یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مساوات کی اصطلاح بھی فی نفسہ کوئی متعین معنی نہیں رکھتی۔دنیا میں دو انسان مساوی ہوتے ہی نہیں چاہے وہ دو جڑواں بھائی یا بہن ہی کیوں نہ ہوں۔جب دو انسان مکمل طور پر یکساں ہو ہی نہیں سکتے تو ان کے درمیان مساوات کیا معنی رکھتا ہے؟ اگر آپ کسی مساوات کے علمبردار سے ایک بالکل ہی سادہ سا سوال پوچھیں کی ایک کمپنی کے جنرل منیجر اور ایک چپراسی کی تنخواہ میں اتنا تفاوت کیوں ہے تو وہ اس کا ایک معقول جواب ضرور د گا لیکن وہ جواب میں یا تومساوات کے ان کے اپنے اصول ہی کے خلاف بات کر رہا ہوگا یا پھر کوئی استثناءپیش کر رہا ہوگا۔ہمیں تسلیم ہے کہ یہ ایک بالکل ہی سطحی مثال ہے لیکن مغرب کے مساوات کے دعوے کا معروضی انداز میں جائزہ لیا جائے تو یہ دعوی اس سے کم سطحی نہیں ہے۔
مسئلہ یہاں پر یہ ہے کہ مغرب عالم اسلام کو اپنی وضع کردہ ’مساوات‘ کو رد کرنے کی اجازت دینے یا اِس پر عالم اسلام کو کسی بھی قسم کی استثناءدینے پر تیار نہیں ہے۔جو کوئی بھی مغرب کے اثر سے معاشرے میں پیدا ہونے والے تأثر سے آزاد ہو کر غور کرے گا تو اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ اصطلاح بھی مغرب کے تسلط کا دوسرا نام ہے اور مجرد طور پر اس لفظ کے کوئی معنی بنتے ہی نہیں۔الغرض مساوات ایک لفظ ہے جس کے نام سے مغرب ہم سے جو چاہے مطالبہ کردے اور اپنے لئے جتنے چاہے استثناءات پیدا کرلے۔اس کی ایک زندہ مثال مسئلہ فلسطین ہے۔ امریکی صدر بارک اوبامہ نے جب قاہرہ میں مسلم امت سے خطاب کیا تھا تو امریکہ اسرائیل کے پرانے تعلقات کا حوالہ دے کر اصل مسئلے پر بات کرنے سے پوری طرح کترا کرنکل گئے ۔ یعنی جب اسرائیل کا مسئلہ ہو تو نہ آزادی، نہ مساوات اور نہ ہی انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بات سنی جائے گی بلکہ ان کے لئے صرف اور صرف استثناءات ہوں گے۔
اب آتے ہیں جنسی مساوات کے سوال پر۔ اس سے پہلے کہ اسلامی شریعت میں کچھ احکام میں مرد و عورت فرق کرنے کی حکمتیں بیا ن کی جائیں، ہمیں کچھ باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ جنسی مساوات پر بات کرنے کی نوبت آنا ہی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ابلاغی قوتوں کے سامنے انسان اپنی ذہانت کے باوجود انتہائی کمزور اور بے بس ہے تو غلط نہ ہوگا۔جنسی مساوات کا سوال جبھی پیدا ہو سکتا ہے جب مرد و زن بالکل ایک ہوں اور ان میں کوئی فرق ہی نہ ہو۔اب کیا یہ بات کسی کو لکھ کر بتانے کی ضرورت ہے کہ مرد اور عورت میں فرق ہوتا ہے، جسمانی فرق بھی ہوتا ہے اور نفسیاتی فرق بھی ہوتا ہے۔ اور اس جسمانی اور نفسیاتی فرق کی بنیاد پر جو معاشرتی رویہ جنم لیتا وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ یہ اتنی واضح ترین اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے کہ کوئی عقل کا اندھا یا ذہنی مریض ہی اس کا انکار کر سکتا ہے۔
مغرب نے اپنی حد تک تو اس بات کو تسلیم کیا ہوا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ وہاں پر مجبوری کے تحت ملازمت وغیرہ میں کچھ قوانین میں مرد و عورت میں فرق کیا جاتا ہے۔ مساوات مرد و زن کے نام پر دراصل مغرب ہم سے جس چیز کا مطالبہ کر رہا ہے وہ مساوات نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ اس کا ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ ہم مرد و زن میں اتنا ہی فرق کریں جتنا وہ کرتا ہے اور اتنی یکسانیت برتیں جتنی وہ برتتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ مساوات کا مطالبہ نہیں بلکہ اپنی اندھی تقلید کا مطالبہ۔ عورت کا مسئلہ کسی بھی معاشرے میں انتہائی نازک اور اہم ہوتا ہے۔ بلکہ آپ کسی معاشرے یا تہذیب کو دیکھنا چاہیں تو یہ دیکھیں کہ اس معاشرے کی عورت کیا کر رہی ہے۔
یہاں مغرب ہم سے اپنی تقلید کا مطالبہ کر کے دراصل ہمارے معاشرے کے اجزائے ترکیبی کو بدل ڈالنا چاہتا ہے۔ اس مطالبے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ یہ دراصل سرمایہ دارانہ ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی اپنی ایک الگ نظر ہوتی۔ ان کا اصل مقصد تکاثر ہوتا ہے جس کے لئے باقاعدہ علم معاشیات کی اصطلاحیں ہیں جسےProfit maximization یا wealth maximization کہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز چاہے وہ معدنیات ہو، موسم ہو، جنگی حالات ہوں، سائنسی ترقی اور ایجادات ہوں حتی کہ انسان بھی ہو صرف پیسے بڑھانے کے وسائل ہوتے ہیں۔ اسی لئے Corporate world میں انسانوں کی دو ہی اقسام ہو تی ہیں؛ انسانی وسائل(Human resources) اور صارف (Consumer)۔ چاہے مرد ہویا عورت ، ایک سرمایہ دار انسان اس کو صرف اس نظر سے دیکھتا ہے کہ معاشی ترقی میں یہ کس طرح سود مند ہوسکتا ہے۔ یہاں پر سرمایہ دار انسان سے ہماری مراد ہر وہ شخص ہے جس کی ذہنی ساخت سرمایہ دارانہ نظام کے تحت تشکیل پائی ہو۔ آپ مشرق کے ایک سنجیدہ اور پڑھے لکھے شخص کو بھی یہ کہتا سنیں گے کہ “وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے جس کی آدھی آبادی (عورتیں) گھروں میں بیٹھی ہوں”۔یعنی یہ ذہن ترقی سے مراد صرف معاشی ترقی لیتا ہے اور خاندانی نظام جو کہ ترقی سے بھی پہلے کسی بھی قوم کی بقاء کا ضامن ہے اس کے ٹوٹنے میں کوئی حرج نہیں جانتا۔ اس نظام کے تحت مرد اور عورت دونوں سامان تجارت ہیں اور معاشی ترقی کا ذریعہ ہیں اور بس۔
جبکہ اسلامی نظام کے تحت اگر ایک مرد کسب حلال کمانے کے لئے محنت کرتا ہے تو وہ اس لئے کہ اس کا خاندانی نظام اس سے اسکا تقاضا کرتا ہے، یہاں پر معاشی ترقی ثانوی چیز ہوتی ہے۔اور اگر ایک عورت گھر کی چہار دیواری میں رہتی ہے تو بھی اس لئے کہ اسلام کا خاندانی نظام اس سے اس کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ اس لئے کہ اس کے نزدیک معاشی ترقی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مختصراً یہاں یہ سمجھ لیجئے کہ اصل سوال مرد اور عورت کے برابری کا نہیں ہے، کہ اپنی نفسیاتی اور جسمانی ساخت کی بنا پر مرد و عورت برابر ہو ہی نہیں سکتے۔ یہاں اصل مقابلہ اس بات کا ہے کہ کسی قوم کے لئے سرمایہ داری (تکاثر) زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا اس کا خاندانی نظام۔
ہم مغرب کے سامنے انتہائی سادہ الفاظ میں یہ مقدمہ رکھتے ہیں کہ عورت اور مرد کے جسمانی اور نفسیاتی فرق کے باوجود وہ ہم سے کیوں دونوں کے یکساں سماجی کردار کا مطالبہ کر رہا ہے۔پھر وہ خود مکمل طور پر اس کی پابندی کیوں نہیں کر رہا ہے؟ ہمارا مغرب سے یہ بھی سوال ہے کہ مغرب مساوات کے نام پر اپنا معاشرتی نظام کیوں ہم پر مسلط کرنا چاہ رہا ہے جبکہ مغربی معاشرہ اپنی عمر کی ایک صدی مکمل کرنے سے پہلے ہی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔
یہاں پر یہ بھی سمجھ لیجئے کہ مرد اور عورت ایک ہی جنس سے ہیں اور اپنے اعمال اور جزا و سزا کے معاملے میں ان کے ساتھ برابر کا معاملہ کیا جائے گا۔ ہماری پوری بحث عورت اور مرد کے سماجی کردار کے بارے میں ہو رہی ہے نہ کہ ان کی اہمیت اور اللہ کے نزدیک ان کے مقام کے بارے میں۔
ابوزید ، سہ ماہی ایقاظ