے عین ترقی یافتہ ملکوں کی سی ٹیکس سوچ پائی تھی۔ چند گنوار ٹیکسی ڈرائیوروں نے جو سواری کی مہک پاتے ہی شہد کی مکھیوں کی طرح ادھر ادھر منڈلا رہے تھے، اپنی اپنی چلتی کا نام گاڑی طرح کے چار پہیوں پر کھڑے کالے پیلے بد ہئیت کھڑونچے ادھر ادھر کھسکا بی بی کی پارکنگ کے لیے جگہ بنائی تو سینے میں رکا سانس باہر آیا ورنہ ذہن میں اپنی مدقوق بدحال قوم کے لیے غصے کا جوار بھاٹا امڈا چلا آرہا تھا۔ “ہونہہ! ایک پائی فیس کی بھی حقدار نہیں وہ شہری حکومت جو ایسی عوامی آمدو رفت کی جگہ پر پارکنگ نہ بنا سکے ”
سانس درست ہوے تو منہ ہی منہ میں بدبدا کے آپ نے پرس میں گاڑی کا کارڈ اور ٹیکس کی رقم کا جائزہ لیا اور اک شان سے خاردار تاروں اور آہنی جنگلے میں گھرے دفتر کی جانب روانہ ہوئیں۔ بھلا دنیا کے کس ملک میں ٹیکسیشن کے دفتر کودشمن کی چوکی کی طرح یوں زرہ و آہن میں جکڑا جاتا ہے۔ مگر اس وقت اس مسئلہ پر سوچنے کا وقت نہ تھا کہ اندر داخلے کے لیے جس ہجوم کو چیر کر جانا تھا وہ بی بی کے اوسان خطا کیے دے رہا تھا۔
نظر ادھر ادھر دوڑانے پر ایک رستہ خالی نظر آیا تو اپنی تمام تر قانون پسندی کے باوجود آپ ادھر ہی لپکی چلی گئیں۔ وہاں کھڑے دبلے پتلے گارڈ نے لحاظ کیے بغیر ہاتھ بڑھا کے آپکو اسی لمبی قطار میں کھڑے ہونے کا اشارہ کیا۔ “میڈم! یہ باہر نکلنے کا رستہ ہے “۔ “شِٹ! ” ہوا بند تھی، پتہ بھی ہلتا نہ تھا، ساون کا گھٹا ہوا سورج، کہیں کہیں بدلیاں، حبس سے دم نکلا جاتا تھا۔ آپ چند ہی ثانیوں میں پسینے سے شرابور ہو چکی تھیں۔ دل میں کہیں خیال ایک اس شخص کا بھی آیا جس سے صبح جھگڑ کر آئی تھیں کہ اس حبس زدہ قطار میں ٹھنڈ کر ذلیل ہونے سے اسے ناشتہ بنا کر دے دینا اچھا تھا۔ مگر فورا ہی مردانہ وار مقابلے کی امنگ نے ایسی پاپی سوچ کا گلا گھونٹ دیا۔
مردو زن سبھی سوے ٹیکس کی کھڑکی چلے جاتے تھے، سو آپ بھی اپنے وقت پر اند ر پہنچ ہی گئیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ سینکڑوں لوگوں کا انبوہ ہے۔ کوئی استقبالیہ ہے نہ ہدایات کے تختے۔ ہجوم بیکراں جنگلوں کے بیچ بل کھاتی قطاروں میں چار پانچ کھڑکیوں تک رسائی کے لیے کوشاں ہے۔ آپ کی جبین مبارک پر تشویش کی پرچھائی گہری ہونے کو تھی، “مائی گڈنس! آج کا دن تو ادھر ہی نکلا جاتا ہے۔ ” دفتر میں چھٹی کی درخواست بھی نہ بھجوائی تھی۔ خیال تھا کہ آدھ گھنٹے میں فارغ ہو کے جوائن کر لیں گی۔ ادھر گرمی و حبس کے مارے حالت غیر ہو رہی تھی۔ سرکار نے ایک شیڈ بنا رکھا تھا مگر قطار میں کھڑے اس تک پہنچنے میں دو تین گھنٹے ضرور ہی لگتے۔ دوسری طرف ایسی ناہنجار قوم کہ بجاے خاموشی سے کھڑے ہو کے باری کا انتظار کرے، اور نہیں تو کتاب لیے مطالعہ کرے یا اپنے فون میں سر دیے بڑھتی چلی جاے مگر کہاں، دے ہاتھ پہ ہاتھ قہقہے، زور زور سے شکوے، بلند آواز میں تبرے، کچھ حکومت کے حامی، اکثر اس سے نالاں، کوئی مشیر اقتصادیات بنا ٹیکس میں اضافے کا معاشی ترقی سے ناطہ جوڑ رہا تھا، کسی کی سوچ گاڑی کی ٹیوننگ، تیل بدلی وغیرہ جیسے امور میں الجھی تھی، کسی کو گھر کے سودا سلف کا غم تھا۔ غرض ایک شورِ ہنگام تھا کہ جس سے ہماری بی بی کا سر چکرانے لگا۔ پسینے، پرفیوم، مٹی، کیچڑ کی ملی جلی خوشبو سے جی متلا رہا تھا۔ کاش! پیٹریارکی پر نفرین کے ساتھ موسم بھی امپورٹ کیا جا سکتا تو آپ ضرور یورپ کی ہریالی متوالی صاف ستھری رنگ و بو میں بسی ہوائیں ادھر لے آتیں۔ قدرت نے بہت ہی ناانصافی سے کام لیا تھا کہ سب اچھائیاں اپنی دنیا کے مغرب میں بھیج دیں اور مشرق کو بھوک ننگ کے علاوہ جہالت اور بد تہذیبی کا تحفہ بھی دیا۔
گرمی پسینے حبس کے ساتھ جب غصہ اور مایوسی مل جاے تو جو نفرت آمیز بے بسی تشکیل پاتی ہے، اس نے بی بی کو توڑ پھوڑ دیا۔ اب ایک ہی مقصد و منزل تھی کہ کسی بھی طرح ٹیکس والے بابو تک جا پہنچیں۔ یکایک خداے قدوس نے جو اپنے بندوں کی پل پل کیفیت سے واقف ہے، ایک فرشتہ صورت رہنما ٹیکسائز کی وردی میں بھیجا جس نے آپ کو اشارہ کیا، “لیڈیز اُس طرف میڈم! سیڑھی چڑھ کے پہلے کمرے میں چلی جائیے”۔ گو طبیعت کسی طرح جنس مخالف کے احکام کی اطاعت پر آمادہ نہ ہوتی تھی لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرنا عقل کا تقاضا تھا۔ آپ تھینکس کہنا تو ایسا ہی چاہتی تھیں کہ دُر مجھے کیا پروا، مگر جو آواز نکلی اس میں امتنان و تشکر غالب تھا۔
سیڑھی عبور کر کے کمرے میں داخل ہوئیں تو اپنے علاوہ بیس پچیس خواتین کو کھڑے پایا۔ اے سی کی ٹھنڈک جو پہنچی تو دل دماغ ٹھکانے آیا۔ ادھر ادھر نظر ڈالی۔ ہر رنگ اور ہر عمر کی خاتون تھی۔ برقع، چادر، دوپٹے کا ہار بناے، جینز شرٹ میں ملبوس عمر رسیدہ، ادھیڑ عمر، نوجوان لڑکیاں دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھیں۔ کوئی گھڑی پر نظر ڈال رہی تھی۔ کسی کو پیچھے سے اسکا بیٹا یا بھائی پکار رہا تھا، پیسے گن لو، کارڈ پکڑ لو، یہ رہا شناختی کارڈ، بولنا: فائلر ہوں فائلر .. ” اے جی! سب حضرات باہر نکل جائیں۔ ادھر صرف لیڈیز کو اجازت ہے۔ ” سپاہی نے اپنی چھڑی گھماتے ہوے حضرات کو باہر کی راہ دکھائی۔ ہماری بی بی کے نفیس چہرے پر ایک طمانیت بھری مسکان ابھری۔ اپنائیت کا احساس لیے آپ نے بھی اردگرد کھڑی خواتین سے سلام دعا کی۔ سول لیڈیز روشن دماغی سے شادکام ہوئیں۔ اپنی خدمت میں جتے حضرات کو دیکھ کے دل میں یک گونہ طمانیت محسوس کی۔ اور اسی سرشاری میں ٹیکس جمع کرا کے رسید لی۔ “شکریہ میڈم ” جو اشارہ تھا کہ اگلی باری۔ کل بیس منٹ بعد، دس جس میں آنٹی کی نذر ہوے، پریویلجڈ لیڈیز کاؤنٹر سے آپ باہر نکلیں اور اک ہمدرد نظر ہجوم پر ڈالی۔ پسینے میں ڈوبا، وہ شور کرتا جم غفیر بڑا ہی اپنا محسوس ہو رہا تھا۔ “they are us” کہتے ہوے آپ نے گاڑی نکالی اور اپنی منزل کی راہ لی۔
تیمیہ صبیحہ